• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احسان کی اہمیت

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ جمعہ مسجد نبوی۔۔۔۔۔28 جمادی الاولی 1433ھ

خطیب: الشیخ حسین بن عبدالعزیز آل شیخ​
مترجم: عمران اسلم​

خطبہ مسنونہ کے بعد
احسان دین اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ تمام تر حالات اور معاملات میں احسان اختیار کرنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى
’’اللہ تعالیٰ عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل : 90)
احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرفراز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
’’اور احسان کرو اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (البقرۃ : 195)
احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی معیت، اس کی نگہبانی، عنایت و رحمت اور لطف و کرم کی سعادت پانے والے ہیں۔
’’یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
یہ لوگ دنیا و آخرت میں نعمتیں پانے والے ہیں اور یہی لوگ رضائے الٰہی کے حصول میں کامیاب ہونے والے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿١٥﴾ آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ ﴿١٦﴾
’’ بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں (لطف اندوز ہوتے) ہوں گے، اُن نعمتوں کو (کیف و سرور) سے لیتے ہوں گے جو اُن کا رب انہیں (لطف و کرم سے) دیتا ہوگا، بیشک یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے قبل (کی زندگی میں) صاحبانِ احسان تھے ‘‘ (الذاریات :15۔16)
برادران اسلام!
احسان کا لفظ ایک خاص مفہوم کا حامل ہے۔ نیتوں کو اپنے مفادات سے پاک اور بلند تر کر کے اللہ کے لیے خالص کر دینے کے باعث احسان عبودیت یعنی بندگی کا اعلیٰ ترین درجہ بن جاتا ہے۔ اس لیے احسان فی الحقیقت اپنی سوچ و فکر اور ارادہ و مقصد کو مکمل طور پر اللہ کے لیے خالص کر دینے کا نام ہے اور یہ عقیدہ و عمل میں سنت محمدﷺ کا اتباع کر تے ہوئے نیک اعمال بجا لانے سے حاصل ہوتا ہے۔
مسلمانو! احسان کا ایک عام مفہوم دوسروں پر انعام کرنا ہے۔ دراصل احسان دین اور دنیا کے ہر معاملے میں عمدگی برتنے کا نام ہے۔ مخلوق کے ساتھ اپنے تمام اقوال و افعال میں حسن اخلاق سے پیش آنے کا نام احسان ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا حرام قرار دے دیا ہے۔
مسلمانو بھائیو! احسان، کتاب و سنت کی نصوص کے مطابق انسان کے اپنے بھائی سے حسن معاملات کا جوہر ہے۔ احسان کا دائرہ کار انسان کے خود اپنے آپ پر، اس کے ماتحتوں پر اس کے خاندان اور عزیز و اقارب پر اور اس کے بعد تمام انسانی معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق ایک بدکار عورت نے شدت پیاس سے ہانپتے ایک کتے کو گیلی مٹی چاٹتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنا موزہ اتار کے اس کے ذریعے سے، کنویں سے پانی نکال کے پیاسے کتے کو پلا دیا۔ اس عمل کے بدلے اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرما دی۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قرار دیا ہے۔ سو جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب ذبح کرو تو عمدگی سے کرو۔
یہی نہیں بلکہ احسان کا وسیع دائرہ تو مخالف عقیدے کے لوگوں کو بھی شامل ہے، جو ان کی غلطیوں پر درگزر کرنے اور انھیں معاف کر دینے کی صورت میں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِي
’’ اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں (پس جب یہ اِس حال کو پہنچ چکے ہیں تو جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو، اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں ‘‘ (المائدۃ : 13)
اسلام کی رو سے احسان زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں نباتات بھی شامل ہیں، حیوانات بھی اور جمادات بھی۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَ‌حْمَتَ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ
’’ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ، یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے ‘‘ (الاعراف :56)
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اگر کسی چڑیا کو بھی بے مقصد قتل کیا گیا تو قیامت کے دن وہ رب کےحضور فریاد کرے گی کہ اے میرے رب! اس شخص نے مجھے اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ بلاوجہ ہی قتل کر دیا تھا۔
مسلمانو! واجب احسان میں سے مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرنا اور ان سے مثالی تعلقات رکھنا بھی ہے۔ بالخصوص والدین اور اولاد باہم احسان کرنے والے ہوں، میاں بیوی کے آپس میں تعلقات اچھے ہوں اور رشتے داروں کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے : ’’اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘
حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں دنیا و آخرت کے سب سے زیادہ کریم اخلاق کے متعلق آگاہ نہ کروں؟ وہ یہ ہے کہ تم اس شخص سے تعلق جوڑو جو تم سے توڑتا ہے اور تم اسے دو جو تجھے محروم رکھے اور یہی احسان ہے۔‘‘
احسان یہ بھی ہے کہ آدمی دوسروں کے ذمے اپنے واجب حقوق سے بھی اللہ کی خاطر دست بردار ہو جائے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
’’ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ‘‘
معاشر المسلمین! احسان کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ مخلوقات کے ساتھ ہر طرح سے نیکی کی جائے۔ انسانیت کو احسان اور رحمت سکھانے والے رسول کا ارشاد گرامی ہے:
’’ہر نیکی صدقہ ہے۔‘‘
لوگو! احسان اپنے خوبصورت معانی کے ساتھ ہر حال میں مطلوب ہے۔ ملاقات و گفتگو کی مجلسوں میں بھی احسان ہی ہونا چاہیے۔ جھگڑوں اور تنازعات میں اس کی بالخصوص تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ
’’ اور اے محمدؐ، میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے ‘‘ (الاسرا : 53)
پھر فرمایا:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
’’ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو ‘‘ (فصلت : 34)
غیر مسلموں اور اہل کتاب کے ساتھ مکالمہ میں بھی احسان ہی لازم ہے تاکہ ان سے کیا جانے والا مباحثہ مطلوبہ اغراض و مقاصد اور نتائج و ثمرات پر سے ہمکنار ہو سکے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
’’ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے ‘‘ (العنکبوت : 46)
تاجروں کے لیے شدید لازم ہے کہ وہ احسان اور رحم کی راہ اپنائیں اور مسلمانوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔ وہ اس استحصال سے باز رہیں جس کا موجودہ زمانہ میں چلن عام ہو چکا ہے۔ وہ ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور زائد قیمت لینے سے احتراز کریں۔ یہ بات انھیں ہمیشہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ان کا عظیم رب ان کی نیتوں ، ان کے اقوال اور ان کے افعال کی خوب نگرانی کر رہا ہے۔ یہ بھی ان کے ذہن نشین رہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک مومن اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ سو لازم ہے کہ تاجر حضرات لوگوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آئیں اور صرف معقول منافع لیں۔ اسی میں ان کے لیے برکت ہوگی اور دنیا و آخرت میں اچھا انجام ہو گا۔ اللہ کا ارشاد ہے:
وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ [القصص: 77].
’’ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے ۔‘‘
آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے بعض ملکوں میں غربت کی شرح بڑھ گئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تاجروں نے غریبوں کی حاجت مندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا استحصال کرنا شروع کر رکھا ہے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کے تمام لوگ امن و امان سے محروم ہو گئے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے تمام مسلمانوں کے لیے امن و امان کی دعا کرتے ہیں۔ اے صاحبان اقتدار! واجب احسان کی ایک شق یہ بھی ہے کہ ہر ذمہ دار خواہ وہ حکمران ہو، وزیر ہو یا اس کے علاوہ کسی ذمے داری پر ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ عدل اور احسان کے ساتھ اپنی رعایا پر حکمرانی کرے۔ وہ ان کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کرے، وہ چھوٹوں سے باپ بن کر، بڑوں سے بیٹا سے بن کر اور اپنے جیسوں سے بھائی بن کر پیش آئے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [الشعراء: 215].
’’ اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ ۔‘‘
حضرت عثمان  کی ایک تحریر میں ہے، جسے ہر حاکم کو پیش نظر رکھنا چاہیے، ’’ ہم سفر و حضر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ رہے۔ آپ ہمارے بیماروں کی عیادت کرتے، جنازوں میں شرکت فرماتے اور غزوات میں ہمارے ہمراہ ہوتے، کم یا زیادہ جتنا بھی ہوتا ہمیں اس میں برابر کا شریک کرتے۔‘‘
حکمرانو! احسان یوں ہوتا ہے جیسے حضرت عمر نے فرمایا: انھوں نے رعایا کے ساتھ عدل و احسان کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔ فرمایا کہ اگر اللہ نے مجھے زندگی دی تو عراق کی بیواؤں کو اس آسودہ حالی میں چھوڑ جاؤں گا کہ پھر کبھی وہ کسی اور کی محتاجی نہ ہوں گی۔
عمر فاروق نے سچ کر دکھایا اور وہ ایسے ہی تھے۔ وہ مدینہ کی بڑھیا کا سامان اٹھا لیتے، اسے پانی بھر کر دیتے اور یوں کہ وہ پہچان نہ کر پاتی کہ یہ خدمتگار کون ہے۔ یہ احسان ہی تھا جو انھیں رعایا سے شفقت کرنے، قوم کے مفادات کا تحفظ کرنے اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے پر ابھارتا تھا۔
حضرت عائشہ  فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ میرے گھر میں ارشاد فرما رہے تھے اور آپ پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی تھی۔ انھیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے ذریعے معلوم تھا کہ ہمارے زمانے میں کیا ہونا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اے اللہ جو بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور امت کو مشقت میں ڈالے تو تو اس پر سختی کر اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر نرمی کرے تو تو اس پر نرمی فرما۔‘‘
اے حقوق انسانی کے دعوے دارو! اور جمہوریت کے علمبردارو! رسول اللہﷺ کی بیان کردہ اس عظیم مثال کے سامنے تمہاری کیا حیثیت ہے؟
معقل بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ کسی رعایا کا والی بنائے اور پھر وہ اس حال میں مرے کہ رعایا سے بددیانتی کا مرتکب ہو رہا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیں گے۔‘‘
جس حکمران نے اپنی رعایا کی خیر خواہی کا حق ادانہ کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔
اے ذمہ داران! کیا تم یہ خیال کیے بیٹھے ہو کہ جس طرح کے اقتدار و منصب سے شدید محبت کی حرص بھری زندگی تم گزار رہے ہو اس پر اللہ تمہیں پوچھے بغیر چھوڑ دے گا؟ نہیں بلکہ وہ نہایت باریکی سے محاسبہ کرے گا، تم اس کے محاسبہ کے لیے درست جواب تیار کر لو۔ حکمران سے مطلوب احسان یہ بھی ہے کہ وہ رعایا کو مشقت میں ڈالنے اور ان پر سختی کرنے میں احتیاط سے کام لے۔
عائذ بن عمرو  عبیداللہ بن زیاد کے پاس آئے تو انھوں نے کہا: بیٹے میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ بدترین حکمران وہ ہیں جو حطمہ یعنی سخت گیر ہوں۔ تم خود کو ان میں شامل کرنے سے بچو۔
’الحطمہ‘ اونٹوں کو ہانکنے میں سختی کرنے کو کہتے ہیں۔ تو رسول اللہﷺ نے سنگدل، ظالم، بے رحم اور عوام کے لیے پسیجنے والے دل سے محروم حکمران کی یہ مثال بیان فرمائی ہے۔ تصور کیجئے! عوام بے چاروں کی کسمپرسی کی اس وقت کیا حالت ہوتی ہے جب ان سے سنگدلی سے پیش آیا جائے۔ بلکہ ان کے مظالم نے انھیں قوم کی جانیں لینے، ان کے اموال تلف کرنے اور عزتیں پامال کرنے تک پہنچا دیا ہے۔ سو یاد رکھیے! اس کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے جس کے لیے رسول اللہﷺ نے یہ وعید سنادی ۔
حکمرانو! احسان وہ ہے جو ہر ذمے دار کو محتاجوں کی ضروریات پوری کرنے اور ان کے مفادات کی جستجو میں رہنے کا حریص بنا دے۔ حضرت معاویہ حکمران تھے تو ابو مریم ازدی نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ اللہ تعالیٰ نے جسے مسلمانوں کے امور کا کچھ والی بنا دیا اور اس نے ان کی ضروریات و حاجات اور فقر و فاقے کے سامنے پردہ حائل کر لیا تو کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ بھی ان کی حاجات و محتاجگی کے سامنے پردہ حائل فرما دے گا۔ معاویہ نے یہ بات تسلیم کی اور وہ اصحاب فضل و خیر میں سےتھے، انھو ں نے یہ یوں مانی کہ وہ مسلمان حاجت مندوں کی بات سنتے اور اسے پورا کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتے۔
اے مسلمان! تو بھی اللہ سے ڈر جا اور اور اس کے احکامات پر عمل پیرا ہو جا۔ ارشاد ربانی ہے :
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم: 42]
’’ اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو ۔‘‘
دوسرا خطبہ

مسلمانان گرامی!
ضروری احسان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نیکی کے کاموں میں ولی الامر کی اطاعت کی جائے اور ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ولی الامر کے لیے سچی نصیحت کی جائے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی ن المنکر میں اس کا تعاون کرنا، ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر اسلام کے اصولوں کے مطابق مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا حریص ہونا بھی احسان ہی ہے۔ ہم اللہ عزوجل سے سوال کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اور تم کو ہر کام میں احسان کرنے والوں میں سے بنا دے۔
فنسألُ اللهَ - جل وعلا - أن يجعلَنا وإياكم من أهل الإحسان في كل شيءٍ.
من خيرِ الأعمال وأزكاها عند ربِّنا: الإكثارُ من الصلاةِ والسلامِ على النبيِّ الكريمِ خاصَّةً في مثلِ هذا اليوم.
اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على سيدِنا ونبيِّنا وحبيبِنا وقُرَّةِ عيوننا: نبيِّنا محمدٍ، وعلى آلِه وأصحابهِ، ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين.
اللهم أحسِن إلينا في الدنيا والآخرة، اللهم أحسِن إلينا في الدنيا والآخرة، اللهم أحسِن إلينا في الدنيا والآخرة، واجعَلنا مع المُحسنين، اللهم اجعلنا من المُحسنين، اللهم اجعلنا من المُحسنين.
اللهم أصلِح أحوالَنا وأحوالَ المُسلمين، اللهم أصلِح أحوالَنا وأحوالَ المُسلمين، اللهم إنك تعلمُ أوضاعَنا، اللهم إنك تعلمُ تسلُّط الأشرار على المُسلمين، اللهم إنه لا يخفَى عليك خافيةٌ، اللهم عليك بأهل الشرِّ والفساد، اللهم عليك بأهل الشرِّ والفساد، اللهم عليك بأهل الفُجورِ والإلحادِ، اللهم عليك بأهل الفُجورِ والإلحادِ، اللهم عليك بمن مكَرَ بالمُسلمين، اللهم عليك بمن مكَرَ بالمُسلمين، اللهم عليك بمن مكَرَ بالمُسلمين.
اللهم إنا أمةَ نبيِّك محمدٍ أفضلِ خلقِك، اللهم مُنَّ علينا بالأمنِ والأمانِ، اللهم مُنَّ علينا بالأمنِ والأمانِ، اللهم ولِّ علينا خِيارَنا، اللهم ولِّ على المُسلمين خيارَهم، اللهم ولِّ عليهم أهلَ التقوى، اللهم ولِّ عليهم أصحابَ التقوى، اللهم ولِّ عليهم أهلَ التقوى، اللهم جنِّبهُم المُفسِدين وأهلَ الشرِّ يا ذا الجلال والإكرامِ.
اللهم اقمَع واكبِت أهل الشر والفساد، اللهم اقمَع واكبِت أهل الشر والفساد، اللهم لا تُقِم لهم قائمةً، اللهم لا تُقِم لهم قائمةً، اللهم واجعلهم في الأذَلِّين، اللهم واجعلهم في الأذَلِّين، اللهم واجعلهم في الأذَلِّين.
اللهم وفِّق وليَّ أمرنا لما تحبُّ وترضى، اللهم وفِّقه لما تحبُّه وترضاه، اللهم ارزُقه البِطانةَ الناصِحةَ الصالِحة، اللهم ارزُقه البِطانةَ الناصِحةَ الصالِحة يا حيُّ يا قيُّوم.
اللهم مُنَّ على المُسلمين بالأمن والأمانِ، اللهم مُنَّ عليهم بالأمنِ والأمان في سُوريا، وفي مصر، وفي اليَمن، وفي ليبيا، وفي كل مكانٍ يا رب العالمين.
اللهم حقِّق للمُسلمين ما يصبُون إليه، اللهم حقِّق لهم ما يصبُون إليه، اللهم حقِّق لهم ما يصبُون إليه، اللهم احبِط مكرَ أعدائهم، اللهم احبِط مكرَ أعدائهم، اللهم احبِط مكرَ أعدائهم يا ذا الجلال والإكرام.
اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم يا غنيُّ يا حميدُ أغِثنا، اللهم إنا بحاجةٍ إلى المَطَرِ، اللهم إنا بحاجةٍ إلى المَطَرِ، اللهم إنا بحاجةٍ إلى المَطَرِ، اللهم فاسقِنا، اللهم فاسقِنا، اللهم فاسقِنا، لا تُؤاخِذنا بأعمالِنا، لا تُؤاخِذنا بجرائِرِنا، اللهم امنُن علينا فأنت أهلُ المنِّ والعطاءِ، اللهم امنُن علينا فأنت أهلُ المنِّ والعطاءِ.
اللهم صلِّ وسلِّم على سيِّدنا ورسولِنا محمدٍ.


اس خطبہ کو سننے کے لیے یہاں کلک کریں
 
Top