یہی عامی کا اجتہاد ہے، یعنی کہ عالم کا انتخاب، کہ جسے وہ علمائے حق میں شمار کرتا ہے! اور عامی کے حق میں یہ معتبر ہے!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ بھائی یہ عامی کا اجتجاد کس طرح کہلائے گا۔ جبکہ عامی تو چلتے ہی انہی علماء کے پیچھے ھیں جن کے مذھب پر وہ پرورش پائے ہوئے ھوتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
ہمارے امی ابو بریلوی ھیں۔ تو میں بھی صرف اسی وجہ سے بریلوی تھی چونکہ امی ابو بریلوی تھے۔ پھر کہیں جاکرکے 25 سال کی عمر میں کچھ سیکھا اور نظریات تبدیل کیئے۔ ابو ابھی تک بریلویت پر قائم ھیں۔ جبکہ امی کو سمجھا سکھلا چکی ہوں میں۔
تو یہ تو عامی کا صرف اپنے والدین کے نظریات (دین/مسلک/فرقے) کو حق سمجھنا عامی کا ظن ھوا نہ؟
۔
اور اگر اسے حسن ظن کہیں گے۔ تو یہی حسنِ ظن تو یہود ونصاریٰ بھی تو اپنے والدین علماء وغیرہ سے رکھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ یھود ونصاریٰ ھیں؟۔
۔
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عامی کو بھی علم حاصل کر کے عالم بننے کا مکلف بنایا جائے!
جبکہ شریعت میں یہ حکم نہیں کہ ہر مسلمان پر عالم بننا واجب قرار پاتا ہو!
نہیں بھائی۔ ایسا سمجھ کر ہرگز نہیں کہا میں نے۔ نہ ہی ایسا کچھ لکھا تھا میں نے۔
میں تو یہ کہنا چاہ رہی ہوں۔ کہ نبی علیہ اسلام کے فرامین بھی ھیں اس ضمن میں۔ اور سلف نے بھی تاکید کی ھے۔
جیسے۔
إنَّ من أشراطِ الساعةِ أنْ يُلتمسَ العلمُ عند الأصاغرِ
الراوي: أبو أمية الجمحي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2207
قیامت کی نشانیوں میں یہ ہے کہ چھوٹے (بدعتی یا لا علم) لوگوں سے علم تلاش کیا جائے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری)
محمد بن سیرین رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :بے شک یہ علم تمہارا دین ہے تو آدمی کو چاہئے کے وہ یہ ضرور دیکھے کہ وہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہا ہے.
ابن ابی اویس کہتے ہیں کہ امام مالك رحمه الله نے فرمایا :بے شک یہ علم تمہارا گوشت اور خون ہے (زندگی ہے)،اور اسی کہ متعلق تم سے سوال کیا جائے گا تو یہ ضرور دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو.
میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں۔ کہ جو جہاں لگا ھے اُسے وہیں نہیں لگے رھنا چاہییے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ھے اسے دنیا کے باقی کام کاجوں میں استعمال کے ساتھ ساتھ۔ اپنی استطاعت کے مطابق دین میں غوروفکر کے لیئے بھی استعمال کرنی چاہییے۔۔
یعنی عامی کم از کم اتنا تو شعور رکھنا چاہییے کہ وہ دیکھے کس سے علم حاصل کیا جارہا ھے۔۔
۔
اگر آپ سمجھتے ھیں کہ عامی کو اتنا شعور نہیں رکھنا چاہییے۔ تو نتیجہ یہ آئے گا۔
کہ جو جہاں لگے ھیں۔ وہ وہیں لگے رہیں۔ اپنے اپنے ظن کے مطابق۔ (یعنی والدین کے دین پر)