اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
یہ اصل اعتماد ہے۔ یعنی اپنی کوشش کے بقدر ایسا عالم تلاش کرے گا اور پھر جب اسے ایسا عالم مل جائے گا جس کے علم پر اسے اعتماد ہوگا کہ اس کا علم صحیح ہے تو اس سے مسئلہ پوچھے گا۔میں سمجھتی ھوں عامی کا اعتماد چنداں معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ عامی کو چاہییے کہ ایسا عالم تلاش کرے جس سے وہ صحیح علم حاصل کرسکیں۔
کفر اور اسلام کے لیے اللہ پاک نے عقلی دلائل دیے ہیں تاکہ ان کی تمییز ہر کوئی کر سکے۔ لہذا کسی کے لیے اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ دین میں کسی عالم پر اعتماد کرے اور وہ عالم غلط ہو۔ لیکن ایسے مسائل بہت ہی کم ہیں۔اور پھر وہ انسان بھی فقط اپنے والدین کے نظریات کے حامل علماء پر ہی اعتماد کرتا رھتا ھے۔ یہاں تک کہ والدین کا دین اُسی کا دین بن جاتا ھے۔
جو فروعی مسائل ہیں ان میں انسان اپنی استطاعت کے بقدر ہی سیکھ سکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اس میں پوری کوشش کرکے کسی عالم پر اعتماد کر لیا اور وہ عالم غلط ہوا تو یہ ان شاء اللہ "لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" کے قانون کے مطابق بری ہوگا۔
و اللہ اعلم