• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانی

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم شیوخ سے گزارش ہے کیا یہ جرح اس راوی پر صحیح ہیں؟

احمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانی جسے بعض تدلیس کرکے احمد بن عطیہ بھی کہتے ہیں اور وہ سخت ضعیف بلکہ کذاب ہے، امام ابن عدی فرماتے ہیں میں نے کذابوں میں سے اس سے زیادہ بے حیا کسی کو نہیں دیکھا کاتبوں سے کتابیں اٹھا کر لے جاتا اور جن راویوں کا ان میں نام ہوتا ان سے روایت لیتا اور اس کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ وہ کب فوت ہوا ہے اور کیا راوی مروی عنہ کی وفات سے پہلے پیدا بھی ہوا یے یا نہیں، ابن حبان فرماتے ہیں وہ حدیثیں وضع کرتا تھا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ ان سے حدیثیں بیان کرتا تھا جن سے اس نے سنا بھی نہیں ہوتا تھا، امام دارقطنی فرماتے ہیں وہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا، حافظ عبدالباقی بن قانع فرماتے ہیں وہ ثقہ نہیں، ابن ابی الفوارس، امام حاکم وغیرہ نے کہا ہے کہ وہ کذاب اور وضاع ہے، خطیب بغدادی فرماتے ہیں اس نے ثابت بن محمد اور ابو نعیم وغیرہ سے روایتیں لی ہیں جو اکثر باطل ہیں جنہیں اس نے خود گھڑا ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں اس کی روایات منکر اور باطل ہیں.
(الکامل لابن عدی ج ١ ص ٢٠٢، لسان ج ١ ص ٢٧٠-٢٧١، تاریخ بغداد ج ٥ ص ١٠٤ ج ٤ ص ٢٠٧، الضعفاء لابن الجوزی ج ١ ص ٨٦، المجروحین ج ١ ص ١٥٣)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا الصيمري، قال: أَخبَرنا عمر بن إبراهيم المقرئ، قال: حَدثنا مكرم بن أحمد، قال: حَدثنا أَحمد بن محمد بن مغلس، قال: أَخبَرنا أَبو غسان، قال: سَمِعْتُ إِسرائيل يقول كان نعم الرجل النعمان ما كان أحفظه لكل حديث فيه فقه وأشد فحصه عنه وأعلمه بما فيه من الفقه، وَكان قد ضبط عن حماد فأحسن الضبط عنه فأكرمه الخلفاء والأمراء والوزراء، وَكان إذا ناظره رجل في شيء من الفقه همته نفسه ولقد كان مسعر يقول من جعل أبا حنيفة بينه وبين الله رجوت أن لا يخاف ولا يكون فرط في الاحتياط لنفسه.[تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي 15/ 464]۔


یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔
سند میں موجود
أَحمد بن محمد بن مغلس یہ أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحماني ہے۔

یہ
أَبو غسان کا شاگرہے چنانچہ خطیب بغدادی نے کہا:
أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحماني يكنى أبا العباس حدث عَن ثابت بْن مُحَمَّد الزاهد، وأبي نعيم الفضل بْن دكين، وأبي غسان النهدي [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 6/ 175]۔

واضح رہے کہ مذکورہ روایت میں بھی یہ
أَبو غسان کا شاگردہے۔

اسی طرح یہ
مكرم بْن أَحْمَد کا استاذ ہے ، چنانچہ خطیب بغدادی نے کہا:
أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روى عنه أَبُو عمرو ابْن السماك، و۔۔۔ وأبو الفتح مُحَمَّد بْن الحسين الأزدي، ومكرم بْن أَحْمَد القاضي۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 6/ 175]۔

واضح رہے کہ مذکورہ روایت میں بھی یہ
مكرم بْن أَحْمَد کا استاذہی ہے ۔
اورآگے مکرم بن احمد اوراس کے اس استاذ سے متعلق امام دارقطنی کا جو قول ہے اسے بھی پیش نظر رکھیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سند میں موجود سند میں موجود
أَحمد بن محمد بن مغلس یہ أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن الصلت بْن المغلس بْن أخي جبارة بْن المغلس الحماني ہے۔

اوریہ کذاب ووضاع راوی ہے ۔
چنانچہ :

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
احمد بن محمد بن الصلت أبو العباس من أهل بغداد يروي عن العراقيين كان يضع الحديث عليهم كان في أيامنا ببغداد باق فراودني أصحابنا على أن أذهب إليه فأخذت جزءا لأسمع منه بعضها فرأيته حدث عن يحيى بن سليمان بن نضلة عن مالك بن أنس عن نافع عن بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مرددانق من حرام أفضل عند الله عز وجل من سبعين حجة مبرورة ورأيته حدث عن هناد بن السري عن أبي أسامة عن عبيد الله بن عمر عن نافع عن بن عمر قال قال رسول الله عليه السلام لمرددانق من حرام أفضل عند الله من مائة ألف تنفق في سبيل الله فعلمت أنه يضع الحديث فلم أذهب إليه ورأيته يروي عن أبي عبيد وإسماعيل بن أبي أويس وعن مسدد وما حسبه راهم[المجروحين لابن حبان: 1/ 153]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حدث عن۔۔۔ أحاديث أكثرها باطلة هو وضعها[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 338]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 328]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)
نے کہا:
رأيته في سنة سبع وتسعين ومئتين يحدث عن ثابت الزاهد، وعبد الصمد بن النعمان وغيرهما من قدماء الشيوخ قوما قد ماتوا قبل أن يولد بدهر.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 327]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)
نے کہا:
أحمد بن الصلت بن المغلس الحماني متروك يضع الحديث [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 95]

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)
نے کہا:
أَحْمد بن مُحَمَّد بن الصَّلْت أَبُو الْعَبَّاس الْحمانِي يروي عَن بن أبي أويس والقعنبي وَعَن شُيُوخ لم يلقهم بالمشاهير والمناكير لَا شَيْء مَاتَ بعد الثلاثمائة[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 65]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)
نے کہا:
هَذَا يَضَعُ الْحَدِيثَ عَلَى الثِّقَاتِ.[تذكرة الحفاظ لابن القيسراني: ص: 288]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)
نے کہا:
كذاب وضاع فلذا يدلسه بعضهم فيقول: حدثنا أحمد بن عطية.وبعضهم أحمد بن الصلت. [ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 140]۔

امام برهان الدين الحلبي رحمه الله (المتوفى841)
نے کہا:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحماني كذاب وضاع [الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث للحلبي ص: 53]۔

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى:963)
نے کہا:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانى وضاع[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 33]۔

ابوحنیفہ سے متعلق راوی مذکور کی کذب بیانی


راوی مذکور عام طور سے درج ذیل ناموں سے سندوں میں آتاہے :

أحمد بن محمد = أحمد بن الصلت = أحمد بن عطية = أحمد بن المغلس


یہ راوی کذاب و وضاع تو ہے ہی لیکن بالخصوص ابوحنیفہ کی منقبت میں جھوٹ بیانی اوردروغ گوئی میں اسے کمال حاصل تھا ، اورلطف تو یہ کہ جن محدثین نے واضح طور پرابوحنیفہ پر شدید جرح کی انہیں محدثین کے حوالہ سے یہ خبیث ابوحنیفہ کی منقبت بیان کرتا تھا ۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

وهكذا روى الحميدي عن ابن عيينة، ولسفيان بن عيينة في أبي حنيفة كلام غير هذا كثير يشبهه في المعنى، قد ذكرناه في أخبار أبي حنيفة، ولو كان ابن عيينة أعظم أبا حنيفة ذاك الإعظام وجعله رابع أئمة علماء الإسلام لم يقدم عليه بالقول الشنيع هذا الإقدام، فبان بما ذكرناه أن أحمد ابن المغلس زاد فيما روى واختلق ما حكى، ونسأل الله العصمة من الزلل، والتوفيق لصالح القول والعمل.[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 338] ۔

اس خبیث نے صرف ایک دوجھوٹ پربس نہیں کیا بلکہ ابوحنیفہ کی جھوٹی منقبت میں پوری کتاب تیار کردی ، جس کا ایک قلمی نسخہ بقول محمدعزیر شمس حفظہ اللہ دارالکتب المصریہ میں موجود ہے (مقدمہ اللمحات : ص :٢١) ، یہ پوری کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے جسے خود اسی خبیث نے گھڑا ہے ، جیساکہ امام دارقطی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے چنانچہ:

ابوالقاسم الازھری(المتوفى 435 ) فرماتے ہیں:
سئل أبو الحسن علي بن عمر الدارقطني، وأنا أسمع عن جمع مكرم بن أحمد فضائل أبي حنيفة، فقال: موضوع كله كذب، وضعه أحمد بن المغلس الحماني[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 338 واسنادہ صحیح]۔


امام صمیری (المتوفى: 436 ) کی کتاب ’’أخبار أبي حنيفة وأصحابه ‘‘ بھی اسی کذاب و وضاع کی کرم فرمائی ہے ، چنانچہ اس کتاب کا اکثر حصہ اسی خبیث کی سند سے مروی ہے ۔
اورزیرتحقیق روایت بھی امام صمیری نے بیان کی ہے جس کی سند میں یہ کذاب وضاع روای موجود ہے۔

اسی طرح
مناقب أبي حنيفة للموفق المكي میں بیشتر روایات اسی کے طریق سے ہیں جنہیں اسی بدبخت نے گھڑا ہے۔

خلاصہ کلام:
الغرض یہ کہ یہ روایت جھوٹی ہے ، ابن المغلس نے محدث اسرائیل پرجھوٹ بولا ہے ۔
مزید یہ کہ اس قول میں ابوحنیفہ کی جو خوبی بیان کی گئی ہے وہ خلاف واقعہ ہے جیساکہ محدثین سے بتواتر منقول ہے۔


ابن صلت ، کذاب کی روایت

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:

أخبرنا التنوخي حدثنا أبي حدثنا محمد بن حمدان بن الصباح حدثنا احمد بن الصلت الحماني قال سمعت يحيى بن معين وهو يسأل عن أبي حنيفة أثقة هو في الحديث قال نعم ثقة ثقة كان والله أورع من أن يكذب وهو أجل قدرا من ذلك [تاريخ بغداد 13/ 450 واسنادہ موضوع]۔

امام یحیی بن معین سے اس قول کا ناقل
’’احمد بن الصلت بن المغلس أبو العباس الحماني وقيل احمد بن محمد بن الصلت ويقال احمد بن عطية‘‘ ہے۔
یہ کذاب و وضاع راوی ہے مدح ابی حنیفہ میں یہ شخص جھوٹی روایات بنا بنا کر ائمہ کی طرف منسوب کی کیا کرتا تھا ، اس کے بارے میں ائمہ فن کی گواہیاں ملاحظہ ہوں:

امام خطیب بغدادی جنہوں نے مدح ابی حنیفہ میں‌ اس کی روایات نقل کی ہیں‌ وہ خود اس کذاب ووضاح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حدث بأحاديث أكثرها باطلة هو وضعها.ويحكى أَيْضًا عَنْ بشر بْن الحارث، ويحيى بْن معين، وعلي ابن المديني، أخبارا جمعها بعد أن صنعها فِي مناقب أَبِي حنيفة.[تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338]۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه وكان ينزل عند أصحاب الكتب يحمل من عندهم رزما فيحدث بما فيها وباسم من كتب الكتاب باسمه فيحدث عن الرجل الذي اسمه في الكتاب ولا بالي ذلك الرجل متى مات ولعله قد مات قبل ان يولد منهم من ذكرت ثابت الزاهد وعبد لصمد بن النعمان ونظراؤهما وكان تقديري في سنه لما رأيته سبعين سنة أو نحوه وأظن ثابت الزاهد قد مات قبل العشرين بيسير أو بعده بيسير وعبد الصمد قريب منه وكانوا قد ماتوا قبل ان يولد بدهر [الكامل في الضعفاء 1/ 199]۔

امام دارقطنی فرماتے ہیں:

فضائل أبى حنيفة ۔۔۔ موضوع كله كذب وضعه احمد بن المغلس الحماني [تاريخ بغداد 4/ 209 وسندہ صحیح]۔

امام ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أحمد بن محمد بن الصلت أبو العباس الحماني يروي عن بن أبي أويس والقعنبي وعن شيوخ لم يلقهم بالمشاهير والمناكير لا شيء [الضعفاء للأصبهاني ص: 65]۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

كَانَ يضع الْحَدِيث [المجروحين لابن حبان 1/ 153]۔


امام أبو الفتح بن أبي الفوارس
فرماتے ہیں:
ابْن مغلس كَانَ يضع [تاريخ بغداد ت بشار 5/ 338 وسندہ صحیح]۔

امام سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:

أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحماني كذاب وضاع[الكشف الحثيث ص: 53]۔

امام أبو الحسن على بن محمد بن العراق الكناني
فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانى وضاع[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 33]۔


امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

احمد بن الصلت بن المغلس الحماني قبيل الثلاثمائةمتهم وهو احمد بن محمد بن الصلت[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 19]۔
میزان میں فرماتے ہیں:
هالك ،[ميزان الاعتدال 1/ 105]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أحمد بن الصلت الحماني هو أحمد بن محمد بن الصلت هالك [لسان الميزان 1/ 188]۔
بشکریہ شیخ @کفایت اللہ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جزاکم اللہ خیرا محترم شیوخ
 
Top