حیدرآبادی
مشہور رکن
- شمولیت
- اکتوبر 27، 2012
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 500
- پوائنٹ
- 120
تعمیر نیوز : امام احمد رضا خان بریلوی - ایک نابغۂ روزگار شخصیت
از : ڈاکٹر انوار احمد خان بغدادی
جب ہم نے اسلامی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اسلام کے پردہ سیمیں پر اسلام کے ایسے سپوتوں کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں، جنہوں نے "العلماء ورثۃ الانبیاء" کا حق ادا کردیا۔ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے علاوہ رازی و غزالی جیسی متعدد ہستیاں نظر آتی ہیں جنہوں نے علم وفن کی آبیاری کے ساتھ فکری وعمل، اصلاح و تجدید کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
ایسی ہی ستودہ صفات شخصیتوں میں ایک سنہرا نام مفکر اسلام، شیخ الاسلام امام احمد رضا خان بریلوی کا ہے، جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے ایسے خطرناک دور میں آنکھیں کھولی جب ہندوستانی انگریزوں کی غلامی کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا، انیسویں صدی کے نصب میں جب علماء کرام قتل کئے جارہے تھے، ہندوستانی مسلمان ایک کشمکش کے عالم میں زندگی گذار رہا تھا ایسے وقت میں رب نے ہندوستان میں ایک ایسے عالم دین کو پیدا فرمایا جس نے علوم و فنون کی کھیتی کو سبزہ زار بنادیا، ہندوستانیوں کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد رہنے کا شعور بخشا، لوگوں میں ہمت و جرأت کی روح پھونکی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش فرماکر اسلامی قوانین کی بالادستی کا برملا اظہار فرمایا۔
یہ ذات تھی امام احمد رضا خان بریلوی کی جن کی پیدائش 1272ھ/1856ء میں بریلی کے ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و فضل، تقوی و طہارت اور قوت و بہادری میں مشہور زمانہ تھا۔ آپ کے جد اعلیٰ محمد سعید اﷲ خان قندھار سے لاہور تشریف لائے اور لاہور سے دہلی منتقل ہوئے۔ سلطنت مغلیہ میں فوج کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوکر کارہائے نمایاں انجام دئیے جس کے نتیجہ میں آپ کو جاگیریں ملیں، اسی طرح آپ کی اولاد اور پوتے بھی فوجی مناصب پر فائزرہے اور ملک و ملت کی خدمت میں نمایاں کارنامے انجام دیتے رہے، جس کے عوض انہیں بھی بریلی اور دوسروں پر بڑی جاگیریں ملیں، مگر آپ کے جد حقیقی حضرت مولانا رضا علی صاحب علیہ الرحمہ نے اس خاندان کا رخ تلوار سے قلم کی طرف موڑا، اور خاندان میں سب سے پہلے علم دین کی شمع روشن فرمائی، بریلی میں ایک عرصہ تک منصب افتا پر فائز رہ کر 1682ھ میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے، آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ نقی علی علیہ الرحمہ نے یہ منصب سنبھالا، آپ کئی کتابوں کے مصنف اورجلیل القدر عالم دین تھے، آپ کا انتقال 1692ھ میں ہوا۔
اس طرح امام احمد رضا کا گھرانا دینی اور دنیوی، علمی اور روحانی فضل و کمال سے مالا مال تھا، علم و فضل اور قوت و بہادری امام احمد رضا کو ورثے میں ملی تھی، آپ کی بیشتر تعلیم آپ کے والد محترم حضرت علامہ نقی علی علیہ الرحمہ کے پاس ہوئی۔ قوت حافظہ غضب کا تھا ذہانت مقام ثریا کو چھورہی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چودھ برس سے کم ہی عمر میں علوم مروجہ میں 14شعبان المعظم 1682 میں سند فراغت سے نواز دئیے گئے اور اسی دن مسئلہ رضاعت میں پہلا فتوی لکھا جسے دیکھ کر آپ کے والد ماجد بہت خوش ہوئے اور اسی دن مسند افتا کی ذمہ داری آپ کو سونپ دی، اس طرح نہایت ہی کم سنی میں سندفراغت پاکر مسند افتا کی ذمہ داری سنبھالنے والے بے مثال عالم بن گئے۔
چونکہ آپ کا گھرانا علم و فضل والا ایک دین دار گھرانا تھا اس لئے آپ کا بچپن عام بچوں سے بالکل جدا گانہ تھا، کھیل کودے کے بجائے طلب علم اور ذکر خدا اور رسول میں آپ کابیشتر وقت گزرتا تھا، صفاے قلبی، تقوی شعاری اور نفس کی پاکیزگی کا عالم یہ تھا کہ 1694ء میں جب اپنے الد گرامی اور اج الفحول علامہ عبدالقادر بدیوانی کی معیت میں خانقاہ مارہر کے تاجدار، خاتم الاکابر پیر طریقت حضرت سید آل رسول مارہروی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بیعت ہونے کیلئے حاضر ہوئے تو حضرت نے بغیر کسی امتحان و آزمائش کے نہ یہ کہ صرف داخل طریقت کرلیا بلکہ تمام سلاسل قدیمہ و جدیدہ کی اجازت و خلافت سے بھی نواز دیا، جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ تو بغیر امتحان و آزمائش ک کسی کو اجازت نہیں دیتے ہیں ان کو پہلے ہی مرحلہ میں کیسے اجازت وخلافت سے نواز دیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: "کہ آزمایا اسے جاتا ہے جس کے دل میں میل ہو یہ تو پہلے ہی صاف ستھرا دل لے کر آئے ہیں"۔
1295ھ میں سعادت حج و زیارت سے مشرف ہوئے، علمائے حرمین شریفین سے اکتساب فیض کیا، آپ کی روحانی، عرفانی اور ایمانی بلندیوں کو بھانپتے ہوئے وہاں بھی شیخ حسین بن صالح جمل اللیل نے برملا فرمایا کہ "انی لاجد نور اﷲ فی ہذا الحبین" اس پیشانی میں اﷲ کا نور موجزن پاتا ہوں۔
علوم و فنون کی کثرت امام احمد رضا کی شان امتیاز ہے چنانچہ ایک اندازے کے مطابق پچاس سے زائد علوم و فنون پر آپ کو نہ یہ کہ صرف عبور حاصل تھا بلکہ پچاس سے زیادہ علوم و فنون میں آپ کی تصنیفات موجود ہیں جن کی تعداد ساڑھے چھ سو سے زائد ہے، بعض لوگوں کے نزدیک آپ کے مؤلفات کی تعدادتقریباً ایک ہزار ہے۔ علوم و فنون پر گہرائی وگیرائی کا حال یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو تشنہ نہیں چھوڑتے بلکہ علوم و فنون کا دریا بہادیتے ہیں، شواہد و نصوص جس کثرت کے ساتھ جمع کرنے کا التزام امام احمد رضا کے یہاں ملتا ہے اس کی نظیر آپ کے معاصرین میں تو مفقود ہی ہے بلکہ دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔ مثال کے طورپر مردوں کا سننا ایک نزاعی مسئلہ تھا مگر امام احمد رضا نے اس پر قلم اٹھایا تو مردوں کے سننے پر آیت قرآنیہ کے علاوہ ساٹھ احادیث کریمہ سے استدلال اور صحابہ کرام، تابعین عظام، مجتہدین کرام اور علمائے مسلمین کے تین سو سے زائد اقوال پیش کرتے ہوئے مردوں کے سننے کو امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ثابت کردیا۔ یہی حال آپ کے دوسرے فتاوی اور دوسری کتابوں کا بھی ہے۔
علوم عقلیہ اور علوم عصریہ پر آپ کے عبور کا یہ حال تھا کہ آپ اپنے وقت کے ابو نصر فارابی، ابن سینا، ابن ہثیم اور ابن رشد کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں، بلکہ بعض چیزوں میں ان مشاہیر پر بھی سبقت رکھتے ہیں، ریاضی اور حساب وغیرہ میں آپ کی مہارت کا حال یہ تھا کہ ڈاکٹر ضیاء الدین سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے ریاض داں کے پیچیدہ اور لاینحل مسئلے امام احمد رضا کے یہاں منٹوں میں حل ہوا کرتے تھے اسی لئے ایک جلسہ میں جب ڈاکٹر موصوف کیلے ہندوستان کامایہ ناز ریاضی داں ہونے کا اعلان کیا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے برجستہ کہا کہ ان الفاظ کا مستحق میں نہیں بلکہ مولانا احمد رضا ہیں۔
مفتی برہان الحق جبلپوری علیہ الرحمہ امام احمد رضا کے تعلق سے ڈاکٹر ضیاء الدین کے تاثرات نقل کرتے ہوئے "اکرام امام احمد رضا" میں لکھتے ہیں: "اتنا زبردست محقق عالم اس وقت ان کے سوا شاید ہی ہو، اﷲ نے ایسا علم دیا ہے کہ عقل حیران ہے، دینی مذہبی اسلامی علوم کے ساتھ ریاضی، اقلیدس، جبر و مقابلہ، توقیت و غیرہ اتنی زبردست قابلیت اور مہارت کہ میری عقل جس ریاضی کے مسئلہ کو ہفتوں غور و فکر کے بعد بھی حل نہ کرسکی، حضرت نے چند منٹ میں حل کرکے رکھ دیا، یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے، مگر گوشہ نشینی، ریا اور نام و نمود سے پاک شہرت کی طالب نہیں"۔ امام احمد رضا معتدل اور صالح فکر کے حامل تھے، آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ کا حال یہ تھا کہ جس مسئلہ میں آپ نے رائے زنی فرمادی اور جس فراست کے ساتھ مستقبل کی تصویر کشی کردی اس میں کبھی کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی، آپ تقسیم ہند کے محالف تھے مگر کفار و مشرکین کو مساجد کے ممبروں تک لے جانے کے بھی قائل نہیں تھے، آپ کی یہ اعتدال فکری ہی تھی کہ آپ نے اسلام مخالف تمام تحریکوں کا تعاقب کیا خواہ وہ مغربی ہوں یا مشرقی۔ آپ نے "گڑ کھانے اور گلگا سے پرہیزی" کے مقولہ پر کبھی عمل نہ کیا بلکہ آپ نے اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جہاں انگریزوں کی مخالفت کی وہیں اسلام کے دوسرے دشمن عناصر کو کبھی برداشت نہیں کیا، آپ کی انگریزی حکومت کی مخالفت کا حال یہ تھا کہ آپ نے نہ تو کبھی انگریزوں کے کورٹ کو تسلیم کیا اور نہ ہی ان کی حکومت کو بلکہ آپ جب کبھی لفافوں پر ٹکٹ چسپاں کرتے تے تو الٹا کرکے لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں نے انگریزوں کا سر نیچا کردیا۔
معاشیات اور اقتصادیات میں آپ کے نظریات آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بینک کاری اور بلاسودی نظام اقتصادیات کے حوالہ سے امام احمد رضا کی فکر تو اس قابل ہے کہ انہیں اقتصادیات کیلئے نوبل پرائز دیا جائے، چنانچہ امام نے صرف اقتصادی نظریات ہی پیش نہیں کئے ہیں، بلکہ عصر حاضر میں اقتصادی بحران کا مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل پیش فرمایا ہے۔
تقوی و پرہیز گاری، اتباع شریعت اور سنت طیبہ پر با ضابطہ عمل کا حال یہ تھا کہ عمر کے آخری ایام میں بھی نماز با جماعت کا التزام فرماتے تھے، سخت بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باجود کبھی جماعت ترک نہ کی، سنن قبلیہ و بعدیہ پر مواظبت برتا، زہد و قناعت، توکل و اخلاص اس حد تک تھی کہ کبھی کسی سے آپ نے اپنی ذات کیلئے کوئی مطالبہ نہیں فرمایا، حرص و طمع دنیاوی جاہ و حشمت سے بے زار رہ کر دین کی خدمت کی۔ آباء و اجداد سے ورثے میں ملنے والی جاگیروں سے جو کچھ ملتا تھا اسی پر اکتفا فرمایا۔ بلکہ جود و سخا اس قدر تھی کہ کبھی صاحب نصاب نہ ہوئے، مال آتے ہی فقیروں، محتاجوں، بیواؤں، مسکینوں اور ضرورت مندوں میں خرچ کردیا کرتے تھے، غریبوں کیلئے ہند اور بیرون ہند ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، موسم سرما میں لوگوں میں رضائیاں تقسیم کرواتے، نیا سے نیا لباس اور قیمتی سے قیمتی چیز کبھی کسی نے مانگ لی تو ضرورت ہوتے ہوئے فوراً عطا فرمادیتے تھے، بارش کے زمانہ میں آپ کو بھیگتے ہوئے مسجد جاتے دیکھ کر حاجی کفایت اﷲ صاحب نے ایک چھتری خرید دی، مگر ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ ایک صاحب ضرورت نے مانگ لی، آپ نے بلاتأمل و تاخیر فوراً عطا کردی۔
ایمان و ایقان کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ جبل استقامت اور پیکر صبر و رضا نظر آئے، جو ادثات و مصائب کی آندھیاں چلیں، حق گوئی کی وجہ سے مخالفتیں ہوئیں، گالیوں سے بھرے خطوط بھیجے گئے، مگر آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ ہمیشہ وہی لکھا اور وہی کہا جو قرآن و سنت کا حکم تھا، آپ نے نہ تو کبھی رات کو دن کہا اور نہ ہی تاریکیوں کا نام اجالا رکھا بلکہ ہمیشہ آپ نے حق کو حق ہی کہا اور باطل کو باطل۔
احقاق حق و ابطال امام احمد رضا کا شیوہ تھا، محبت رسولﷺ سے آپ کا دل اس طرح لبریز تھا کہ رسول اﷲﷺ کی شان میں گستاخی کا شائبہ بھی برداشت نہیں فرمایا۔ امر بالمعروف نہی عن المنکر کا ایسا سچا جذبہ آپ کے دل میں موجزن تھا کہ کبھی دینی مسئلہ میں قریبی سے قریبی شخص کی رعایت نہیں کی بلکہ "الحب فی اﷲ و البغضﷲ" کا مظہر اتم بن کر زندگی گذاردی۔ کسی صاحب ثروت کی چاپلوسی تو بڑے دور کی بات ہے، ناز برادری کو بھی روانہ رکھا۔ مزارت وغیرہ پر جاہلان ہند کی طرف سے برپا کی جانے والی بدعات و خرافات کو کبھی ہوا نہ دی، آپ شدت احتیاط کی بنیاد پر مزارت پر عورتوں کی حاضری کے قائل نہ تھے۔ مزارت پر سجدہ تعظیمی کو حرام سمجھتے تھے۔ بلکہ آپ نے اسلامی معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہر قسم کی برائیوں پر قدغن لگانے کی بھرپور کوشش کی، انھیں کارناموں کی وجہ سے اہل جہان نے آپ کو مجدد کہا، چنانچہ شیخ موسی علی شامی ازہری مدنی آپ کو "مجدد وقت" قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: (اماموں کے امام، اور اس امت مسلمہ کے مجدد)۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر تعصب اور تنگ نظری کا چشمہ اتار کر حقیقت کی نگاہ سے امام احمد رضا کے علمی آثار اور شخصی کمالات پر نظر ڈالی جائے تو ایک انصاف پسند محقق یہی کہے گا کہ امام احمد رضا ایک جامع کمالات اور بابغۂ روزگار شخصیت تھے،علوم نقلیہ اور عقیلہ پر کامل دسترس رکھنے والے ایک بے مثال عالم دین تھے۔ جیسا کہ آپ کے یکتاے زمانہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت فرماتے ہوئے مولانا سید مامون البری المدنی فرماتے ہیں: "وہ اس لائق ہیں کہ کہا جائے کہ ان جیسا ان کے زمانہ میں کوئی نہیں کیونکہ ان کا فضل و کمال مشہور زمانہ ہے"۔
25/صفر المظفر بروزجمعہ 1340ھ مطابق 28 اکتوبر1921ء میں آپ اس دار فانی سے رحلت فرماگئے لیکن آپ کے آثار علمیہ قیامت تک کیلئے امت مسلمہ کے لئے قیمتی اثاثہ بن کر سرافختار بلند کرتے رہیں گے اور لاکھوں گم گشتگان راہ کے باعث ہدایت اور رہنمائی ثابت ہوں گے۔
از : ڈاکٹر انوار احمد خان بغدادی
جب ہم نے اسلامی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اسلام کے پردہ سیمیں پر اسلام کے ایسے سپوتوں کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں، جنہوں نے "العلماء ورثۃ الانبیاء" کا حق ادا کردیا۔ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے علاوہ رازی و غزالی جیسی متعدد ہستیاں نظر آتی ہیں جنہوں نے علم وفن کی آبیاری کے ساتھ فکری وعمل، اصلاح و تجدید کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
ایسی ہی ستودہ صفات شخصیتوں میں ایک سنہرا نام مفکر اسلام، شیخ الاسلام امام احمد رضا خان بریلوی کا ہے، جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے ایسے خطرناک دور میں آنکھیں کھولی جب ہندوستانی انگریزوں کی غلامی کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا، انیسویں صدی کے نصب میں جب علماء کرام قتل کئے جارہے تھے، ہندوستانی مسلمان ایک کشمکش کے عالم میں زندگی گذار رہا تھا ایسے وقت میں رب نے ہندوستان میں ایک ایسے عالم دین کو پیدا فرمایا جس نے علوم و فنون کی کھیتی کو سبزہ زار بنادیا، ہندوستانیوں کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد رہنے کا شعور بخشا، لوگوں میں ہمت و جرأت کی روح پھونکی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش فرماکر اسلامی قوانین کی بالادستی کا برملا اظہار فرمایا۔
یہ ذات تھی امام احمد رضا خان بریلوی کی جن کی پیدائش 1272ھ/1856ء میں بریلی کے ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و فضل، تقوی و طہارت اور قوت و بہادری میں مشہور زمانہ تھا۔ آپ کے جد اعلیٰ محمد سعید اﷲ خان قندھار سے لاہور تشریف لائے اور لاہور سے دہلی منتقل ہوئے۔ سلطنت مغلیہ میں فوج کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوکر کارہائے نمایاں انجام دئیے جس کے نتیجہ میں آپ کو جاگیریں ملیں، اسی طرح آپ کی اولاد اور پوتے بھی فوجی مناصب پر فائزرہے اور ملک و ملت کی خدمت میں نمایاں کارنامے انجام دیتے رہے، جس کے عوض انہیں بھی بریلی اور دوسروں پر بڑی جاگیریں ملیں، مگر آپ کے جد حقیقی حضرت مولانا رضا علی صاحب علیہ الرحمہ نے اس خاندان کا رخ تلوار سے قلم کی طرف موڑا، اور خاندان میں سب سے پہلے علم دین کی شمع روشن فرمائی، بریلی میں ایک عرصہ تک منصب افتا پر فائز رہ کر 1682ھ میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے، آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ نقی علی علیہ الرحمہ نے یہ منصب سنبھالا، آپ کئی کتابوں کے مصنف اورجلیل القدر عالم دین تھے، آپ کا انتقال 1692ھ میں ہوا۔
اس طرح امام احمد رضا کا گھرانا دینی اور دنیوی، علمی اور روحانی فضل و کمال سے مالا مال تھا، علم و فضل اور قوت و بہادری امام احمد رضا کو ورثے میں ملی تھی، آپ کی بیشتر تعلیم آپ کے والد محترم حضرت علامہ نقی علی علیہ الرحمہ کے پاس ہوئی۔ قوت حافظہ غضب کا تھا ذہانت مقام ثریا کو چھورہی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چودھ برس سے کم ہی عمر میں علوم مروجہ میں 14شعبان المعظم 1682 میں سند فراغت سے نواز دئیے گئے اور اسی دن مسئلہ رضاعت میں پہلا فتوی لکھا جسے دیکھ کر آپ کے والد ماجد بہت خوش ہوئے اور اسی دن مسند افتا کی ذمہ داری آپ کو سونپ دی، اس طرح نہایت ہی کم سنی میں سندفراغت پاکر مسند افتا کی ذمہ داری سنبھالنے والے بے مثال عالم بن گئے۔
چونکہ آپ کا گھرانا علم و فضل والا ایک دین دار گھرانا تھا اس لئے آپ کا بچپن عام بچوں سے بالکل جدا گانہ تھا، کھیل کودے کے بجائے طلب علم اور ذکر خدا اور رسول میں آپ کابیشتر وقت گزرتا تھا، صفاے قلبی، تقوی شعاری اور نفس کی پاکیزگی کا عالم یہ تھا کہ 1694ء میں جب اپنے الد گرامی اور اج الفحول علامہ عبدالقادر بدیوانی کی معیت میں خانقاہ مارہر کے تاجدار، خاتم الاکابر پیر طریقت حضرت سید آل رسول مارہروی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بیعت ہونے کیلئے حاضر ہوئے تو حضرت نے بغیر کسی امتحان و آزمائش کے نہ یہ کہ صرف داخل طریقت کرلیا بلکہ تمام سلاسل قدیمہ و جدیدہ کی اجازت و خلافت سے بھی نواز دیا، جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ تو بغیر امتحان و آزمائش ک کسی کو اجازت نہیں دیتے ہیں ان کو پہلے ہی مرحلہ میں کیسے اجازت وخلافت سے نواز دیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: "کہ آزمایا اسے جاتا ہے جس کے دل میں میل ہو یہ تو پہلے ہی صاف ستھرا دل لے کر آئے ہیں"۔
1295ھ میں سعادت حج و زیارت سے مشرف ہوئے، علمائے حرمین شریفین سے اکتساب فیض کیا، آپ کی روحانی، عرفانی اور ایمانی بلندیوں کو بھانپتے ہوئے وہاں بھی شیخ حسین بن صالح جمل اللیل نے برملا فرمایا کہ "انی لاجد نور اﷲ فی ہذا الحبین" اس پیشانی میں اﷲ کا نور موجزن پاتا ہوں۔
علوم و فنون کی کثرت امام احمد رضا کی شان امتیاز ہے چنانچہ ایک اندازے کے مطابق پچاس سے زائد علوم و فنون پر آپ کو نہ یہ کہ صرف عبور حاصل تھا بلکہ پچاس سے زیادہ علوم و فنون میں آپ کی تصنیفات موجود ہیں جن کی تعداد ساڑھے چھ سو سے زائد ہے، بعض لوگوں کے نزدیک آپ کے مؤلفات کی تعدادتقریباً ایک ہزار ہے۔ علوم و فنون پر گہرائی وگیرائی کا حال یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو تشنہ نہیں چھوڑتے بلکہ علوم و فنون کا دریا بہادیتے ہیں، شواہد و نصوص جس کثرت کے ساتھ جمع کرنے کا التزام امام احمد رضا کے یہاں ملتا ہے اس کی نظیر آپ کے معاصرین میں تو مفقود ہی ہے بلکہ دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔ مثال کے طورپر مردوں کا سننا ایک نزاعی مسئلہ تھا مگر امام احمد رضا نے اس پر قلم اٹھایا تو مردوں کے سننے پر آیت قرآنیہ کے علاوہ ساٹھ احادیث کریمہ سے استدلال اور صحابہ کرام، تابعین عظام، مجتہدین کرام اور علمائے مسلمین کے تین سو سے زائد اقوال پیش کرتے ہوئے مردوں کے سننے کو امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ثابت کردیا۔ یہی حال آپ کے دوسرے فتاوی اور دوسری کتابوں کا بھی ہے۔
علوم عقلیہ اور علوم عصریہ پر آپ کے عبور کا یہ حال تھا کہ آپ اپنے وقت کے ابو نصر فارابی، ابن سینا، ابن ہثیم اور ابن رشد کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں، بلکہ بعض چیزوں میں ان مشاہیر پر بھی سبقت رکھتے ہیں، ریاضی اور حساب وغیرہ میں آپ کی مہارت کا حال یہ تھا کہ ڈاکٹر ضیاء الدین سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے ریاض داں کے پیچیدہ اور لاینحل مسئلے امام احمد رضا کے یہاں منٹوں میں حل ہوا کرتے تھے اسی لئے ایک جلسہ میں جب ڈاکٹر موصوف کیلے ہندوستان کامایہ ناز ریاضی داں ہونے کا اعلان کیا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے برجستہ کہا کہ ان الفاظ کا مستحق میں نہیں بلکہ مولانا احمد رضا ہیں۔
مفتی برہان الحق جبلپوری علیہ الرحمہ امام احمد رضا کے تعلق سے ڈاکٹر ضیاء الدین کے تاثرات نقل کرتے ہوئے "اکرام امام احمد رضا" میں لکھتے ہیں: "اتنا زبردست محقق عالم اس وقت ان کے سوا شاید ہی ہو، اﷲ نے ایسا علم دیا ہے کہ عقل حیران ہے، دینی مذہبی اسلامی علوم کے ساتھ ریاضی، اقلیدس، جبر و مقابلہ، توقیت و غیرہ اتنی زبردست قابلیت اور مہارت کہ میری عقل جس ریاضی کے مسئلہ کو ہفتوں غور و فکر کے بعد بھی حل نہ کرسکی، حضرت نے چند منٹ میں حل کرکے رکھ دیا، یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے، مگر گوشہ نشینی، ریا اور نام و نمود سے پاک شہرت کی طالب نہیں"۔ امام احمد رضا معتدل اور صالح فکر کے حامل تھے، آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ کا حال یہ تھا کہ جس مسئلہ میں آپ نے رائے زنی فرمادی اور جس فراست کے ساتھ مستقبل کی تصویر کشی کردی اس میں کبھی کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی، آپ تقسیم ہند کے محالف تھے مگر کفار و مشرکین کو مساجد کے ممبروں تک لے جانے کے بھی قائل نہیں تھے، آپ کی یہ اعتدال فکری ہی تھی کہ آپ نے اسلام مخالف تمام تحریکوں کا تعاقب کیا خواہ وہ مغربی ہوں یا مشرقی۔ آپ نے "گڑ کھانے اور گلگا سے پرہیزی" کے مقولہ پر کبھی عمل نہ کیا بلکہ آپ نے اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جہاں انگریزوں کی مخالفت کی وہیں اسلام کے دوسرے دشمن عناصر کو کبھی برداشت نہیں کیا، آپ کی انگریزی حکومت کی مخالفت کا حال یہ تھا کہ آپ نے نہ تو کبھی انگریزوں کے کورٹ کو تسلیم کیا اور نہ ہی ان کی حکومت کو بلکہ آپ جب کبھی لفافوں پر ٹکٹ چسپاں کرتے تے تو الٹا کرکے لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں نے انگریزوں کا سر نیچا کردیا۔
معاشیات اور اقتصادیات میں آپ کے نظریات آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بینک کاری اور بلاسودی نظام اقتصادیات کے حوالہ سے امام احمد رضا کی فکر تو اس قابل ہے کہ انہیں اقتصادیات کیلئے نوبل پرائز دیا جائے، چنانچہ امام نے صرف اقتصادی نظریات ہی پیش نہیں کئے ہیں، بلکہ عصر حاضر میں اقتصادی بحران کا مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل پیش فرمایا ہے۔
تقوی و پرہیز گاری، اتباع شریعت اور سنت طیبہ پر با ضابطہ عمل کا حال یہ تھا کہ عمر کے آخری ایام میں بھی نماز با جماعت کا التزام فرماتے تھے، سخت بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باجود کبھی جماعت ترک نہ کی، سنن قبلیہ و بعدیہ پر مواظبت برتا، زہد و قناعت، توکل و اخلاص اس حد تک تھی کہ کبھی کسی سے آپ نے اپنی ذات کیلئے کوئی مطالبہ نہیں فرمایا، حرص و طمع دنیاوی جاہ و حشمت سے بے زار رہ کر دین کی خدمت کی۔ آباء و اجداد سے ورثے میں ملنے والی جاگیروں سے جو کچھ ملتا تھا اسی پر اکتفا فرمایا۔ بلکہ جود و سخا اس قدر تھی کہ کبھی صاحب نصاب نہ ہوئے، مال آتے ہی فقیروں، محتاجوں، بیواؤں، مسکینوں اور ضرورت مندوں میں خرچ کردیا کرتے تھے، غریبوں کیلئے ہند اور بیرون ہند ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، موسم سرما میں لوگوں میں رضائیاں تقسیم کرواتے، نیا سے نیا لباس اور قیمتی سے قیمتی چیز کبھی کسی نے مانگ لی تو ضرورت ہوتے ہوئے فوراً عطا فرمادیتے تھے، بارش کے زمانہ میں آپ کو بھیگتے ہوئے مسجد جاتے دیکھ کر حاجی کفایت اﷲ صاحب نے ایک چھتری خرید دی، مگر ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ ایک صاحب ضرورت نے مانگ لی، آپ نے بلاتأمل و تاخیر فوراً عطا کردی۔
ایمان و ایقان کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ جبل استقامت اور پیکر صبر و رضا نظر آئے، جو ادثات و مصائب کی آندھیاں چلیں، حق گوئی کی وجہ سے مخالفتیں ہوئیں، گالیوں سے بھرے خطوط بھیجے گئے، مگر آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ ہمیشہ وہی لکھا اور وہی کہا جو قرآن و سنت کا حکم تھا، آپ نے نہ تو کبھی رات کو دن کہا اور نہ ہی تاریکیوں کا نام اجالا رکھا بلکہ ہمیشہ آپ نے حق کو حق ہی کہا اور باطل کو باطل۔
احقاق حق و ابطال امام احمد رضا کا شیوہ تھا، محبت رسولﷺ سے آپ کا دل اس طرح لبریز تھا کہ رسول اﷲﷺ کی شان میں گستاخی کا شائبہ بھی برداشت نہیں فرمایا۔ امر بالمعروف نہی عن المنکر کا ایسا سچا جذبہ آپ کے دل میں موجزن تھا کہ کبھی دینی مسئلہ میں قریبی سے قریبی شخص کی رعایت نہیں کی بلکہ "الحب فی اﷲ و البغضﷲ" کا مظہر اتم بن کر زندگی گذاردی۔ کسی صاحب ثروت کی چاپلوسی تو بڑے دور کی بات ہے، ناز برادری کو بھی روانہ رکھا۔ مزارت وغیرہ پر جاہلان ہند کی طرف سے برپا کی جانے والی بدعات و خرافات کو کبھی ہوا نہ دی، آپ شدت احتیاط کی بنیاد پر مزارت پر عورتوں کی حاضری کے قائل نہ تھے۔ مزارت پر سجدہ تعظیمی کو حرام سمجھتے تھے۔ بلکہ آپ نے اسلامی معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہر قسم کی برائیوں پر قدغن لگانے کی بھرپور کوشش کی، انھیں کارناموں کی وجہ سے اہل جہان نے آپ کو مجدد کہا، چنانچہ شیخ موسی علی شامی ازہری مدنی آپ کو "مجدد وقت" قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: (اماموں کے امام، اور اس امت مسلمہ کے مجدد)۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر تعصب اور تنگ نظری کا چشمہ اتار کر حقیقت کی نگاہ سے امام احمد رضا کے علمی آثار اور شخصی کمالات پر نظر ڈالی جائے تو ایک انصاف پسند محقق یہی کہے گا کہ امام احمد رضا ایک جامع کمالات اور بابغۂ روزگار شخصیت تھے،علوم نقلیہ اور عقیلہ پر کامل دسترس رکھنے والے ایک بے مثال عالم دین تھے۔ جیسا کہ آپ کے یکتاے زمانہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت فرماتے ہوئے مولانا سید مامون البری المدنی فرماتے ہیں: "وہ اس لائق ہیں کہ کہا جائے کہ ان جیسا ان کے زمانہ میں کوئی نہیں کیونکہ ان کا فضل و کمال مشہور زمانہ ہے"۔
25/صفر المظفر بروزجمعہ 1340ھ مطابق 28 اکتوبر1921ء میں آپ اس دار فانی سے رحلت فرماگئے لیکن آپ کے آثار علمیہ قیامت تک کیلئے امت مسلمہ کے لئے قیمتی اثاثہ بن کر سرافختار بلند کرتے رہیں گے اور لاکھوں گم گشتگان راہ کے باعث ہدایت اور رہنمائی ثابت ہوں گے۔