اس بات میں تو کسی کے ہاں کلام نہیں ہونا چاہیے کہ احمد رضا خاں صاحب ایک بہت بڑے عالم دین تھے ۔
لیکن جہاں تک ان کی کتب کے اقتباسات وغیرہ دیکھنے کو ملے ہیں تو موصوف نہ تو متوازن فکر کے حامل تھے اور نہ ہی فریق مخالف کے ساتھ انصاف کرنے کے عادی تھے ۔ بلکہ بعض جگہوں پر تو ان کی زبان دانی کے ایسے نمونے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔تصور میں یہ بات نہیں آتی کہ اس قدر بڑا عالم دین اس قدر بازاری گفتگو بھی کر سکتا ہے ۔
اپنے پسندیدہ علماء کے لیے ہدیہ عقیدت پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن آج کل تحقیق کا دور ہے ، زبانی کلامی کسی کا علم و فضل کوئی بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ، علماء سے محبت کا بہترین انداز یہ ہے کہ ان کی تصنیفات اور کوشش و کاوشوں پر تحقیقی و تعارفی مقالات لکھے جائیں ۔ الحمد للہ بعض عرب ممالک میں اس پہلو پر بہت توجہ دی جاتی ہے ۔
مضمون نگار کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں البتہ طرز تحریر سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ بغیر کسی جستجو و تحقیق کے مبالغہ آمیزی پر مبنی چند قصیدوں کو کالم کی شکل میں پیش کردیا گیا ہے ۔