• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کی روش

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
احناف کی روش۔
اس معاملے میں علمائے احناف نے جو روش اختیار کی وہ انتہائی باکانہ ہے احناف کے وہ مسائل جو اہل حدیث کے خلاف
ہیں ان مسائل میں احناف کے پاس کتاب اللہ اور سنت صحیحہ سے دلیل نہیں ہے۔ اور بحمداللہ ان تمام اختلافی مسائل میں اہل حدیث کا موقف کتاب اللہ اور سنت صحیحہ کے عین موافق ہے ۔لہذا انہوں نے نصوص کو رد کرنے کے لیے
بہت سے اصول وضع کیے جن کے ذریعے انہوں نے بزعم خویش ان نصوص کو رد کر کے اقوال حنفیہ کا دفاع کیااور خود کو یا اپنے پیرو کار کومطمئن کر لیا کہ ہم نے اصولوں کی بناء پر کتاب وسنت کے نصوص کو رد کر کے ایک بڑا علمی کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی تفصیل ہم نے مقلدین آئمہ میں بحوالہ دی ہے۔
چونکہ مقصد کتاب و سنت کی ترویج نہ تھا بلکہ اقوال حنفیہ کی تائید اور ترویج تھا لہذا ایسا انداز اپنایا گیا جس سے امام صاحب کو شارع کی حیثیت دی گئی اور کتاب و سنت کو ان کے اقوال کے تابع مہمل بنایا گیا اس حقیقت کو عیاں کرنے کے لئے ہم نے ان کے چند اقوال ذکر کیے ہیں ۔جن سے ہمارے موقف کی تصدیق آفتاب نصف النہار کی طرح نظر آئے گی ۔
علامہ کرخی جو متقدمین و اکابرین احناف میں سے تھے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ احناف کا یک اصول بیان کیا ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے اصحاب ( آئمہ احناف ) خلاف ہو تو اس کو سمجھا جائے کہ یہ آیت منسوخ ہے ۔ یا اسے ترجیح پر محمول کیا جائے گابہتر یہ ہے کہ طتبیق کی صورت پیدا کر کے اس کی کوئی تاویل کر دی جائے ۔
اور حدیث کے بارے میں اصول بیان کیا کہ ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب کےقول کے خلاف ہو اس حدیث کو منسو خ سمجھا جائے یا کہ یہ حدیث اپنی کسی ہم مثل حدیث کے معارض مخالف ہے۔ تو پھر کسی دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا جس سے ہمارے اصحاب نے دلیل پکڑی ہے اگر نسخ کی دلیل مل گئی تو بہتر ہے ورنہ کسی دوسری دلیل کو اپنایا جائے گا۔ ( اصول کرخی ص 14 ملخصا )
اس اصول کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب اقوال کو درجہ اولیٰ سمجھا جائے اور کتاب و سنت کو ثانوی درجہ پر
ورنہ تصور ہی محال ہے کہ امام صاحب کا قول کتاب اللہ اور سنت صحیحہ کے خلاف ہو تو کتاب و سنت کو رد کرنے
کی وجوہ اختیار کی جائیں اور قول امام کو مقدم رکھا جائے ۔
قارئین کرام یہ محض اس لیے ہے کہ مقلدین کے ہاں ہر صورت ان کے امام کا قول مقدم ہے ۔یہ کتاب و سنت
پر عمل نہ کرنے سے تو خود کو معذور تصور کرتے ہیں لیکن اپنے امام کے قول کے ترک کرنے میں ان کے پاس کوئی عذر نہیں اس لیے تو فرماتے ہیں ۔
فلعنتہ ربنا اعداد رمل علی من رد قول ابی حنیفہ ( در مختار ص 5 )
اس شخص پر اللہ تعالٰی کی ریت کے ذرات کے برابر لعنت ہو جس نے ابی حنیفہ کے قول کو رد کیا۔
اس لیے کے ان کے نزدیک ( وجب علی مقلد ابی حنیفہ ان یعمل بہ ولا یجوزلہ العمل لقول غیرہ)
( معیارالحق ص 201) ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مقلد پر واجب ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرے اور
اس کے لیے غیر کے قول پر عمل کرناواجب نہیں۔ اس کی توضیح ہمارے اس دور کے ایک بڑے بزرگ طائفہ دیوبندیہ حنفیہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں ۔
لکھتے ہیں کہ عامی ایسا نہیں ہوتا جو دلائل کو پرکھ سکے ایسے شخص کو اگر اتفاقا کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر
اس کے امام کے مسلک خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام اورمجتہد کے مسلک پر
عمل کرے اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اس کے معارض کوئی قوی دلیل ہوگی۔
چند سطور کے بعد لکھتے ہیں : اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے تو اس کا نتیجہ شدید افرا تفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
( تقلید کی شرعی حیثیت ص 87 مقلدین آئمہ کی عدالت میں ص 238 )
برصغیر میں احناف کی دوسری بڑی شاخ کے قائد اعلیٰ جناب احمد رضا صاحب بریلوی کا بھی نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں ۔
( من قال ان قیاس ابی حنیفہ لیس بحجتہ یکفر ) ( البریلویہ بحوالہ الفتاویٰ الرضویہ ص 70 )
جو شخص کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کا قیاس حق نہیں اس کی تکفیر کی جائے گی۔
اس لیے ان کے ہاں مجتہد امام کا قول رسول اللہ کا ہی قول ہے ( تعزیرات ترمذی از مولانہ محمود حسن دیوبندی)
مقلدین کے پاس اس انداز فکر کوآئمہ سلف نے ہمیشہ غلط قرار دیا ہے اور اسے قرآن و حدیث کے خلاف ایک
سنگین سازش قرار دیا ہے اس لیے کہ ان کے اسی اندز فکرنے لاتعداد صحیح احادیث کا انکار کیا گیا یا ان کی ایسی
تاویلیں کی گئیں جن کی شریعت متحمل نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ جیسے عدیم النظر شخص نے ان کے اسی طرز فکر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
( ونجد کثیر من الناس ممن یخالف الحدیث الصحیح من اصحاب ابی حنیفہ اور غیرھم یقول ھذا منسوخ وقد اتخذوا ھذا محنۃ
کل حدیث لا یوافق مذھبھم یقولون ھو منسوخ من غیرا ن یعلموا انہ والا یثبتو ا ما الذی نسخہ( مجموع الفتاویٰ ص 150 ج 21) ہم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے اصحاب اور دیگر لوگوں کو پاتے ہیں جوصحیح حدیث کی مخالفت کرتا ہے تو
وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے انہوں نے یہ اصول بنا لیا ہے کہ وہ ہر اس حدیث کے بارے میں کہہ دیتے ہیں جو ان کے مذہب کے خلاف آتی ہے یہ حدیث منسوخ ہے حالانکہ انہیں اس کے منسوخ ہونے کا علم نہیں
ہوتا اور نہ ہی وہ ناسخ دلیل کو ثابت کر سکتے ہیں۔امام غزالدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں :
ومن العجب العجیب ان الفقھاء المقلدین یقف احدھم علی ضعف ماخذ امام بحیث لا یجدلضعفہ مدفعاوھو مع ذلک یقلدہ فیہ و
یترک من شھد الکتاب والسنہ والاقستہ الصحیحۃ لمذھبھم جمودا علی تقلید امامہ بل یتخیل لرفع ظاہرالکتاب و السنہ ویتا والھابالتاویلات البعیدۃالباطلۃ نضالاعن مقلدہ) ( حجتہ اللہ ص 155 ج 1 )
عجیب ترین بات یہ ہے کہ فقہا مقلد اپنے امام کے کمزور موقف کو جان لینے کے باوجوداس کمزور موقف کی تقلید کرتا ہے اور اسے چھوڑتا نہیں ہے حلانکہ وہ اس کمزور موقف کے دفاع میں کوئی دلیل اور چارہ بھی نہیں پاتا
کتاب و سنت اور قیاس صحیح کو تقلید کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اور کتاب و سنت کے ظاہر کے رد کرنے کے لیے
ناروا اور دور کی تاویلیں کرتا ہے تاکہ وہ اپنے امام کا دفاع کر سکے ۔
ان کی ایسی ہی حالت کو علامہ رازی نے تفسیر کبیر ص 36 ج 16 میں ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرماتے ہیں ( میں نے مقلدین کی ایک جماعت کا مشائدہ کیا اور ان کے بعض مسائل جو کتاب وسنت کے منافی تھے ان کے
رد میں آیات تلاوت کیں لیکن انہوں نے نہ ان آیات کو قبول کیا اور نہ ان کی طرف توجہ دی ان کے پاس ایک
ہی جواب تھاجب ہمارے سلف نے ان آیات پر عمل نہیں کیا ظاہری مطالب کو کیسے قبول کر سکتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص مقلدین کے بارے میں صحیح تحقیق کرے تو وہ ضرور پائے گا کہ یہ مرض اکثر اہل دنیا کے رگ و
ریشہ میں سرایت کرچکا ہے ۔(مقلدین آئمہ کی عدالت میں ص 57 )
علامہ محمد حیات سندھی حنفی نے بھی مقلدین کو جو تجزیہ کیا ہے ہم ان کے الفاظ بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں :
(واذابلغھم حدیث یخالف قولمن یقلدونہ اجتھدو افی تاویلہ القریب والبعید وسعو افی محاملہ النائیتہ والدانیتہ ور بماحر فو الکلم
عن مواضعہ) ( ایقاظ ھم اولیٰ ابصارص 71 )
جب مقلدین کو ایسی حدیث ملتی ہے جو اس کے امام کے قول کے خلاف ہوتی ہے تو اس کی قریب با بعید تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس سے بسااوقات تحریف کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں بلا شبہ تقلید نے کتاب و سنت کے رد کا ایک دروازہ کھولا ہے خصوصا وہ احادیث جو حنفی اقوال کے خلاف آتی ہیں جن کی صحیح تعداد کا علم
اللہ تعالیٰ کوہی ہے کہ وہ کتنی ہیں کو پس پشت ڈال کر اقوال رجال کو واجب عمل قرار دیا گیاجس سے یہ باور
ہوتا ہے کہ اسلام میں سنت کی حیثیت اقوال و رجال کے مقابلے میں ثانوی ہے وہ حدیث تو قابل قبول ہے جو
ان کے اقوال کے موافق ہے اور جو حدیث ان کے آئمہ کے اقوال کے خلاف ہے وہ قابل قبول نہیں ۔
علامہ سندھی راقمطراز ہیں:
(اذا مر علیھم حدیث یوافق قول من قلدوہ انبسطو او اذا مر علیھم حدیث قال اللہ (فلا وربک لا یوءمنون حتی یحکموک
فیما شجربینھم ثم لا یجدو افی انفسھم حرجا مما قضیت وایسلموا تسلیما ( ایقاظ ھمم اولیٰ ابصار ص 71 )
جب ان کو کوئی حدیث ملتی ہے جو ان کے اماموں کے قول کے موافق ہوتی ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں
اور جب کوئی مخالف حدیث آجاتی ہے تو بسااوقات انقباض کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس آیت کریمہ کی پرواہ بھی کرتے
کہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ( مجھے قسم ہے تیرے رب کی کہ یہ لوگ ایماندار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ
تجھ کو اپنے اختلافات میں فیصل اور ثالث تسلیم نہ کر یں پھر تو نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے قبول کرنے میں
اپنے نفسوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے پوری طرح تسلیم کریں)
http://kitabosunnat.com/kutub-library/hadith-aur-ahl-taqleed-ba-jawab-hadith-aur-ahl-hadith-jild1.html
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
احناف کی روش۔
اس معاملے میں علمائے احناف نے جو روش اختیار کی وہ انتہائی باکانہ ہے احناف کے وہ مسائل جو اہل حدیث کے خلاف
ہیں ان مسائل میں احناف کے پاس کتاب اللہ اور سنت صحیحہ سے دلیل نہیں ہے۔ اور بحمداللہ ان تمام اختلافی مسائل میں اہل حدیث کا موقف کتاب اللہ اور سنت صحیحہ کے عین موافق ہے ۔لہذا انہوں نے نصوص کو رد کرنے کے لیے
بہت سے اصول وضع کیے جن کے ذریعے انہوں نے بزعم خویش ان نصوص کو رد کر کے اقوال حنفیہ کا دفاع کیااور خود کو یا اپنے پیرو کار کومطمئن کر لیا کہ ہم نے اصولوں کی بناء پر کتاب وسنت کے نصوص کو رد کر کے ایک بڑا علمی کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی تفصیل ہم نے مقلدین آئمہ میں بحوالہ دی ہے۔
چونکہ مقصد کتاب و سنت کی ترویج نہ تھا بلکہ اقوال حنفیہ کی تائید اور ترویج تھا لہذا ایسا انداز اپنایا گیا جس سے امام صاحب کو شارع کی حیثیت دی گئی اور کتاب و سنت کو ان کے اقوال کے تابع مہمل بنایا گیا اس حقیقت کو عیاں کرنے کے لئے ہم نے ان کے چند اقوال ذکر کیے ہیں ۔جن سے ہمارے موقف کی تصدیق آفتاب نصف النہار کی طرح نظر آئے گی ۔
علامہ کرخی جو متقدمین و اکابرین احناف میں سے تھے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ احناف کا یک اصول بیان کیا ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے اصحاب ( آئمہ احناف ) خلاف ہو تو اس کو سمجھا جائے کہ یہ آیت منسوخ ہے ۔ یا اسے ترجیح پر محمول کیا جائے گابہتر یہ ہے کہ طتبیق کی صورت پیدا کر کے اس کی کوئی تاویل کر دی جائے ۔
اور حدیث کے بارے میں اصول بیان کیا کہ ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب کےقول کے خلاف ہو اس حدیث کو منسو خ سمجھا جائے یا کہ یہ حدیث اپنی کسی ہم مثل حدیث کے معارض مخالف ہے۔ تو پھر کسی دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا جس سے ہمارے اصحاب نے دلیل پکڑی ہے اگر نسخ کی دلیل مل گئی تو بہتر ہے ورنہ کسی دوسری دلیل کو اپنایا جائے گا۔ ( اصول کرخی ص 14 ملخصا )
اس اصول کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب اقوال کو درجہ اولیٰ سمجھا جائے اور کتاب و سنت کو ثانوی درجہ پر
ورنہ تصور ہی محال ہے کہ امام صاحب کا قول کتاب اللہ اور سنت صحیحہ کے خلاف ہو تو کتاب و سنت کو رد کرنے
کی وجوہ اختیار کی جائیں اور قول امام کو مقدم رکھا جائے ۔
قارئین کرام یہ محض اس لیے ہے کہ مقلدین کے ہاں ہر صورت ان کے امام کا قول مقدم ہے ۔یہ کتاب و سنت
پر عمل نہ کرنے سے تو خود کو معذور تصور کرتے ہیں لیکن اپنے امام کے قول کے ترک کرنے میں ان کے پاس کوئی عذر نہیں اس لیے تو فرماتے ہیں ۔
فلعنتہ ربنا اعداد رمل علی من رد قول ابی حنیفہ ( در مختار ص 5 )
اس شخص پر اللہ تعالٰی کی ریت کے ذرات کے برابر لعنت ہو جس نے ابی حنیفہ کے قول کو رد کیا۔
اس لیے کے ان کے نزدیک ( وجب علی مقلد ابی حنیفہ ان یعمل بہ ولا یجوزلہ العمل لقول غیرہ)
( معیارالحق ص 201) ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مقلد پر واجب ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرے اور
اس کے لیے غیر کے قول پر عمل کرناواجب نہیں۔ اس کی توضیح ہمارے اس دور کے ایک بڑے بزرگ طائفہ دیوبندیہ حنفیہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں ۔
لکھتے ہیں کہ عامی ایسا نہیں ہوتا جو دلائل کو پرکھ سکے ایسے شخص کو اگر اتفاقا کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر
اس کے امام کے مسلک خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام اورمجتہد کے مسلک پر
عمل کرے اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اس کے معارض کوئی قوی دلیل ہوگی۔
چند سطور کے بعد لکھتے ہیں : اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے تو اس کا نتیجہ شدید افرا تفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
( تقلید کی شرعی حیثیت ص 87 مقلدین آئمہ کی عدالت میں ص 238 )
برصغیر میں احناف کی دوسری بڑی شاخ کے قائد اعلیٰ جناب احمد رضا صاحب بریلوی کا بھی نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں ۔
( من قال ان قیاس ابی حنیفہ لیس بحجتہ یکفر ) ( البریلویہ بحوالہ الفتاویٰ الرضویہ ص 70 )
جو شخص کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کا قیاس حق نہیں اس کی تکفیر کی جائے گی۔
اس لیے ان کے ہاں مجتہد امام کا قول رسول اللہ کا ہی قول ہے ( تعزیرات ترمذی از مولانہ محمود حسن دیوبندی)
مقلدین کے پاس اس انداز فکر کوآئمہ سلف نے ہمیشہ غلط قرار دیا ہے اور اسے قرآن و حدیث کے خلاف ایک
سنگین سازش قرار دیا ہے اس لیے کہ ان کے اسی اندز فکرنے لاتعداد صحیح احادیث کا انکار کیا گیا یا ان کی ایسی
تاویلیں کی گئیں جن کی شریعت متحمل نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ جیسے عدیم النظر شخص نے ان کے اسی طرز فکر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
( ونجد کثیر من الناس ممن یخالف الحدیث الصحیح من اصحاب ابی حنیفہ اور غیرھم یقول ھذا منسوخ وقد اتخذوا ھذا محنۃ
کل حدیث لا یوافق مذھبھم یقولون ھو منسوخ من غیرا ن یعلموا انہ والا یثبتو ا ما الذی نسخہ( مجموع الفتاویٰ ص 150 ج 21) ہم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے اصحاب اور دیگر لوگوں کو پاتے ہیں جوصحیح حدیث کی مخالفت کرتا ہے تو
وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے انہوں نے یہ اصول بنا لیا ہے کہ وہ ہر اس حدیث کے بارے میں کہہ دیتے ہیں جو ان کے مذہب کے خلاف آتی ہے یہ حدیث منسوخ ہے حالانکہ انہیں اس کے منسوخ ہونے کا علم نہیں
ہوتا اور نہ ہی وہ ناسخ دلیل کو ثابت کر سکتے ہیں۔امام غزالدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں :
ومن العجب العجیب ان الفقھاء المقلدین یقف احدھم علی ضعف ماخذ امام بحیث لا یجدلضعفہ مدفعاوھو مع ذلک یقلدہ فیہ و
یترک من شھد الکتاب والسنہ والاقستہ الصحیحۃ لمذھبھم جمودا علی تقلید امامہ بل یتخیل لرفع ظاہرالکتاب و السنہ ویتا والھابالتاویلات البعیدۃالباطلۃ نضالاعن مقلدہ) ( حجتہ اللہ ص 155 ج 1 )
عجیب ترین بات یہ ہے کہ فقہا مقلد اپنے امام کے کمزور موقف کو جان لینے کے باوجوداس کمزور موقف کی تقلید کرتا ہے اور اسے چھوڑتا نہیں ہے حلانکہ وہ اس کمزور موقف کے دفاع میں کوئی دلیل اور چارہ بھی نہیں پاتا
کتاب و سنت اور قیاس صحیح کو تقلید کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اور کتاب و سنت کے ظاہر کے رد کرنے کے لیے
ناروا اور دور کی تاویلیں کرتا ہے تاکہ وہ اپنے امام کا دفاع کر سکے ۔
ان کی ایسی ہی حالت کو علامہ رازی نے تفسیر کبیر ص 36 ج 16 میں ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرماتے ہیں ( میں نے مقلدین کی ایک جماعت کا مشائدہ کیا اور ان کے بعض مسائل جو کتاب وسنت کے منافی تھے ان کے
رد میں آیات تلاوت کیں لیکن انہوں نے نہ ان آیات کو قبول کیا اور نہ ان کی طرف توجہ دی ان کے پاس ایک
ہی جواب تھاجب ہمارے سلف نے ان آیات پر عمل نہیں کیا ظاہری مطالب کو کیسے قبول کر سکتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص مقلدین کے بارے میں صحیح تحقیق کرے تو وہ ضرور پائے گا کہ یہ مرض اکثر اہل دنیا کے رگ و
ریشہ میں سرایت کرچکا ہے ۔(مقلدین آئمہ کی عدالت میں ص 57 )
علامہ محمد حیات سندھی حنفی نے بھی مقلدین کو جو تجزیہ کیا ہے ہم ان کے الفاظ بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں :
(واذابلغھم حدیث یخالف قولمن یقلدونہ اجتھدو افی تاویلہ القریب والبعید وسعو افی محاملہ النائیتہ والدانیتہ ور بماحر فو الکلم
عن مواضعہ) ( ایقاظ ھم اولیٰ ابصارص 71 )
جب مقلدین کو ایسی حدیث ملتی ہے جو اس کے امام کے قول کے خلاف ہوتی ہے تو اس کی قریب با بعید تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس سے بسااوقات تحریف کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں بلا شبہ تقلید نے کتاب و سنت کے رد کا ایک دروازہ کھولا ہے خصوصا وہ احادیث جو حنفی اقوال کے خلاف آتی ہیں جن کی صحیح تعداد کا علم
اللہ تعالیٰ کوہی ہے کہ وہ کتنی ہیں کو پس پشت ڈال کر اقوال رجال کو واجب عمل قرار دیا گیاجس سے یہ باور
ہوتا ہے کہ اسلام میں سنت کی حیثیت اقوال و رجال کے مقابلے میں ثانوی ہے وہ حدیث تو قابل قبول ہے جو
ان کے اقوال کے موافق ہے اور جو حدیث ان کے آئمہ کے اقوال کے خلاف ہے وہ قابل قبول نہیں ۔
علامہ سندھی راقمطراز ہیں:
(اذا مر علیھم حدیث یوافق قول من قلدوہ انبسطو او اذا مر علیھم حدیث قال اللہ (فلا وربک لا یوءمنون حتی یحکموک
فیما شجربینھم ثم لا یجدو افی انفسھم حرجا مما قضیت وایسلموا تسلیما ( ایقاظ ھمم اولیٰ ابصار ص 71 )
جب ان کو کوئی حدیث ملتی ہے جو ان کے اماموں کے قول کے موافق ہوتی ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں
اور جب کوئی مخالف حدیث آجاتی ہے تو بسااوقات انقباض کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس آیت کریمہ کی پرواہ بھی کرتے
کہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ( مجھے قسم ہے تیرے رب کی کہ یہ لوگ ایماندار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ
تجھ کو اپنے اختلافات میں فیصل اور ثالث تسلیم نہ کر یں پھر تو نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے قبول کرنے میں
اپنے نفسوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے پوری طرح تسلیم کریں)
http://kitabosunnat.com/kutub-library/hadith-aur-ahl-taqleed-ba-jawab-hadith-aur-ahl-hadith-jild1.html
جزاك الله خير
 
Top