محمد مزمل سلفی
رکن
- شمولیت
- نومبر 11، 2013
- پیغامات
- 79
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 63
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی
اشرف الانبیآء والمرسلین محمد و اٰلہ الطیبین
الطاھرین، واللعنۃ الدآئمۃ علی اعدآئھم اجمعین
من الآن الی قیام یوم الدین۔
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی
اشرف الانبیآء والمرسلین محمد و اٰلہ الطیبین
الطاھرین، واللعنۃ الدآئمۃ علی اعدآئھم اجمعین
من الآن الی قیام یوم الدین۔
احکام تقلید
(مسئلہ ۱ ) ہر مسلمان کے لئے اصول دین کو از روئے بصیرت جاننا ضروری ہے کیونکہ اصول دین میں کسی طور پر بھی تقلید نہیں کی جاسکتی یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص اصول دین میں کسی کی بات صرف اس وجہ سے مانے کہ وہ ان اصول کو جانتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہو اور اس کا اظہار کرتا ہو اگرچہ یہ اظہار از روئے بصیرت نہ ہو تب بھی وہ مسلمان اور مومن ہے۔ لہذا اس مسلمان پر ایمان اور اسلام کے تمام احکام جاری ہوں گے لیکن "مسلمات دین" کو چھوڑ کر باقی دینی احکامات میں ضروری ہے کہ انسان یا تو خود مجہتد ہو یعنی احکام کو دلیل کے ذریعے حاصل کرے یا کسی مجہتد کی تقلید کرے یا از راہ احتیاط اپنا فریضہ یوں ادا کرے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ دار پوری کردی ہے۔ مثلا اگر چند مجتہد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چند دوسرے کہیں کہ حرام نہیں ہے تو اس عمل سے باز رہے اور اگر بعض مجتہد کسی عمل کو واجب اور بعض مستجب گردانیں تو اسے بجالائے۔ لہذا جو اشخاص نہ تو مجتہد ہوں اور نہ ہی احتیاط پر عمل پیرا ہوسکیں اور ان کے لئے واجب ہے کہ مجتہد کی تقلید کریں۔
۲۔ دینی احکامات میں تقلید کا مطلب یہ ہے کہ کسی مجتہد کے فتوے پر عمل کیا جائے۔ اور ضروری ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کی جائے وہ مرد۔ بالغ۔عاقل۔شیعہ اثنا عشری۔ حلال زادہ۔ زندہ اور عادل ہو۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجالائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجالائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک اچھا شخص ہو اور اس کے اہل محلہ یا ہمسایوں یا ہم نشینوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں۔
اگر یہ بات اجملاً معلوم ہو کہ در پیش مسائل میں مجتہد کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو ضروری ہے کہ اس مجتہد کی تقلید کی جائے جو "اعلم" ہو یعنی اپنے زمانے کے دوسرے مجتہدوں کے مقابلے میں احکام الہی کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہو۔
۳۔ مجتہد اور اعلم کی پہچان تین طریقوں سے ہوسکتی ہے۔
* (اول) ایک شخص کو جو خود صاحب علم ہو ذاتی طور پر یقین ہو اور مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
* (دوم) دو اشخاص جو عالم اور عادل ہوں نیز مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کا ملکہ رکھتے ہوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطیکہ دو اور عالم اور عادل ان کی تردیدنہ کریں اور بظاہر کسی کا مجتہد یا اعلم ہونا ایک قابل اعتماد شخص کے قول سے بھی ثابت ہوجاتا ہے۔
* (سوم) کچھ اہل علم (اہل خبرہ) جو مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں اور ان کی تصدیق سے انسان مطمئن ہوجائے۔
۴۔ اگر در پیش مسائل میں دو یا اس سے زیادہ مجتہدین کے اختلافی فتوے اجمالی طور پر معلوم ہوں اور بعض کے مقابلے میں بعض دوسروں کا اعلم ہونا بھی معلوم ہو لیکن اگر اعلم کی پہچان آسان نہ ہو تو اخوط یہ ہے کہ آدمی تمام مسائل میں ان کے فتووں میں جتنا ہو سکے احتیاط کرے (یہ مسئلہ تفصیلی ہے اور اس کے بیان کا یہ مقام نہیں ہے)۔ اور ایسی صورت میں جبکہ احتیاط ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا عمل اس مجتہد کے فتوے کے مطابق ہو۔ جس کے اعلم ہونے کا احتمال دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اگر دونوں کے اعلم ہونے کا احتمال یکساں ہو تو اسے اختیار ہے ( کہ جس کے فتوے پر چاہے عمل کرے)۔
۵۔ کسی مجتہد کا فتوی حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں
* (اول) خود مجہتد سے (اس کا فتوی) سننا۔
* (دوم) ایسے دو عادل اشخاص سے سننا جو مجتہد کا فتوی بیان کریں۔
* (سوم) مجتہد کا فتوی کسی ایسے شخص سے سننا جس کے قول پر اطمینان ہو
* (چہارم) مجتہد کی کتاب (مثلاً توضیح المسائل) میں پڑھنا بشرطیکہ اس کتاب کی صحت کے بارے میں اطمینان ہو۔
۶۔ جب تک انسان کو یہ یقین نہ ہوجائے کہ مجتہد کا فتوی بدل چکا ہے وہ کتاب میں لکھے ہوئے فتوے پر عمل کر سکتا ہے اور اگر فتوے کے بدل جانے کا احتمال ہو تو چھان بین کرنا ضروری نہیں۔
۷۔ اگر مجتہد اعلم کوئی فتوی دے تو اس کا مقلد اس مسئلے کے بارے میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا۔ تاہم اگر ہو (یعنی مجتہد اعلم) فتوی نہ دے بلکہ یہ کہے کہ احتیاط اس میں سے ہے۔ کہ یوں عمل کیا جائے مثلا احتیاط اس میں ہے کہ نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک اور پوری سورت پڑھے تو مقلد کو چاہئے کہ یا تو اس احتیاط پر، جسے احتیاط واجب کہتے ہیں، عمل کرے یا کسی ایسے دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل کرے جس کی تقلید جائز ہو۔ (مثلاً فالاً علم)۔ پس اگر وہ (یعنی دوسرے مجتہد) فقط سورہ الحمد کو کافی سمجھتا ہو تو دوسری سورت ترک کی جاسکتی ہے۔ جب مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں کہے کہ محل تامل یا محل اشکال ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
۸۔ اگر مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں فتوی دینے کے بعد یا اس سے پہلے احتیاط لگائے مثلاً یہ کہے کہ کس نجس برتن کو پانی میں ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ تین مرتبہ دھوئے تو مقلد ایسی احتیاط کو ترک کر سکتا ہے۔ اس قسم کی احتیاط کو احتیاط مستجب کہتے ہیں۔
۹۔ اگر وہ مجتہد جس کی ایک شخص تقلید کرتا ہے فوت ہو جائے تو جو حکم اس کی زندگی میں تھا وہی حکم اس کی وفات کے بعد بھی ہے۔ بنا بریں اگر مرحوم مجتہد، زندہ مجتہد کے مقابلے میں اعلم تھا تو ہو شخص جسے در پیش مسائل میں دونوں مجتہدین کے مابین اختلاف کا اگرچہ اجمالی طور پر علم ہو اسے مرحوم مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا ضروری ہے۔ اور اگر زندہ مجتہد اعلم ہو تو پھر زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اس مسئلے میں تقلید سے مراد معین مجتہد کے فتوے کی پیروی کرنے (قصد رجوع) کو صرف اپنے لئے لازم قرار دینا ہے نہ کہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔
۱۰۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلے میں ایک مجتہد کے فتوے پر عمل کرے، پھر اس مجتہد کے فوت ہوجانے کے بعد وہ اسی مسئلے میں زندہ مجتہد کے فتوے پر عمل کرلے تو اسے اس امر کی اجازت نہیں کہ دوبارہ مرحوم مجتہد کے فتوے پر عمل کرے۔
۱۱۔ جو مسائل انسان کو اکثر پیش آتے رہتے ہیں ان کو یاد کر لینا واجب ہے۔
۱۲۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس کا حکم اسے معلوم نہ تو لازم ہے کہ احتیاط کرے یا ان شرائط کے مطابق تقلید کرے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے لیکن اگر اس مسئلے میں اسے اعلم کے فتوے کا علم نہ ہو اور اعلم اور غیر اعلم کی آراء کے مختلف ہونے کا مجملاً علم ہو یا تو غیر اعلم کی تقلید جائز ہے۔
13۔ اگر کوئی شخص مجتہد کا فتوی کسی دوسرے شخص کو بتائے لیکن مجتہد نے اپنا سابقہ فتوی بدل دیا ہو تو اس کے لئے دوسرے شخص کو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا ضروری نہیں۔ لیکن اگر فتوی بتانے کے بعد یہ محسوس ہو کہ (شاید فتوی بتانے میں) غلطی ہوگئی ہے اور اگر اندیشہ ہو کہ اس اطلاع کی وجہ سے وہ شخص اپنے شرعی وظیفے کے خلاف عمل کرے گا تو احتیاط لازم کی بنا پر جہاں تک ہوسکے اس غلطی کا ازالہ کرے۔
14۔ اگر کوئی مکلف ایک مدت تک کسی کی تقلید کیے بغیر اعمال بجا لاتا رہے لیکن بعد میں کسی مجتہد کی تقلید کرلے تو اس صورت میں اگر مجتہد اس کے گزشتہ اعمال کے بارے میں حکم لگائے کہ وہ صحیح ہیں تو وہ صحیح متصور ہوں گے ورنہ طابل شمار ہوں گے۔