• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اخبار اور اخبار آحاد (اصول الفقہ)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
اخبار:

اخبار (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ) خبر کی جمع ہے ۔ لغت میں یہ خَبار سے ماخوذ ہے جس کا مطلب نرم زمین ہے۔خبر کو خبر اس لیے کہتےہیں کہ یہ فائدہ والی بات کو یوں پھیلاتی ہے جیسے مضبوط اور پختہ زمین کو جب ننگے پاؤں وغیرہ سے روندا جائے تو وہ غبار اُڑاتی ہے۔

خبر بات کی ایک مخصوص نوع اور کلام کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور کبھی کبھی یہ قول کے علاوہ کسی اور چیز میں بھی استعمال ہوتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے:

تخبرك العينان ما القلب كاتم


آنکھیں تجھے اس چیز کی خبر دے دیں گی جسے دل چھپاتے ہیں۔

خبر ہونے کے اعتبارسے خبر کی تعریف یہ ہے :ما يحتمل الصدق والكذب لذاته“ جو اپنی ذات میں سچ اور جھوٹ کا احتمال رکھے۔ یعنی اس میں خبر ہونے کی حیثیت سے سچ اور جھوٹ دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔کبھی کبھی کسی خارجی امر کی وجہ سے خبر کے سچ یا جھوٹ ہونے کا قطعی فیصلہ کردیا جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر بالکل سچی ہوتی ہے اور محالات کے بارے میں خبر جھوٹی ہوتی ہے، جیسا کہ اگر کوئی کہے کہ : ”«الضدان يجتمعان»“ متضاد اشیاء آپس میں جمع ہوجاتی ہیں۔

تو اس طرح کی کوئی چیز خبر ہونے سے نہیں نکلتی ۔

محدثین کے ہاں خبر کی تعریف یہ ہے : ”ما أضيف إلى النبي صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو وصف خُلقي أو خَلقي“ جو قول، فعل ، تقریر، خَلْقی یا خُلْقی وصف آپ ﷺ کی طرف منسوب کیا جائے وہ خبر کہلاتا ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
آحاد:

تعریف: وہ خبر ہے جس میں متواتر کی گزشتہ بیان کردہ شرطیں نہ پائی جائیں۔

جس علم کا یہ فائدہ دیتی ہے: اخبار آحاد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کا اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ اخبار آحاد نہ تو ذاتی طور پر یقینی علم کا فائدہ دیتی ہیں ، نہ ہی قرائن سے مل کر۔ یہ صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔

کچھ اور نے یہ کہاہےکہ : خبر واحد میں اصل قاعدہ کلیہ تو یہی ہے کہ یہ ظن کا فائدہ دیتی ہے لیکن بعض اوقات یہ قرائن کی موجودگی میں قطعیت کا فائدہ بھی دیتی ہے۔ جیسا کہ اس خبر واحدکا صحیحین میں مروی ہونا ایک قوی قرینہ ہے۔ اوریہی بات زیادہ راجح ہے۔

اخبار آحاد کے ذریعے عبادت کرنا:

اخبار آحاد کے ذریعے عبادت کرناعقلی طور پر جائز ہے اور نقلی طور پر اس کے دلائل موجود ہیں۔ چند ایک دلائل یہ ہیں:

اسے قبول کرنے پر صحابہ کرام ]کا اجماع ہے۔ واقعات میں ان کا خبر واحد کی طرف رجوع مشہور ہے جیسا کہ وراثت میں دادی کےلیے چھٹا حصہ اور جنین کی دیت ،عورت کا اپنے خاوند کی دیت میں وارث بننا، اہل قباء کا نماز میں ہی اپنے قبلہ سے پھر جانا ، اہل کتاب کی طرح مجوسیوں سے جزیہ لینا اور اسی طرح وہ تمام افعال جو نبی کریمﷺ گھر میں سرانجام دیا کرتے تھے، یہ سب مسائل خبر واحد کے ذریعے ہی صحابہ کرام نے قبول کیے تھے۔

اللہ ر ب العالمین کا فرمان گرامی ہے: ﴿ يا أَيهَا الَّذِينَ آمَنُوا إن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فََتَبَينُوا ﴾ [الحجرات:6] اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئےتو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔

اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان عالی شان بھی ہے: ﴿ فَلَوْلا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِينذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا إلَيهِمْ لَعَلَّهُمْ يحْذَرُونَ ﴾ [التوبة:122] سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں۔

نبی کریمﷺ کا اطراف عالم میں احکام کی تبلیغ کےلیے ایک ایک بندے کو بھیجنا تواتر سے ثابت ہے ، باوجود اس کے کہ آپﷺ جانتے تھے کہ جن کی طرف یہ ایک بندہ بھیجا جار ہا ہے ، وہ اس کی وجہ سے مکلف بن جائیں گے۔

مفتی کے اس قول کو قبول کرنے پر اجماع کا منعقدہونا جس میں وہ اپنی رائے اور گمان سے خبر دیتا ہے تو جس خبر کو وہ سن کر خبر دیتا ہے جس میں کوئی شک نہیں تو ایسی خبر کو قبول کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔

راویوں کی قلت اور کثرت کے اعتبار سے خبر واحد کی تقسیم:

راویوں کی قلت اور کثرت کے اعتبار سے خبر واحد تین اقسام میں منقسم ہوتی ہے:

۱۔ مشہور ۲۔ عزیز ۳۔ غریب

مشہور وہ خبر واحد ہے جس کے راوی تواتر کے درجہ تک پہنچنے سے قاصر رہیں اور کسی بھی طبقہ میں تین سے کم نہ ہوں۔

اس کی مثال یہ حدیث ہے: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده» مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

عزیز وہ خبرو احد ہے جس کی سند نازل ہو اگرچہ بعض طبقات میں صرف دو راوی ہی ہوں۔

اس کی مثال یہ حدیث ہے: «لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين» تم میں سے کوئی ایک اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی اولاد ، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

غریب وہ خبر واحد ہے جس کی سند عزیز سے بھی نازل ہو اگرچہ بعض طبقات میں صرف ایک ہی راوی رہ جائے۔

اس کی مثال سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جسے اکثر مصنفین اپنے کتب کے آغاز میں لاتے ہیں، اور وہ نبی کریمﷺ کا مندرجہ ذیل فرمان ہے: «إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى» اعمال کا دارومدار تو صرف نیتوں پر ہے اور آدمی کے لیے تو صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔


اخبار
اخبار آحاد
 
Top