آحاد:
تعریف: وہ خبر ہے جس میں متواتر کی گزشتہ بیان کردہ شرطیں نہ پائی جائیں۔
جس علم کا یہ فائدہ دیتی ہے: اخبار آحاد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کا اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ اخبار آحاد نہ تو ذاتی طور پر یقینی علم کا فائدہ دیتی ہیں ، نہ ہی قرائن سے مل کر۔ یہ صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔
کچھ اور نے یہ کہاہےکہ : خبر واحد میں اصل قاعدہ کلیہ تو یہی ہے کہ یہ ظن کا فائدہ دیتی ہے لیکن بعض اوقات یہ قرائن کی موجودگی میں قطعیت کا فائدہ بھی دیتی ہے۔ جیسا کہ اس خبر واحدکا صحیحین میں مروی ہونا ایک قوی قرینہ ہے۔ اوریہی بات زیادہ راجح ہے۔
اخبار آحاد کے ذریعے عبادت کرنا:
اخبار آحاد کے ذریعے عبادت کرناعقلی طور پر جائز ہے اور نقلی طور پر اس کے دلائل موجود ہیں۔ چند ایک دلائل یہ ہیں:
1۔ اسے قبول کرنے پر صحابہ کرام ]کا اجماع ہے۔ واقعات میں ان کا خبر واحد کی طرف رجوع مشہور ہے جیسا کہ وراثت میں دادی کےلیے چھٹا حصہ اور جنین کی دیت ،عورت کا اپنے خاوند کی دیت میں وارث بننا، اہل قباء کا نماز میں ہی اپنے قبلہ سے پھر جانا ، اہل کتاب کی طرح مجوسیوں سے جزیہ لینا اور اسی طرح وہ تمام افعال جو نبی کریمﷺ گھر میں سرانجام دیا کرتے تھے، یہ سب مسائل خبر واحد کے ذریعے ہی صحابہ کرام نے قبول کیے تھے۔
2۔ اللہ ر ب العالمین کا فرمان گرامی ہے: ﴿
يا أَيهَا الَّذِينَ آمَنُوا إن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فََتَبَينُوا ﴾ [الحجرات:6] اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئےتو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان عالی شان بھی ہے: ﴿
فَلَوْلا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِينذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا إلَيهِمْ لَعَلَّهُمْ يحْذَرُونَ ﴾ [التوبة:122] سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں۔
3۔ نبی کریمﷺ کا اطراف عالم میں احکام کی تبلیغ کےلیے ایک ایک بندے کو بھیجنا تواتر سے ثابت ہے ، باوجود اس کے کہ آپﷺ جانتے تھے کہ جن کی طرف یہ ایک بندہ بھیجا جار ہا ہے ، وہ اس کی وجہ سے مکلف بن جائیں گے۔
4۔ مفتی کے اس قول کو قبول کرنے پر اجماع کا منعقدہونا جس میں وہ اپنی رائے اور گمان سے خبر دیتا ہے تو جس خبر کو وہ سن کر خبر دیتا ہے جس میں کوئی شک نہیں تو ایسی خبر کو قبول کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔
راویوں کی قلت اور کثرت کے اعتبار سے خبر واحد کی تقسیم:
راویوں کی قلت اور کثرت کے اعتبار سے خبر واحد تین اقسام میں منقسم ہوتی ہے:
۱۔ مشہور ۲۔ عزیز ۳۔ غریب
1۔ مشہور وہ خبر واحد ہے جس کے راوی تواتر کے درجہ تک پہنچنے سے قاصر رہیں اور کسی بھی طبقہ میں تین سے کم نہ ہوں۔
اس کی مثال یہ حدیث ہے: «
المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده» مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
2۔ عزیز وہ خبرو احد ہے جس کی سند نازل ہو اگرچہ بعض طبقات میں صرف دو راوی ہی ہوں۔
اس کی مثال یہ حدیث ہے: «
لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين» تم میں سے کوئی ایک اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی اولاد ، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
3۔ غریب وہ خبر واحد ہے جس کی سند عزیز سے بھی نازل ہو اگرچہ بعض طبقات میں صرف ایک ہی راوی رہ جائے۔
اس کی مثال سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جسے اکثر مصنفین اپنے کتب کے آغاز میں لاتے ہیں، اور وہ نبی کریمﷺ کا مندرجہ ذیل فرمان ہے: «
إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى» اعمال کا دارومدار تو صرف نیتوں پر ہے اور آدمی کے لیے تو صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔
اخبار
اخبار آحاد