محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
اختلاط حرام ہونے کے دلائل
میں اور میرا خاوند عربی زبان سیکھنے کیلئے مخلوط کلاسوں میں شرکت کرنا چاہتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ اختلاط جائز نہیں، لیکن ہمیں یہ بتلادیں کہ اختلاط کہتے کسے ہیں؟ اور دلائل کے مطابق اسکا کیا حکم ہے؟
سوال کیلئے اضافی معلومات یہ ہیں: کلاس میں دس طالب علم ہیں، جن میں سے اکثر خواتین ہیں، تو کیا میں اور میرا خاوند کلاس میں شرکت کرنے کیلئے جائیں، یاد رہے، ان میں سے کچھ غیر مسلم طلباء بھی ہیں۔
الحمد للہ:
خواتین و حضرات ایک جگہ جمع ہوں، ایک ہی جگہ گھل مل کر رہیں، ایک دوسرے سے ملیں، اور ایک دوسرے کو دیکھیں، یہ سب کام شریعت کے مطابق حرام ہیں، اس لئے کہ یہ فتنے کا باعث ہے، جس سے شہوت بھڑکتی ہے، اور انسان کیلئے زنا، و فحاشی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
کتاب و سنت میں اختلاط کے حرام ہونے کے بارے میں بہت سے دلائل موجود ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:سب سے پہلے فرمانِ باری تعالی ہے:
{ وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن}
ترجمہ: اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں کے لئے بھی۔ الأحزاب 53
"جیسے اللہ تعالی نے تمہیں عورتوں کے پاس علیحدگی میں جانے سے منع کیا ہے، اسی طرح تم انکی طرف بالکل دیکھوبھی نہ ،اور اگر کسی کو کوئی چیز لینے دینے کی ضرورت ہوتو تب بھی انکی طرف نہ دیکھے، بلکہ پردے کی اوٹ میں رہتے ہوئے ان سے اپنی ضرروت کی چیز مانگے"
اور اسی روایت کو ابو داود نے کتاب الصلاۃ میں 786 نمبر حدیث کے تحت ذکر کیا اور اسکے لئے عنوان قائم کیا: "باب ہے، نمازکے بعد خواتین کے مردوں سے پہلے جانے کے بیان میں"جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خواتین و حضرات کے اختلاط کا اللہ کے ہاں محبوب ترین مقام یعنی مساجد میں بھی خیال رکھا ، اور مرد وزن کی صفیں جدا جدا کیں، پھر سلام پھیرنے کے بعد خواتین کے چلے جانے تک مردوں کو ٹھہرنےکا حکم دیا ، اورخواتین کے مسجد میں داخلے کا دروازہ ہی علیحدہ مختص کردیا، ان سب باتوں کے دلائل درج ذیل ہیں:ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے ، تو آپ کے سلام پھیرنے کے بعد عورتیں چلی جاتیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہرتے تھے، ابن شہاب کہتے ہیں: میں یہ سمجھتا ہوں -واللہ اعلم- کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے ٹھہرتے تھے کہ لوگوں کے جانے سے پہلے عورتیں چلی جائیں۔
بخاری (793)
اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر یہ دروازہ ہم خواتین کیلئے مختص کردیں؟) نافع کہتے ہیں اس کے بعد فوت ہونے تک ابن عمر اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے۔
ابو داود حدیث نمبر: (484) کتاب الصلاۃ، باب-خواتین کیلئے دروازہ مختص کرنےکے-بارے میں سختی کے متعلق۔
مذکورہ بالا حدیث شریعت کی اختلاط کی ممانعت کیلئے بہت بڑی دلیل ہے، کہ جتنا مرد خواتین کی صفوں سے دور ہوگا اتنا ہی افضل ہوگا، اور جتنی ہی عورت مردوں کی صفوں سے دور ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔ایک حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے، اور بُری صف آخری صف ہے، اور خواتین کی بہترین صف آخری ہے، اور بری صف پہلی صف ہے)
مسلم حدیث نمبر: 664
اگر یہ سب اقدامات مسجد میں اٹھائے جا رہے ہیں جو کہ عبادت کیلئے پاک صاف جگہ ہے، اور اس جگہ پر مرد وخواتین شہوت سے کوسوں دور ہوتے ہیں، تو اسکے علاوہ جگہوں میں یہ اقدامات اٹھانا اس سے بھی ضروری ہوگا۔
اور ہم جانتے ہیں کہ اس وقت بازاروں، ہسپتالوں، جامعات وغیرہ اکثر جگہوں پر مرد و خواتین کا اختلاط عام ہے، لیکن ہم اس بارے میں کہیں گے کہ:چنانچہ ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مرد وخواتین کا راستے میں اختلاط ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو فرمایا: (پیچھے رہو، تمہارے لئے راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، تم راستے کے کنارے پر چلو) چنانچہ اس کے بعد خواتین دیوار کے ساتھ لگ کر چلنے لگیں، حتی کہ دیوار کیساتھ چلنے کی وجہ سے انکے کپڑےاٹکنے لگے۔
ابو داود، کتاب الادب، باب ہے: خواتین کے مردوں کے ساتھ راستے میں چلنے کے بارے میں۔
1- اسے ہم نے اپنی مرضی سے اختیار نہیں کیا، اور نہ اس پر راضی ہیں، اور خاص طور پر دینی دروس، اور اسلامی اداروں کی مجلسِ ادارہ میں اسے پسند بھی نہیں کرتےہیں۔
2- مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختلاط سے بچنے کیلئے وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں، جیسے کہ مردوں اور خواتین کیلئے علیحدہ جگہ ، دونوں کیلئے الگ دروازے، آواز پہچانے کیلئے جدید آلات، اور تعلیمِ نسواں کیلئے خواتین معلمات کا بندوبست، وغیرہ۔
3- اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہیں، اور نظریں جھکا کر، اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
درج ذیل میں ایک تحقیق جو کچھ مسلم سماجی کارکنوں نے اختلاط کے بارے کی تھی اسکا کچھ حصہ آپ کیلئے پیش کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
جب ہم نے یہ سوال رکھا: "آپ کے علم کیمطابق شریعت میں اختلاط کا کیا حکم ہے؟"
تو اسکا نتیجہ مندرجہ ذیل تھا:
جواب دینے والے 76 فیصد لوگوں نے کہا: "جائز نہیں ہے"
اور 12 فیصد لوگوں نے کہا: "جائز ہے" لیکن اخلاقی و دینی ۔۔۔ضوابط کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
اور باقی 12 فیصد لوگوں نے "لاعلمی" کا اظہار کیا۔
آپ کیا اختیار کریں گے؟!
اگر آپکو اختلاط اور غیر اختلاط والی جگہ پر کام مل رہا ہے، تو آپ کس کو اختیار کریں گے؟!
اس سوال کا جواب فیصد کے اعتبار سے کچھ اس طرح تھا:
67 فیصد نے غیر اختلاط کو پسند کیا۔
9 فیصد لوگوں نے اختلاط والی جگہ پسند کی۔
15 فیصد لوگوں نے کسی بھی جگہ کام کرنے کو ترجیح دی، انکے متعلقہ ادارے میں کام ہو؛ چاہے اختلاط ہو یا نہ ہوا س سے کوئی سروکار نہیں۔
جاری ہے -