فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں آپ کو حکم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم نہ کرلیں پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کردیں۔
یہ آیت امت کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے میں ہماری رہنما اور کسوٹی ہے۔ اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ کتاب و سنت کی موجودگی میں قیاس کرنا حرام ہے۔ اس مضمون کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا 'کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو اس چیز کے تابع نہ بنا دے جو میں لے کر آیا ہو۔ ' (شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثانی)
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ
" تم اکثر کو دیکھو گے کہ جب کوئی حدیث اس امام کے قول کے موافق ہوتی ہے جس کی وہ تقلید کرتا ہے، اور اس کے راوی کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ دلیل راوی کی روایت ہے، اس کا عمل نہیں اور جب راوی کا عمل اس کے امام کے قول کے موافق ہوتا ہے اور حدیث اس کے مخالف ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ راوی نے اپنی روایت کی مخالفت اس لیے کی ہے کہ یہ حدیث اس کے نزدیک منسوخ ہوگئی ہے، ورنہ اس کی یہ مخالفت اس کی عدالت کو ساقط کردیتی، اس طرح وہ لوگ اپنے کلام میں ایک ہی جگہ اور ایک ہی باب میں بدترین ٦ تناقض کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا ایمان یہ ہے کہ صحیح حدیث آجانے کے بعد امت کے لیے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
(تفسیر تیسیرالرحمن ،محمد لقان سلفی )