• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرین ِحدیث

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پرویز صاحب کے سابقہ معاشی تصورات:
ایک زمانہ تھا، جب پرویز صاحب ابھی کارل مارکس کی ترتیب دی ہوئی معاشی فکر، سوشلزم یا کمیونزم کے اسیر ِزلف نہیں ہوئے تھے۔ وہ اگر قرآن پر غور بھی کرتے تھے تو ان کی آنکھوں پر بہرحال اشتراکیت کی عینک نہیں تھی۔ اس لئے وہ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان ’ذہنی تحفظات‘کا خیال نہیں کیا کرتے تھے جو بعد میں اشتراکیت کے رنگ میں مصبوغ ہونے کے بعد، اب ان کے قلب و ذہن میں راسخ ہوگئے تھے اور جن کا لحاظ کرنا ان کی مجبوری بن گیا تھا۔ نظامِ ربوبیت کا نقشہ، ذہن پرویز کی کارگاہ میں، بہت بعد میں تراشا گیا۔ ۱۹۴۷ء سے قبل پرویز صاحب کو اگر ان کی تحریروں کے آئینے میں دیکھاجائے تو وہ واضح طور پر مال و دولت اور زمین کی شخصی ملکیت کے قائل تھے۔ پھر ہر شخص کے معاشی حالات کے تنوع اور ان کی اکتسابی صلاحیتوں میں تفاوت کی بنا پر وہ تفاضل فی الرزق کے بھی قائل تھے۔ بالاوپست معاشی طبقات میں وہ اہل ثروت پر اسلام کی طرف سے عائد ہونے والی ڈھائی فیصد زکوۃ کے بھی معترف بلکہ مُعلن تھے۔ صدقہ و خیرات اور قانونِ میراث کے متعلق بھی وہ اس با ت کے مقر تھے کہ یہ دائمی اور مستقل احکام ہیں نہ کہ عبوری دور کے احکام ہیں جو وقتی یا ہنگامی صورتحال میں دیئے گئے ہوں۔ قُلِ الْعَفْوَ کے دو الفاظ کی بنیاد پر آج اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگا کر جس ’نظام ربوبیت‘ کا کریملین تعمیر کیا گیا ہے، ان دنوں ان الفاظ کا مفہوم، آج کے مفہوم سے قطعی مختلف تھا، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :
اشتراکیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے کبھی پرویز صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ
’’اشتراکیت، ذاتی اور انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن اسلام ہر شخص کی کمائی کو اس کی ذاتی ملکیت قرار دیتا ہے۔ زمانۂ ظہورِ اسلام میں جائیداد و املاک عموماً مویشیوں کی شکل میںتھیں، ان کے متعلق فرمایا:
(اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَا اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِکُوْنَ) ’’کیا ان لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے ان کے لئے دست ِقدرت سے مویشی پید ا کئے ہیں جن کے یہ لوگ مالک ہیں‘‘
… جب خدا کی بنائی ہوئی چیزیں، انسان کی ملکیت ہوسکتی ہیں تو انسان کی اپنی کمائی اور مصنوعات تو یقینا اس کی ملکیت ہوں گی، ارشاد ہے:
(لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ) ’’جو مرد کمائیں، وہ مردوں کا حصہ ہے اور جو عورتیں کمائیں، وہ عورتوں کا حصہ ہے۔‘‘
اشتراکیت کے اُصولِ نفی ملکیت سے اسلام کا معاشی، تمدنی اور عمرانی ہر قسم کا نظام منہدم ہوجاتاہے۔ قرآن میں ہے
(وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا) ’’قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اور محتاج اور مسافر کو بھی، مال کو بے موقع نہ اڑانا۔‘‘
ظاہر ہے کہ ان حقوق کی ادائیگی، اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کوئی چیز کسی کی ملکیت میں ہو اگر ہر چیز غیر کی ملکیت میں ہو اور کمانے والے کو صرف اس کی ضرورت کے مطابق حصہ ملے تو وہ دوسروں کے حقوق کیسے ادا کرسکتا ہے۔
یہی حال، ترکہ اور وراثت کے احکام کا ہے جس پر ذاتی ملکیت کی (غیر) موجودگی میںعمل ہو ہی نہیں سکتا، حکم ہے:
(وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالاَ ْقَرَبُوْنَ وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُکُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ) ’’ ہر ایسے مال کے لئے جسے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جائیں ہم نے وارث مقرر کردیئے ہیں او رجن لوگوں سے تمہارے عہد بندھے ہوئے ہیں، ان کو ان کا حصہ دو۔‘‘ (ماہنامہ طلوع اسلام: جولائی ۳۹ئ، ص ۵۹تاـ۵۷ )
(اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ)(۲۶۷؍۲) ’’اپنی کمائی میں سے عمدہ چیز کو خرچ کرو‘‘ میں مَا کَسَبْتُمْ سے مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ تم کھاتے ہو، وہ تمہاری ملکیت ہے۔‘‘ (جولائی ۳۹،ص ۶۰)
سورئہ توبہ میں ہے:{خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً}اس آیت میں صدقہ سے کیا مرا دہے ؟ علما کے نزدیک مراد ’زکوٰۃ‘ ہے۔ آج ’مفکر ِقرآن‘ جناب پرویز صاحب، اس کی تردید کرتے ہیں، مگر ایک زمانہ تھاکہ وہ خود بھی اس سے زکوٰۃ ہی مراد لیا کرتے تھے :
’’اشتراکیت کے حامی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی کا سرمایہ جائیداد، کمائی، وِرثہ سب کچھ حکومت لے لے، تو یہ انفاق کی وہ حد ہے جس سے بڑھ کر قربانی اور ایثار کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی،لیکن اسلامی انفاق، جو (تقویٰ پر مبنی ہے) اور اس قسم کے جبر میں بڑا فرق ہے، اسلام نے بھی ایک ٹیکس (زکوٰۃ) مقرر کیا ہے جو بہرحال وصول کیا جاتاہے:
(خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ)(۱۰۳؍۹) ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے کہ اس سے یہ ظاہر و باطن میں پاک ہوجائیں گے اور پھر ان کے لئے دعا کیجئے۔‘‘
(جولائی۳۹ئ:ص ۶۱)
اس زمانہ میں قُلِ الْعَفْوَ کے معنی وہ نہیں تھے جو آج بیان کئے جاتے ہیں۔ آج تو اس کا مفہوم یہ بیان کیا جاتاہے کہ ’’زائد از ضرورت‘ سب مال کا انفاق کر ڈالو‘‘ لیکن اُس زمانہ، سارا مال خرچ کرنا کیا معنی، انفاق کا سرے سے یہ معنی ہی نہ تھا جو آج کیا جاتا ہے، یعنی ’کھلا رکھنا‘۔ دنیا میں ایسی ڈکشنری، اس وقت شائع ہی نہ ہوئی تھی، جو انفاق بمعنی ’کھلا رکھنا‘ واضح کرے :
’’لیکن ساتھ ہی، اس نے خیرات کا حکم بھی دیا ہے جس میں جبر و اکراہ کو دخل نہیں:
(يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ، قُلِ الْعَفْوَ)(۲۱۹؍۲) ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔‘‘
(جولائی۳۹ئ:ص ۶۱)
جمع شدہ یا بچی ہوئی رقم پر، ڈھائی فیصد زکوٰۃ جس کا آج پرویز صاحب مذاق اُڑاتے ہیں، کسی زمانے میں وہ خود نہ صرف یہ کہ اس کے معترف تھے، بلکہ جزیہ پر اعتراض کرنے والے غیر مسلموں کو وہ زکوٰۃ ہی کے حوالے سے جواب دیا کرتے تھے :
’’سب سے بڑا الزام جزیہ کے متعلق عائد کیا جاتا ہے اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ غیر مسلم رعایا سے یہ ’جرمانہ‘ ان کے مسلمان نہ ہونے کے جرم کی بنا پر وصول کیا جاتا تھا حالانکہ اس کی حقیقت بالکل جداگانہ ہے۔ مسلمانوں کو اپنی آمدنی (آمدنی نہیں بلکہ بچت…قاسمی) کا چالیسیواں حصہ حکومت کوادا کرنا پڑتا تھا اور اس کے علاوہ ہر قسم کی فوجی خدمت بھی ان کے ذمہ تھی۔ غیر مسلم رعایا جو ان کے زیر حکومت رہتی تھی، ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمان حکومت پر لازم تھی، وہ فوجی خدمت سے مستثنیٰ تھے۔ اگر ان سے اس حفاظت کے اخراجات کی مد میں کچھ وصول کر لیا جائے جو مسلمانوں کی زکوٰۃ سے بھی کم تھا تو اس میں اندھیر کیا ہے؟ عورتیں، بچے، بوڑھے، اپاہج اور مذہبی رہنما اس سے مستثنیٰ تھے۔
اور پھر اس جزیہ کی مقدار کتنی تھی؟ معمولی حیثیت والے سے ۱۲ عہ سالانہ، متوسط درجے والے سے ۸عہ اور اس سے آگے خواہ کوئی کروڑ پتی ہو، زیادہ سے زیادہ ۱۲؍ روپے سالانہ ، حالانکہ ایک کروڑ پتی مسلمان سے کم از کم اڑھائی لاکھ روپے سالانہ بطورِ زکوۃ وصول کیا جائے گا۔ صدقات و خیرات اس کے علاوہ ہوں گے اور اس مالی قربانی کے ساتھ ساتھ جب ضرورت لاحق ہوگی تو یہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں بھی شریک ہوگا اور ذِمی رعایا کے مال، جان، مذہب، معابد کی حفاظت کرے گا یعنی ایک ذِمی رئیس، بارہ روپیہ ادا کرکے نہایت اطمینان سے اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا اور اسی حیثیت کا ایک مسلمان اڑھائی لاکھ روپیہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اسی ذِمی کے محافظ کی حیثیت سے میدانِ کارزار میں دشمن کی شمشیر و سناں کا مقابلہ بھی کرے گا۔ دشمن کی گولیاں ہوں گی او رمسلمانوں کا سینہ جو غیرمسلم رعایا کی حفاظت کے لئے سپر کا کام دے گا۔
مسلمانوں سے پیشتر ساسانیوں نے عیسائی رعایا پر جو ٹیکس لگا رکھا تھا، وہ ساسانی رعایا سے دگنا تھا اور اس کے جواز میں شاہ ساپردوم نے کہا تھا کہ لڑائی ہمیں لڑنی پڑتی ہے اور یہ مزے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ دُگنا کیوں نہ دیں۔‘‘ (جون۳۹ئ:ص ۴۸)
ذاتی ملکیت کا اُصول، جب افرادِ معاشرہ کی متفاوت اکتسابی صلاحیتوں کے ساتھ مقرون ہوتا ہے تو تفاضل فی الرزق ایک لازمی نتیجہ کے طور پر واقع ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی، کسی زمانہ میں پرویز صاحب کو مسلم تھی، چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
’’قرآن کی رو سے ایک دوسرے پر رِزق میں فضیلت جائز ہے:
(وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضِ فِیْ الرِّزْقِ) (۷۱؍۱۶) ’’اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ رزق فضیلت دی ہے‘‘
اور وہ غلام اورآزاد میں یہی فرق بتاتا ہے کہ آزاد اپنی محنت کے ماحصل کا مالک ہوتاہے، غلام کو اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا :
(ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لاَ يَقْدِرُعَلٰی شَيْیٍٔ وَمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًا) ’’ اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے، ایک غلام ہے، دوسرے کی ملک؛ وہ خود کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا، اور ایک دوسرا آدمی ہے جسے ہم نے اپنے فضل سے نہایت عمدہ روزی دے رکھی ہے۔ وہ ظاہر پوشیدہ جس طرح چاہتا ہے، اسے خرچ کرتاہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘
… رِزق میں مختلف مدارج اسلئے ضروری ہیںکہ دنیا کا کاروبار چل ہی اس انداز سے سکتا ہے، تقسیم عمل کے لئے اختلافِ مدارج لاینفک ہے:
(نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيْشَتَهُمْ فِیْ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا)’’دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ہم ہی تقسیم کرتے ہیں اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔‘‘
(معارف القرآن، جلد اول ،ص۱۲۱)
قرآنی تعلیمات کی اساس پر صحابہ کا جو اوّلین معاشرہ وجود میں آیا، خود اس معاشرے میں بھی افراد کے درمیان معاشی تفاوت موجود تھا، اس پر پرویز صاحب کی بہت سی تحریریں گواہ ہیں :
’’مالی تفوق کے اعتبار سے خود دورِ صحابہ میں بھی مختلف طبقات موجود تھے۔ حضرت زبیر بن العوامؓ کے کاروبار میں ایک ہزار مزدور روزانہ کام کرتے تھے۔ حضرت طلحہؓ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینار تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی تجارتی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ان کا قافلہ مدینہ میں آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف اشیائِ خوردنی لد رہی تھیں، لیکن مسلمانوں میں ان ہستیوں کا نام اگر آج تک صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ ان کی دولت وثروت نہیں، بلکہ ان کا وہ ایمان، تقویٰ، اعمالِ صالحہ، ایثار و قربانی ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے انہوں نے بطورِ نمونہ کے یادگار چھوڑا ہے۔ انہی متمول صحابہ کے ساتھ ساتھ اصحابِ صفہ جیسے مفلوک الحال حضرات کا نام بھی آج تک مسلمانوں کیلئے باعث ِافزائش ِایمان و عمل ہے۔ ‘‘(جولائی ۳۹ئ:ص ۶۹)
غزوئہ تبوک کے موقع پر صحابہ کے جیش العُسرۃ کی تیاری میں، ان کے معاشی تفاوت و تفاضل کی کیفیت بالکل اُجاگر ہوجاتی ہے :
’’یہ معرکہ، اخلاص و منافقت کی امتحان گاہ تھا چنانچہ ایک طرف صحابہ کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ کسی کے پاس تھا، لے کر حاضر ہوگیا۔ حضرت عثمان ؓ نے نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے چالیس ہزار درہم دیئے۔ حضرت عمرؓ کئی ہزار روپے کا نقد و جنس لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓاپنے گھر میں اللہ اور رسولؐ کی محبت کے سوا کچھ بھی چھوڑ کر نہ آئے۔ حضرت ابوعقیل انصاریؓ نے دوسیر چھوہارے لاکر حاضر کردیئے اور عرض کیا کہ رات بھر کسی کے کھیت پر مزدوری کرکے چار سیر چھوہارے حاصل کئے تھے، دوسیر بال بچوں کو دے آیا ہوں اور دوسیر خدمت ِاقدس میں حاضر ہیں۔‘‘ (معارف القرآن:جلد چہارم، ص۵۸۰)
ذہنی تغیر کا دورِ پرویز :ان سب اُمور کے اعتراف کے بعد پرویز صاحب پر ایک دوسرا دور بھی آیا جب وہ شاہراہِ اسلام پر سے پھسل کر اشتراکیت کے گڑھے میں گرتے ہیں، تو اس گندے کیڑے کی طرح جو غلاظت میں پلنے اور نشوونما پانے کے باعث، تعفن اور بدبو ہی کو اپنی فطری فضا سمجھ لیتا ہے، اب وہ اسی اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگاکر ’نظامِ ربوبیت‘ کے نام سے پیش کرتے ہیں جسے کبھی وہ اسلام کے منافی قرار دیا کرتے تھے۔ اب قرآن کی ہر آیت کا مفہوم بدلنا شروع ہوجاتا ہے اور ہر اصطلاحِ قرآن بلحاظِ مفہوم متغیر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ الغرض اشتراکیت کی عینک جب ’مفکر ِقرآن‘ کے کانوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کی ناک پر سوار ہوجاتی ہے تو قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ کی ہر چیز ایک دوسرے ہی رنگ میں نظر آتی ہے۔ اشتراکیت کے بچھڑے کی محبت، جب قلب و دماغ میں رَچ بس جاتی ہے تو محاورئہ عرب کے نام پر قرآنی مفردات میں کس طرح نئے مفاہیم ٹھونسے جاتے ہیں اور آیات اللہ میں کس طرح نئی تعبیرات گھسیٹری جاتی ہیں اور تاریخ کے مسلمہ واقعات کو کس طرح پایۂ حقارت سے ٹھکرایا جاتا ہے، اسے درج ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے :
’’صحیح نظامِ زندگی یہ ہے کہ تم اکتسابِ رزق کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کرو، اور اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق رکھ لو اور باقی سب دوسروں کی پرورش کے لئے عام کردو۔‘‘
(يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ) (۲۱۹؍۲) ’’تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کس قدر دوسروں کے لئے ’کھلا رکھیں‘؟ ان سے کہہ دو کہ جس قدر تمہاری ضرورت سے زائد ہے، سب کا سب۔‘‘
( ’اسلام کیا ہے؟‘ ص ۱۴۵)
پرویز صاحب کے ذہنی پلٹائو کے ساتھ ہی دنیا میں پہلی ڈکشنری چھپ گئی جس میں، انفاق کا معنی ’خرچ کرنا‘ نہیں بلکہ ’کھلا رکھنا‘ بیان کیا گیا اور اسی طرح ’’العفو‘‘ کا مفہوم بھی ذہنی تغیر کے ساتھ ہی تبدیل ہوگیا۔ پرویز صاحب کے سابقہ دور میں مفہوم آیت کیا تھا؟ یہ بھی دیکھ لیجئے :
(يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ) (۲۱۹؍۲) ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔‘‘
(جولائی۳۹ئ:ص۶۱)
قُلِ الْعَفْوَ کے جدید مفہوم کی اساس پر نظامِ ربوبیت، جو اشتراکیت ہی کا ’قرآنی ایڈیشن‘ ہے، کی عمارت استوار کی گئی۔ اب ’زائد از ضرورت‘ مال و دولت کی موجودگی بھی خلافِ قرآن قرار پا گئی اور زمین کی شخصی ملکیت بھی، نہ صرف خلافِ قرآن ، بلکہ کفر وشرک قرار پاگئی :
’’قرآنِ کریم کی رو سے زمین (وسائل پیداوار) پر ذاتی ملکیت کا تصور ہی باطل اور شرک کے مترادف ہے۔‘‘ (مئی ۶۸ئ: ص ۱۷)
اب وہ آیات جو تفاضل فی ا لرزق پردلالت کرتی ہیں، ان کا مفہوم بھی بدل گیا۔ مثلاً آیت (۷۱؍۱۶) کے ابتدائی جملہ کا ترجمہ اب یہ قرار پایا :
(وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِیْ الرِّزْقِ…)(۷۱؍۱۶) ’’مختلف افراد میں، اکتسابی استعداد کا تفاوت، خدا کی طرف سے ہے (تمہارا اپنا پیدا کردہ نہیں)۔ ‘‘ (نظامِ ربوبیت: ص۱۳۲)
جبکہ سابقہ دورِ پرویز میں ان الفاظ کا ترجمہ یہ تھا…
’’اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ روزی کے برتری دی ہے۔‘‘ (معارف القرآن: جلد اول، ص۱۲۱)
رہا صحابہ کے درمیان، معاشی تفاوت اور تفاضل، تو اسے اب یہ کہہ کر ردّ کردیا گیا کہ جب قرآن، قُلِ الْعَفْوَ کے حکم کی بنا پر کسی کے پاس فاضلہ دولت رہنے ہی نہیں دیتا او راپنی ’زائد از ضرورت دولت‘ سے ہر ایک کو دست کش ہونا پڑتا ہے، تو پھر وہ تمام روایاتِ تاریخ جو صحابہ کے معاشی تفاضل و برتری کا ذکر کرتی ہیں، قرآن سے متصادم ہوجاتی ہیں؛ لہٰذا
’’جب بھی قرآن کے کسی بیان اورعہد ِمحمد رسول اللہﷺ والذین معہ کی تاریخ کے کسی واقعہ میں تضاد نظر آئے تو قرآن کے بیان کو صحیح اور تاریخ کے واقعہ کو غلط قرار دینا چاہئے۔‘‘ (جولائی ۵۹ئ،ص ۱۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اور اسے اسی کثرت سے طلوعِ اسلام میں بتکرار دہرایا گیا کہ تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا !!
اب سوال پیدا ہوا کہ کیا عہد ِنبوی میں زمین پر شخصی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا تھا؟ کیونکہ ’نظامِ ربوبیت‘ کے نفاذ کی راہ میں اس سوال سے سابقہ پیش آنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے قرآن کی ورق گردانی شروع ہوئی۔ نگاہ مطلب جو، سورۃ الرعد اور سورۃ الانبیاء کی ان دو آیات پر ٹکی جن کے الفاظ ایک جیسے ہیں۔ اگرچہ ان سے زمین کی شخصی ملکیت کا خاتمہ تو ثابت نہ ہوسکا، البتہ خدع و فریب کے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اوّل مرحلے پر ’زمینی ملکیتوں کی حد بندی‘ کشید کر ڈالی گئی۔ دونوں آیات مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :
( اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْ تِیْ الاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا) (۴۱؍۱۴) ’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان (ظالموں) پر ہر طرف سے زمین تنگ کرتے چلے آرہے ہیں۔‘‘اور ( اَفَلاَ يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الارْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغَالِبُوْنَ) ( ۴۴؍۲۱)
’’کیا یہ کفار نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تمام سمتوں سے ان پر تنگ کرتے چلے آرہے ہیں، کیا وہ غالب ہوں گے؟‘‘
آپ یقینا حیران ہوں گے کہ آیت میں تو ’رقبہ ہائے اراضی کی حد بندی‘ کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہے، پھر آخر اس سے یہ مطلب کیسے نچوڑ لیا گیا؟ لیکن اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؛ مفکر ِقرآن، لغت ہائے حجازی کے قارون بھی ہیں، اس قارونی خزانے سے وہ خود فائدہ نہ اُٹھائیں تو اور کون اٹھائے گا۔ لغوی موشگافیوں کے نتیجہ میں آیت کا ترجمہ وہ نہیں رہ گیا جو اوپر درج ہے، بلکہ اس کا ترجمہ یوں قرار پایا :
’’کیا یہ لوگ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم کس طرح زمین کے رقبوں کو جاگیرداروں کی ملکیت سے کم کرتے جاتے ہیں…‘‘ (۴۱؍۱۴)(نظامِ ربوبیت: ص۴۰۰)
’’سورۃ الانبیاء میں کہا ہے کہ انہیں اور ان کے آباء و اجداد کو زمین متاعِ حیات حاصل کرنے کے لئے ملی تھی۔ اس پر زمانہ گزر گیا تو انہوں نے اس پر قبضہ مخالفانہ جما لیا۔ اب ہم آہستہ آہستہ اسے ان کے ہاتھوں سے نکال رہے ہیں۔ ہمارے اس پروگرام کی تکمیل ہو کر رہے گی۔ یہ ہمیں مغلوب نہیں کرسکیں گے۔‘‘ (شاہکارِ رسالت: ص ۳۴۵)
میں اگر پرویز صاحب کے اس تحریفی کارنامے کی قلعی کھولنے کے لئے لغوی اور صرفی و نحوی طور پر اغلاط پرویز کو واضح کروں تو اس کا فائدہ نہیں، کیونکہ ’مفکر ِقرآن‘ کو خوش نصیبی سے ایسے اندھے عقیدت مند میسر آئے ہیں جو ان کے ہر تحریفی کارنامے کو ایسا ’علمی نکتہ‘ قرار دیتے ہیں، جس پر ’ملا‘ نے اب تک پردے ڈال رکھے تھے۔ اس لئے میں بغیر کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے، ان ہی آیات کے وہ صحیح تراجم پیش کئے دیتا ہوں جو سابقہ دور میں خود انہوں نے کئے تھے :
(اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِیْ الارْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا وَاللّٰهُ يَحْکُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُکْمِهٖ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ) (۴۱؍۱۳)
’’پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں؟ اسے اطراف سے گھٹا کر (ظالموں پر) اس کی وسعت تنگ کر رہے ہیں، اور جو فیصلہ اللہ کرتاہے کوئی نہیں جو اسے ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔‘‘ (معارف القرآن: جلد اوّل، ص۴۷۴)
( بَلْ مَتَّعْنَا هٰؤلآَءِ وَاٰبَاءَ هُمْ حَتّٰی طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ اَفَلاَ يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِیْ الاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغَالِبُوْنَ) (۴۴؍۲۱)
’’اصل یہ ہے کہ ہم نے انہیں او ران کے باپ دادوں کو (فوائد ِزندگی سے) بہرہ ور ہونے کے موقعے دیے۔یہاں تک کہ (خوش حالیوں کی سرشاری میں) ان کی بڑی بڑی عمریں گزر گئیں (اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے) مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں؟ پھر کیا وہ (اس مقابلہ میں) غالب ہو رہے ہیں؟‘‘ (معارف القرآن: جلد سوم، ص۶۶۳)
الغرض، پرویز صاحب کے تضادات و تناقضات کو کہاں تک بیان کیا جائے ۔ ع

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے !​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جس طرح قرآن کے عجائبات کی کوئی حد تک نہیں، اسی طرح جناب پرویز صاحب کے تضادات کی کوئی انتہا نہیں !!
’مفکر ِقرآن‘ کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ ہر وہ چیز، جو ان کے مزعومات کے خلاف ہو، وہ اسے خلافِ قرآن قرار دے کر، اپنے قاری کو تذبذب کے گرد و غبار میں ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کردیتے ہیں جہاں اسے ’قرآنی‘ یا ’غیر قرآنی‘ راستے میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بغیر اس کے کہ وہ سوچ بھی سکے کہ جسے ’قرآنی راستہ‘ کہا جارہا ہے۔ وہ فی الواقعہ قرآنی راستہ ہے بھی یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی ’شیطان‘ نے یونہی اس پر ’قرآنی راستہ‘ کا سائن بورڈ آویزاں کر دیا ہو تاکہ بندگانِ خدا کو اپنے جہنم میں لے جائے ؛ ٹھیک اس تکنیک پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، وہ پہلے یہ وعظ فرماتے ہیں:
’’قرآن کا دعویٰ ہے کہ(وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلاَفًا کَثِيْرًا) (۸۲؍۴) ’’ اگر قرآن، اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔‘‘ بالفاظِ دیگر قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں… اس نے اپنے نزول کا مقصد یہ بتایا ہے کہ (وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ الِاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ) (۶۴؍۱۶) ’’اس کتاب کو نازل ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے ہیں، انہیں نمایاں طور پر واضح کیا جائے۔‘‘ …ا س نے مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْیٍٔ فَحُکْمُهٗ اِلَی اللّٰهِ) (۱۰؍۴۲) ’’جس بات میں بھی تم میں اختلاف ہوجائے، اس کا فیصلہ اللہ کی کتاب (کتاب نہیں بلکہ وحی…قاسمی) سے کرا لیا کرو۔‘‘ (اگست۵۹ئ:ص۶)
پھر اس وعظ کی اگلی خوراک، بایں الفاظ دی جاتی ہے :
’’اب ظاہر ہے کہ جس کتاب کا اپنے متعلق یہ دعویٰ ہو، اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اختلافات مٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، دو میں سے ایک بات کو ثابت کردیتا ہے یعنی
(۱) یا تو یہ کہ اس کتاب کا (معاذ اللہ) دعویٰ غلط ہے اور یا یہ کہ
(۲) ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں۔‘‘
پھر اس وعظ کی آخری خوراک کے ذریعہ، تلاشِ حق کے مسافر کے ذہن میں ، جو متذبذب کھڑا ہے یہ نتیجہ اِلقا کیا جاتاہے :
’’پہلی بات تو کوئی مسلمان (ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے) کبھی تسلیم نہیں کرسکتا، لہٰذا بات دوسری ہی ہے یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق چلنے کے باوجود اختلافات نہیں مٹ سکتے، وہ جھوٹ بولتے ہیں اور قرآن پر بہتان باندھتے ہیں بلکہ اس کے منزل من اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘ (اگست۵۹ئ:ص۶)
حالانکہ ان دو شقوں کے علاوہ ایک تیسری شق بھی ہے یعنی یہ کہ… ’’قرآن کا جو مفہوم آپ نے بیان کیاہے، وہ غلط ہو؛ اور اختلاف اسی مفہوم کی وجہ سے لازم آتا ہو‘‘… او راصل حقیقت بھی یہی ہے۔
تعبیراتِ قرآنیہ کے یہ وہ اختلافات ہیں، جو دوگروہوں کی طرف سے نہیں بلکہ اہل قرآن کے صرف ایک فرقہ کے قائد کی طرف سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتے رہے ہیں۔ اور یہ بھی چند ایک بطورِ نمونہ مشتے از خروارے ہیں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر ان حقائق پر غور کرے گا، اسے یہ حقیقت پا لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ پرویز صاحب کی ساری زندگی تضادات کا مجموعہ ہے۔ اگر ان کے جملہ تضادات کو یکجا کیا جائے تو اچھی خاصی ضخیم کتاب مرتب ہوجائے گی (اور فی الواقعہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں ’پرویز صاحب کا تضاد اتی اسلام‘ کے عنوان سے ایسا کر ہی دوں)۔ ان تضادات سے آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ان کا آج کا قرآن ، ۱۹۴۷ء سے قبل کے قرآن سے کس قدر مختلف ہے۔
قرآن تو جبرئیل ؑ لایا، مگر اس کی مراد و مقصود کو طے کرنے کا معاملہ درپیش ہوا تو شیطان نے اپنے کرتب دکھائے، اور دیکھنے والوں نے دیکھاکہ قرآن بازیچہ اطفال بنا، زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آئے، حرفِ شیریں کی تعبیر و تفسیر، پرویزی حیلوں کے ہتھّے چڑھ گئی۔ جبرئیل ؑ و ابلیس میں آنکھوں ہی آنکھوں میںکچھ اشارے ہو رہے تھے۔ زمین اس بدبختی پر روتی تھی، تقدیر ہنستی تھی، پرویزی ہتھکنڈوں نے کتاب اللہ کو تضادات کاایسا پلندہ بنا دیا کہ ہر بہرے کو یہ سنائی دینے لگا اور ہر اندھے کویہ دکھائی دینے لگا کہ پرویز کا آج کا قرآن کل کے قرآن سے کس قدر مختلف ہے اور پھر
جھوٹ بھی اورتحدی و تعلّی بھی !
کس قدر جرأت اور دیدہ دلیری کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتاہے کہ
’’میں نے جو کچھ ۱۹۳۸ء میں کہا تھا، ۱۹۸۰ء میں بھی وہی کچھ کہتا ہوں کیونکہ یہ قرآنی حقائق پر مبنی ہے اور قرآنی حقائق ابدی اور غیر متبدل ہیں… قرآن کو حجت اور سند ماننے والے کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ آج کچھ کہہ دے اور کل کچھ اور ۔ قرآن کا متبع، نہ مداہنت کرسکتاہے، اور نہ کسی سے مفاہمت۔‘‘ (دسمبر۸۰ئ:ص ۶۰)
اور پھر بڑے فخر سے اشعارِ اقبال کا خود کو مصداق بناکر پیش کیا جاتا ہے:
کہتا ہوں وہی بات، سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہ ٔ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بیں و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دما دند
(ماہنامہ طلوعِ اسلام: دسمبر۸۰ء ص ۶۰)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پھر بات صرف اتنی ہی نہیں کہ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب عمر بھر مختلف اور متضاد تعبیریں کرتے رہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں ( جیسا کہ اوپر کے اقتباس سے بھی واضح ہے) کہ ان کی جملہ کتب میں کوئی تضاد و تناقض پایا ہی نہیں جاتا، گویا جس طرح قرآن اختلاف سے بالاتر ہے، اس طرح پرویزی تعبیرات بھی تضاد سے مبرا ہیں، کس قدر تحدی، تعلّی اور پندارِ نفس سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ
’’طلوعِ اسلام ۱۹۳۸ء میںجاری ہوا، اور تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۸ء سے اب تک مسلسل اور متواتر پابندی ٔوقت کے ساتھ جاری رہا۔ قرآنی رہنمائی اور علم انسانی کی روشنی میں زمانے کے تقاضوں اور حالاتِ حاضرہ کاجائزہ لینا اس کا مشن ہے۔اس کی اشاعتوں کے انبار میں سے آپ کوئی سے دو پرچے اُٹھا لیجئے؛ جہاں تک قرآنی فکر کا تعلق ہے، آپ کو اس میں کوئی تضاد، کوئی تخالف نہیں ملے گا یہ اس لئے کہ قرآنِ کریم کی رو سے اس کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، کوئی اختلاف نہیں۔ اس لئے جو کچھ قرآنی رہنمائی میں کہا جائے گا، اس میں بھی کوئی تضاد و تخالف نہ ہوگا۔‘‘ (جولائی۸۴ئ: ص ۳۳)
سبحان اللہ!
کیا کہنے، ’مفکر قرآن‘کی تعبیرات کے! کس قدر، ان کی شان بلند ہے کہ قرآن ہی کی طرح، اختلاف سے بالاتر ہیں۔ احادیث ِرسول میں اختلافات ہیں مگر تعبیراتِ پرویز، مبرا از اختلافات ہیں۔ نبی ؐ تو اپنی تیئس(۲۳) سالہ پیغمبرانہ زندگی میں (معاذ اللہ) قرآن کی تشریح و تبیین کرتے ہوئے اختلافات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ مگر پرویز صاحب نے عمر بھر جو قرآنی تعبیرات پیش کی ہیں، ان میں نہ تضاد ہے نہ تخالف۔ رسولِ خداﷺ معصوم ہو کر بھی (معاذ اللہ) تبیین قرآن میں تضادات سے نہ بچ سکے مگر پرویز صاحب غیر معصوم ہو کر قرآنی تشریحات میں تضاد سے محفوظ رہے: (يَا لَيْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ کُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا)

دھڑکنا بند کر اے دل، نظر کے نور گم ہو جا
وہ بے غیرت ہے جو اس دور کے شام و سحر دیکھے !
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علمائِ کرام کے خلاف تعلّیاتِ پرویز
آخر پرویز صاحب کے ان تضادات و تناقضات کا کوئی کہاں تک تعاقب کرے؟ علما کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی خدمت کی روش سے ہٹ کر پرویز صاحب کے تضادات کے خار زار میں آبلہ پائی کریں۔ لیکن علماء کرام کی یہ روش خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے ہو، اس سے شیطان کواس بات کا موقع مل گیا کہ ’مفکر ِقرآن‘کی پیٹھ پر تھپکی دے کر اسے اس زعم باطل میں مبتلا کردے، کہ ’’تمہارے ’دلائل‘ کا جواب،کسی سے بن پڑ ہی نہیں سکتا‘‘ پھر ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ پندار نفس، غرور، علم اور عزت الاثم کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے ، بتکرار یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ
’’ملا کے پاس نہ علم ہوتا ہے، نہ بصیرت؛ نہ دلائل ہوتے ہیں نہ براہین‘‘ (۵ فروری ۱۹۵۵ء ص۴)
’’ان کے پاس طلوعِ اسلام کے دلائل کا کوئی جواب نہ تھا، ا س لئے انہوں نے اس سلسلہ میں وہی ٹیکنیک اختیار کی جو ہامانیت کا بنیادی خاصہ ہے یعنی انہوں نے پراپیگنڈہ شروع کردیا، کہ طلوعِ اسلام منکر ِسنت ہے، منکر ِشانِ رسالت ہے۔‘‘ (مئی ۷۲ئ: ص ۲۸)
طلوعِ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹے کو جھوٹا، خائن کو خائن، منافق کو منافق اور ’منکر حدیث‘ کو ’منکر حدیث‘ نہ کہا جائے کہ یہ ’اخلاقاً‘ بری بات ہے اور ’خلافِ

تہذیب‘ ہے۔ کیا خوب کہا تھا اکبر
الٰہ آبادی نے کسی ایسے ہی موقع پر

مغوی کو برا مت کہو ترغیب ہے یہ
میں کس سے کہوں نفس کی تخریب ہے یہ

شیطان کو رحیم کہہ دیا تھا اِک دن!
اک شور اٹھا خلافِ تہذیب ہے یہ
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ ہے، تعلیاتِ پرویز کا سلسلہ جاری ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’مولوی صاحبان کے پاس ا س کا کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی تو ’طلوعِ اسلام‘ کو ’ منکر ِسنت‘ قرار دے دیا جائے اور پرویز صاحب کے خلاف کفر کے فتوے لگا دیے۔‘‘ (جون۷۳ئ: ص ۱۲)
’’ا س کے (پرویز صاحب… قاسمی) اعتراضات کا ان کے (علما کے …قاسمی) پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ اس کے لئے انہوں نے اپنا دیرینہ حربہ استعمال کیا یعنی اسے ’منکر ِحدیث‘ قرار دے کر اس کے خلاف کفر کے فتوے صادر کردیے۔‘‘ (جولائی۸۴ئ:ص ۵۷)
پرویز نے اپنے خلاف علماء کے فتوے کو تو خوب اُچھالا ہے کہ انہوں نے اسے منکر ِسنت قرار دیا تھا۔ لیکن خود انہوں نے علماء کے خلاف… بلکہ اپنے گروہ کے سوا، باقی سب کے خلاف… منکر ِقرآن ہونے کا جو فتویٰ دیا تھا، اس کی کبھی ایسی تشہیر نہیں کی۔ چنانچہ کارل مارکس کی ’اشتراکیت‘ پر جب قرآن کا ٹھپہ لگا کر ’نظامِ ربوبیت‘ کے نام سے پیش کیا تو اس وقت فرمایا :
’’لیکن اس آواز کی مخالفت، تمام منکرین قرآن کی طرف سے ہوگی۔‘‘ (نومبر۵۲ئ: ص ۸)
’’…ظاہر ہے کہ اس جواب کے بعد نہ قرآن ہی قابل یقین رہتا ہے نہ احادیث اور یہی منکرین قرآن کا مقصود تھا۔‘‘ (نومبر۵۲ئ: ص ۶۶)
یتیم پوتے کی میراث کی بحث میں، مولانا مودودی پر خاص طور پر منکر ِقرآن کا فتویٰ لگاتے ہوئے، ان کا اقتباس پیش کرنے سے قبل، یہ لکھا کہ
’’طلوعِ اسلام نے اپنی سابقہ اشاعت میں قرآنی دلائل سے ثابت کیا کہ یتیم پوتا اپنے دادا کی وراثت سے محروم نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں منکرین قرآن کی طرف سے جو جواب شائع ہوا وہ ملاحظہ فرمائیے…‘‘ (اکتوبر۵۲ئ: ص ۵۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پرویز کی تعبیرات…احکامِ قرآن میں
حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآنی الفاظ و آیات میں اپنے طبع زاد مفاہیم و تصورات گھسیڑا کرتے تھے، اور پھر ان خود ساختہ قرآنی تعبیرات کو ردّ و قبول کا معیار قرار دیا کرتے تھے، حالانکہ آیات والفاظِ قرآن تو واقعی منزل من اللہ ہیں، لیکن انسانی تعبیراتِ قرآنیہ منزل من اللہ نہیں بلکہ بشری تشریح کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ بات خود پرویز صاحب کو مسلم تھی :
’’دین میں حجت، قرآنِ کریم کا متن ہے، نہ کہ کسی انسان کی تشریح، تفسیر یا تعبیر۔‘‘ (اگست۶۸ئ:ص ۳۰)
اب ظاہر ہے کہ علما اگر پرویز صاحب کی تعبیر کا انکار کرتے ہیں تو وہ ایک انسان کی تعبیر قرآن کا انکار کرتے ہیں نہ کہ نفس قرآن کا۔ لیکن ’مفکر ِقرآن‘ اپنے آپ کو ایسے بلند مقام پر فائز سمجھتے تھے کہ اگر کوئی ان کی تعبیر کا انکار کرتا تو وہ اسے قرآن کا منکر اور مخالف قرار دیا کرتے تھے۔
’’میں بلاتشبیہ اور بلا تمثیل عرض کرنے کی جرات کروں گا کہ یہ لوگ میری مخالفت نہیں کرتے، کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘ (دسمبر۷۸ئ: ص ۵۲)
وہ اپنے جی سے مفہوم گھڑ کر منسوب الی القرآن کیا کرتے تھے اور پھر اسے ’قرآنی معیار‘ قرار دے کر یہ کہا کرتے تھے کہ
’’ہمارا مقصد صرف قرآنی حقائق بیان کرنا ہے، ا س سے اگر کسی مروّجہ عقیدے یا کسی کے دعوے پرزَد پڑتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس باب میں مدعی قرآن ہے، ہمارا فریضہ قرآن کے دعاوی کو پیش کرنا ہے اور بس…‘‘ (جنوری۸۵ئ: ص ۲۱)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اتباعِ پرویز اور تضاداتِ پرویز
پرویز صاحب کے ان تعبیری تضادات کو دیکھئے اور پھر داد دیجئے۔ پرویز صاحب کے اندھے مقلدین کو جو یہ شور مچایا کرتے تھے کہ
’’پرویز صاحب کی تحریروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ نہ کبھی پرانی ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں کہیں تضاد واقع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں، قرآنِ کریم کی روشنی میں لکھتے ہیں اور قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس کے حقائق کبھی پرانے نہیں ہوتے، نہ ہی ان میں کسی قسم کا تضاد و تخالف ہے۔‘‘ (فروری ۸۳ئ: ص ۲۶)
اس سے اندازہ کر لیجئے کہ پرویز صاحب کے واضح،صاف، بین اور چمکتے ہوئے تضادات کے وجود کا صریح انکار، مقلدین ِپرویز کی فکری صلاحیتوں کو کس قدر مفلوج کر چکا ہے۔ وہ پرویز صاحب کو قرآن میں ایسی اتھارٹی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی متضاد و متخالف تعبیرات میں سے جس تعبیر کو بھی مختلف اوقات میںپیش کیا، اس قومِ ’عمون‘ نے اسے من و عن قبول کر لیا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی متضاد اور متناقض تحریروں کی بنا پر کسی تحریر سے، انہوں نے اختلاف کیا ہو۔
پرویز صاحب نے کہاکہ ’’اشتراکیت شخصی ملکیت کی قائل نہیں جبکہ اسلام اس کا قائل ہے۔‘‘ سعادت مند مقلدین نے کہا: ’’اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا‘‘ پھر کہا کہ ’’اسلام میں شخصی ملکیت کا کوئی وجود نہیں۔‘‘ شاگردانِ نیک بخت نے کہا ’’بالکل درست‘‘… مفکر ِقرآن نے کہا کہ ’’قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) دیت اور عفو کے تینوں پہلو موجود ہیں‘‘ پیروکاروں نے کہا ’’بجا ارشاد فرمایا‘‘ پھر پینترا بدل کر کہاکہ ’’قتل عمد کی سزا صرف قتل ہے، رہے عفو اور دیت کے پہلو، تو ان کا تعلق قتل عمد سے ہے ہی نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’درست فرمایا‘‘… مفکر قرآن نے کہا کہ ’’اسلام میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ امر واقعہ ہے‘‘ یہ بولے ’’أحسنت ومرحبا‘‘ پھر ا س کے برعکس یہ کہا: ’’یہ ڈھائی فیصد زکوٰۃ تو عجمی اسلام کی سازش کے ذریعہ اُمت ِمسلمہ کے گلے مڑھ دی گئی ہے، بھلا اسلام کا اس سے کیا تعلق؟‘‘ فکر و شعور سے عاری قوم نے کہا ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ … الغرض، مفکر ِقرآن عمر بھر جس متناقض قول کوبھی پیش کرتے رہے، مفلوج الفکر مقلدین نے ہر مقام پر یہی کہا :

سرتسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے!​

حرام اور قطعی حرام! …جو یہ لوگ کبھی ایک مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ پرویز صاحب ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ:
’’قرآن کو سند اور حجت ماننے والا تو ساری عمر میں دو متضاد باتیں بھی قرآن کی سند سے نہیں کہہ سکتا۔‘‘ (اپریل۶۷ئ:ص ۵۸)
اور دوسری طرف وہ ساری عمر، قرآن کا نام لے کر تضادات کا خارزار ہی پیدا کرتے رہے، لیکن سوچے تو وہ جس کی فکر میں صحت اور سلامتی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو۔ یہ تو بس بھیڑوں کی قطار ہے جو برسوں سے اس رستے پر چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چل نکلی تھی:
( کَمَثَلِ الَّذِیْ يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ اِلاَّ دُعَاءً ا وَّنِدَاءً ا)(البقرۃ: ۱۷۱)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’مفکر ِقرآن‘ کی خوش قسمتی :
کیسا خوش قسمت تھا وہ ’مفکر ِقرآن‘ جسے اس قسم کے پیروکار میسر آگئے جو لب و دہن اور گوش و بصر بند کرکے اس کے پیچھے، اس کی وفات کے بعد بھی اسی طرح چلتے جارہے ہیں جیسے شعرا کے پیچھے ’غاوون‘ کی ٹولی بھٹکا کرتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک نادر شاہی مطالبہ
گذشتہ بحث سے یہ واضح ہے کہ پرویز صاحب مختلف اوقات میں قرآن کی مختلف اور متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ پھر اس پر خود ’مفکر ِقرآن‘ کا یہ نادر شاہی مطالبہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ
’’جہاں تک عہد ِرسالت اور خلافت ِراشدہ کے دور کا تعلق ہے، ہمیں چاہئے تھا کہ اس تاریخ کو قرآ نِ مجید کی کسوٹی پر پرکھتے۔ جو واقعات اس کے مطابق ہوتے انہیں قبول کر لیتے، جو اس کے خلاف جاتے، انہیں وضعی قرار دے کر مسترد کردیتے۔ یہ اس لئے کہ (خود قرآن مجید کی شہادت کی رو سے) ان حضرت کی زندگی، قرآن کے قالب میں ڈھلی ہوئی تھی، اور وہی ان کی سیرت کی تاریخ کا معیار قرار پاسکتاتھا؛ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔‘‘ (نومبر۸۰ئ: ص ۶۰)
اب غور فرمائیے کہ پرویز خود تو ساری عمر، قرآن کی متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی کس تعبیر کو حتمی معیار قرار دے کر احادیث اور تاریخ کی روایات کو پرکھا جائے؟ فرض کیجئے کہ آج انہوں نے ایک تعبیر پیش کی، ’محققین‘کا ایک بہت بڑا گروہ اس تعبیر کی اساس پر، روایات، احادیث و تاریخ کو کھنگالنے کا کام شروع کردیتا ہے، وہ ابھی اس ’کارِخیر‘ سے فارغ ہوا یا نہیں کہ ’مفکر ِقرآن‘ کی فضاء ِدماغی میں خیال کا نیا جھکڑ آیا، اور اس کے ساتھ ہی پہلی تعبیر بھی مرغِ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اب اس دوسری تعبیر کے مطابق، روایات کی چھان بین کا سلسلہ از سر نو پھر آغاز پذیرہوا۔ ابھی یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا کہ نہیں، مگر یہ خبر آگئی کہ
’مفکر ِقرآن‘کی دوسری تعبیر بھی ترمیم کا نشانہ بن گئی۔ اب تیسری تعبیر کے مطابق، پھر نئے سرے سے، جانچ پڑتال کا یہ سلسلہ شروع ہوگا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ’مفکر قرآن‘ کے صحرائِ دماغی میں خیالات کی آندھیاں چلتی رہیں گی۔
یہ ہے وہ مقامِ عالی مرتبت جو ’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے اپنے لئے اختیار کر رکھا تھا، کہ تاریخ اور احادیث کی روایات، دست بستہ، ان کے حضور کھڑی رہیں او رپرویز صاحب ہر بدلتی تعبیر کے مطابق ان کی صحت اور عدمِ صحت کا فیصلہ فرماتے رہیں اور ان کی تعبیر کے تغیر پر لازم ہے کہ ہر چیز بدل جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصۂ بحث
ہماری یہ بحث اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ اگرچہ الفاظِ قرآن متفق علیہ ہیں مگر ان کی تعبیرات میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ احادیث کے اختلاف کی آڑ میں، ان سے جان چھڑا کر جو لوگ تنہا قرآن کا نعرہ لگا رہے ہیں، وہ خود بھی قرآن کی کسی ایک تعبیر پر متفق نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ خود ’مفکر ِقرآن‘ بھی مختلف اوقات میں متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ اب اگر قرآن تعبیراتی اختلاف کے باوجود سند و حجت بن سکتا ہے تو سنت ِنبویہ کیوں نہیں بن سکتی؟ منکرین ِحدیث، قرآن کے متن اور الفاظ کے متفق علیہ ہونے پر جو زور دیتے ہیں، تو یہ محض پانی میں مدھانی چلانے کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ عملی زندگی میں جو چیز مطلوب ہے وہ متن ِقرآن یالفاظِ قرآن نہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو متن یاالفاظ سے حاصل کیا جاتا ہے، اگر اس مفہوم میں ا ختلاف ہو تو خود سوچئے کہ الفاظِ قرآن کا متفق علیہ اور سند و حجت ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ لہٰذا منکرین ِسنت کا یہ موقف ہی غلط ہے کہ ’’دستورِ حیات، صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اختلاف سے بالاتر ہو۔‘‘ مولانا مودودیؒ نے ڈاکٹر عبدالودود سے قلمی مناظرہ کے دوران اسی بات کو بایں الفاظ بیان کیا تھا اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب اس کا کوئی جواب نہ دے پائے تھے :
’’ ڈاکٹر صاحب خود فرما رہے ہیں کہ ’’تعبیر ایک انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لئے حجت اور سند نہیں ہوسکتا۔‘‘ …اس صورت میں تو لامحالہ الفاظ ہی حجت اور سند رہ جاتے ہیں اور معنی میں اختلاف ہوجانے کے بعد ، ان کا حجت و سند ہونا لاحاصل ہوجاتا ہے۔کیونکہ عملاً جو چیز نافذ ہوتی ہے، وہ کتاب کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے وہ معنی ہوتے ہیں جنہیںکسی شخص نے الفاظ سے سمجھا ہو۔ اس لئے میں نے دوسرے خط میں ان سے عرض کیا تھا کہ پہلے آپ اپنے اس نقطہ نظر کو بدلیں کہ ’’آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہوسکے۔‘‘ اس کے بعد جس طرح یہ بات طے ہوسکتی ہے کہ قرآنِ مجید بجائے خود اساسِ آئین ہو، اور اس کی مختلف تعبیرات میں سے، وہ تعبیر نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کے نزدیک اَقرب الی الصواب قرار پائے۔ اسی طرح یہ بات بھی طے ہوسکتی ہے کہ سنت کو بجائے خود اساسِ آئین مانا جائے اورمعاملات میں عملاً وہ سنت نافذ ہو جو کسی بااختیارادارے کی تحقیق میں سنت ِثابتہ قرار پائے۔
جس طرح قرآن کے الفاظ کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تعبیر کے اختلافات کا سارا چکر صرف الفاظِ قرآن ہی کے حدود میںگھوم سکے گا، ان کے دائرے سے باہر نہ جاسکے گا۔ اسی طرح سنت کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں اپنے عمل کے لئے، انہی ہدایات و تعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جو رسول اللہﷺسے ماثور ہیں او رہم کوئی آزادانہ قانون سازی، اس وقت تک نہ کرسکیں گے جب تک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں مسئلے میں کوئی سنت ثابت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سی بات ماننے میں آخر کیادِقت ہے؟

وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین​
 
Top