کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
پرویز صاحب کے سابقہ معاشی تصورات:
ایک زمانہ تھا، جب پرویز صاحب ابھی کارل مارکس کی ترتیب دی ہوئی معاشی فکر، سوشلزم یا کمیونزم کے اسیر ِزلف نہیں ہوئے تھے۔ وہ اگر قرآن پر غور بھی کرتے تھے تو ان کی آنکھوں پر بہرحال اشتراکیت کی عینک نہیں تھی۔ اس لئے وہ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان ’ذہنی تحفظات‘کا خیال نہیں کیا کرتے تھے جو بعد میں اشتراکیت کے رنگ میں مصبوغ ہونے کے بعد، اب ان کے قلب و ذہن میں راسخ ہوگئے تھے اور جن کا لحاظ کرنا ان کی مجبوری بن گیا تھا۔ نظامِ ربوبیت کا نقشہ، ذہن پرویز کی کارگاہ میں، بہت بعد میں تراشا گیا۔ ۱۹۴۷ء سے قبل پرویز صاحب کو اگر ان کی تحریروں کے آئینے میں دیکھاجائے تو وہ واضح طور پر مال و دولت اور زمین کی شخصی ملکیت کے قائل تھے۔ پھر ہر شخص کے معاشی حالات کے تنوع اور ان کی اکتسابی صلاحیتوں میں تفاوت کی بنا پر وہ تفاضل فی الرزق کے بھی قائل تھے۔ بالاوپست معاشی طبقات میں وہ اہل ثروت پر اسلام کی طرف سے عائد ہونے والی ڈھائی فیصد زکوۃ کے بھی معترف بلکہ مُعلن تھے۔ صدقہ و خیرات اور قانونِ میراث کے متعلق بھی وہ اس با ت کے مقر تھے کہ یہ دائمی اور مستقل احکام ہیں نہ کہ عبوری دور کے احکام ہیں جو وقتی یا ہنگامی صورتحال میں دیئے گئے ہوں۔ قُلِ الْعَفْوَ کے دو الفاظ کی بنیاد پر آج اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگا کر جس ’نظام ربوبیت‘ کا کریملین تعمیر کیا گیا ہے، ان دنوں ان الفاظ کا مفہوم، آج کے مفہوم سے قطعی مختلف تھا، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :
اشتراکیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے کبھی پرویز صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ
’’اشتراکیت، ذاتی اور انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن اسلام ہر شخص کی کمائی کو اس کی ذاتی ملکیت قرار دیتا ہے۔ زمانۂ ظہورِ اسلام میں جائیداد و املاک عموماً مویشیوں کی شکل میںتھیں، ان کے متعلق فرمایا:
یہی حال، ترکہ اور وراثت کے احکام کا ہے جس پر ذاتی ملکیت کی (غیر) موجودگی میںعمل ہو ہی نہیں سکتا، حکم ہے:
سورئہ توبہ میں ہے:{خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً}اس آیت میں صدقہ سے کیا مرا دہے ؟ علما کے نزدیک مراد ’زکوٰۃ‘ ہے۔ آج ’مفکر ِقرآن‘ جناب پرویز صاحب، اس کی تردید کرتے ہیں، مگر ایک زمانہ تھاکہ وہ خود بھی اس سے زکوٰۃ ہی مراد لیا کرتے تھے :
ایک زمانہ تھا، جب پرویز صاحب ابھی کارل مارکس کی ترتیب دی ہوئی معاشی فکر، سوشلزم یا کمیونزم کے اسیر ِزلف نہیں ہوئے تھے۔ وہ اگر قرآن پر غور بھی کرتے تھے تو ان کی آنکھوں پر بہرحال اشتراکیت کی عینک نہیں تھی۔ اس لئے وہ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان ’ذہنی تحفظات‘کا خیال نہیں کیا کرتے تھے جو بعد میں اشتراکیت کے رنگ میں مصبوغ ہونے کے بعد، اب ان کے قلب و ذہن میں راسخ ہوگئے تھے اور جن کا لحاظ کرنا ان کی مجبوری بن گیا تھا۔ نظامِ ربوبیت کا نقشہ، ذہن پرویز کی کارگاہ میں، بہت بعد میں تراشا گیا۔ ۱۹۴۷ء سے قبل پرویز صاحب کو اگر ان کی تحریروں کے آئینے میں دیکھاجائے تو وہ واضح طور پر مال و دولت اور زمین کی شخصی ملکیت کے قائل تھے۔ پھر ہر شخص کے معاشی حالات کے تنوع اور ان کی اکتسابی صلاحیتوں میں تفاوت کی بنا پر وہ تفاضل فی الرزق کے بھی قائل تھے۔ بالاوپست معاشی طبقات میں وہ اہل ثروت پر اسلام کی طرف سے عائد ہونے والی ڈھائی فیصد زکوۃ کے بھی معترف بلکہ مُعلن تھے۔ صدقہ و خیرات اور قانونِ میراث کے متعلق بھی وہ اس با ت کے مقر تھے کہ یہ دائمی اور مستقل احکام ہیں نہ کہ عبوری دور کے احکام ہیں جو وقتی یا ہنگامی صورتحال میں دیئے گئے ہوں۔ قُلِ الْعَفْوَ کے دو الفاظ کی بنیاد پر آج اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگا کر جس ’نظام ربوبیت‘ کا کریملین تعمیر کیا گیا ہے، ان دنوں ان الفاظ کا مفہوم، آج کے مفہوم سے قطعی مختلف تھا، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :
اشتراکیت اور اسلام کا موازنہ کرتے ہوئے کبھی پرویز صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ
’’اشتراکیت، ذاتی اور انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن اسلام ہر شخص کی کمائی کو اس کی ذاتی ملکیت قرار دیتا ہے۔ زمانۂ ظہورِ اسلام میں جائیداد و املاک عموماً مویشیوں کی شکل میںتھیں، ان کے متعلق فرمایا:
… جب خدا کی بنائی ہوئی چیزیں، انسان کی ملکیت ہوسکتی ہیں تو انسان کی اپنی کمائی اور مصنوعات تو یقینا اس کی ملکیت ہوں گی، ارشاد ہے:(اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَا اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِکُوْنَ) ’’کیا ان لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے ان کے لئے دست ِقدرت سے مویشی پید ا کئے ہیں جن کے یہ لوگ مالک ہیں‘‘
اشتراکیت کے اُصولِ نفی ملکیت سے اسلام کا معاشی، تمدنی اور عمرانی ہر قسم کا نظام منہدم ہوجاتاہے۔ قرآن میں ہے(لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ) ’’جو مرد کمائیں، وہ مردوں کا حصہ ہے اور جو عورتیں کمائیں، وہ عورتوں کا حصہ ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ ان حقوق کی ادائیگی، اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کوئی چیز کسی کی ملکیت میں ہو اگر ہر چیز غیر کی ملکیت میں ہو اور کمانے والے کو صرف اس کی ضرورت کے مطابق حصہ ملے تو وہ دوسروں کے حقوق کیسے ادا کرسکتا ہے۔(وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا) ’’قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اور محتاج اور مسافر کو بھی، مال کو بے موقع نہ اڑانا۔‘‘
یہی حال، ترکہ اور وراثت کے احکام کا ہے جس پر ذاتی ملکیت کی (غیر) موجودگی میںعمل ہو ہی نہیں سکتا، حکم ہے:
(اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ)(۲۶۷؍۲) ’’اپنی کمائی میں سے عمدہ چیز کو خرچ کرو‘‘ میں مَا کَسَبْتُمْ سے مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ تم کھاتے ہو، وہ تمہاری ملکیت ہے۔‘‘ (جولائی ۳۹،ص ۶۰)(وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالاَ ْقَرَبُوْنَ وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُکُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ) ’’ ہر ایسے مال کے لئے جسے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جائیں ہم نے وارث مقرر کردیئے ہیں او رجن لوگوں سے تمہارے عہد بندھے ہوئے ہیں، ان کو ان کا حصہ دو۔‘‘ (ماہنامہ طلوع اسلام: جولائی ۳۹ئ، ص ۵۹تاـ۵۷ )
سورئہ توبہ میں ہے:{خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً}اس آیت میں صدقہ سے کیا مرا دہے ؟ علما کے نزدیک مراد ’زکوٰۃ‘ ہے۔ آج ’مفکر ِقرآن‘ جناب پرویز صاحب، اس کی تردید کرتے ہیں، مگر ایک زمانہ تھاکہ وہ خود بھی اس سے زکوٰۃ ہی مراد لیا کرتے تھے :
اس زمانہ میں قُلِ الْعَفْوَ کے معنی وہ نہیں تھے جو آج بیان کئے جاتے ہیں۔ آج تو اس کا مفہوم یہ بیان کیا جاتاہے کہ ’’زائد از ضرورت‘ سب مال کا انفاق کر ڈالو‘‘ لیکن اُس زمانہ، سارا مال خرچ کرنا کیا معنی، انفاق کا سرے سے یہ معنی ہی نہ تھا جو آج کیا جاتا ہے، یعنی ’کھلا رکھنا‘۔ دنیا میں ایسی ڈکشنری، اس وقت شائع ہی نہ ہوئی تھی، جو انفاق بمعنی ’کھلا رکھنا‘ واضح کرے :’’اشتراکیت کے حامی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی کا سرمایہ جائیداد، کمائی، وِرثہ سب کچھ حکومت لے لے، تو یہ انفاق کی وہ حد ہے جس سے بڑھ کر قربانی اور ایثار کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی،لیکن اسلامی انفاق، جو (تقویٰ پر مبنی ہے) اور اس قسم کے جبر میں بڑا فرق ہے، اسلام نے بھی ایک ٹیکس (زکوٰۃ) مقرر کیا ہے جو بہرحال وصول کیا جاتاہے:(جولائی۳۹ئ:ص ۶۱)(خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ)(۱۰۳؍۹) ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے کہ اس سے یہ ظاہر و باطن میں پاک ہوجائیں گے اور پھر ان کے لئے دعا کیجئے۔‘‘
جمع شدہ یا بچی ہوئی رقم پر، ڈھائی فیصد زکوٰۃ جس کا آج پرویز صاحب مذاق اُڑاتے ہیں، کسی زمانے میں وہ خود نہ صرف یہ کہ اس کے معترف تھے، بلکہ جزیہ پر اعتراض کرنے والے غیر مسلموں کو وہ زکوٰۃ ہی کے حوالے سے جواب دیا کرتے تھے :’’لیکن ساتھ ہی، اس نے خیرات کا حکم بھی دیا ہے جس میں جبر و اکراہ کو دخل نہیں:(جولائی۳۹ئ:ص ۶۱)(يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ، قُلِ الْعَفْوَ)(۲۱۹؍۲) ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔‘‘
ذاتی ملکیت کا اُصول، جب افرادِ معاشرہ کی متفاوت اکتسابی صلاحیتوں کے ساتھ مقرون ہوتا ہے تو تفاضل فی الرزق ایک لازمی نتیجہ کے طور پر واقع ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی، کسی زمانہ میں پرویز صاحب کو مسلم تھی، چنانچہ وہ فرماتے ہیں :’’سب سے بڑا الزام جزیہ کے متعلق عائد کیا جاتا ہے اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ غیر مسلم رعایا سے یہ ’جرمانہ‘ ان کے مسلمان نہ ہونے کے جرم کی بنا پر وصول کیا جاتا تھا حالانکہ اس کی حقیقت بالکل جداگانہ ہے۔ مسلمانوں کو اپنی آمدنی (آمدنی نہیں بلکہ بچت…قاسمی) کا چالیسیواں حصہ حکومت کوادا کرنا پڑتا تھا اور اس کے علاوہ ہر قسم کی فوجی خدمت بھی ان کے ذمہ تھی۔ غیر مسلم رعایا جو ان کے زیر حکومت رہتی تھی، ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمان حکومت پر لازم تھی، وہ فوجی خدمت سے مستثنیٰ تھے۔ اگر ان سے اس حفاظت کے اخراجات کی مد میں کچھ وصول کر لیا جائے جو مسلمانوں کی زکوٰۃ سے بھی کم تھا تو اس میں اندھیر کیا ہے؟ عورتیں، بچے، بوڑھے، اپاہج اور مذہبی رہنما اس سے مستثنیٰ تھے۔
اور پھر اس جزیہ کی مقدار کتنی تھی؟ معمولی حیثیت والے سے ۱۲ عہ سالانہ، متوسط درجے والے سے ۸عہ اور اس سے آگے خواہ کوئی کروڑ پتی ہو، زیادہ سے زیادہ ۱۲؍ روپے سالانہ ، حالانکہ ایک کروڑ پتی مسلمان سے کم از کم اڑھائی لاکھ روپے سالانہ بطورِ زکوۃ وصول کیا جائے گا۔ صدقات و خیرات اس کے علاوہ ہوں گے اور اس مالی قربانی کے ساتھ ساتھ جب ضرورت لاحق ہوگی تو یہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں بھی شریک ہوگا اور ذِمی رعایا کے مال، جان، مذہب، معابد کی حفاظت کرے گا یعنی ایک ذِمی رئیس، بارہ روپیہ ادا کرکے نہایت اطمینان سے اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا اور اسی حیثیت کا ایک مسلمان اڑھائی لاکھ روپیہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اسی ذِمی کے محافظ کی حیثیت سے میدانِ کارزار میں دشمن کی شمشیر و سناں کا مقابلہ بھی کرے گا۔ دشمن کی گولیاں ہوں گی او رمسلمانوں کا سینہ جو غیرمسلم رعایا کی حفاظت کے لئے سپر کا کام دے گا۔
مسلمانوں سے پیشتر ساسانیوں نے عیسائی رعایا پر جو ٹیکس لگا رکھا تھا، وہ ساسانی رعایا سے دگنا تھا اور اس کے جواز میں شاہ ساپردوم نے کہا تھا کہ لڑائی ہمیں لڑنی پڑتی ہے اور یہ مزے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ دُگنا کیوں نہ دیں۔‘‘ (جون۳۹ئ:ص ۴۸)
قرآنی تعلیمات کی اساس پر صحابہ کا جو اوّلین معاشرہ وجود میں آیا، خود اس معاشرے میں بھی افراد کے درمیان معاشی تفاوت موجود تھا، اس پر پرویز صاحب کی بہت سی تحریریں گواہ ہیں :’’قرآن کی رو سے ایک دوسرے پر رِزق میں فضیلت جائز ہے:اور وہ غلام اورآزاد میں یہی فرق بتاتا ہے کہ آزاد اپنی محنت کے ماحصل کا مالک ہوتاہے، غلام کو اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا :(وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضِ فِیْ الرِّزْقِ) (۷۱؍۱۶) ’’اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ رزق فضیلت دی ہے‘‘… رِزق میں مختلف مدارج اسلئے ضروری ہیںکہ دنیا کا کاروبار چل ہی اس انداز سے سکتا ہے، تقسیم عمل کے لئے اختلافِ مدارج لاینفک ہے:(ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لاَ يَقْدِرُعَلٰی شَيْیٍٔ وَمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًا) ’’ اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے، ایک غلام ہے، دوسرے کی ملک؛ وہ خود کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا، اور ایک دوسرا آدمی ہے جسے ہم نے اپنے فضل سے نہایت عمدہ روزی دے رکھی ہے۔ وہ ظاہر پوشیدہ جس طرح چاہتا ہے، اسے خرچ کرتاہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘(معارف القرآن، جلد اول ،ص۱۲۱)(نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيْشَتَهُمْ فِیْ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا)’’دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ہم ہی تقسیم کرتے ہیں اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔‘‘
غزوئہ تبوک کے موقع پر صحابہ کے جیش العُسرۃ کی تیاری میں، ان کے معاشی تفاوت و تفاضل کی کیفیت بالکل اُجاگر ہوجاتی ہے :’’مالی تفوق کے اعتبار سے خود دورِ صحابہ میں بھی مختلف طبقات موجود تھے۔ حضرت زبیر بن العوامؓ کے کاروبار میں ایک ہزار مزدور روزانہ کام کرتے تھے۔ حضرت طلحہؓ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینار تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی تجارتی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ان کا قافلہ مدینہ میں آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف اشیائِ خوردنی لد رہی تھیں، لیکن مسلمانوں میں ان ہستیوں کا نام اگر آج تک صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ ان کی دولت وثروت نہیں، بلکہ ان کا وہ ایمان، تقویٰ، اعمالِ صالحہ، ایثار و قربانی ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے انہوں نے بطورِ نمونہ کے یادگار چھوڑا ہے۔ انہی متمول صحابہ کے ساتھ ساتھ اصحابِ صفہ جیسے مفلوک الحال حضرات کا نام بھی آج تک مسلمانوں کیلئے باعث ِافزائش ِایمان و عمل ہے۔ ‘‘(جولائی ۳۹ئ:ص ۶۹)
ذہنی تغیر کا دورِ پرویز :ان سب اُمور کے اعتراف کے بعد پرویز صاحب پر ایک دوسرا دور بھی آیا جب وہ شاہراہِ اسلام پر سے پھسل کر اشتراکیت کے گڑھے میں گرتے ہیں، تو اس گندے کیڑے کی طرح جو غلاظت میں پلنے اور نشوونما پانے کے باعث، تعفن اور بدبو ہی کو اپنی فطری فضا سمجھ لیتا ہے، اب وہ اسی اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگاکر ’نظامِ ربوبیت‘ کے نام سے پیش کرتے ہیں جسے کبھی وہ اسلام کے منافی قرار دیا کرتے تھے۔ اب قرآن کی ہر آیت کا مفہوم بدلنا شروع ہوجاتا ہے اور ہر اصطلاحِ قرآن بلحاظِ مفہوم متغیر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ الغرض اشتراکیت کی عینک جب ’مفکر ِقرآن‘ کے کانوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کی ناک پر سوار ہوجاتی ہے تو قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ کی ہر چیز ایک دوسرے ہی رنگ میں نظر آتی ہے۔ اشتراکیت کے بچھڑے کی محبت، جب قلب و دماغ میں رَچ بس جاتی ہے تو محاورئہ عرب کے نام پر قرآنی مفردات میں کس طرح نئے مفاہیم ٹھونسے جاتے ہیں اور آیات اللہ میں کس طرح نئی تعبیرات گھسیٹری جاتی ہیں اور تاریخ کے مسلمہ واقعات کو کس طرح پایۂ حقارت سے ٹھکرایا جاتا ہے، اسے درج ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے :’’یہ معرکہ، اخلاص و منافقت کی امتحان گاہ تھا چنانچہ ایک طرف صحابہ کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ کسی کے پاس تھا، لے کر حاضر ہوگیا۔ حضرت عثمان ؓ نے نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے چالیس ہزار درہم دیئے۔ حضرت عمرؓ کئی ہزار روپے کا نقد و جنس لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓاپنے گھر میں اللہ اور رسولؐ کی محبت کے سوا کچھ بھی چھوڑ کر نہ آئے۔ حضرت ابوعقیل انصاریؓ نے دوسیر چھوہارے لاکر حاضر کردیئے اور عرض کیا کہ رات بھر کسی کے کھیت پر مزدوری کرکے چار سیر چھوہارے حاصل کئے تھے، دوسیر بال بچوں کو دے آیا ہوں اور دوسیر خدمت ِاقدس میں حاضر ہیں۔‘‘ (معارف القرآن:جلد چہارم، ص۵۸۰)
پرویز صاحب کے ذہنی پلٹائو کے ساتھ ہی دنیا میں پہلی ڈکشنری چھپ گئی جس میں، انفاق کا معنی ’خرچ کرنا‘ نہیں بلکہ ’کھلا رکھنا‘ بیان کیا گیا اور اسی طرح ’’العفو‘‘ کا مفہوم بھی ذہنی تغیر کے ساتھ ہی تبدیل ہوگیا۔ پرویز صاحب کے سابقہ دور میں مفہوم آیت کیا تھا؟ یہ بھی دیکھ لیجئے :’’صحیح نظامِ زندگی یہ ہے کہ تم اکتسابِ رزق کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کرو، اور اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق رکھ لو اور باقی سب دوسروں کی پرورش کے لئے عام کردو۔‘‘
( ’اسلام کیا ہے؟‘ ص ۱۴۵)(يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ) (۲۱۹؍۲) ’’تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کس قدر دوسروں کے لئے ’کھلا رکھیں‘؟ ان سے کہہ دو کہ جس قدر تمہاری ضرورت سے زائد ہے، سب کا سب۔‘‘
قُلِ الْعَفْوَ کے جدید مفہوم کی اساس پر نظامِ ربوبیت، جو اشتراکیت ہی کا ’قرآنی ایڈیشن‘ ہے، کی عمارت استوار کی گئی۔ اب ’زائد از ضرورت‘ مال و دولت کی موجودگی بھی خلافِ قرآن قرار پا گئی اور زمین کی شخصی ملکیت بھی، نہ صرف خلافِ قرآن ، بلکہ کفر وشرک قرار پاگئی :(جولائی۳۹ئ:ص۶۱)(يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ) (۲۱۹؍۲) ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجئے کہ جتنا آسان ہو۔‘‘
اب وہ آیات جو تفاضل فی ا لرزق پردلالت کرتی ہیں، ان کا مفہوم بھی بدل گیا۔ مثلاً آیت (۷۱؍۱۶) کے ابتدائی جملہ کا ترجمہ اب یہ قرار پایا :’’قرآنِ کریم کی رو سے زمین (وسائل پیداوار) پر ذاتی ملکیت کا تصور ہی باطل اور شرک کے مترادف ہے۔‘‘ (مئی ۶۸ئ: ص ۱۷)
جبکہ سابقہ دورِ پرویز میں ان الفاظ کا ترجمہ یہ تھا…(وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِیْ الرِّزْقِ…)(۷۱؍۱۶) ’’مختلف افراد میں، اکتسابی استعداد کا تفاوت، خدا کی طرف سے ہے (تمہارا اپنا پیدا کردہ نہیں)۔ ‘‘ (نظامِ ربوبیت: ص۱۳۲)
رہا صحابہ کے درمیان، معاشی تفاوت اور تفاضل، تو اسے اب یہ کہہ کر ردّ کردیا گیا کہ جب قرآن، قُلِ الْعَفْوَ کے حکم کی بنا پر کسی کے پاس فاضلہ دولت رہنے ہی نہیں دیتا او راپنی ’زائد از ضرورت دولت‘ سے ہر ایک کو دست کش ہونا پڑتا ہے، تو پھر وہ تمام روایاتِ تاریخ جو صحابہ کے معاشی تفاضل و برتری کا ذکر کرتی ہیں، قرآن سے متصادم ہوجاتی ہیں؛ لہٰذا’’اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ روزی کے برتری دی ہے۔‘‘ (معارف القرآن: جلد اول، ص۱۲۱)
’’جب بھی قرآن کے کسی بیان اورعہد ِمحمد رسول اللہﷺ والذین معہ کی تاریخ کے کسی واقعہ میں تضاد نظر آئے تو قرآن کے بیان کو صحیح اور تاریخ کے واقعہ کو غلط قرار دینا چاہئے۔‘‘ (جولائی ۵۹ئ،ص ۱۲)