کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
مثالِ اوّل
قرآن عائلی زندگی میں جو اَحکام و ہدایات دیتا ہے، ان میں آیت (۳۴؍۴) کا یہ حصہ بھی شامل ہے
’’سورۃ النساء میں
قرآن کی یہ تعبیر جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ لیکن اسی سال اکتوبر میں قرآن کی یہی تعبیر محتاج ترمیم قرار پاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب شوہر، بیوی کو صر ف وعظ و نصیحت ہی کرسکتا ہے لہٰذا وہ صرف فَعِظُوْھُنَّ ہی کے حکم کا مخاطب ہے۔ رہے باقی دو احکام (بیویوں کو خوابگاہوں میں چھوڑ دینا او رانہیں مارنا پیٹنا) تو اب ان کا اختیار شوہر کو نہیں رہا، بلکہ وہ حکامِ عدالت کی طرف منتقل ہوگیا۔
قرآن عائلی زندگی میں جو اَحکام و ہدایات دیتا ہے، ان میں آیت (۳۴؍۴) کا یہ حصہ بھی شامل ہے
اس آیت میں بصورتِ نشوز عورتوں کی بابت تین احکام ہیں :(وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا)(النسائ: ۳۴)
’’جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں سمجھائو، خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ مطیع فرماں ہوجائیں تو ان پر زیادتی کی راہ نہ تلاش کرو۔‘‘
سوال یہ ہے کہ ان تینوں احکام کے مخاطب کون ہیں؟ پرویز صاحب نے اس کے مختلف اوقات میں مختلف جوابات دیئے ہیں۔ جنوری ۱۹۴۹ء میں، ان تینوں احکام کا مخاطب شوہروں کو قرار دیا گیا :۱۔ انہیں سمجھائو، نصیحت کرو فَعِظُوْ هُنَّ
۲۔خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دو وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ
۳۔انہیں مارو پیٹو وَاضْرِبُوْ هُنَّ
’’سورۃ النساء میں
تو ان کے متعلق کیا کرو؟ یہ نہیں کہ محض اس اندیشہ کی بنا پر ( یا ان کی کسی حرکت سے غصہ میں آکر) فوری تعلقات منقطع کر لو بلکہ’’فَعِظُوْهُنَّ‘‘ انہیں نرمی اور محبت سے سمجھائو، اگر وہ اس پر بھی سرکشی سے باز نہ آئیں تو(وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ)’’جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو‘‘
ذرا غور کرو، سلیم! اگر عورت نیک سرشت اور شریف النفس ہوگی تو اس کے لئے یہ تنبیہ بہت کافی ہوگی۔ لیکن اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ وہ اس پر بھی سرکشی سے نہ رکے، تو اس کی بھی اجازت ہے کہ ان پر سختی کی جائے۔ واضربوهن (تم انہیں مار بھی سکتے ہو)۔‘‘ (جنوری ۴۹ئ: ص ۶۷)وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ’’خوابگاہوں میں ان سے الگ رہنے لگو۔‘‘
قرآن کی یہ تعبیر جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ لیکن اسی سال اکتوبر میں قرآن کی یہی تعبیر محتاج ترمیم قرار پاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب شوہر، بیوی کو صر ف وعظ و نصیحت ہی کرسکتا ہے لہٰذا وہ صرف فَعِظُوْھُنَّ ہی کے حکم کا مخاطب ہے۔ رہے باقی دو احکام (بیویوں کو خوابگاہوں میں چھوڑ دینا او رانہیں مارنا پیٹنا) تو اب ان کا اختیار شوہر کو نہیں رہا، بلکہ وہ حکامِ عدالت کی طرف منتقل ہوگیا۔
۱۹۵۷ء میں اس آیت کی ایک ایسی جدید تعبیر سامنے آتی ہے، جس کے نتیجے میں ان تینوں احکام میں سے کسی ایک حکم کا مخاطب بھی شوہر نہیں رہتا اور تینوں اُمور کے کلی اختیارات ’معاشرہ‘ کوحاصل ہوجاتے ہیں اور یوں قرآن کی ’اسلامی تہذیب‘ اور مغرب کی مادّی مدنیت باہم گلے مل جاتی ہیں :(وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ) (۳۴؍۴) ’’ جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا ڈر ہو، تو اس کے لئے تو سب سے پہلے باہمی افہام وتفہیم سے صلح صفائی کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر معاملہ اس سے نہ سلجھے تو پھربات حکام تک جائے گی، اب فیصلہ وہاں سے صادر ہوگا۔ عورت کا جرم ثابت ہوگیا تو ہلکی سزا تو یہ ہے کہ اسے ایک معینہ مدت کے لئے خاوند سے الگ کردیا جائے اور انتہائی صورت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے بدنی سزا دی جائے۔‘‘ (اکتوبر ۴۹ئ: ص ۹۲)
یہ ہیں طلوعِ اسلام کی قرآنی تعبیرات جو وقتاًفوقتاً مگر زندگی بھر بدلتی رہی ہیں۔ بہرحال پرویز صاحب تھے تو سوچنے والے شخص، فضائے د ماغ میں خیال کا ایک نیا جھونکا آیا تو ’قرآنی تعبیر‘ بھی مرغ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اس تغیر و تبدل کی رفتار کبھی سست ہوجاتی اور کبھی تیز، اتنی تیز کہ دو ٹکے کی جنتری تو سال بعد بدلتی ہے، مگر ’مفکر قرآن‘ کی تعبیر قرآن سال میں دو مرتبہ بھی تبدیل ہوجاتی۔’’آپ نے غور فرمایا کہ اس پہلے مرحلہ میں بھی قرآنِ کریم نے معاشرہ کے لئے تین مرحلے رکھے ہیں: اول انہیں چاہئے کہ وہ نصیحت اور سمجھا بجھا کر حالات کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر اس کے بعد بھی حالات درست نہ ہوں تو پھر شوہر کو وہ ہدایت کریں کہ وہ اپنی بیوی کو خواب گاہ میں تنہا چھوڑ دے اور اس سے الگ الگ رہے، اگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو پھر عدالت اگرضروری سمجھے تو بیوی کو جسمانی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اگراس کے بعد وہ راہ پر آجائیں تو پھر ان میں مزید کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (فروری۵۷ئ:ص۴۳)