• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرین ِحدیث

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ اوّل
قرآن عائلی زندگی میں جو اَحکام و ہدایات دیتا ہے، ان میں آیت (۳۴؍۴) کا یہ حصہ بھی شامل ہے
(وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا)(النسائ: ۳۴)
’’جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں سمجھائو، خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ مطیع فرماں ہوجائیں تو ان پر زیادتی کی راہ نہ تلاش کرو۔‘‘
اس آیت میں بصورتِ نشوز عورتوں کی بابت تین احکام ہیں :
۱۔ انہیں سمجھائو، نصیحت کرو فَعِظُوْ هُنَّ
۲۔خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دو وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ
۳۔انہیں مارو پیٹو وَاضْرِبُوْ هُنَّ
سوال یہ ہے کہ ان تینوں احکام کے مخاطب کون ہیں؟ پرویز صاحب نے اس کے مختلف اوقات میں مختلف جوابات دیئے ہیں۔ جنوری ۱۹۴۹ء میں، ان تینوں احکام کا مخاطب شوہروں کو قرار دیا گیا :
’’سورۃ النساء میں
(وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ)’’جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو‘‘
تو ان کے متعلق کیا کرو؟ یہ نہیں کہ محض اس اندیشہ کی بنا پر ( یا ان کی کسی حرکت سے غصہ میں آکر) فوری تعلقات منقطع کر لو بلکہ’’فَعِظُوْهُنَّ‘‘ انہیں نرمی اور محبت سے سمجھائو، اگر وہ اس پر بھی سرکشی سے باز نہ آئیں تو
وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ’’خوابگاہوں میں ان سے الگ رہنے لگو۔‘‘
ذرا غور کرو، سلیم! اگر عورت نیک سرشت اور شریف النفس ہوگی تو اس کے لئے یہ تنبیہ بہت کافی ہوگی۔ لیکن اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ وہ اس پر بھی سرکشی سے نہ رکے، تو اس کی بھی اجازت ہے کہ ان پر سختی کی جائے۔ واضربوهن (تم انہیں مار بھی سکتے ہو)۔‘‘ (جنوری ۴۹ئ: ص ۶۷)
قرآن کی یہ تعبیر جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ لیکن اسی سال اکتوبر میں قرآن کی یہی تعبیر محتاج ترمیم قرار پاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب شوہر، بیوی کو صر ف وعظ و نصیحت ہی کرسکتا ہے لہٰذا وہ صرف فَعِظُوْھُنَّ ہی کے حکم کا مخاطب ہے۔ رہے باقی دو احکام (بیویوں کو خوابگاہوں میں چھوڑ دینا او رانہیں مارنا پیٹنا) تو اب ان کا اختیار شوہر کو نہیں رہا، بلکہ وہ حکامِ عدالت کی طرف منتقل ہوگیا۔
(وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ) (۳۴؍۴) ’’ جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا ڈر ہو، تو اس کے لئے تو سب سے پہلے باہمی افہام وتفہیم سے صلح صفائی کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر معاملہ اس سے نہ سلجھے تو پھربات حکام تک جائے گی، اب فیصلہ وہاں سے صادر ہوگا۔ عورت کا جرم ثابت ہوگیا تو ہلکی سزا تو یہ ہے کہ اسے ایک معینہ مدت کے لئے خاوند سے الگ کردیا جائے اور انتہائی صورت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے بدنی سزا دی جائے۔‘‘ (اکتوبر ۴۹ئ: ص ۹۲)
۱۹۵۷ء میں اس آیت کی ایک ایسی جدید تعبیر سامنے آتی ہے، جس کے نتیجے میں ان تینوں احکام میں سے کسی ایک حکم کا مخاطب بھی شوہر نہیں رہتا اور تینوں اُمور کے کلی اختیارات ’معاشرہ‘ کوحاصل ہوجاتے ہیں اور یوں قرآن کی ’اسلامی تہذیب‘ اور مغرب کی مادّی مدنیت باہم گلے مل جاتی ہیں :
’’آپ نے غور فرمایا کہ اس پہلے مرحلہ میں بھی قرآنِ کریم نے معاشرہ کے لئے تین مرحلے رکھے ہیں: اول انہیں چاہئے کہ وہ نصیحت اور سمجھا بجھا کر حالات کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر اس کے بعد بھی حالات درست نہ ہوں تو پھر شوہر کو وہ ہدایت کریں کہ وہ اپنی بیوی کو خواب گاہ میں تنہا چھوڑ دے اور اس سے الگ الگ رہے، اگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو پھر عدالت اگرضروری سمجھے تو بیوی کو جسمانی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اگراس کے بعد وہ راہ پر آجائیں تو پھر ان میں مزید کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (فروری۵۷ئ:ص۴۳)
یہ ہیں طلوعِ اسلام کی قرآنی تعبیرات جو وقتاًفوقتاً مگر زندگی بھر بدلتی رہی ہیں۔ بہرحال پرویز صاحب تھے تو سوچنے والے شخص، فضائے د ماغ میں خیال کا ایک نیا جھونکا آیا تو ’قرآنی تعبیر‘ بھی مرغ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اس تغیر و تبدل کی رفتار کبھی سست ہوجاتی اور کبھی تیز، اتنی تیز کہ دو ٹکے کی جنتری تو سال بعد بدلتی ہے، مگر ’مفکر قرآن‘ کی تعبیر قرآن سال میں دو مرتبہ بھی تبدیل ہوجاتی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ ثانی
سورۃ العنکبوت کی درج ذیل آیت مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :
(اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ) (۵۱؍۲۹) ’’اور کیا ان لوگوں کے لئے یہ کافی نہیںہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔‘‘
اس آیت کی ایک تعبیر و تشریح، جناب پرویز صاحب نے ان الفاظ میں پیش کی ہے :
’’کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے معجزے کیوں نہیں نازل ہوتے۔ کہہ دو کہ معجزے تو خدا کے پاس ہیں، میں تو صرف تمہیں تمہاری غلط روش سے کھلم کھلا آگاہ کرنے والا ہوں، کیا یہ قرآن بذاتِ خود معجزہ نہیں جو تم اور معجزے مانگتے ہو :
(اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ) (۵۱؍۲۹) ’’کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں کہ تم پر کتاب نازل کی گئی ہے جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔‘‘
(اگست۶۶ئ:ص۴۰)
اس تعبیر کے مطابق قرآن کے کافی ہونے کو بطورِ معجزہ اور نشانی کے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اگلے ہی سال پرویز صاحب ایک نئی تعبیر پیش کرتے ہیںجس کے مطابق قرآن کی کفایت بطورِ معجزہ اور نشانی ہونے کی بجائے بطورِ ضابطہ حیات اور سرچشمہ قانون ہونا قرار پاتی ہے اوریہ نئی تعبیر حدیث و سنت سے جان چھڑانے کے لئے گھڑی گئی۔ سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ نئی تعبیر قطعی بے جوڑ ہے جبکہ پہلی تعبیر سیاق وسباق کے بالکل مطابق ہے :
’’دنیا میں اسلامی حکومت وہی صاحب ِعزیمت قائم کرسکے گا جس میں یہ کہنے کی جرأت ہو کہ ’’ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔‘‘ یہی وہ جواب تھا جو خدا کی طرف سے اسلامی نظام کے مخالفین کو دیا گیا جب اس نے کہا تھا
(اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ)’’کیا یہ بات ان کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے (اے رسولؐ) تجھ پر کتاب نازل کی جسے ان پر پیش کیا جارہا ہے۔‘‘
(جون۶۷ئ: ص۲۱)
ایک اور مقام پر اسی تعبیر کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے :
’’اپریل ۱۹۴۳ء کا ذکر ہے کہ صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے قائداعظم سے ایک پیغام کے لئے درخواست کی۔ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’تم نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہیں پیغام دوں، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے، جو ہماری رہنمائی اور بصیرت افروزی کے لئے کافی ہے، وہ پیغام ہے خدا کی عظیم کتاب قرآنِ کریم (تقاریر، جلد اول، ص۵۱۶) … یہ پیغام خود خدا نے حضور نبی ﷺکرم ا کی لسانِ مبارک سے دیا تھا جب کہا تھا
کہ(اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ) (۵۱؍۲۹)
’’کیا یہ چیز ان کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو نازل کیا ہے جسے ان کے سامنے پیش کیاجارہا ہے۔‘‘
(اپریل۷۷ئ:ص۱۶)
۱۹۶۷ء تک آیت کی تعبیر یہ تھی کہ وہ کفار کے مطالبہ معجزہ کے جواب میں انہیں یہ اعلان کر رہی تھی کہ ’’کیا یہ کتاب جو تم پر پڑھ کر سنائی جارہی ہے، بطورِ معجزہ تمہارے لئے کافی نہیں ہے۔‘‘ لیکن پھر اس کے بعد تعبیر آیت یہ ٹھہری کہ حدیث و سنت اور اُسوہ ٔ رسول کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہدایت و رہنمائی کے لئے یہی کتاب کافی ہے۔
یہ نت نئی بدلتی تعبیریں، اس قرآن سے پیش کی جاتی ہیں جسے بڑی بلند آہنگی کے ساتھ، رافع اختلاف اور مزیل انتشار قرار دیا جاتا ہے؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر قرآن کے معاملہ میں ذہن ِپرویز مداری کی ایسی پٹاری ہے، جس سے جب جیسی اور جو چاہی تعبیر نکال کر پیش کردی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ ثالث
قرآنِ کریم نے حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق سورۃ العنکبوت کی آیت ۱۴ میں بیان کیا ہے کہ
(وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلَی قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا) ’’ہم نے نوح ؑکو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان پچاس کم ایک ہزار سال رہا۔‘‘
اس آیت کے متعلق پرویز صاحب عمر نوحؑ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’دورِ حاضر کے انسان کے لئے جو سو سوا سو سال کے عمر کے آدمیوں کو دور دور سے دیکھنے کے لئے آتا ہے اور نہایت حیرت و استعجاب سے ان سے اس درازیٔ عمر کے راز دریافت کرتا ہے، اتنی لمبی عمر بمشکل باور کئے جانے کے قابل ہے (اس وجہ سے بعض حضرات عامًا ’سال‘ سے مراد ’مہینے‘ لینے پر مجبور ہو رہے ہیں)۔ لیکن حضرت نوح ؑ، آدم ؑ سے دسویں پشت میں آئے ہیں اور ان کے تمام اسلاف کی عمریں، آٹھ آٹھ ، نو نو سوسال کی لکھی ہیں۔
لہٰذا ایک ایسے بعید ترین زمانے میں جب ہنوز انسان کے اعصاب دورِ حاضر کی برق آگیں تمدن اور رعد آمیز فضا کے مہلک اثرات کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اسے ارضی و سماوی آفات کے مقابلے کے لئے قوی ہیکل جسم اور فولادی عضلات عطا کئے گئے تھے، اتنی لمبی لمبی عمریں کچھ باعث ِتعجب نہیں ہوسکتیں۔‘‘ (معارف القرآن: جلددوم، ص۳۷۶)
’’چین کے مشہور مذہب (Taoism)’’جس کا تفصیلی تعارف، دیگر مذاہب ِعالم کے سلسلہ میں جلد سوم، باب ظہر الفساد میں کیا جائے گا۔‘‘ کا ایک بہت بڑا مبلغ اور رِشی (Kwang) (جس کی پیدائش چوتھی صدی ق م کی ہے) اپنی چوتھی کتاب میں سمجھاتا ہے کہ عمر بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ
’’میں بارہ سو سال سے اسی طریق کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہوں اور اس پر بھی میرا جسم روبہ انحطاط نہیں۔‘‘
(Sacred Books of the East, (Taoism) Translated by James Legge. (p.225) (معارف القرآن، جلد دوم، حاشیہ ص ۳۷۷)
لیکن جب معارف القرآ ن جلد دوم کو ’جوئے نور‘ میں تبدیل کیا گیا تو اس آیت کی تعبیر بھی بدل گئی، لغت کے اس قارون کی طول طویل لغوی موشگافیوں اور دور خیز سخن سازیوں کے نتیجہ میں ’عمر نوحؑ‘ بڑی مختصر ہوگئی… کیسے؟ ملاحظہ فرمائیے :
’’عربی لغت میں سَنَۃً کا اطلاق ’فصل‘ پر بھی ہوتا ہے جو سال میں چار ہوتی ہیں یعنی چار فصلوں کا ایک سال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے أَلْفَ سَنَةٍکے معنی ہوں گے کہ ، اڑھائی سو سال اور عَام پورے سال کو کہتے ہیں۔ اس لئے اگر خَمْسِیْنَ عَامًا کو اس میں سے منہاکردیا جائے تو باقی دو سو سال رہ جاتے ہیں اور اتنی عمر کچھ ایسی مستبعد نہیں۔‘‘ (جوئے نور، ص۳۴)
غور فرمائیے، پرویز صاحب کی آج کی اور کل کی تعبیر میں کتنا فرق ہے۔ کل ان کے لئے ساڑھے نو سو سال کی عمر باعث ِتعجب نہ تھی، بلکہ وہ بارہ بارہ سو سال کی عمر کے لوگوں کے حوالے تلاش کرکے لوگوں کے حیرت و استعجاب کاازالہ کیا کرتے تھے، لیکن آج دماغ کا رنگ بدلا، تو ساتھ ہی ’تعبیر قرآن‘ بدل گئی۔ یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعہ پرویز صاحب کو ہر بات کا جواب قرآن سے مل جایا کرتا تھا، سچی بات ہے کہ
’’جب کوئی قرآن کو مسخ کرنے پر اُترآئے تو اُسے اس سے اپنی کون سی مصلحت کی سند نہیں مل سکتی …؟‘‘ (اکتوبر۷۹ئ:ص۱۳ )
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ رابع
قرآنِ کریم میں قومِ نوح کا انجام بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے
( فَکَذَّبُوْهُ فَاَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِیْ الْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا إِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ) (الاعراف:۶۴)
’’پس انہوں نے اسے جھٹلا دیا تو ہم نے اسے اور جو کشتی میں اس کے ساتھ تھے، ان سب کو بچا لیا اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، انہیں ہم نے غرق کردیا۔ یہ تھے ہی اندھی قوم۔‘‘
اب سوال پیدا ہوتا کہ قوم نوح کا یہ انجام ان کے تکذیب ِحق اور غلط اخلاقی اعمال کا نتیجہ تھا؟ یا محض طبعی حوادث کا؟ … ۱۹۴۵ئ کو ان کا موقف یہ تھا :
’’قومِ نوح کی غرقابی کے واقعہ پر سرسری مؤرخانہ نگاہ صرف اتنا بتا سکے گی کہ پانی کا بلا انگیز طوفان آیا اور (سوائے ان لوگوں کے جو کشتی میں سوار تھے) سب غرق ہوگئے۔ ان کی بستیاں نذرِ سیلاب ہوگئیں۔ سارے علاقے میں کوئی متنفس باقی نہ رہا۔ جہاں اس شدت کا سیلاب آتا ہے ایساہی ہوتا ہے … لیکن قرآنِ کریم زاویۂ فکرو نظر کو کسی اور طرف بدل دیتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ قومِ نوح نے دعوتِ حق و صداقت کی تکذیب کی اور ان کے جرائم کی پاداش میں ان کا استہلاک ہوا۔‘‘ (معارف القرآن: جلد دوم، ص۳۷۰)
یہ ’تعبیر قرآن‘قبل از قیامِ پاکستان تھی، قیام پاکستان کے بعد ’نئے تقاضوں‘ کے لئے ظاہر تھا کہ’نئی تعبیر‘ درکار تھی۔ چنانچہ آزاد فضائوں میں قومِ نوح کا انجام بھی اخلاقی عنصر سے آزاد ہوگیا :
’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حوادث ان کی بداعمالیوں کا نتیجہ تھے یا انہیں ان کی تباہی کا موجب بنا دیا گیا تھا؟ اس کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ آج بھی زلزلے آتے ہیں، آتش فشاں پہاڑ پھٹتے ہیں، سیلاب بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کردیتے ہیں، آندھیوں کے طوفان چلتی ہوئی ریل گاڑیوں کو اُٹھا کر دریائوں میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واقعہ ہے کہ یہ حوادث کسی قوم کی بدعملیوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔‘‘ ( جوئے نور، ص۲۹)
’’یہ حوادث، نہ تو کسی قوم کے غلط اخلاقی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان سے صرف بداعمال لوگ تباہ ہوتے ہیں۔‘‘ (جوئے نور، ص۲۹)
اس نئی تعبیر کا ایک ایک لفظ قرآن کی بیان کردہ حقیقت سے ٹکراتا ہے۔ محولہ بالاآیت، اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ قومِ نوح کی غرقابی تکذیب ِحق کا نتیجہ تھی۔(اَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا) کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ عذابِ خداوندی کا نشانہ وہی لوگ بنے تھے جنہوں نے حق کی نشانیوں کو جھٹلا دیا تھا۔ اب رہے وہ لوگ جو قبولِ حق کرچکے تھے، تو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے بچا لیا : (فَاَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِیْ الْفُلْکِ)۔ یہاں چوہدری غلام احمد پرویز کو اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہوگیا ہے اور بے چارہ قاری حیران وپریشان کھڑ ا سوچ رہا ہے کہ وہ کس کی بات مانے؟ مُنَزِّلِ قرآن کی؟ یا مفکر ِقرآن کی؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ خامس
قرآنِ کریم میں حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے تذکارِ جلیلہ میں یہ آیت بھی وارد ہوئی ہے :
(وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ) (النمل:۱۶)
’’حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت دائود (علیہ السلام) کے وارث بنے اور کہا : ’’اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔‘‘
یہ ترجمہ بھی پرویز صاحب ہی کا دیا گیا ہے ، جو معارف القرآن جلد سوم ص۴۰۵ پر درج ہے۔ اس میں (عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ) کی تعبیر یہ کی گئی ہے کہ
’’ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔‘‘
انہی الفاظ کا ترجمہ، برقِ طور ص۲۵۳ پر بایں الفاظ کیا گیا ہے …
’’لوگو! ہمیں مَنْطِقَ الطَّیْرِسکھایا گیا ہے۔‘‘ آگے چل کر مَنْطِقَ الطَّیْرکی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’مَنْطِقَ الطَّيْرِ کے معنی ’پرندوں کی بولی‘ نہیں، جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں( یعنی ’برقِ طور‘ ہی میں… قاسمی) طَیر سے مراد گھوڑوں کا لشکر ہے (جو حضرت دائود ؑ اور سلیمان ؑ کے زمانہ میں بیشتر قبیلہ طیر کے افراد پر مشتمل تھا) اور مَنطق کے معنی اس قبیلہ کے قواعد و ضوابط ہیں۔ لہٰذا اس سے مطلب ہے: ’’گھوڑوں کے رسالہ کے متعلق علم‘‘ یہ اس زمانہ میں بہت بڑی چیز تھی۔‘‘ (برقِ طور : ص۲۵۳ تا ۲۵۴)
معارف القرآن کی محولہ بالا عبارت میں مَنْطِقَ الطَّيْر کا معنی ’پرندوں کی بولی‘ہے اور برق میں ٹھیک اسی معنی کی نفی کی گئی ہے اور جوجدید معنی پیش کیا گیا ہے، اس کا لغوی طور پر قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ا س سے اندازہ لگا لیجئے کہ طلوعِ اسلام کی ٹکسال میں مختلف اور متضاد معانی کے سکے وقتاً فوقتاً کس طرح ڈھالے گئے…!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ سادس
سورۃ الاعراف کے آخری رکوع میں ’آدابِ تبلیغ‘ کے ضمن میں یہ الفاظ آئے ہیں :
(خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ) (الاعراف: ۱۹۹) (اے نبیؐ!) درگزر کرتا رہ، معروف کی تلقین کئے جا اور جاہلوں سے نہ اُلجھ۔‘‘
خُذِ العَفْوَ کا مفہوم کیاہے؟ ملاحظہ فرمائیے:
’’ بہرحال، تم ان کی ان باتوں کی وجہ سے اپنے پروگرام میں رُکو نہیں) تم ان سے درگزر کرتے ہوئے آگے بڑھتے جائو۔‘‘ (مفہوم القرآن: ص ۳۹۰)
ا س کے بعد تفسیر مطالب الفرقان میں خُذِ العَفْوَ پر بحث کرتے ہوئے اس کی تعبیر کو یکسر بدل دیا اور اس بات کا قطعاً خیال نہ کیا کہ یہ مکی دور کی وحی ہے، جس میں اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑی ہی نہ تھی اور اہل ایمان جو پہلے ہی زیادہ تر مفلس اور خستہ حال لوگوں پر مشتمل تھے، معاشی طور پر کفار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے، ایسے حالات میں یہ نئی تعبیر قطعاً موزوں نہیں بیٹھتی۔ لیکن ’مفکر قرآن‘ کو اس سے کیا، انہیں تو اپنے پندار علم کا مظاہرہ کرنا ہے، تاکہ یہ نت نئی تعبیرات،اندھے معتقدین کے قلوب واذہان پر ان کی ’تبحر علمی‘ کی دھاک بٹھا دیں۔ لکھتے ہیں:
’’العفوکا لفظ آیت (۲۱۹؍۲) میں آیاہے جہاں بالبداہت ’زائد از ضرورت‘معنی ہی موزوں ہیں۔ چنانچہ میں نے مفہوم القرآن میں یہی معانی لکھے اور مطالب الفرقان جلد سوم ص۳۲۶ پر بھی، اس کے مطابق وضاحت کی۔ ا س کے بعد یہ لفظ زیر نظر آیت (۱۹۹؍۷) میں آیا تو مجھے اپنی بصیرت کی رو سے، اس کا دوسرا مفہوم یعنی ’درگزر کرنا‘ موزوں دکھائی دیا۔ چنانچہ میں نے یہی ترجمہ مفہوم القرآن میں دے دیا (اس کا عام طور پر یہی ترجمہ کیا جاتا ہے)۔ اس کے بعد ایک بحث کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ مفہوم مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔ بالخصوص لفظ خُذْ کے پیش نظر جس کے معنی ’وصول کرنے یا لینے‘ کے ہیں، اس سلسلہ میں سورئہ توبہ کی آیت (۱۰۳؍۹) (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً) اس کی مؤید تھی۔ اس غوروفکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آیت (۱۹۹؍۷) میں بھی العفو کا وہی مفہو م زیادہ موزوں ہے، جو آیت (۲۱۹؍۲) میں دیا گیا ہے یعنی ’زائد از ضرورت مال‘۔ اس آیت میں اسلامی نظام (یا اس کے سربراہ حضور نبی اکرمﷺ) سے کہا گیا ہے کہ جماعت مؤمنین کا زائد از ضرورت مال اپنی تحویل میں لے لیا کرو تاکہ اس طرح اجتماعی طور پر قرآن کا معاشی نظام قائم رہے۔ مفہوم القرآن (آیت ۱۹۹؍۷) کے مفہوم میں ترمیم، اس کے نئے ایڈیشن میں کردی جائے گی ۔ البتہ اس دوران میں ، تبویب القرآن میں ’عفو‘ کے عنوان کے تابع یہ مفہوم دے دیا گیا ہے۔‘‘ (تفسیرمطالب الفرقان: ج۶، ص۵۵)
عفو کا معنی ’زائد از ضرورت مال‘ صرف وہاں لینے کی گنجائش ہوتی ہے، جہاں اس کا مالی خرچ یا مال سے متعلق ہونے کا کوئی قرینہ موجو دہو، جیساکہ آیت (۲۱۹؍۲) میں لفظ يُنفقونمیں یہ قرینہ موجود ہے۔ لیکن آیت زیر بحث میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے لیکن مفکر ِقرآن کو ان اُمور سے کیا سروکار؟

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ سابع
قرآن کی درجہ ذیل آیت مع ترجمہ از پرویز صاحب ملاحظہ فرمائیے:
(فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَاْنحَرْ) (۲؍۱۰۰) ’’لہٰذا اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کرو اور قربانی کرو۔‘‘ (معارف القرآن:۴؍۳۶۹)
لیکن جب پرویز صاحب کا ذہن قربانی سے متعلق معکوس ہوگیا تو اب وَانحَرْکا مفہوم بھی کچھ اور ہی ہوگیا :
’’اب تیرے لئے ضروری ہے کہ تو اس کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے، اس کے لئے تو اپنے پروگرام کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف رہ۔ خدا کے نظامِ ربوبیت کے قیام کے لئے اپنے فرائض منصبی کو پوری طرح ادا کر، ان پر علم و عقل اور تجربہ و مشاہدہ سے پوری طرح حاوی ہو، اور اس کے ساتھ ہی اپنی جماعت کے لوگوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کر۔‘‘ (مفہوم القرآن، ص۱۴۸۸)
یاد رہے کہ خط کشیدہ الفاظ وَانْحــَرْ کے مفہوم کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ اسی صفحہ پر نیچے حاشیہ میں یہ عبارت بھی موجود ہے : ’ نھراونٹ ذبح کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘
اب اس ’مفکر قرآن‘ کو کون سمجھائے کہ یہ لفظ نھر نہیں بلکہ نَحْر ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ وقت کی آندھیوں نے ’مفکر قرآن‘ کا بوجھ کس جاہل کے سر پر لا پھینکا ہے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے(مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا) (الجمعہ:۵)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ ثامن
آیت ِقصاص بھی، ان آیات میں سے ایک ہے جن کی ’تعبیر‘ پرویز صاحب کے انقلابِ ذہن کے ساتھ ہی منقلب ہوگئی۔ اس آیت کی ایک تعبیر وہ ہے جو معارف القرآن جلد اوّل، ص ۱۴۰ پر موجود ہے۔ جس کے نتیجہ کے طور پر قصاص کا معنی ’قتل کا بدلہ قتل‘ نیز قتل عمد میں دیت اور عفو کا اختیار بھی اولیائِ مقتول کے ہاں برقرا ر رہتاہے۔ پرویز صاحب نے زیر عنوان ’شریعت میں خدا کی طرف سے آسانیاں‘ لکھاہے :
’’پھر شریعت میں ایسی آسانیاں مل جانا جن سے قوانین ممکن العمل ہوجائیں، رحمت ِخداوندی ہے مثلاً قانونِ قصاص کی رو سے قتل کا بدلہ قتل ہے، لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ
( فَمَنْ عُفِیَ لَهُ مِنْ اَخِيْهِ شَيْیٌٔ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ، ذٰلِکَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرْحَمَهٌ) ’’اگر (قاتل کو) اس کے بھائی (مدعی) کی طرف سے معافی مل جائے تو (اس کے لئے) معقول طریقہ پر خون بہا کا مطالبہ ہے اور (قاتل کے لئے) خوبی کے ساتھ اس کا ادا کرنا۔ یہ (قانون دیت وعفو) تمہارے پروردگار کی طرف سے سختیوں کا کم کردینا اور ترحم (خسروانہ) ہے…‘‘(معارف القرآن، جلد اوّل، ص۱۴۰)
لیکن جب تہذیب ِمغرب کی فکری یلغار نے ذہن ِپرویز کو مسخر کیا اور وہ مغرب کے تمدنی قوانین سے مرعوب ہوئے تو
(۱) قصاص کے معنی بھی بدل گئے اور
(۲) قتل عمد میں دیت اور عفو کا اختیار بھی، اولیائِ مقتول سے سلب ہوگیا، کیونکہ مغربی حکومتوں میں سے کسی میں بھی قتل عمد میں دیت و عفو کی رعایت نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآنی قانون میں وہ ’سقم‘ باقی رہ جاتا، جو دانشورانِ مغرب کی نگاہ میں اسلام کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ ’قرآنی حمیت‘ ، ’مفکر ِقرآن‘ پر غالب آئی تو انہوں نے پنی جدید تعبیر کی رو سے قرآنی قوانین سے اس ’عیب‘ کو دور کر ڈالا جو خود خدا کے اپنے الفاظ سے پیدا ہوگیا تھا (معاذ اللہ) ملاحظہ فرمائیے تعبیر جدید کو …
’’قصاص: اس کے معنی ’جرم کی سزا‘ دینا نہیں، اس کے معنی ہیں ’مجرم کا اس طرح پیچھا کرنا کہ وہ بلا گرفت نہ رہ جائے‘ یعنی قرآنی نظام میں کسی جرم کو Untraced نہیں رہنا چاہئے، وہ اس قسم کے محکم نظام تفتیش میں حیاتِ اجتماعیہ کا راز بتاتا ہے۔‘‘ (اگست۶۵ئ:ص ۱۲)
(وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَيَاهٌ يّٰاُوْلِیْ الاَلْبَابِ) (البقرۃ:۱۷۹)
اس کے بعد آیت ِ قصاص (البقرۃ:۱۷۸) کی تشریح کو الفاظ ِآیت تک محدود رکھنے کی بجائے، آیت ِقتل خطا کے ساتھ خلط ِمبحث کیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ کشید کیا جاتا ہے کہ قتل عمد میں عفو و دیت ہے ہی نہیں، اس میں اگر ایسا ذکر ہوا ہے تو وہ قتل خطا کے ساتھ متعلق ہے :
’’جرمِ قتل: قرآن نے قتل عمد (بالارادہ) اور قتل خطا (سہواً) میں فرق کیا ہے۔ قتل خطا کی سزا (یا یوں کہئے کہ کفارہ یا جرمانہ) ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنا ہے۔ وہ اس خون بہا کو معاف کرسکتے ہیں۔(۴؍۹۲،۹۳) واضح رہے کہ ’غلام آزاد کرنا‘ اس زمانے کی بات ہے جب عربوں کے ہاں غلام چلے آرہے تھے، اسلام نے غلامی کا دروازہ بند کردیاہے ۔ لہٰذا یہ نظام معاشرہ تجویز کرے گا کہ اس کی جگہ کیا کفارہ ادا کیا جائے گا۔
قتل عمد کے لئے دیت (خون بہا) نہیں، اس کی سزا بڑی سخت ہے۔ ا س کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کی سزا جہنم ہے اور اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور بہت بڑی سزا (۹۳؍۴)۔ میںاس وقت ان مختلف سزائوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ واضح رہے کہ قتل عمد کی بھی مختلف نوعیتیں ہیں۔ایک قتل سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہوتا ہے اور ایک وقتی جوش میں آکر وقتی طور پر (وغیرہ وغیرہ) اس اعتبار سے جرم کی سزا میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ قرآن کے مختلف مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عدل کے تقاضے کی رو سے جرمِ قتل عمد کے لئے موت کی سزا بھی تجویز کرتا ہے۔ (مثلاً ۱۷۸؍۲، ۳۵؍۵، ۳۳؍۱۷) ’’قتل نفس بالحق‘‘ سے مراد قانونِ خداوندی کے مطابق کسی کی جان لینا۔‘‘ (ماہنامہ طلوعِ اسلام: اگست۶۵ئ، ص۱۴)
سیدھی سی بات ہے کہ قرآن نے قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) کے علاوہ، دیت اور عفو کی رعایات بھی رکھی ہیں اور قتل خطا میں قصاص ہے ہی نہیں۔ اس میں کیا اُلجھن ہے؟ ؎

تری ہر اَدا میں بل ہے، تری ہر نگاہ میں اُلجھن
مری آرزو میں لیکن ، کوئی پیچ ہے نہ خم ہے!
لیکن پرویز صاحب نے قتل خطا اور قتل عمد کی آیات میں خلط ِمبحث سے جو نتیجہ برآمد کیاہے، اس میں قتل عمد میں صرف قصاص کی سزا باقی رہ جاتی ہے، تخفیفات ختم ہوجاتی ہیں اور قصاص کامفہوم بھی ’قتل کا بدلہ قتل‘ نہیں رہتا بلکہ صرف ’مجرم کا پیچھا کرنا‘ رہ جاتا ہے۔ اگر مجرم کراچی پہنچ کر سمندر پار کر جائے اور اس کی گرفتاری کیلئے اگر آپ نے کراچی تک ’اس کا پیچھا کر ڈالا‘ تو قصاص کا تقاضا پورا ہوگیا۔ اللہ اللہ خیر صلا!
اُمت ِمسلمہ پر ’مفکر ِقرآن‘ کا کس قدر احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قتل عمد میں دیت اور عفو کے جو ’اِغلال واَصر‘ مسلمانوں پر ڈال رکھے تھے، انہوں نے اُتار پھینکے ہیں اور قرآنی قانون کو ’دور حاضر کے تقاضوں‘ سے ہم آہنگ کردیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ تاسع
قرآن میں قانونِ غنیمت سے متعلقہ آیت، پرویز صاحب کے ترجمہ ہی کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے :
(وَاعْلَمُوْ اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْیٍٔ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمَی وَالْمَسَاکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ، وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَيْیٍٔ قَدِيْرٌ) (الانفال: ۴۱)
’’اور جان رکھو کہ جو تمہیں مالِ غنیمت میں ملے، اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول ؐ کے لئے، (رسول کے) قرابت داروں کے لئے، یتیموں کے لئے، مسکینوں کے لئے اور مسافروں کے لئے نکالنا چاہئے (اور بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیے جاسکتے ہیں)، اگر تم اللہ اور اس (غیبی امداد) پر یقین رکھتے ہو، جو ہم نے فیصلہ کردینے والے دن، اپنے بندے پر نازل کی تھی، جبکہ دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے (تو چاہئے کہ اس تقسیم پر کاربند رہو، اور یاد رکھو) اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔‘‘ (معارف القرآن، جلد چہارم، ص۶۲۴)
’’غنیمت اور فے ، دو اصطلاحات ہیں: مالِ غنیمت وہ جو مخالفین سے جنگ کے بعد حاصل ہو، اور مالِ فے ، وہ جسے مخالفین جنگ کئے بغیر چھوڑ جائیں۔ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ، بیت المال میں جمع ہوگا اور باقی چار حصے سپاہیوں کو تقسیم ہوں گے، مال فے پورے کا پورا بیت المال میں جمع ہوگا۔‘‘ (معارف القرآن: جلد چہارم، حاشیہ ص ۶۲۴)
مالِ غنیمت کے متعلق یہی وہ اُصولی تعلیم ہے جو دورِ نزولِ قرآن سے لے کر آج تک علمائِ امت، فقہائِ ملت ،مفسرین و محدثین، اصحابِ سیر اور مؤرخین تسلیم کرتے چلے آئے ہیں۔ گویا پرویز صاحب کی زبان میں یہ ’عجمی اسلام‘ ہے جو ہزار برس سے چلا آرہا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ پرویز صاحب ’خالص عربی نژاد‘ ہو کر اس ’عجمی اسلام‘ پر برقرار رہتے۔ چنانچہ انہوں نے بعد میں جس ’عربی قانونِ غنیمت‘ کو قرآن کی اسی آیت میں سے نچوڑا ، اس کے مطابق اب’خمس‘ میں مسافروں، مسکینوں، یتیموں اور ذوی القربیٰ کا حصہ ختم ہوگیا اور خمس صرف ’خدا اور رسول‘ کیلئے مخصوص ہوگیا۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اللہ اور رسولؐ کے الفاظ اگر قرآن میں اکٹھے آجائیں تو اس سے پرویزیوں کے نزدیک مراد ’مرکز ِملت‘ ہوتا ہے۔
توجہ فرمائیے؛ اگر مجرد ’اللہ‘ کا لفظ بولا جائے تو اس سے خالق کائنات ہی کی ذات مراد ہوگی او ر اگر صرف ’رسول‘کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد وہ مامور من اللہ شخصیت ہوگی جو اہل ایمان کے لئے اُسوہ ٔ حسنہ ہے۔ لیکن جب ’اللہ اور رسول‘ کے الفاظ (معطوف اور معطوف علیہ کی صورت میں) اکٹھے بولے جائیں تو اب ’اللہ‘ ہی اپنی اُلوہیت سے اور ’رسول‘ اپنے منصب ِرسالت سے معزول ہوگیا۔ پھر جب اس طرح اللہ کی اُلوہیت اور نبی کی حیثیت ِنبوت (معاذ اللہ) ختم ہوگئی تو اس عدم سے ’مرکز ِملت‘ وجود میں آگیا۔ گویا یہ اُلوہیت اور نبوت کے مسائل نہ ہوئے بلکہ سائنس کی لیبارٹری کے مسائل ہوئے کہ آکسیجن او رہائیڈروجن کو جب ایک خاص ترکیب سے جمع کیا جاتا ہے تو جہاں آکسیجن کی تحریقی خاصیت ختم ہوجاتی ہے، وہاں ہائیڈروجن سے اس کی احتراق پذیری کی صفت منفک ہوجاتی ہے اور ’پانی‘ نام کی اسی طرح ایک نئی چیز معرضِ وجود میں آجاتی ہے؛ جس طرح ادارہ طلوعِ اسلام کی قرآنی لیبارٹری میں ’اللہ اور رسول ‘ کے مجموعے سے ’مرکز ِملت‘ معرض وجود میں آجاتا ہے ؎

یزداں کے تصور میں تراشا تھا جو پتھر
اس میں سے بھی ابلیس کا پیکر نکل آیا
بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو یونہی نوکِ قلم پر آگیا۔
پرویز صاحب کی تعبیر جدید کا دوسرا جزو یہ ہے کہ مالِ غنیمت میں سے ایک خمس کو ’مرکز ِملت‘ کے لئے الگ کر لینے کے بعد بقیہ چار اخماس، لڑنے والے مجاہدین کو نہیں، بلکہ ان کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں میں تقسیم کئے جائیں گے۔ اب ’عجمی اسلام‘ کی وہ تعبیر ختم ہوگئی جس کے تحت مالِ غنیمت کا ۴؍۵ حصہ مجاہدین میں تقسیم ہوا کرتا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے، کہ آیت ِغنیمت کے پہاڑ میں سے کس طرح مفکر قرآن نے ’تعبیر جدید‘ کا چوہا کھود نکالا۔ آیت کے تقریباً ۴۵؍ الفاظ ہیں اور اس کا تشریحی مفہوم تقریباً ۳۱۰ الفاظ پر مشتمل پیرا گراف میں بیان کیا گیاہے اور آیت بھی اسی قرآن مجید میں ہے جس کے متعلق یہ مسلسل ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ قرآن واضح ہے ، مبین ہے، نور ہے؛ جو اپنے مفہوم کی وضاحت کیلئے کسی کا محتاج نہیں۔ لیکن دسیوں الفاظِ قرآن کی تشریح، سینکڑوں الفاظ میں کی گئی ہے، ملاحظہ فرمائیے :
’’جنگ کے سلسلہ میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھو کہ اس سے پہلے تمہارا دستور یہ تھا کہ جنگ میں جو کسی کے ہاتھ آجائے، وہ اسی کا ہوا۔ یہی لوٹ کا مال وہ بنیادی جذبہ تھا جس کے لئے تم میدانِ جنگ میں جایا کرتے تھے۔ لیکن اب جنگ ظلم کو روکنے یا نظامِ عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ہوگی، ا س لئے اس میں جذبہ محرکہ لوٹ کا مال حاصل کرنا نہیں ہوگا۔ یاد رکھو، میدانِ جنگ میں جو مالِ غنیمت بھی ملے گا، اس میں سے پانچواں حصہ ’خدا و ررسول‘ یعنی مملکت کی انتظامی ضروریات کے لئے رکھ کر، باقی ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے میں صرف کیا جائے گا۔ مثلاً (میدانِ جنگ میں جانے اور کام آجانے والوں کے) اقربا کے لئے، یتیموں اور معاشرہ میں بے یارومددگار، تنہا رہ جانے والوں کے لئے، ان کے لئے جن کا چلتا ہوا کاروبار رُک گیا ہو یا جو کسی حادثے کی وجہ سے کام کاج کے قابل نہ رہے ہوں۔ نیز ان مسافروں کے لئے جو مدد کے محتاج ہوں۔
ہم جانتے ہیں کہ اس طرح ہاتھ آنے والے مال سے یوں دست کش ہوجانا، کچھ آسان کام نہیں، لیکن اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور ان احکام پر جو ہم نے اپنے بندے پر، اس دن نازل کئے تھے جب دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل آئے تھے او رجب حق و باطل نکھر کر سامنے آگیا تھا (تو تمہارے لئے ایسا کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ مستقل اقدار پر ایمان، اس قسم کی تمام جاذبیتوں کو ٹھکرا سکتاہے)۔ اسے اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ نے ہر شے کے پیمانے مقرر کر رکھے ہیں اور ان پر اس کا پورا پورا کنٹرول ہے (اس لئے اس کے قانون پر عمل پیرا ہونے سے تمہیں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ (مفہوم القرآن: ص۴۰۴ تا ۴۰۵)
الفاظ کے اس ہجوم پر بار بار نگاہ ڈالئے، شاید آپکے مقدر سیدھے ہوئے تو بات آپکے پلے پڑ جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مثالِ عاشر
اب آخر میں ،میں ایک ایسی مثال پیش کر رہا ہوں جس کے ضمن میں ایسی بہت سی آیات آپ کے سامنے آئیں گی جن کی تعبیر کو ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت بدلنا پڑا ہے اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پورا قرآن ’مفکر قرآن‘ کے مصلحتی محور کے گرد ہی گردش کرتا رہا۔
 
Top