عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
اختلافِ رائے كى بنیاد پر تعصب ؟
ابوبکر
نظریاتى جہت پرمبنى یہ سوال دینى جماعتوں كے لئے لمحہ فكریہ ہے- اہل اسلام كے مابین باہمى افتراق و انتشاركى بیخ كنى اور اجتماعیت كے قیام كى آرزو ہر دل دردمند اورچشم پرنم كا دیرینہ خواب ہے جو صدیوں كى دشوار گزار اور كٹھن مسافت كے باوجود ہنوز شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسكا تاہم اُمورِ فقہی اور مسائل شرعیہ كے بارے میں دقت ِنظر سے دیكہا جائے تو واضح ہوگا كہ اختلافِ رائے اگر مہرو وفا اور صدق و صفا كے جذبات كے ساتھ ہو تو كوئى ایسى مذموم شے نہیں كیونكہ مختلف اذہان كے حامل افراد كے مابین مكمل اشتراكِ رائے ایك ناممكن الحصول خواہش ہے- اصل مسئلہ باہمى نفرت و عداوت اوربغض و عناد كا ہے- فقہى اُمور میں اختلافِ رائے تو صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اور فقہائے عظام كے مابین بھی موجود تھا لیكن ان كے نزدیك یہ مسائل اتنى شدت كے حامل نہیں تھے كہ ایك دوسرے كو دائرہٴ اسلام ہى سے نكال دیا جائے بلكہ ان كى نظر میں یہ مسائل علمى نوعیت پر مبنى عمومى مباحث ہوا كرتے تھے جو ایك بیدار مغز قوم كا خاصہ ہوا كرتے ہیں- مندرجہ ذیل چند ایك مثالوں سے اس حقیقت كى مزید وضاحت ہوتى ہے-
حضرت عبداللہ بن عمر بیان كرتے ہیں كہ نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منىٰ میں (دورانِ حج) نمازِ قصر پڑھى، آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے بعد حضرت ابوبكر صدیق نے بھی نمازِ قصر ادا كى ، پھر حضرت عمر فاروق نے بھی نمازِ قصر ادا كى پھر حضرت عثمان نے ابتداے خلافت میں تو نماز قصر ہى كى لیكن بعد میں مكمل ادا كرنى شروع كردى- چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر جب امام (حضرت عثمان) كے پیچھے نماز ادا كرتے تو پورى ہى پڑہتے تھے لیكن جب علیحدہ ادا كرتے تو قصر كیا كرتے تھے (كیونكہ وہ سفر میں قصر كرنے كے قائل تھے)- (صحیح مسلم مع شرح النووى، جلد٣ ص٢١٢٣)
اسى سے ملتا جلتا واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے بھی مروى ہے كہ انہوں نے بھی حضرت عثمان كے پیچھے پورى نماز ادا كى حالانكہ وہ سفر میں نمازِ قصر كے قائل تھے پھر جب ان سے كہا گیا كہ آپ (نماز كى مكمل ادائیگى پر) حضرت عثمان كو عیب بھی لگاتے ہیں اور ان كے پیچہے نماز ادا بھی كرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا كہ الخلاف شر یعنى اختلاف كرنا شر (برائى) ہے- (عون المعبود شرح سنن ابى داؤد ،جلد٢ ص١٤٥)
بہرحال یہ ذكر تو برسبیل تذكرہ نوكِ قلم سے صفحہٴ قرطاس پر منتقل ہوگیا وگرنہ ہمارا مطلوب تواس مقصد كا حصول ہے جو ملتوں كى تاریخ كو تابناك بناتا اور اس كے افراد كى فكر كو جلا بخشتا ہے كہ حالات كے مطابق طرزِ زندگى اختیاركرنا ہى دانشمند اقوام اور فہمیدہ عوام كا شعار ہے، كیفیاتِ زمانہ كے رعایت كئے بغیر ہر دور میں پورى تندہى و جانفشانى كے ساتہ ایك جیسے مسائل ہى پر بحث كرتے رہنا اور چہوٹى چہوٹى باتوں كو ہوا بنا كر ہمیشہ معاندانہ رویہ اپنائے ركہنا اہل دانش وبینش كا شیوہ نہیں- ملت ِاسلامیہ آج جن دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے كیا وہ ہمیں اس بات كى اجازت دیتے ہیں كہ ہم اب بھی انہى مباحث میں اُلجھے رہیں جو بتدریج ہمارے علمى اَوزان كو زنگ آلود، فكرى وسعتوں كو زوال پذیر، قوت كو كمزور اور ہمت كو پست كردیں-عباس بن عبدالعزیز بیان كرتے ہیں كہ میں ایك روز امام احمد بن حنبل كى خدمت میں بیٹھا ہوا تھا كہ على بن مدینى بھی آپہنچے اور ایك مسئلے پر بحث چھڑ گئى،بحث اتنى بڑہى كہ آوازیں بلند ہوگئى، میں ڈرا كہ جھگڑا ہوجائے گا لیكن جب على ابن مدینى رخصت ہونے لگے تو امام احمد بن حنبل نے آگے بڑھ كر ان كى سوارى كى ركاب تھام لى اور بڑى عزت سے انہیں سوار ہونے میں مدد دى- (جامع بیان العلم و فضلہ، ص٢٥٩)
واضح ہو كہ ہمارے قابل صد احترام ائمہ عظام اور فقہاے كرام جس زمانے میں فروعى مسائل پربحث فرمایاكرتے تھے، وہ اسلام كے بھرپور غلبے اور اقتدار كا دور تھا جبكہ آج اس كى مثال تو دركنار، عشرعشیر بھی نہیں ہے- اہل بصیرت كى دقیقہ رس اور رمز شناس نگاہوں میں ابھی وہ منظر محفوظ ہوگا كہ جب امریكہ نے حكومت ِپاكستان كے اشتراك و تعاون كے ساتہ افغانستان پر حملہ كیا تھا توتقریباً تمام ’باحمیت اور حساس‘ دینى جماعتوں نے متحد ہوكر حكومت كے اس مذموم اقدام كے خلاف پُرزور صداے احتجاج بلندكى تھى لیكن جب چند ماہ بعد ہى بھارت نے اپنى افواج كو پاكستان سے ملحقہ سرحدوں پر جمع كرنا شروع كردیا تو انھى تنظیموں نے صدرِ پاكستان كو پاك فوج كے دوش بدوش اپنے مكمل تعاون كى یقین دہائى كروائى تھى حالانكہ مسئلہ افغانستان پر حكومت سے ان كى چپقلش اور ناچاقى كوئى ڈہكى چھپى بات نہیں تھى لیكن یہ حالات كى سنگینى اور كیفیات كا تفاوت تھا كہ جس نے احوال كے پیش نظر انہیں اپنا طرزِعمل بدلنے پر مجبور كیا- ہوبہو یہى كیفیت فروعى مسائل كى ہے- ان كے سلسلے میں بھی ہمیں اپنے رویے پر نظرثانى كرنے كى ضرورت ہے-ہم معاذ اللہ اس بات كے دعویدار نہیں كہ ان مسائل كا اسلامى مباحث سے كوئى تعلق اور واسطہ ہى نہیں- بلا شك و شبہ ان اُمور كا شماربھی اسلام كى خدمت میں ہوتا ہے اور ان پر بحث و تحقیق كى ذمہ دارى بھی علماء امت كى ہى ہے لیكن جن اُمور و معاملات نے دورِ حاضر میں عالم اسلام كو نت نئى آزمائشوں سے دوچار كرركہا ہے، ان كا ترجیحى بنیادوں پر قلع قمع كرنا زیادہ ضرورى ہے-