باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,010
- پوائنٹ
- 289
برائی کو مٹانے کے دو طریقے ہیں ، برے کو مٹا دیا جائے یا برائی کو اچھائی میں تبدیل کیا جائے ، اسلام نے دوسرے طریقے کو پسند کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کیجیے ، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کوئی قریبی دوست ہے اور یہ بات انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صابر ہوتے ہیں اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے۔
سورہ حٰم السجدۃ : 34-35
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہوئے نظم و ضبط اور حلم و بردباری کی طرف مائل کیا ہے، اگرچہ کہ اس میں مخاطبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے ہے مگر درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت سے خطاب ہے۔
یہ حکم اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور سیرت طیبہ کا نچوڑ ہے، اسی سے اسلام کے اصل مزاج کا اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام ۔۔۔ جبر و بربریت ، ظلم و فساد اور جنگ و جدل کا مذہب نہیں بلکہ یہ خالصتاً عدل و انصاف ، رحم و کرم اور امن و سلامتی کا مذہب ہے۔
برائی کو مٹانے کے دو طریقے ہیں ، برے کو مٹا دیا جائے یا برائی کو اچھائی میں تبدیل کیا جائے ، اسلام نے دوسرے طریقے کو پسند کیا ہے۔
وہ اخلاق کی تلوار تھی جس کے ذریعے "فاتح قلوب" نے بڑے سے بڑے دشمن دل فتح کر لئے :
تیغ حلم از تیغ آہن تیز تر
بل زصد لشکر ظفر انگیز تر
صفوان بن امیہ جو قریش کے مشہور سردار تھے ، اسلام اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت ترین دشمن تھے ، فتح مکہ کے بعد یہ ڈر کر جدہ بھاگ گئے تھے اور ارادہ کیا کہ یمن جا کر پناہ حاصل کریں۔ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے خدمت رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) میں عرض کی :
صفوان آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خوف سے بھاگ رہے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ اپنے آپ کو سمندر میں ڈبو دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے صفوان کو امان دے دی۔
عمیر بن وہب (رضی اللہ عنہ) نے کہا : انہیں مطمئن کرنے کیلیے علامت چاہیے۔
جس پر آپ صلی اللہ علہ وسلم نے بطور علامت اپنا عمامہ مبارک عطا فرما دیا۔
طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) لہو لہان ہو گئے۔ شقی القلب لوگوں کی اس بےرحمانہ کاروائی پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بددعا کرنے کیلیے کہا گیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا :
إني لم أبعث لعانا ، وإنما بعثت رحمة (1)
میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں ، میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
ماہر القادری (رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا خوب کہا ہے :
إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق (2)
میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی خلق عظیم تھا جس کی تحسین خلاق دوعالم نے فرمائی :
إنك لعلى خلق عظيم (3)
بےشک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بلند ترین درجۂ اخلاق پر ہیں۔
دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خوش اخلاق اور نیک اطوار بنائے ، آمین۔
اقتباس بشکریہ : "اسلام ہمیں خلق پیمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ملا ہے" - قاری سید حبیب اللہ الخطیب (کراچی) [روزنامہ اردو نیوز '' سپلیمنٹ ، جمعہ 30/دسمبر/2011]
حوالہ جات :
1 : صحيح مسلم » كتاب البر ، والصلة ، والآداب » باب النهي عن لعن الدواب وغيرها
2 : السلسلة الصحيحة - (علامہ البانی نے صحیح کہا) ، مجموع فتاوى ابن باز - (شیخ بن باز نے "اسنادہ جید" کہا)
3 : ( القلم:68 - آيت:4 )
اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کیجیے ، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کوئی قریبی دوست ہے اور یہ بات انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صابر ہوتے ہیں اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے۔
سورہ حٰم السجدۃ : 34-35
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہوئے نظم و ضبط اور حلم و بردباری کی طرف مائل کیا ہے، اگرچہ کہ اس میں مخاطبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے ہے مگر درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت سے خطاب ہے۔
یہ حکم اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور سیرت طیبہ کا نچوڑ ہے، اسی سے اسلام کے اصل مزاج کا اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام ۔۔۔ جبر و بربریت ، ظلم و فساد اور جنگ و جدل کا مذہب نہیں بلکہ یہ خالصتاً عدل و انصاف ، رحم و کرم اور امن و سلامتی کا مذہب ہے۔
برائی کو مٹانے کے دو طریقے ہیں ، برے کو مٹا دیا جائے یا برائی کو اچھائی میں تبدیل کیا جائے ، اسلام نے دوسرے طریقے کو پسند کیا ہے۔
وہ اخلاق کی تلوار تھی جس کے ذریعے "فاتح قلوب" نے بڑے سے بڑے دشمن دل فتح کر لئے :
تیغ حلم از تیغ آہن تیز تر
بل زصد لشکر ظفر انگیز تر
صفوان بن امیہ جو قریش کے مشہور سردار تھے ، اسلام اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت ترین دشمن تھے ، فتح مکہ کے بعد یہ ڈر کر جدہ بھاگ گئے تھے اور ارادہ کیا کہ یمن جا کر پناہ حاصل کریں۔ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ نے خدمت رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) میں عرض کی :
صفوان آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خوف سے بھاگ رہے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ اپنے آپ کو سمندر میں ڈبو دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے صفوان کو امان دے دی۔
عمیر بن وہب (رضی اللہ عنہ) نے کہا : انہیں مطمئن کرنے کیلیے علامت چاہیے۔
جس پر آپ صلی اللہ علہ وسلم نے بطور علامت اپنا عمامہ مبارک عطا فرما دیا۔
طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) لہو لہان ہو گئے۔ شقی القلب لوگوں کی اس بےرحمانہ کاروائی پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بددعا کرنے کیلیے کہا گیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا :
إني لم أبعث لعانا ، وإنما بعثت رحمة (1)
میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں ، میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
ماہر القادری (رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا خوب کہا ہے :
کیوں نہ ہو ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل ہے جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق (2)
میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی خلق عظیم تھا جس کی تحسین خلاق دوعالم نے فرمائی :
إنك لعلى خلق عظيم (3)
بےشک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بلند ترین درجۂ اخلاق پر ہیں۔
دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خوش اخلاق اور نیک اطوار بنائے ، آمین۔
اقتباس بشکریہ : "اسلام ہمیں خلق پیمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ملا ہے" - قاری سید حبیب اللہ الخطیب (کراچی) [روزنامہ اردو نیوز '' سپلیمنٹ ، جمعہ 30/دسمبر/2011]
حوالہ جات :
1 : صحيح مسلم » كتاب البر ، والصلة ، والآداب » باب النهي عن لعن الدواب وغيرها
2 : السلسلة الصحيحة - (علامہ البانی نے صحیح کہا) ، مجموع فتاوى ابن باز - (شیخ بن باز نے "اسنادہ جید" کہا)
3 : ( القلم:68 - آيت:4 )