- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
جس طرح ہمارے ہاں کہا جاتاہے، کہ فلاں جماعت اسلامی کا بندہ ہے، فلاں ’ تحریکی‘ ہے، اسی طرح اہل عرب کے ہاں بعض لوگوں کو ’ اخوانی‘ کہا جاتاہے۔
اخوانی ، مشہور اسلامی تحریک الاخوان المسلمون کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا جاتاہے۔ جماعت اسلامی اسی الاخوان المسلمون کا اردو ایڈیشن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک عرصے تک میں شش و پنج میں ہی مبتلا رہا ہوں کہ یہ ’ اخوانی‘کیا بلا ہے؟ یہ خوبی ہے کہ خامی ؟ جب کسی کو اخوانی کہا جاتاہے، تواس سے مراد کیاہے؟
میری اس الجھن میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ اخوانیت اور تحریکیت کے متعلق عموما یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں شدت اور انتہا پسندی ہے، اور یہ لوگ باغیانہ سوچ رکھنے والے ہیں، لیکن کئی دفعہ ایسے بھی ہوا کہ کسی شخص نے ڈھیلی ڈھالی باتیں کیں، اتباع سنت کا جذبہ اس میں کمزور نظر آیا، اہل بدعت کے لیے نرمی کا اظہار کیا، لوگوں نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اخوانی ہے۔
گویا لفظ ’اخوانی‘ بیک وقت ’ شدت پسندی‘ اور ’ تساہل و مداہنت‘ دونوں رویوں کا مجموعہ بن گیا۔
وجہ اس کی یہ سمجھ آتی ہے، کہ تحریک الاخوان المسلمون کا اصل ہدف قیام خلافت تھا، اس لیے وہ تمام لوگ جو اس نعرے میں ان کے ساتھ متفق تھے، وہ اس تحریک کا حصہ بنتے گئے، وہ چاہے سلفی تھے یا خلفی ، سنی تھے یا بدعتی۔ گویا ہر وہ شخص اخوانی کہلایا جو قیام خلافت کا مدعی تھا، عقیدے یا فقہی مسائل میں اس کی جو بھی رائے تھی، تحریک کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔
یوں کہ لیں اقامت دین اور قیام خلافت کا نعرہ اس تحریک کا خود اپنا ماٹو تھا، جبکہ دیگر مسائل میں ’ اپنی أپںی مرضی‘ اور ’ سب ہی ٹھیک ہیں‘ اور ’ بین المسالک ہم آہنگی‘ والے رویے کی وجہ سے توحید و سنت کے مسائل میں مداہنت اور تساہل کو مخالفین نے نوٹ کرلیا۔
اور آہستہ آہستہ لفظ ’اخوانی، ’تحریکی‘ اور ’ وہ جماعتی اسلامی کا بندہ ہے‘ جیسے کلمات و جملے ایسے لوگوں کا لقب بن گیا جو موجودہ نظاموں کو چیلنج کرنے والے اور دیگر مسائل میں مفاہمت کا رستہ یا مداہنت کا طریق اختیار کرنے والے ہوتے تھے۔
تھوڑی سی مزید ترقی ہوئی، تو ہر وہ بندہ جو جابر وقت کے خلاف بغاوت کرتا ہو، جہادی جراثیم اس میں موجود ہوں چاہے اس کا تعلق الاخوان المسلمون سے نہ بھی ہو، اسے اخوانی کہا گیا۔
اور اسی طرح ہر وہ بندہ جو اختلافی مسائل میں تساہل اور ( بجا یا بے جا) اعتدال کا شکار ہوا، اسے بھی مخالفین نے اخوانی ہی کہا۔
اخوانیت اور تحریکیت کے مد مقابل ایک اور اصطلاح منظر عام پر آئی، چنانچہ مدخلی وغیرہ کہلائے جانے والے لوگوں میں بھی آپ یہی تفریق کرلیں گے، تو کافی سکون میں رہیں گے۔
اب کوئی بندہ کسی کو اخوانی یا مدخلی کہے تو میں دیکھتاہوں کہ اس کو کس بنا پر یہ کہا گیاہے؟
کیونکہ ایک طرف ’ اخوانیت‘ بہتر ہے ، دوسری طرف ’مدخلیت‘۔
برصغیر اور بالخصوص پاکستان میں بھی اس وقت اہل حدیث کی مجموعی فکر میں ایک طرف سے اخوانیت اور دوسری طرف سے مدخلیت موجود ہے۔
لہذا ہم اہل حدیث حضرات کو ان دونوں میں سے کسی ایک کی تائید یا مذمت کرتے ہوئے تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اخوانی ، مشہور اسلامی تحریک الاخوان المسلمون کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا جاتاہے۔ جماعت اسلامی اسی الاخوان المسلمون کا اردو ایڈیشن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک عرصے تک میں شش و پنج میں ہی مبتلا رہا ہوں کہ یہ ’ اخوانی‘کیا بلا ہے؟ یہ خوبی ہے کہ خامی ؟ جب کسی کو اخوانی کہا جاتاہے، تواس سے مراد کیاہے؟
میری اس الجھن میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ اخوانیت اور تحریکیت کے متعلق عموما یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں شدت اور انتہا پسندی ہے، اور یہ لوگ باغیانہ سوچ رکھنے والے ہیں، لیکن کئی دفعہ ایسے بھی ہوا کہ کسی شخص نے ڈھیلی ڈھالی باتیں کیں، اتباع سنت کا جذبہ اس میں کمزور نظر آیا، اہل بدعت کے لیے نرمی کا اظہار کیا، لوگوں نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اخوانی ہے۔
گویا لفظ ’اخوانی‘ بیک وقت ’ شدت پسندی‘ اور ’ تساہل و مداہنت‘ دونوں رویوں کا مجموعہ بن گیا۔
وجہ اس کی یہ سمجھ آتی ہے، کہ تحریک الاخوان المسلمون کا اصل ہدف قیام خلافت تھا، اس لیے وہ تمام لوگ جو اس نعرے میں ان کے ساتھ متفق تھے، وہ اس تحریک کا حصہ بنتے گئے، وہ چاہے سلفی تھے یا خلفی ، سنی تھے یا بدعتی۔ گویا ہر وہ شخص اخوانی کہلایا جو قیام خلافت کا مدعی تھا، عقیدے یا فقہی مسائل میں اس کی جو بھی رائے تھی، تحریک کو اس سے کوئی غرض نہ تھی۔
یوں کہ لیں اقامت دین اور قیام خلافت کا نعرہ اس تحریک کا خود اپنا ماٹو تھا، جبکہ دیگر مسائل میں ’ اپنی أپںی مرضی‘ اور ’ سب ہی ٹھیک ہیں‘ اور ’ بین المسالک ہم آہنگی‘ والے رویے کی وجہ سے توحید و سنت کے مسائل میں مداہنت اور تساہل کو مخالفین نے نوٹ کرلیا۔
اور آہستہ آہستہ لفظ ’اخوانی، ’تحریکی‘ اور ’ وہ جماعتی اسلامی کا بندہ ہے‘ جیسے کلمات و جملے ایسے لوگوں کا لقب بن گیا جو موجودہ نظاموں کو چیلنج کرنے والے اور دیگر مسائل میں مفاہمت کا رستہ یا مداہنت کا طریق اختیار کرنے والے ہوتے تھے۔
تھوڑی سی مزید ترقی ہوئی، تو ہر وہ بندہ جو جابر وقت کے خلاف بغاوت کرتا ہو، جہادی جراثیم اس میں موجود ہوں چاہے اس کا تعلق الاخوان المسلمون سے نہ بھی ہو، اسے اخوانی کہا گیا۔
اور اسی طرح ہر وہ بندہ جو اختلافی مسائل میں تساہل اور ( بجا یا بے جا) اعتدال کا شکار ہوا، اسے بھی مخالفین نے اخوانی ہی کہا۔
اخوانیت اور تحریکیت کے مد مقابل ایک اور اصطلاح منظر عام پر آئی، چنانچہ مدخلی وغیرہ کہلائے جانے والے لوگوں میں بھی آپ یہی تفریق کرلیں گے، تو کافی سکون میں رہیں گے۔
اب کوئی بندہ کسی کو اخوانی یا مدخلی کہے تو میں دیکھتاہوں کہ اس کو کس بنا پر یہ کہا گیاہے؟
کیونکہ ایک طرف ’ اخوانیت‘ بہتر ہے ، دوسری طرف ’مدخلیت‘۔
برصغیر اور بالخصوص پاکستان میں بھی اس وقت اہل حدیث کی مجموعی فکر میں ایک طرف سے اخوانیت اور دوسری طرف سے مدخلیت موجود ہے۔
لہذا ہم اہل حدیث حضرات کو ان دونوں میں سے کسی ایک کی تائید یا مذمت کرتے ہوئے تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ہے۔