الصلوۃ خیر من النوم کے بعد کیا کیا جائے؟
اسی طرح اقامھااللہ وادمھا کہنا ضعیف روایت ہے کیا ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اذان سنتے وقت مؤذن جو کلمات کہے ،اس کے پیچھے پیچھے وہی کلمات کہنے کا حکم ہے ،سوائے (
الحَيْعَلَتَين ) کے ،یعنی سوائے
«حيَّ على الصلاة»
اور
«حيَّ على الفلاح» ان کلمات کو سن کر (لاحول والا قوۃ الا باللہ ) کہنا ہوگا ،
درج ذیل احادیث توجہ سے پڑھیں :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بیان کیا کہ ”جب تم اذان سنو تو مؤذن کے الفاظ دہراتے رہو۔“
صحيح مسلم ،كتاب الصلاة ح848
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : " أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ، حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے وسیلہ (مقام محمود) طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔ “
صحيح مسلم ، كتاب الصلاة ح 849
عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ أَحَدُكُمُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب مؤذن
«اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ
«أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» اور
«أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے۔ اور جب مؤذن
«حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کہے تو سننے والا
«لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہے۔ پھر مؤذن جب «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہے تو سننے والے کو
«لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہنا چاہئیے۔ اس کے بعد مؤذن جب
«اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» اور
«لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دھرانے چاہئیں اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“ (بشرطیکہ ارکان اسلام کا بھی پابند ہو)۔
صحيح مسلم ،كتاب الصلاة ح850
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور صبح کی اذان میں ( الصلاة خير من النوم ) سن کر یہی کلمہ دہرائے یعنی( الصلاة خير من النوم ) ہی کہے ،
کیونکہ اوپر احادیث سے واضح ہے کہ سوائے حی علی الصلاۃ ۔۔اور ۔۔حی علی الفلاح کے باقی اذان کا جواب مؤذن کے کلمات ہی سے دینا ہے ،
إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ "
کہ ”جب تم اذان سنو تو مؤذن کے الفاظ دہراتے رہو۔“
(صحيح مسلم ،كتاب الصلاة ح848 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کلمات کے جواب میں
صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہا جائے گا۔ جبکہ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لا أصل لھا ”ان کلمات کی کوئی اصل نہیں۔ “ ( التلخیص الحبیر لا بن حجر 211/1)
مولوی عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے جواب میں
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہے اور باقی الفاظ کے جواب میں وہی الفاظ کہے جو مؤذن سے سنے، یہ احادیث سے ثابت ہے۔ البتہ
الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کے جواب میں کوئی خاص کلمات کہنا ثابت نہیں ہے۔ قُولْوا مِثْلَ مَا یَقُولْ (اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہے) کا تقاضہ یہ ہے کہ جواب دینے والا بھی
الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہے اور اس سے اپنے نفس کو خطاب کرے
اور حنفیہ شافعیہ کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ “
( حاشیہ حصن حصین از عاشق الٰھی دیوبندی : 255 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔