ہدایت اللہ فارس
رکن
- شمولیت
- فروری 21، 2019
- پیغامات
- 53
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
ہدایت اللہ فارس
--------------------------------------
ظرف زمان ہے، یہ معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے یہ اکثر ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اس کے معنی کو مستقبل کی طرف پھیر دیتا ہے۔
مثلاً: إذا جاء رمضان (شرط) فتحت ابواب الجنة ( جواب شرط)
اور کبھی کبھی یہ فعل مضارع پر بھی داخل ہوتا ہے،اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ اس کا جواب فعل مضارع ہو جیسے ایک شاعر کے شعر میں ہے: والنفس راغبة إذا رغبتها. وإذا ترد إلى قليل تقنع
چند مواقع ایسے ہیں جن میں جواب شرط پر فاء کا داخل کرنا واجب ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(١) اذا کا جواب جملہ اسمیہ ہو جیسے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌۖ...
(٢) جواب فعل طلب ہو یعنی امر، نھی واستفہام میں سے کوئی ہو نحو:
*امر کی مثال*: یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِذَا قُمۡتُمۡ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغۡسِلُوا۟ وُجُوهَكُمۡ وَأَیۡدِیَكُمۡ....
*نھی کی مثال*: إذا سمعتم بالطاعون في أرض فلا تدخلوها وإذا وقع بأرض وانتم بها فلا تخرجوا منها (مسند احمد)
*استفہام کی مثال*: إذا رأيت حامدا فماذا تقول له؟
--------------------------------------
ظرف زمان ہے، یہ معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے یہ اکثر ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اس کے معنی کو مستقبل کی طرف پھیر دیتا ہے۔
مثلاً: إذا جاء رمضان (شرط) فتحت ابواب الجنة ( جواب شرط)
اور کبھی کبھی یہ فعل مضارع پر بھی داخل ہوتا ہے،اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ اس کا جواب فعل مضارع ہو جیسے ایک شاعر کے شعر میں ہے: والنفس راغبة إذا رغبتها. وإذا ترد إلى قليل تقنع
چند مواقع ایسے ہیں جن میں جواب شرط پر فاء کا داخل کرنا واجب ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(١) اذا کا جواب جملہ اسمیہ ہو جیسے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌۖ...
(٢) جواب فعل طلب ہو یعنی امر، نھی واستفہام میں سے کوئی ہو نحو:
*امر کی مثال*: یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِذَا قُمۡتُمۡ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغۡسِلُوا۟ وُجُوهَكُمۡ وَأَیۡدِیَكُمۡ....
*نھی کی مثال*: إذا سمعتم بالطاعون في أرض فلا تدخلوها وإذا وقع بأرض وانتم بها فلا تخرجوا منها (مسند احمد)
*استفہام کی مثال*: إذا رأيت حامدا فماذا تقول له؟