• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

از:قلم" ظفر اقبال ظفر:میری موت، تدفین اور لوگوں کی بدلتی وفاداریاں

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
104

کالم:عنوان"
میری موت،تدفین اور لوگوں کی بدلتی وفاداریاں
رات کافی بیت چکی تھی کہ گھر والے نیند کے مزے لے رہے تھے بیوی بچے سب بے فکری کی گہری نیند کی آغوش میں جا چکے تھے کہ اتنے میں میری سانسیں گھٹنے لگیں اور میری سانس کے تمام بندھن ٹوٹنے لگے ایک ایک سانس کی ڈوری ٹوٹتی چلی گئی_ موت کا اٹل فیصلہ آ چکا تھا اور فرشتہ حکم الٰہی کے مطابق ایک بھی سیکنڈ کی مہلت دیے بغیر اپنا کام شروع کر چکا تھی_ رات کا کافی حصہ بیت چکا تھا اور میری سانس گھٹنے کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی جس کے ساتھ ہی میری آواز بقدر تیز ہونے لگی تمام گھر والے اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب کے تمام معالج کو باری باری آزما چکے تھے_ میری طبیعت مسلسل بگڑنے لگی گھر والوں نے آلہ آباد سے لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ایمبولینس کو کال کی رات کی تاریکی میں گھر والے مجھے سوار کرکے لاہور کا رخ کر چکے تھے کچھ سانسیں باقی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی قصور کے قریب پہنچ گئی کہ ہچکی آئی ،آنکھیں آسمان کی طرف اٹھیں جیسے کسی کو آسمان سے اترتے دیکھ رہیں ہوں_قریب بیٹھے باپ کی آنکھیں بھر آئیں اور پاس بیٹھی میری والدہ کو اشارہ کیا کہ بس واپس چلیں اللہ نے اپنی امانت واپس لے لی ہی_ مطلب مریض سفر آخرت کی پہلی سیڑھی پر پاؤ رکھ چکا ہے اور تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں_ قریب بیٹھے گھر والوں نے گھر فون پر میری فوتگی کی اطلاع دی ہر طرف قرب و جوار میں چاہنے والوں کو فیس بک، واٹس ایپ ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر، مقامی اخبارات، اور محلے کی تمام مساجد میں اعلانات کے ذریعے فوتگی کی اطلاع دے دی گئی- کچھ ہی دیر کے بعد ایمبولینس محلے میں داخل ہوئی بیوی ، بچے،دوست احباب اور نزدیک کے عزیز و اقارب کا جم غفیر میرے گھر امڑ آیا ہر کسی کی آنکھ بہ رہی تھی اور بیوی بچوں سے سوالیہ انداز میں روتے ہوئے پوچھنے لگی کہ تمہارے بابا ہم سے کیوں ناراض ہوگئے ہیں ان کو کیا ہو گیا ہے ہم سے بات کیوں نہیں کرتے؟ اس کے ساتھ ہی رونے کی زور دار آوازیں آنے لگیں میت گھر کے صحن میں رکھ دی گئی اور والدین ، بہن بھائیوں ، بیوی بچوں کی تمام امیدیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دم ٹوڑ گئیں یوں میری ہنستی مسکراتی زندگی کا کھیل ختم ہوا اور آج کے بعد میری ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی_
عنوان: میری تجہیز و تکفین
جیسے ہی میری موت کی اطلاع ممکن ذرائع ابلاغ سے احباب تک پہنچی تو تقریباً سب کا ایک ہی سوال تھا کہ جنازہ کب ہے؟ اتنے میں گھر والوں نے مشاورت کے بعد موسم گرمامیں لاش خراب ہونے اور جنازے کے لیے طویل سفر کر کے آنے والے احباب کی واپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے عصر کی نماز کے فوراً بعد جنازے پڑھانے کا فیصلہ کیا جس کی اطلاع تمام ممکن ذرائع سے احباب تک پہنچا دی گئی _ تیزی کے ساتھ وقت نماز عصر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ غسل اور کفن دے کر مجھے خوشبو لگا کر دلہے کی طرح سجھا دیا گیا_بیوی چھوٹی بیٹی کہ پوچھنے پر روتے ہوئے ۔میری بیوی کہنے لگی آپ کے بابا آپ کے لیے چوڑیاں اور گڑیا لینے گئے ہیں ابھی کچھ ہی دیر میں آ جائیں گے یعنی جھوٹی تسلیاں دینے لگی _ ادھر مؤذن نے نماز عصر کے لیے آذان کہنا شروع کی انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں میت والی چار پائی گھر سے اٹھا لی گئی_ بہنیں، ماں، بیوی اور چھوٹی چھوٹی بچیاں چار پائی کے ساتھ چمٹ گئیں مگر اللہ کے فیصلوں کے آگے کسی کا کوئی زور نہیں چلتا_ بل آخر چار پائی مسجد میں سائیڈ پر رکھ دی گئی نمازیوں نے نماز عصر ادا کی اور چار پائی امام کے سامنے رکھ دی گئی- نماز جنازہ کے لیے صف بندی کی جا چکی تھی امام صاحب نے اعلان کیا میت کے ذمہ کچھ قرض ہے کوئی ذمہ داری لے لے تا کہ میت بری ہو جائےلوگوں کی آنکھیں منتظر تھیں کہ کون میت کے ورثا میں سے 10 ہزار روپے میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری لیتا ہے مگر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا_ میرے ایک مخلص دوست انہوں نے نقد ادا کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد امام صاحب نے جنازہ پڑھانا شروع کیا_ جنازہ پڑھا جا چکا تھا کہ لاہور اور ملک کے طول وعرض سے آئے احباب اپنے سواریوں میں سوار ہو کر چل دیے ، کچھ احباب تو گرمی کی شدت، بیماری ، ادارہ جاتی مجبوری کا بہانا بنا کر جنازے میں شرکت سے گریزاں رہے اور جو پہنچے بھی تو اس وقت جب جنازہ پڑھا جا چکا تھا_ گھنٹوں میرے پاس بیٹھ کر ہنسنے ہنسانے والے آج قبر تک ساتھ جانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے- کوئی چار پائی اٹھا کر قبر تک لیجانے سے بھی گریزاں تھے_ میں انتظار کر رہا تھا کہ کون اپنے کندھوں سے میرا بوجھ اتارے گا مگر کوئی فالورز مجھے قبر تک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا_ خیر میں خاموشی سے پل بھر میں لوگوں کی بدلتی وفاداریاں نوٹ کر رہا تھا مگر میں آج کر بھی کیا سکتا تھا؟ خیر کچھ بوڑھے آگے بڑھے چار پائی کو کندھا دیا اور قبر کے پاس لیجا کر چار پائی رکھ دی گئی _ قبر تیار تھی ،مجھے قبر میں اتار دیا گیا ،کفن کے سارے بند کھول دیے گئے، سلیپیں رکھی جا چکی تھیں ، مٹی ڈال دی گئی میرے سفید کفن کا اور میرے غسل کیے ہوئے کا کسی نے ذرا بھر خیال نہ کیا_ تدفین کے فوری بعد اعلان کر دیا گیا مہمانوں کے لیے کھانا تیار ہے کھا کر جانا- کسی نے میری بھوک خیار نا کیا، گھر پہنچ کر سب لوگ کھانے کے لیے جھگڑ رہے تھے- کوئی پانی نا ملنے کی وجہ سے جھگڑ رہا تھا تو کوئی پلیٹ میں بوٹی نا آنے کی وجہ سے ناراض ہو کر کھانا چھوڑ کر جا رہا تھا- کچھ دنوں بعد میرے بیوی ،بچوں کو گھر سے نکال دیا گیا- گھر والے قبر تک بھول چکے تھے-بیوی بچیوں کو لے کر میکے چلی گئی گھر میں شہزادی بن کر رہنے والی لوگوں کے گھروں میں کام کر کے بچیوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے لگی- ہر فنگشن پر زیور کا ڈیزائن تبدیل کرنے والی بیوی عید کے موقع پر کپڑوں کو ترسنے لگی- کسی نے میرے مرنے کے بعد میری بچیوں کے سر پر شفقت والا ہاتھ نا رکھا، بیوی بچیوں کو لے کر حالات کے رحم و کرم پر زندگی کے ایام گزار رہی تھی- رشہ دار ایک ایک کر کے سب چھوڑتے چلے گئے- میری موت تک جو میری بچیوں پر جان دینے والے جانی دشمن بن گئے-
حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے گھر والے قبر تک بھول گئے- موسم تیزی سے بدلتا جا رہا تھا، تیز آندھیوں اور موسلادھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا - ایک دن فجر کی نماز کے وقت شروع ہونے والی بارش سے شہر کے گلی محلے ندی نالوں کی صورت اختیار کر چکے تھے- دن کا دو تہائی حصہ بارش کی نظر ہو گیا- اللہ اللہ کر کے برش رکی نظام زندگی کچھ بحال ہوا_ لوگ اپنے پیاروں کی خبر گیری کے لیے قبرستان پہنچے دیکھا بہت ساری قبریں بارش کی نظر ہو گئی ہیں- اتنے میں کسی نے شہر کی مختلف مساجد میں اعلان کروایا کہ بارش کہ وجہ سے بہت ساری قبریں گر گئی ہیں اپنی قبریں دیکھ لیں_ کسی طرف سے بارش کا پانی میری قبر میں داخل ہوا قبر کی ساری مٹی میرے اوپر گر گئ،ایک تو قبر کے پانی سے بھر جانا اوپر سے قبر کی مٹی کا بھی گر جانا میری برداشت سے باہر تھا، میرا دم گھٹا جا رہا تھا ،میری سانسیں اکھڑ رہی تھیں، اوپر سے بارش کے پانی نے میرا جینا دوبھر کر دیا تھا_میرے آس پاس لوگ اپنے پیاروں کی قبروں کی درستگی کر رہے تھے مگر میں منتظر ہی رہا کہ کوئی میرا بھی پیارا مجھے قبر سے نکال کر قبر کو صاف کرے گا مجھے بھی آرام کے لیے خشک جگہ میسر آئے گی مگر کسی نے میرا حال تک نا پوچھا_ اچانک قبروں کی دیکھ بھال کرنے والا ملنگ میری قبر کے پاس آیا مجھے قبر سے نکالا، قبر خشک کی ، میرے کفن کو صاف کیا ،مجھے دوبارا قبر میں رکھ کر مٹی ڈال دی، مجھے بھی سکھ کا سانس نصیب ہوا، مجھے بھی آرام دہ جگہ میسر آئی ، میری بھی سانس بحال ہوئی _ خیر میرے لاکھوں فالورز ، ہزاروں چاہنے والے، میرے اپنے میرے کسی کام نا آئے_ یاد رکھیں چلتی کا نام گاڑی ہے ، دنیا کی ساری محبتیں صرف اور صرف مطلب پرستی اور مفاد پرستی کے گرد گھومتی ہیں، مرنے کے بعد کوئی کسی کے کچھ کام نہیں آتا-
 
Last edited:
Top