ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 104
کالم:عنوان"
میری موت،تدفین اور لوگوں کی بدلتی وفاداریاں
عنوان: میری تجہیز و تکفین
جیسے ہی میری موت کی اطلاع ممکن ذرائع ابلاغ سے احباب تک پہنچی تو تقریباً سب کا ایک ہی سوال تھا کہ جنازہ کب ہے؟ اتنے میں گھر والوں نے مشاورت کے بعد موسم گرمامیں لاش خراب ہونے اور جنازے کے لیے طویل سفر کر کے آنے والے احباب کی واپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے عصر کی نماز کے فوراً بعد جنازہ پڑھانے کا فیصلہ کیا جس کی اطلاع تمام ممکن ذرائع سے احباب تک پہنچا دی گئی _ تیزی کے ساتھ وقت نماز عصر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ غسل اور کفن دے کر مجھے خوشبو لگا کر دلہے کی طرح سجھا دیا گیا_بیوی چھوٹی بیٹی کہ پوچھنے پر روتے ہوئے کہنے لگی آپ کے بابا آپ کے لیے چوڑیاں اور گڑیا لینے گئے ہیں ابھی کچھ ہی دیر میں آ جائیں گے یعنی جھوٹی تسلیاں دینے لگی _ ادھر مؤذن نے نماز عصر کے لیے آذان کہنا شروع کی انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں میت والی چار پائی گھر سے اٹھا لی گئی_ بہنیں، ماں، بیوی اور چھوٹی چھوٹی بچیاں چار پائی کے ساتھ چمٹ گئیں مگر اللہ کے فیصلوں کے آگے کسی کا کوئی زور نہیں چلتا_ بل آخر چار پائی مسجد میں سائیڈ پر رکھ دی گئی نمازیوں نے نماز عصر ادا کی اور چار پائی امام کے سامنے رکھ دی گئی- نماز جنازہ کے لیے صف بندی کی جا چکی تھی امام صاحب نے اعلان کیا میت کے ذمہ کچھ قرض ہے کوئی ذمہ داری لے لے تا کہ میت بری ہو جائےلوگوں کی آنکھیں منتظر تھیں کہ کون میت کے ورثا میں سے 10 ہزار روپے میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری لیتا ہے مگر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا_ میرے ایک مخلص دوست نے نقد ادا کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد امام صاحب نے جنازہ پڑھانا شروع کیا_ جنازہ پڑھا جا چکا تھا کہ لاہور اور ملک کے طول وعرض سے آئے احباب اپنے سواریوں میں سوار ہو کر چل دیے ، کچھ احباب تو گرمی کی شدت، بیماری ، ادارہ جاتی مجبوریوں کا بہانا بنا کر جنازے میں شرکت سے گریزاں رہے اور جو پہنچے بھی تو اس وقت جب جنازہ پڑھا جا چکا تھا_ گھنٹوں میرے پاس بیٹھ کر ہنسنے ہنسانے والے آج قبر تک ساتھ جانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے- کوئی چار پائی اٹھا کر قبر تک لیجانے سے بھی گریزاں تھے_ میں انتظار کر رہا تھا کہ کون اپنے کندھوں سے میرا بوجھ اتارے گا مگر کوئی فالورز مجھے قبر تک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا_ خیر میں خاموشی سے پل بھر میں لوگوں کی بدلتی وفاداریاں نوٹ کر رہا تھا مگر میں آج کر بھی کیا سکتا تھا؟ خیر کچھ بوڑھے آگے بڑھے چار پائی کو کندھا دیا اور قبر کے پاس لیجا کر چار پائی رکھ دی گئی _ قبر تیار تھی ،مجھے قبر میں اتار دیا گیا ،کفن کے سارے بند کھول دیے گئے، سلیپیں رکھی جا چکی تھیں ، مٹی ڈال دی گئی میرے سفید کفن کا اور میرے غسل کیے ہوئے کا کسی نے ذرا بھر خیال نہ کیا_ہر کوئی مٹی ڈال کر ہاتھ بھی میرے اوپر جھاڑ رہا تھا گویا مجھے کہ رہا تھا کہ آج مٹی ڈال کر ہم تیری تمام وفاداریوں اور احسانات کا بدلہ چکا دیا ہے۔ تدفین کے فوری بعد اعلان کر دیا گیا مہمانوں کے لیے کھانا تیار ہے کھا کر جانا- کسی نے میری بھوک کا خیار نہ کیا، گھر پہنچ کر سب لوگ کھانے کے لیے جھگڑ رہے تھے- کوئی پانی نہ ملنے کی وجہ سے جھگڑ رہا تھا تو کوئی پلیٹ میں بوٹی نہ آنے کی وجہ سے ناراض ہو کر کھانا چھوڑ کر جا رہا تھا- کچھ دنوں بعد میرے بیوی ،بچوں کو گھر سے نکال دیا گیا- گھر والے قبر تک بھول چکے تھے-بیوی بچیوں کو لے کر میکے چلی گئی گھر میں شہزادی بن کر رہنے والی لوگوں کے گھروں میں کام کر کے بچیوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے لگی- ہر فنگشن پر زیور کا ڈیزائن تبدیل کرنے والی بیوی عید کے موقع پر کپڑوں کو ترسنے لگی- کسی نے میرے مرنے کے بعد میری بچیوں کے سر پر شفقت والا ہاتھ نہ رکھا، بیوی بچیوں کو لے کر حالات کے رحم و کرم پر زندگی کے ایام گزار رہی تھی- رشہ دار ایک ایک کر کے سب چھوڑتے چلے گئے- میری موت تک جو میری بچیوں پر جان دینے والے جانی دشمن بن گئے-
حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے گھر والے قبر تک بھول گئے- موسم تیزی سے بدلتا جا رہا تھا، تیز آندھیوں اور موسلادھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا - ایک دن فجر کی نماز کے وقت شروع ہونے والی بارش سے شہر کے گلی محلے ندی نالوں کی صورت اختیار کر چکے تھے- دن کا دو تہائی حصہ بارش کی نظر ہو گیا- اللہ اللہ کر کے بارش رکی نظام زندگی کچھ بحال ہوا_ لوگ اپنے پیاروں کی خبر گیری کے لیے قبرستان پہنچے دیکھا بہت ساری قبریں بارش کی نظر ہو گئی ہیں- اتنے میں کسی نے شہر کی مختلف مساجد میں اعلان کروایا کہ بارش کہ وجہ سے بہت ساری قبریں گر گئی ہیں اپنی قبریں دیکھ لیں_ کسی طرف سے بارش کا پانی میری قبر میں داخل ہوا قبر کی ساری مٹی میرے اوپر گر گئ،ایک تو قبر کا پانی سے بھر جانا اوپر سے قبر کی مٹی اور سلیپو کا بھی گر جانا میری برداشت سے باہر تھا، میرا دم گھٹا جا رہا تھا ،میری سانسیں اکھڑ رہی تھیں، اوپر سے بارش کے پانی نے میرا جینا دوبھر کر دیا تھا_میرے آس پاس لوگ اپنے پیاروں کی قبروں کی درستگی کر رہے تھے مگر میں منتظر ہی رہا کہ کوئی میرا بھی پیارا مجھے قبر سے نکال کر قبر کو صاف کرے گا مجھے بھی آرام کے لیے خشک جگہ میسر آئے گی مگر کسی نے میرا حال تک نہ پوچھا_ اچانک قبروں کی دیکھ بھال کرنے والا ملنگ میری قبر کے پاس آیا مجھے قبر سے نکالا، قبر خشک کی ، میرے کفن کو صاف کیا ،مجھے دوبارا قبر میں رکھ کر مٹی ڈال دی، مجھے بھی سکھ کا سانس نصیب ہوا، مجھے بھی آرام دہ جگہ میسر آئی ، میری بھی سانس بحال ہوئی _ خیر میرے لاکھوں فالورز ، ہزاروں چاہنے والے، میرے اپنے میرے کسی کام نہ آئے_ یاد رکھیں چلتی کا نام گاڑی ہے ، دنیا کی ساری محبتیں صرف اور صرف مطلب پرستی اور مفاد پرستی کے گرد گھومتی ہیں، مرنے کے بعد کوئی کسی کے کچھ کام نہیں آتا- اچھے اعمال اور اللہ کی رضا کے لیے اپنے ہاتھ سے دیا ہی کام آتا ہے باقی سب مال و زر ورثا تقسیم کر لیتے ہیں اس لیے مال جمع کرتے وقت جائز اور ناجائز کی تمیز ضرور کیا کریں اپنے کیے کا حساب بھی صرف آپ نے دینا ہے۔
Last edited: