محمد عاصم حفیظ
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 13، 2011
- پیغامات
- 25
- ری ایکشن اسکور
- 142
- پوائنٹ
- 0
اسامہ کا سچ
اسامہ بن لادن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آج وہ ہم میں نہیں رہے لیکن سامراج اور ظالم قوتوں کے خلاف ان کی جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔ امریکہ اور اس کے حواری دس سال اس شخص کا تعاقب کرتے رہے لیکن تورابورا کے پہاڑوں پر بارود کی بارش اور افغانستان کے چپے چپے پر کو کھنگالنے کے باوجود ڈھونڈا نہیں جا سکا۔ اسامہ بن لادن نائن الیون سمیت دیگر واقعات میں ملوث تھا یا نہیں اس کے ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آ سکے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ دنیا کی سپر پاور ہونے کے دعویدار ملک امریکہ کا غرور خاک میں ملانے کا ” مجرم “ ضرور تھا۔ وہ سامراج کا باغی تھا، وہ ظالموں سے نجات کا داعی تھا ، وہ حرمین شریفین اور ارض فلسطین سے ناپاک قدموں کو مٹانے کا عزم رکھتا تھا ، اس نے اسلام کے وجود کو مٹانے والی قوتوں سے ٹکر ضرور لی تھی ۔ یہی وہ جرائم اور وجوہات تھیں کہ جس کے باعث اسامہ بن لادن کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا تا رہا ۔ عالمی میڈیا مطلوب ترین شخص کے طور پر اس کی تصاویر سرورق کی زینت بناتا اور دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ تمام مسائل کی واحد وجہ اس کی ذات ہی ہے ۔ ظالم قوتیں اپنے وسائل سے اس کے وجود کو مٹانے کے لئے سر توڑ کوششیں کرتی رہیں اور آج بظاہر انہیں اس مقصد میں کامیابی ملی ہے کہ کفر اور ظلم کے خلاف میدان میں موجود ایک مضبوط اور بلند آواز کو خاموش کرا دیا گیا ہے ۔ لیکن یہ اختتام تو نہیں بلکہ ایک بڑے معرکے کا آغاز ہی تو ہے ۔ اسامہ کی شہادت پر سامنے آنیوالے ردعمل نے کئی چہروں سے نقاب ہٹا دئیے ہیں اور کفر و اسلام کے اس معرکے میں دوست دشمن کی پہچان مزید آسان بنا دی ہے ۔ جن سے امیدیں تھیں ان کے کردار واضح ہوئے ہیں اور جو بڑے معرکہ باز ہونے کا دعوی کیا کرتے تھے آج وہ عالمی طاقتوں کے ڈر سے بولنے کے صلاحیت سے بھی محروم نظر آتے ہیں ۔ہم پاکستانیوں کو بتایا گیا ہے کہ اسامہ تو ان کا مخالف اور دشمن تھا۔ امریکی صدر باراک اوبامہ جو کہ اپنی فوجی و معاشی طاقت کے نشے میں دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کے دعویدار ہیں ، آج ان کے ہی ”فتوے“ پر ساری دنیا تابع نظر آتی ہے ۔ پاکستانی وزیر اعظم اسے عظیم کامیابی قرار دیتے ہیں تو صدر زرداری خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ عالمی رہنماو ¿ں کے بیانات تو یقینا وہی ہوں گے کہ جو واشنگٹن کے وائٹ ہاو ¿س سے فیکس کئے جاتے ہیں لیکن سب سے زیادہ حیرانی پاکستانی عوام کے ردعمل پر ہے۔ حکمرانوں کا رویہ تو ہمیشہ سے ہی یہ رہا ہے کہ انہیں عالمی استعماری قوتوں کی زبان بولنا ہوتی ہے لیکن کیا پاکستانی عوام بھی جھوٹ اور الزام تراشی کی اس مہم میں برابر کے شریک ہیں ۔ میں مغرب زدہ طبقے کی بات نہیں کر رہا بلکہ ان لوگوں سے مخاطب ہوں کہ جن کے دل میں اب بھی کہیں کہیں
اسلام اور ارض پاکستان کی محبت موجود ہے ۔ اسامہ کو شہید کہنے سے ڈرنے والوں کو چاہیے کہ ذرا اس شخص کی جدوجہد کا مطالعہ بھی ضرور کریں ۔ عرب کے امیر ترین خاندان کا اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اس خطے کو ایک لادین بھیڑئیے (روس) سے بچانے آیا تھا۔ اسے ایک المیہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی غلامی نے ہمیں واقعی اخلاقی پستی کی آخری حدوں پر پہنچا دیا ہے ۔ کون اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ روس کا مقصد افغانستان کے خشک اور سنگلاخ پہاڑوں پر ڈیرے ڈالنا نہیں بلکہ گوادر کی بندرگاہ پر موجود گرم پانی سے مستفید ہونا تھا ۔ تو ایسے میں اگر کوئی نوجوان اپنی عیش و عشرت والی زندگی کو چھوڑ کر اسلحہ سے دوستی کرتا ہے ، مشکل ترین حالات میں اپنی زندگی کو داو ¿ پر لگا دیتا ہے ۔ اس کا واحد مقصد پاکستان اور افغانستان کے مسلمان بھائیوں کی مدد ہوتا ہے ۔ تو کیا اب ہم اپنے آقاو ¿ں کے کہنے پر اسے بھول سکتے ہیں ۔ نائن الیون کے واقعے کی آڑ میں جب امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑتا ہے تو یہی شخص تنقید کا سب سے بڑا ہدف بنتا ہے ۔ ساری دنیا اس کے خون کی پیاسی بن جاتی ہے ۔ ہم سے تو وہ جاہل گنوار افغان ہی اچھے کہ جنہوں نے اپنے اس محسن کو بھلایا نہیں بلکہ اس کی خاطر حکومت کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا ۔اس لیے کہ انہیں اسامہ کے بولے ہوئے سچ کا یقین تھا کہ امریکی کبھی کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ یہ جس سے بھی دوستی کا وعدہ کریں بہت جلد اسی کو نشان عبرت بنانے کی مہم بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ صدام ہو یا حسنی مبارک ۔ مشرق وسطی سے لیکر لاطینی امریکہ تک ایسے بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔اور ایک ہم ہیں کہ اسی دھوکے باز اور قتل و غارت کے شوقین سامراج کے ساتھی بنے ہوئے ہیں ۔ کیا تاریخ ایسی قوم کو معاف کرے گی کہ جس نے ایک طاقتور کے کہنے پر چند ٹکوں کی خاطر اپنے ہیرو کو ہی بھلایا دیا اور نہ صرف بھلا دیا بلکہ اس کی شہادت پر خوشی کے شادیانے بجائے اور اسے عظیم کامیابی قرار دیا ۔ ہمیں اپنے دوستوں کو خوش رکھنا ہے بس ۔ لیکن اب تو ہمیں اس منافقت کی سزا بھی ملنا شروع ہو چکی ہے ۔ جن کی خاطر ہم نے روسی کے خلاف لڑنے والے اپنے محسنوں کو پکڑ پکڑ کر مارا یا گرفتار کرکے گوانتاناموبے پہنچایا وہی نام نہاد دوست اب ہماری جان لینے کے درپے ہیں ۔ ہر کوئی ہمیں ہی دہشت گرد کہتا ہے اور تنقید کا نشانہ بناتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسامہ بن لادن تو دوہزار ایک میں ہی کہتا تھا کہ امریکہ دوست نہیں بلکہ صرف اور صرف دشمن ہے اور ہمیں آج اس کا احساس ہو رہا ہے اور شائد آنیوالے دنوں میں مزید ہوگا کہ جب کفر کے پروپیگنڈے اور خدانخواستہ اسلحے کے ہدف ہم ہوں گے ۔ امریکی سی آئی اے کے سربراہ اور دیگر حکام کے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اب پاکستان کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جو قوم اپنے محسنوں کے ساتھ برا سلوک کرے اسے ضرور سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ کسی کے شہید کہنے یا ہلاک قرار دینے سے اسامہ بن لادن کو شائد کچھ زیادہ فرق نہ پڑے کیونکہ وہ تو اپنے زندگی میں سرخرو ہو کر خالق حقیقی کے پاس جا چکے ہیں ۔ انہوں نے پوری زندگی کفر اور اسلامی کی تفریق کا خیال رکھا اور جابر وملحدوں کے خلاف
جدوجہد کی ، روس ہو یا امریکہ کبھی بھی کسی ظالم کا ساتھ دینے کا گناہ نہیں کیا ، شہادت کو قبول کیا لیکن غدار بن کر اسلام اور جہاد پر حرف نہیں آنے دیا ۔ فکر تو ہمیں کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے کیا حاصل کیا ۔ہم نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ہماری حفاظت کرنیوالے کو بھلایا ، اس پر الزامات لگائے ، اس جنگ میں اس کے مخالف لشکر کے ہمدرد بنے رہے اور حد تو یہ کہ جب اسشخص کے سرخرو ہو کر خالق حقیقی سے جا ملنے کی اطلاع آئی تو بھی شہید یا ہلاک کی بحث میں پڑے رہے ۔ سامراجی قوتیں ظلم و ستم سے باز نہیں آئیں گی اور ان کی رعونت، تکبر اور حاکمیت کو للکارنے والے بھی انشاءاللہ پیدا ہوتے رہیں گے ،اور بہت جلد ہمیں ضرور احساس ہو گا کہ کفر کا باغی اور سامراج کا دشمن اسامہ بن لادن ہلاک نہیں ہوا بلکہ وہ تو ہمارا محسن شہید ہے۔ آج اسے شہید کہیں یا ہلاک لیکن آنیوالے دنوں میں اسامہ بن لادن کو ضرور سچا کہنا پڑے گا ۔ جی وہی کہ جس نے سب سے پہلے ہمیں احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ یہ امریکی درندے کبھی تمہارے دوستے نہیں ہو سکتے ۔ شائد اس وقت ہمیں اسامہ بن لادن کہ سچائی کا زیادہ شدت سے احساس ہو گا۔ کاش ہم اب بھی امریکی استعمار کے خلاف نفرت کی علامت بن جانیوالے اسامہ بن لادن کی بات کا یقین کر لیں اور ہمیں دوست دشمن کی پہچان ہو جائے۔
محمد عاصم حفیظ