• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسباب طلاق کا تجزیاتی مطالعہ

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
اسباب طلاق کا تجزیاتی مطالعہ

شعبان بیدارؔ
طلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ٹوٹ پھوٹ ، اختلاف و انتشار اور مایوسی و افسردگی کی ایک مکروہ صورت ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے طلاق کا مسئلہ اگر صرف اتنا ہو تا کہ دو افراد ایک ساتھ رہتے تھےجو کسی وجہ سے الگ ہو گئے تو اتنی بڑی بات نہیں تھی۔ حالانکہ شریعت کی نظر میں محض یہ چیز بھی بہت عظیم ہے لیکن خطرناکی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ محض دو لوگوں کا بگاڑ نہیں کہ بالعموم یہ دو خاندانوں او ردو گھروں کا بگاڑ بن جاتا ہے ،اس سے بھی بڑی بات تب پیدا ہوجاتی ہے جب دونوں سے بچے موجود ہوتے ہیں ،بچے اگر ابھی چند ماہ کے ہی ہوں تب بھی بڑھنے کے بعد جو احساس محرومی ابدی طور پر ان کے اندر جنم لے لیتا ہے وہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ صرف اسی کو ہو سکتا ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہو اور اگر بچے ماں باپ کو پہنچاننے لگے ہوں دونوں کے پیار کو محسوس کرنے لگے ہوں یا پھر بچے بڑے ہوں تو ایسی صورت میںجو شاک بچوں کو لگتا ہے وہ انتہائی صبر آزما ہوتا ہے ،یہ بچے اگر ماں کے پاس ہیں تو باپ کی شفقتوں اور باپ کے پاس ہیں تو ماں کے پیارے سے محروم ہونے کے ساتھ دونوں کے درمیان جاری کشاکش سے عدم توازن کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لئے یہ امر انتہائی اہم ہے کہ طلاق کے عمومی اسباب پر غور کرلیا جائے۔
طلاق کے وہ ظاہری اسباب جو صرف مغرب کی نسبت سے سننے میں آتے ہیں ان پر یہاں گفتگو نہیں کی جا سکتی اوردرحقیقت وہ اسبابِ طلاق ہیں بھی نہیں ۔مثلاً اہل مغرب کے یہاں میاں بیوی میں اس بات پر طلاق ہوجائے کہ بیوی کو میاں کے کتے کا رنگ پسند نہیں یا طلاق اس بات پر ہو جائے کہ میاں کو بیوی کا بوائے فرینڈ سے بار باربات کرنا پسند نہیں آرہا تھا۔غرض اس مفلس معاشرے کے لئے طلاق پر گفتگو عبث ہے کیونکہ ان کے یہاں سرے سے کوئی نکاح ہی نہیں ہوتا۔ جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھا، سونگھا سانگھا اور آنا جانا ہوا کہ ساتھ رہنا بھی ہو گیا اور کسی روز بھونکا بھونکی ہو گئی کتا کسی اور کتیا کے ساتھ اور کتیا کسی اور کتے کے ساتھ روانہ ہوگئی۔
طلاق کے اسباب دراصل سنجیدہ انسانی معاشرے کے لئے ہیں خواہ ایسا معاشرہ مغرب میں ہو یا مشرق میں ۔
طلاق کے اسباب جو بھی ہیں ان میں کوئی ترجیح قائم نہیں کی جا سکتی عورت کا بد زبان اور بد چلن ہونا مرد کا شدید مار پیٹ کرنا اور جنسی طور پر کمزور ہونا طلاق کے حتمی اسباب میں سے ہیں، اس کے باوجود ہمارے لئے ممکن نہیں کی کوئی خاص ترتیب اور ترجیح قائم کر سکیں ۔ گھریلونا چاقیاں طلاق کا عمومی سبب بنتی ہیں یہ ناچاقیاں معاملات کی پیچیدگیوں سے اٹھتی ہیں،معمولی باتیں ہمارے غیر معمولی اختلافی انداز سے بڑی بن جاتی ہیں۔ فاصلہ کم ہوتا ہے لیکن بڑے رد عمل سے کم فاصلہ زیادہ اثر ڈال دیتا ہے ۔بعض چیز یں چھوٹی ہوتی ہیں انسان دھیان نہیں دیتا لیکن یہ بھی جاننا چاہئے کہ بہت سی چھوٹی چیزوں کا لحاظ کرلینا بڑے پیمانے پر اچھے اثرات کا حامل ہوتا ہے ۔
گناہ اور برائیوں کے نتائج بھی بڑے تہ در تہ ہوتے ہیں انسان گناہ کرتا جاتا ہےاور اس کے تانے بانے تیار ہوتے جاتے ہیں پھر وہ ایک دوسرے سے الجھتے جاتے ہیں اور زندگی اس الجھن کا بری طرح شکار ہوجاتی ہے انسان کو بظاہر طلاق کا کوئی چھوٹایا بڑا سبب نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ظاہری سبب گناہ کی مٹی سے نکلا اور معصیت کے پانی سے شاداب تھوہر کا پودا ہوتا ہے ۔
اللہ کا ارشاد ہے:{ وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ}(الشوریٰ: ۳۰)
’’جو کچھ تمہیں پیش آتا ہے وہ دراصل تمہاری کرتوت کا نتیجہ ہوتا ہے ‘‘۔
ہمارے یہاں والدین کے اندر ایک رویہ یہ پایا جاتا ہے کہ وہ از خود بچوں کی شادی کا کہیں ذہن بنا لیتے ہیں اور پھر محسوس و غیر محسوس تمام ہی ذرائع سے بچو ں پر دباؤ ڈالتے ہیں اس دباؤ میں والدین کے یہاں اخلاص ہوتاہے، لیکن واقعہ یہ بھی ہے کہ یہ اخلاص ہر جگہ نہیں ہو اکرتا کہیں سوچ یہ ہوتی ہے کہ جہیز اچھا مل جائے گا، فلاں گھر میں شادی سے ہمارا اسٹیٹس بڑھے گا، فلاں سے میری دوستی ہے یا فلاں ایسے اور اس قسم کی رشتہ دار ہیں ان کی بات کو کیسے کا ٹا جائے حتیٰ کہ بہت دفعہ ایسے کریہہ اور نا قابل بیان اسباب بھی دیکھے جاتے ہیں کہ اللہ ہی مددگار ہے ۔غرض بچے کی پسند سے زیادہ والدین اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں اور بچہ کے بجائے بچی ہو تو معاملہ اور ہی دشوار ہوجاتا ہے اس کی خاموشی کا معنی ہی کچھ اور ہو گیا یعنی وہ کتنی بھی ناراض ہو کتناہی نا پسند کیوں نہ کررہی ہو بس خاموش ہو تو کافی ہے ۔ اگر بچی دبے یا کھلے لفظوں میں اس کا اظہار کردے تو ہرطرف سے لعنت اور پھٹکار ! دراصل یہ وہ چیز ہے جس نے ہماری بچیوں کے اندر باغیانہ ذہن کی پرورش میں بڑا کردارادا کیا ہے۔ صورت دو ہی بنتی ہے یا تو ماں باپ کی ناجائز خواہش کےمطابق عقل مند اولاد شادی نہ کرےیا شادی کرکے ایک مکمل محرومی اور ذہنی اذیت کے ساتھ زندگی گزاردے یہی زندگی جب نہیں گزرپاتی تو طلاق کا شیطان نمودار ہو جاتا ہے ۔
طلاق کا ایک انتہائی عجیب و غریب سبب ہے ’’ لو میرج‘‘ ۔ لو میرج یعنی محبت کی شادی! سوال یہ ہے کہ جب یہ شادی ہوتی ہی ہے محبت کے سمندر کو چھلک جانے سے سنبھالنے کے لئے تو ایسا کیا ہوجاتا ہے جو سمندر میں بھی صحراکی خاک اڑنے لگتی ہے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ یہ تعلق ہی غیر ذمہ دارانہ قسم کا تعلق ہوتا ہے البتہ شیطان اسے انتہائی مزین کرکےپیش کرتا ہے اورخود طرفین ایک دوسرے پر اپنی خوبیاں ہی ظاہر کرتے ہیں ہر وہ گزر گاہ اور ہر وہ موقع جہاں ایک دوسرے کو نظر آجانے کا امکان ہوتا ہے وہاں کوشش یہ ہوتی ہے کہ زینت میں رہیں اگر زینت میں نہ رہیں توھیئت کم ازکم خراب نہ ہو۔ظاہر ہے اس تصور کےساتھ دولوگوں کا ناجائز رابطہ ہوتا ہے تو بھلا خامیوں پر نظر کیسے جا سکے گی پھر بالعموم دونوں پر کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لئے ذہن و دماغ میں تفریح کی بھر پور آمادگی قائم رہتی ہے پھر بات بات میں جان قربان کردینے سے کم پر کوئی اظہار نہیں ہوتا، مزید یہ کہ شادی سے پہلے شوہرانہ اور بیگمانہ غیرت بھی نچلی سطح کی ہوتی ہے لیکن شادی کےبعد جب آسمانی دنیا سے زمین پر اترنا ہوتا ہے اور رنگین عینک آنکھ سے اتر جاتی ہے او رٹھیک ٹھیک دکھائی دینے لگتا ہے جان دینے والا پانی بھی خود سے اٹھا کر پینے کو راضی نہیں ہوتا شیطان بھی اب گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتا ہے پہلے تو دونوں کو ایک دوسرے کے لئے مزین بنا کر پیش کرتا تھا اور اب صرف ہاتھ ہی نہیں اٹھا لیتا دونوں میں بگاڑ کی راہیں استوار کرنے لگ جاتا ہے ۔ تو طلاق ہوجاتی ہے ۔
شک وشبہ کی وہ قسم جو انسان کو تحقیق کی طرف لے جائے اور آنکھیں کھلی رکھے، بند نہ ہونے دے محمود ہے اور مطلوب بھی۔ لیکن شک وشبہ جب انسان کی بیماری بن جائے ہر سایہ آسیب ، ہر رسی سانپ اور ہر سوال طنز وتعریض محسوس ہونے لگے گمانی بدگمانی کا دوسرا نام بن جائے انسان ہر گفتگو کو اپنی ذات سے منسوب کر رکھے تو یہ انتہائی خراب ترین نفسیات ہے ۔
اب جب یہ بیماریاں میاں بیوی کو اپنی چپیٹ میں لے لیں جن کی کل زندگی کا دارومدار ایک دوسرے پر اعتماد ایک دوسرے سے بے طرح اور مخلصانہ محبت پر منحصرہے تو نتیجہ کیا ہوگا آپ سمجھ سکتے ہیں جو لو گ شرعی طریقے پر زندگی گزارتے ہیں ان کے یہاں وفاداری سے متعلق شک وشبہ کی فضا کم ہی پیدا ہوتی ہے یا نہیں پیدا ہوتی ہے لیکن وہ لوگ جن کی زندگی کم زیادہ یا مکمل غیر شرعی طریقوں پر مبنی ہو ظاہر ہے ان کے یہاں قدم بہ قدم شبہات جنم لیں گے بایں صورت واحد حل یہی ہے کہ اپنے طور طریق میں تبدیلی لائیں ساتھ ہی ساتھ خواہ مخواہ شبہات میں مبتلا رہنے کے بجائے یقین واعتماد کی فضا قائم رکھیں ورنہ کسی نہ کسی دن وہ حادثہ بہر حال ہوجائے گا جسے کوئی بھی حساس دل انسان بہتر نہیں کہہ سکتا ۔
قرآن مجید عام ہدایت دیتے ہوئے ایمان والوں سے مخاطب ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ}(الحجرات:۱۲)’’ایمان والو!بہت زیادہ گمان کرنے سے احتراز کرو‘‘۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث‘‘’’بدگمانی سے اجتناب کرو کیونکہ گمان باتوں میں سب سے جھوٹی بات ہے‘‘ ۔
انسانی زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں خیالات کی دنیا ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی سواگر کہیں سے کچھ سن لیں خواہ گھر والوں کی زبان سے رشتہ داروں اور اعزاواقارب کی زبان سے یا غیروں کی زبان سے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مردوزن خوب تحقیق کر لیں کیونکہ فوری طور پر میلے دل کا غبار اگر آپ نے باہر نکال دیا تو بعد میں بھلے ہی آپ اپنی غلطی تسلیم کر لیں غبار کا اثر اچھی طرح زائل نہیں ہوگا، دھاگے ٹوٹنے کے بعد جوڑے جا سکتے ہیں لیکن گرہ تو پڑ ہی جائے گی۔ اس لئے کوشش یہ رہے کہ زندگی کا گلاب تھوڑا مرجھا جائے کوئی بات نہیںاس پر ناپاک سانسوں کی گرد نہ پڑنے پائے کہ یہ گلاب کی طہارت ونفاست اور نزاکت کے لئے زہر ہے ۔ قرآن پاک کی ایک سورہ سورۃ الحجرات میں اس بابت ایک رہنمائی ملتی ہے ۔اللہ کا ارشاد ہے:{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا}(الحجرات:۶)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘۔یہ آیت کریمہ اگر چہ فاسق کے بیان میں ہے لیکن اس آیت سے جو اصل مزاج کا فروغ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ تفتیش کا پہلو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ زوجین کو شک وشبہ کی فضا سے خود کو بچائے رکھنا چاہئے لیکن یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ شک وشبہ کا موقع بھی نہیں دینا چاہئے۔ مثال کےطور پر اولاً کسی عورت کو نا محرم مردوں سے بے ضرورت گفتگو نہیں کرنا چاہئے اور اگر شریعت کا پاس ولحاظ کوئی عورت نہیں رکھتی تو کم از کم گفتگو کو رنگین کرنے سے اجتناب ہونا چاہئے ۔بہت سی خواتین کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے شوہر سے گفتگو بڑی روکھی سوکھی کرتی ہیں بلکہ تیز وتند کرتی ہیں ہمیشہ ہونٹ زاویہ قائمہ میں رہتے ہیں اور ماتھا رہ رہ کے شکن آلود ہوتا رہتا ہے اسباب جو بھی ہوں لیکن ایک معتد بہ تعداد خواتین کی ایسی ہی ہیں جو غلط طرز گفتار کی شکار ہیں لیکن جب ان کا واسطہ غیر محرم سے پڑتا ہے تو سبب جو بھی ہو نیک ہو بد ہو یا کچھ بھی نہ ہو ہونٹ اپنی جگہ پر آجاتے ہیں، پیشانی چمک اٹھتی ہے اور گفتگو کا انداز لچکیلا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ایک غیرت مند شوہر کا بے چین ہونا فطری امر ہے اسے خواہ مخواہ الزام دینا زبردستی ہوگی۔
زیب وزینت کے معاملے میں بھی ہماری بہت ساری خواتین کا طرز عمل قابل اعتراض ہوتا ہے مجلسی ماحول اور علاج ومعالجہ کے لئے ان کی آراستگی دیکھتے بنتی ہے مگر شوہر کے لئے بچوں کے جھمیلوں اور کام کی کثرت جیسے سینکڑوں حوالے موجود ہوتے ہیں ۔
پردے کا معاملہ اور بھی عجیب ہوتا ہے یہ پردہ بزرگوں سے خوب کریں گی مگر جوانوں سے انداز بے تکلفانہ ہوتا ہے بلکہ بذات خود پردے کا ہی یہ کم خیال رکھتی ہیں ۔دیور ، بہنوئی یا اس قسم کے رشتہ داروں کے ساتھ ان کی خوش کلامی ، شگفتگی ، ہنسی مذاق، بے تکلفی اور اس سے آگے مزاحیہ چھیڑ چھاڑ کسی بھی ایسے شوہر کے لئے جس کی رگوں میں واقعی خون ہے اور سینے میں واقعی دل ہے دوزخ کا سامان ہے۔
کوئی بتلائے کہ اگر عورت فون پر اجنبی مردوں سے لچک دار انداز میں بات کر ے اور بات کو خواہ مخواہ دراز کر ے تو کیا شوہر شک کا شکار نہیں ہوگا؟ اگر ہم سے پوچھئے تو شوہر کا شک میںمبتلا نہ ہونا بذات خود مشکوک چیز ہے۔
طلاق کے اسباب میں شوہر کا بد اخلاق ہونا بھی شامل ہے عدم برداشت اور اخلاق وآداب سے پیدل لوگوںکو شوہریت زیب ہی نہیں دیتی ۔ان کو اگر اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا با ر محسوس ہوتا ہے تو ان کے لئے بہتر ہے کہ روزہ رکھ کر زندگی مجرد ڈھنگ سے گزار لیں ۔وجہ یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ تعامل میں اخلاق کی ایک کم از کم قسم کی سطح بہر حال ضروری ہے اگر اخلاق کی کوئی سطح کسی کے پاس نہیں ہے تو دوسروں کے ساتھ اس کا رابطہ کبھی بھی استوار نہیں رہ سکتا۔قرآن عورتوں کی بابت بطور خاص رہنمائی کرتا ہے : ’’وعاشروھن بالمعروف‘‘’’ ان کے ساتھ معروف طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔(النساء:۱۹) وجہ یہ ہے کہ عورت ذات غیر معروف طرز عمل کا تحمل بہت مشکل سے کر پاتی ہے اگر اس کے پاس کوئی مجبوری نہ ہو تو وہ مرد سے فوری الگ ہو جائے ۔ البتہ بات تب مکمل ہوگی جب یہ بھی بتا دیا جائے کہ طلاق کا بڑا عامل عورت کا حد درجہ نافرمان ہونا ہے ایک اچھی عورت کے بارے میں رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ اچھی عورت وہ ہے جسے دیکھ کر دل خوش ہوجائے اور وہ مرد کا کہنا مان لے۔ حدیث کے الفاظ ہیں’’ التی تسرہ اذا نظر وتطیعہ اذا امر‘‘ ’’جب وہ دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب وہ حکم دے تو مان لے‘‘۔کیونکہ عورت کسی بستر کا نام نہیں ہے عورت ایک طرح کی جنت کا نام ہے ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں اس میں بستر کی قلت نہیں ہے قلت ہے تو عورت کی ہے ایسی صورت میں عورت جنت کے بجائے محض بستر کی چیزیں بن جائے تو ظاہر ہے یہ تشویش کی بات ہوجاتی ہے ۔
طلاق کا ایک سبب ایسا ہے جومردوزن دونوں سے یکساں متعلق ہے ۔ یعنی ایک دوسرے پر بے جا نقد کرنا ، ایک دوسرے کے عیوب پر نظر رکھنا اور عیوب کو بیان کرنا شدید قسم کے تعلق خرابوٗ معاملات ہیں ۔ ایک دوسرے پر تنقید کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بجا بھی ہو تو بھی تعلقات کو کمزور کرتی ہے اب جب یہی چیز بے جا ہو جائے تو کس قدر تباہی کا سامان پیدا کر ے گی اس کوسمجھ لینا چنداں مشکل نہیں اور عیب پرنظر رکھنا تو انتہائی خسیس حرکت ہے اس کا معاملہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ عیب پر نظر رکھ رہا ہے بلکہ اس کا معاملہ یہ ہوجاتا ہے کہ انسان ا س بینائی سے محروم ہونے لگتا ہے جس سے دوسرے کی بھلائیاں نظر آتی ہیں پھر نظر رکھنے کے ساتھ عیوب کو بیان کرنا ایک دوسری انتہاء ہےجو آپسی تعلقات کو بگاڑ دیا کرتی ہے یہ بات تو تب ہے جب انسان کے اندر واقعی وہ عیب ہو اور اگر عیب فی الواقع نہیں ہے بس انسان کی عیب جوٗیانہ صلاحیت کا نتیجہ ہے تو مزید دکھ کی بات ہے۔ اگر زوجین میں واقعی کوئی خامی پائی جائے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس تعلق سے انتہائی پیاری بات بیان فرمائی ہے { فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا }’’ کہ اگر تمہیں وہ کسی سبب نا پسند ہیں تو عین ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں نا پسند ہو لیکن اللہ اس کے اندر بہت ساری بھلائیاں پیدا فرمادے‘‘۔(النساء:۱۹)یہ ہے وہ قیمتی نظریہ جو زوجین کو بے جانقد، عیب خوئی ،اور عیب جوئی سے محفوظ کرسکتا ہے۔
طلاق کے اسباب میںایک بڑا سبب زوجین کے اندر جنسی کمزوری کا پایا جانا ہے ۔ جنسی کمزوری کے سبب اگر طلاق نہ بھی ہوتو ازدواجی خیانت ضرور راہ پاجاتی ہے اور اگر یہ بھی نہ واقع ہوتو آپسی کشاکش تعلقات میں دائمی بگاڑاورذہنی الجھن بہر حال موجود رہے گی ۔
موجود ہ دور میں جنسی کمزوری جنسی بے راہ روی کے سبب عام ہے مزید برآں نوجوان طبقہ نا تجربہ کاری کے سبب غیر حقیقی چیزوں کو بھی جنسی کمزوری جان کر حکیموں کے آستانے پر حاضری دینے لگتا ہے اور یہ بے چارے جنسیات میں خود کو ماہر بتاتے ہیں بھلے ہی ان کے پاس نزلہ تک کی دوائی موجود نہ ہو پھر ہوتا یہ ہے کہ یہ لوگ صحیح سالم کو بھی بیمار بنا دیتے ہیں ۔بہر حال اس مسئلے میں طرفین کوسمجھداری سے کام لینا چاہئےاگر مرد کی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو عورت کا علاج کرائے اور اگر عورت کی ضرورت پوری نہیں ہوتی توعورت خیانت اور بے توجہی یا خلع کے بجائے اصل معاملے سے با خبر کردے اور شوہرکا اس باب میں تعاون کرے ان شاء اللہ تعلقات کے طریقوں میں تبدیلی یا ضروری علاج سے یہ مسائل ختم ہو جائیں گے ۔
بعض دفعہ جنسی اعتبار سے کوئی عیب تو نہیں ہوتا لیکن افراط قوت کے سبب خواہش پوری نہیں ہوتی متعدد اسباب موجود ہوتے ہیں ۔ مثلاً بچوں کے سبب عورت خاطر خواہ موقع نہیں دے پاتی یا کسی سبب اس کی چاہت اعتدال پر ہے یا کم ہے سو ان تمام صورتوں کا علاج طلاق نہیں تعدّد ہے ۔ یعنی یہ کہ شوہر دوسری شادی کرلے اور اگر مرد کمزور ہے تو علاج کرائے اور کامیابی نہ ملے اور عورت حاصل شدہ جنسی معیار سے مطمئن نہیں ہے تو اسے شریعت بہرحال خلع کا اختیار دیتی ہے ۔
طلاق کا اہم ترین اور بنیادی سبب عورت کی بدزبانی ہوتی ہے اور بدچلنی کے بعد بد زبانی ہی وہ انتہائی اہم بات ہے جس کے سبب طلاق ہوا کرتی ہے ۔ عورت اگر کھانا بنانے میں کمزور ہو ، گھریلومعاملات میں فطری طور پر مست ہو غرض تمام عیوب اس کے اندر ہوں لیکن اگر اس کے اندر معصومیت ہے اور زبان شیریں ہے تو شوہر سب کچھ گوارا کرلیتا ہے لیکن زبان کا زہر وہ زہر ہے جو زندگی کا لال خون سفید کردیتا ہے اس کا صاف و شفاف حسین ترین بدن نیلا اور سیاہ کر ڈالتا ہے ۔یہ وہ گندگی ہے کہ بالٹی بھر زمزم میں اس کا ایک قطرہ پڑجائے تو سب کچھ بے کار ہوجاتا ہے سو عورتوں کو قینچی کی طرح زبان چلانے سے حد درجہ احتیاط کرنی چاہئے ۔
طلاق کے معاملے میں گھر کے لوگوں کا کردار اہم تر ہوتا ہے جو ماں باپ اپنے بچے کو انتہائی لاڈ پیار سے پال پوس کر بڑا کرتے ہیں بیس بائیس سال کے لڑکے کو سفر کرنے، کھیتی باڑی کے معاملات میں ، خاندانی اور رشتے کے امور میں آٹھ دس سال کا بچہ جانتے ہیں وہی ماں باپ اٹھارہ انیس سال کے لڑکے کو بھی شادی کی صبح سے ہی ماہر مجرم جاننے لگتے ہیں اس کی بیوی کی ہر ادا میں کوئی سازش ، ہر بولی میں کوئی طنز اور بانی ہر ہنسی کے پیچھے استہزاء کا ارادہ نکال لاتے ہیں اور شوہر کو سونگھنے والا ، بھر جانے والا، بدل جانے والا قراردیتے ہیں ۔
شادی کے بعد فطری طور پر تھوڑی سی تبدیلی ضرور پیدا ہوجاتی ہے سمجھدار ماں باپ اس تبدیلی کو عام بات سمجھتے ہیں اور زندگی کی ناگزیر ضرورت جانتے ہیں مگر ضدی ماں باپ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں ۔ مثلاً : جو بیٹا ہر چیز ماں سے مانگتا تھا ہر موقع پر ماں کے پاس آکے بیٹھتا تھا کھانا ماں کے ساتھ کھاتا تھا بیوی کے آنے کے بعد اس کے اس طریقے میں تبدیلی اور کوتاہی پیدا ہوجاتی ہے ۔ بہت دفعہ وہ ٹہلنے گھومنے بھی کہیں نکل جاتے ہیں اور ماں باپ سے کسی سبب اجازت نہیں لے پاتے ۔ ماں باپ ان چیزوں کو ایک بڑا مسئلہ بنالیتے ہیں اور بیٹے سے زیادہ بہو کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور ایک نا ختم ہونے والی لڑائی جنم دےدیتے ہیں اسی کے ساتھ مشترک فیملی نظام کی پیچیدگیاں الگ سر اٹھاتی ہیں اگر بہو ابھی ایک ہی ہے ظاہر ہے وہ بڑی بہو ہوگی تو پوچھئے ہی مت ! دیور جی کے نخرے اسی کو اٹھانا ہے ، نندوں کو الگ ناز برداری کے خیالات ادھر ساس سسر کا لحاظ کچھ اور تقاضا کرتا ہے ، گھر کے اور دیگر افراد اور اقارب کے معاملات الگ، ان سب کے لئے بس بہو کی ذمہ داری ہے کہ ’’ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ‘‘۔
اس پیچیدہ نظام زندگی کی اصل ڈائن اکیلی بہو تصور کی جاتی ہے نتیجے میں بہت دفعہ فرماں بردار بیٹا اپنی بیوی سے ہی بدظن ہوجاتا ہے کیونکہ اس چخ چخ میں وہ خود بیوی کی زد میں آجاتا ہے اور طلاق ہوجاتی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ والدین بہو کے لئے جس مشینی زندگی کو پسند کرتے ہیں اس میں وہ بہو کو یہ موقع ہی نہیں دیتے کہ ان کے بیٹے کو وقت دے ۔ بعض والدین کو یہ کہتے ہوئے میں نےخود سنا ہے کہ فلاں آجاتا ہے تو سارا کام بگڑ جاتا ہے ۔
ناچاقیوں کی وجہ جو بھی ہوگھر والے اس کے ذمہ دارہوں یا بیوی کے میکے والے یا خود میاں بیوی کے آپسی معاملات !اگر شوہر انہیں شرعی طریقے سے حل کرے تو طلاق کی نوبت نہیں آتی ۔ مثلاً: ناچاقی اگر خود میاں بیوی کے آپسی معاملات کے سبب ہو اور اس میں بنیادی کردار بیوی کی نافرمانی اور بد زبانی ہو تو طریقہ یہ ہے کہ نصیحت کی جائے واضح رہے یہ نصیحت صلواتیں سنانے ، دھمکیاں دینے اور طنز و تعریض کے انداز میں نہیں ہونی چاہئے بلکہ نصیحت واقعی نصیحت ہونی چاہئے اور یہ مرحلہ صبر کے ساتھ تادیر جاری رہنا چاہئے ۔اس پر بھی بات نہ بنے تو بستر الگ کردیا جائے اس مرحلے میں بھی طنز وتعریض کرنے اور دھمکیاں دینے سے گریز ہونا چاہئے ۔ اگر اس چیزسےبھی کامیابی نہ ملے تو ہلکی مار کی اجازت ہے واضح رہے جو لوگ پہلے سے بیوی کو مارتے ہوں یا مارچکے ہوں ان کی مار اس موقع پر کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ سوجان لینا چاہئے کہ بیوی کو مارنا شرعی قوانین میں جرم ہے آپ صرف اُس مرحلے میں مارسکتے ہیں وہ بھی ہلکے انداز میں جب بیوی بہت نافرمان ہوجائے اور نصیحت اور بستر الگ کردینے کے مراحل پارکرچکے ہوں ۔ اگر اس پر بھی کامیابی نہ ہو تو عورت کے گھر والوں کے سامنے مسئلہ پیش کریں اور کوئی حل نہ نکلے تو صرف ایک طلاق طہر میں دے دیں ۔ ان شاء اللہ ابدی جدائی کی نوبت نہیں آئے گی ۔
 

Abdul Mannan

مبتدی
شمولیت
مارچ 04، 2020
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں اپنی بیوی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔۔۔ میرے ساتھ بھی عجیب معاملہ ہے۔۔۔ میری بیوی کی میری والدہ اور بہن کے ساتھ بلکل بھی ہم آہنگی نہیں۔۔ میری بیوی بد زبانی کرتی ہے۔۔۔ میرے والدین بوڑھے ہیں میری والدہ چاہتی ہیں کہ میری بہو گھر کا انتظام و انصرام سنبھالے مگر ایسا نہیں ہے میری بیوی الگ پکاتی اور میری والدہ الگ۔۔ غرض ہر چیز الگ۔۔۔ میں چکی کے دو پاٹوں میں پستا رہتا ہوں۔۔۔ اصل میں میرے والدین جس طرح اسکو چلانا چاہتے ہیں اسطرح میری بیوی نہیں چلتی۔۔۔ پھر میری والدہ کی نوکا ٹوکی چلتی رہتی۔۔۔۔
میری بیوی ایک حد تک تو برداشت کرتی رہتی مگر جب بھی بات کرتی ہے کہ میری ساتھ زیادتی کرتی آپ تو اسکا لہجہ اور انداز تند اور اونچا ہوتا جو کہ میں بھی اپنی والدہ کے ساتھ ایسا انداز سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
میری بیوی مجھ سے میری والدہ کی طرف سے زیادتی کا شکوہ بھی کرتی۔۔۔ مگر میں اسکو کہتا کہ صبر کا مظاہرہ کرو۔۔۔ میری بیوی پہلے پھل تو آئے روز مجھ سے لڑتی رہتی تھی ۔۔ میں اسکو بہت سمجھاتا رہتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرو مگر۔۔۔ کبھی کر لیتی اور پھر ایک دم پھٹ پڑتی۔۔۔
ہاں ایک اسمیں جتنی بھی خوبیاں ہیں وہ تو ہیں الحمدللہ مگر ایک اسکی خامی ایسی ہے جو مجھے نا قابل برداشت ہے اور وہ آج تک ختم نہیں ہوئی وہ یہ کہ وہ میری ماں کے خلاف جب برا بھلا بولتی ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اور اس بات پر بہت دفع لڑائیاں بھی مار کتائی بھی ہوئی۔۔۔ پھر ہم نے لڑائی اور مار کتائی چھوڑ دی مگر میری بیوی نے سمجھانے کے باوجود میرے ماں کے خلاف بولنا نہیں چھوڑا۔۔۔ اور میں نے پھر صبر کا دامن تھام لیا اور جب بھی میری ماں کے خلاف وہ بولتی ہے تو نہ صرف یہ کہ خود برداشت کرتا ہوں بلکہ اسکو بھی یہی کہتا کہ حوصلہ کرو صبر کرو کچھ نہیں ہوتا ماں باپ ہیں کوئی بات نہیں۔۔۔ لیکن اس دوران میرے دل پر جو وار اور چھریاں چلتی ہیں جب میری بیوی میری ماں کے خلاف بولتی ہے میرا دل کرتا ہے میں اسکی زبان کاٹ دوں۔۔مطلب برداشت نہیں ہوتا۔۔ اُوپر سے میں اسکو یہ ظاہر کرتا ہوں کہ تم ٹھیک ہو کوئی بات نہیں صبر کرو اور اندر اندر دل میں چھریاں چل رہی ہوتی ہیں اور دل کرتا ہے کہ اسکی زبان ابھی کاٹ دوں۔۔۔
ایسا اسلئے کرتا ہوں کہ نمبر ایک یہ کہ میری بیوی جو مجھے میری ماں کی زیادتی یا شکایت بتا رہی ہوتی ہے وہ گھر کے چھوٹے چھوٹے معاملات ہوتے ہیں اور میں اپنی ماں سے بھلا کیسے پوچھ سکتا ہوں کہ کیا ماجرا ہے کیا حقیقت ہے ۔۔۔ اس طرح تو معاملہ بجائے سدھرنے کے زیادہ بگڑ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ میری بیوی کی دل کی بھڑاس نکل جائے تا کہ یہ میری ماں کہ ساتھ اچھی رہے اور تیسرے نمبر پر اسکی وجہ یہ ہے کہ میری بیوی میرے اکلوتے ماموں کی بیٹی ہے اور میں اسکی اپنی ماں کے خلاف باتیں اس لیے برداشت کر جاتا ہوں کہ اگر میں نے اسکو سمجھایا یہ اس ٹائم رد عمل دیا تو بات زیادہ بڑھ نا جائے جو کہ بہت دفعہ پہلے ہو چکا ہے۔۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔ کے مصداق میری پریشانی اور ٹینشن میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا اور مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔۔۔

ایک واقعہ جو کل چند رات کو پیش آیا۔۔ میں ابھی اعتکاف سے اٹھ کر گھر آیا ہے تھا تو ایک چھوٹی سی بات پر بیگم کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔۔۔ نہیں صرف اُسنے میری ماں کے بدتمیزی کی بلکہ میں نے اسکو کہا کہ تم نے بولنا نہیں چپ کرو۔۔ مگر میری بیوی نے و بد زبانی کی کہ میری دل کیا کہ ابھی اسکو طلاق دے دوں۔۔۔ مگر میں بہت برداشت کیا الحَمدُ للّہ۔۔۔
مگر اب میری گھر کی حالت یہ ہے کہ والدین میرے بوڑھے ہیں بیمار بھی ہیں اور انکو گھر کے سہارا بھی چاہیے مگر میری بیوی انکے دل سے اتر گئی ہے کیوں کہ سات سال ہو گئے شادی کو اور میرے والدین کی امیدوں کے مطابق میری بیوی میرا گھر نہیں سنبھال سکی۔۔۔ و چاہتے کہ میں دوسری شادی کر لوں اور اسکو علیحدہ مکان میں شفٹ کروں۔۔۔ اس ٹائم میں شدید ٹینشن میں ہوں میں ایسا کام کرنا چاہتا ہوں کہ جس سے میں اپنی رب کے سامنے گناہ گار ہونے سے بچ جاؤں مگر سات سال بیوی کے رہ کر گناہ ہی گناہ حاصل کیے۔۔۔ چغلیاں، غیبتیں، نفرتیں، دوریاں، ماں باپ بھی خفا، میری روحانی کیفیّت بھی تباہ و برباد، یعنی کہ حدود اللہ کو کثرت سے پامال کرنا۔ سوچتا ہوں کہ
1۔طلاق دے دوں اگر شریعت اجازت دے پھر نہیں دیتا کہ قریبی رشتا داری ہے ورنہ شاید دے ہی دیتا بلکہ غالب امکان ہے فوراً فارغ کر دیتا مگر اللہ سے ڈرتے ہوئے قطع تعلق کی وجہ سے آج تک رکا ہوا۔
2- بیوی کو اُسکے ماں باپ کے پاس چھوڑ اؤں جب تک وہ اس بات پر رضا مند نہیں ہو جاتے کہ میری بیوی اب علیحدہ مکان میں رہے گی میرے والدین کے ساتھ نہیں۔
میرے تجربے کے مطابق اب میرے ماں باپ کے ساتھ میری بیوی کا رہنا نا ممکن لگتا مجھے۔۔ میں سمجھتا شاید یہی ایک طریقہ ہے جو مجھے حدود اللّٰہ کو پامال ہونے سے بچا سکتا

3- دوسری شادی ہر صورت کر لوں چاہیے طلاق دوں یا نا دوں۔۔
 

Abdul Mannan

مبتدی
شمولیت
مارچ 04، 2020
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں اپنی بیوی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔۔۔ میرے ساتھ بھی عجیب معاملہ ہے۔۔۔ میری بیوی کی میری والدہ اور بہن کے ساتھ بلکل بھی ہم آہنگی نہیں۔۔ میری بیوی بد زبانی کرتی ہے۔۔۔ میرے والدین بوڑھے ہیں میری والدہ چاہتی ہیں کہ میری بہو گھر کا انتظام و انصرام سنبھالے مگر ایسا نہیں ہے میری بیوی الگ پکاتی اور میری والدہ الگ۔۔ غرض ہر چیز الگ۔۔۔ میں چکی کے دو پاٹوں میں پستا رہتا ہوں۔۔۔ اصل میں میرے والدین جس طرح اسکو چلانا چاہتے ہیں اسطرح میری بیوی نہیں چلتی۔۔۔ پھر میری والدہ کی نوکا ٹوکی چلتی رہتی۔۔۔۔
میری بیوی ایک حد تک تو برداشت کرتی رہتی مگر جب بھی بات کرتی ہے کہ میری ساتھ زیادتی کرتی آپ تو اسکا لہجہ اور انداز تند اور اونچا ہوتا جو کہ میں بھی اپنی والدہ کے ساتھ ایسا انداز سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
میری بیوی مجھ سے میری والدہ کی طرف سے زیادتی کا شکوہ بھی کرتی۔۔۔ مگر میں اسکو کہتا کہ صبر کا مظاہرہ کرو۔۔۔ میری بیوی پہلے پھل تو آئے روز مجھ سے لڑتی رہتی تھی ۔۔ میں اسکو بہت سمجھاتا رہتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرو مگر۔۔۔ کبھی کر لیتی اور پھر ایک دم پھٹ پڑتی۔۔۔
ہاں ایک اسمیں جتنی بھی خوبیاں ہیں وہ تو ہیں الحمدللہ مگر ایک اسکی خامی ایسی ہے جو مجھے نا قابل برداشت ہے اور وہ آج تک ختم نہیں ہوئی وہ یہ کہ وہ میری ماں کے خلاف جب برا بھلا بولتی ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اور اس بات پر بہت دفع لڑائیاں بھی مار کتائی بھی ہوئی۔۔۔ پھر ہم نے لڑائی اور مار کتائی چھوڑ دی مگر میری بیوی نے سمجھانے کے باوجود میرے ماں کے خلاف بولنا نہیں چھوڑا۔۔۔ اور میں نے پھر صبر کا دامن تھام لیا اور جب بھی میری ماں کے خلاف وہ بولتی ہے تو نہ صرف یہ کہ خود برداشت کرتا ہوں بلکہ اسکو بھی یہی کہتا کہ حوصلہ کرو صبر کرو کچھ نہیں ہوتا ماں باپ ہیں کوئی بات نہیں۔۔۔ لیکن اس دوران میرے دل پر جو وار اور چھریاں چلتی ہیں جب میری بیوی میری ماں کے خلاف بولتی ہے میرا دل کرتا ہے میں اسکی زبان کاٹ دوں۔۔مطلب برداشت نہیں ہوتا۔۔ اُوپر سے میں اسکو یہ ظاہر کرتا ہوں کہ تم ٹھیک ہو کوئی بات نہیں صبر کرو اور اندر اندر دل میں چھریاں چل رہی ہوتی ہیں اور دل کرتا ہے کہ اسکی زبان ابھی کاٹ دوں۔۔۔
ایسا اسلئے کرتا ہوں کہ نمبر ایک یہ کہ میری بیوی جو مجھے میری ماں کی زیادتی یا شکایت بتا رہی ہوتی ہے وہ گھر کے چھوٹے چھوٹے معاملات ہوتے ہیں اور میں اپنی ماں سے بھلا کیسے پوچھ سکتا ہوں کہ کیا ماجرا ہے کیا حقیقت ہے ۔۔۔ اس طرح تو معاملہ بجائے سدھرنے کے زیادہ بگڑ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ میری بیوی کی دل کی بھڑاس نکل جائے تا کہ یہ میری ماں کہ ساتھ اچھی رہے اور تیسرے نمبر پر اسکی وجہ یہ ہے کہ میری بیوی میرے اکلوتے ماموں کی بیٹی ہے اور میں اسکی اپنی ماں کے خلاف باتیں اس لیے برداشت کر جاتا ہوں کہ اگر میں نے اسکو سمجھایا یہ اس ٹائم رد عمل دیا تو بات زیادہ بڑھ نا جائے جو کہ بہت دفعہ پہلے ہو چکا ہے۔۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔ کے مصداق میری پریشانی اور ٹینشن میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا اور مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔۔۔

ایک واقعہ جو کل چند رات کو پیش آیا۔۔ میں ابھی اعتکاف سے اٹھ کر گھر آیا ہے تھا تو ایک چھوٹی سی بات پر بیگم کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔۔۔ نہیں صرف اُسنے میری ماں کے بدتمیزی کی بلکہ میں نے اسکو کہا کہ تم نے بولنا نہیں چپ کرو۔۔ مگر میری بیوی نے و بد زبانی کی کہ میری دل کیا کہ ابھی اسکو طلاق دے دوں۔۔۔ مگر میں بہت برداشت کیا الحَمدُ للّہ۔۔۔
مگر اب میری گھر کی حالت یہ ہے کہ والدین میرے بوڑھے ہیں بیمار بھی ہیں اور انکو گھر کے سہارا بھی چاہیے مگر میری بیوی انکے دل سے اتر گئی ہے کیوں کہ سات سال ہو گئے شادی کو اور میرے والدین کی امیدوں کے مطابق میری بیوی میرا گھر نہیں سنبھال سکی۔۔۔ و چاہتے کہ میں دوسری شادی کر لوں اور اسکو علیحدہ مکان میں شفٹ کروں۔۔۔ اس ٹائم میں شدید ٹینشن میں ہوں میں ایسا کام کرنا چاہتا ہوں کہ جس سے میں اپنی رب کے سامنے گناہ گار ہونے سے بچ جاؤں مگر سات سال بیوی کے رہ کر گناہ ہی گناہ حاصل کیے۔۔۔ چغلیاں، غیبتیں، نفرتیں، دوریاں، ماں باپ بھی خفا، میری روحانی کیفیّت بھی تباہ و برباد، یعنی کہ حدود اللہ کو کثرت سے پامال کرنا۔ سوچتا ہوں کہ
1۔طلاق دے دوں اگر شریعت اجازت دے پھر نہیں دیتا کہ قریبی رشتا داری ہے ورنہ شاید دے ہی دیتا بلکہ غالب امکان ہے فوراً فارغ کر دیتا مگر اللہ سے ڈرتے ہوئے قطع تعلق کی وجہ سے آج تک رکا ہوا۔
2- بیوی کو اُسکے ماں باپ کے پاس چھوڑ اؤں جب تک وہ اس بات پر رضا مند نہیں ہو جاتے کہ میری بیوی اب علیحدہ مکان میں رہے گی میرے والدین کے ساتھ نہیں۔
میرے تجربے کے مطابق اب میرے ماں باپ کے ساتھ میری بیوی کا رہنا نا ممکن لگتا مجھے۔۔ میں سمجھتا شاید یہی ایک طریقہ ہے جو مجھے حدود اللّٰہ کو پامال ہونے سے بچا سکتا

3- دوسری شادی ہر صورت کر لوں چاہیے طلاق دوں یا نا دوں۔۔
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
48
aj kul k halat aur waqiyaat boht kharab hain
 
Top