عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
پیش کردہ عابد الر حمٰن مظاہری بجنوری
استحسان
تعریف : استحسان مستحسن جاننا ،اچھا جاننا کو کہتے ہیں ۔فقہاء میں اس کی تعریف میں بہت اختلاف ہے۔
(۱)عوام اور خواص کی سہولت اور راحت کی وجہ سے قیاس جلی کو ترک کردیا اور امر مستحسن کو اختیار کرنا(الجوہر:۱۱۳:ج:۲)
(۲) کتب اصول میں قیاس خفی کو استحسان کہتے ہیں ،یعنی قیاس جلی کے مقابلہ میں جس کی علت اور وجہ خفی ہو( قمرالاقمار:ص۲۴۳)
(۳) ابوالحسن کرخی فرماتے ہیں کسی ضرورت شدیدہ کی بنا پر مفتی یا مجہتد اس کے مثل نظائر پر حکم بیان کرنے سے باز رہے(ابو زہرہ:ص۳۴۴)یعنی قیاس چاہتا ہے کہ اس مسئلہ میں یہ حکم ہونا چاہئے لیکن کسی اثر(آیت،حدیث،قول صحابی،اجماع) معارض ہونے کی وجہ سے حکم نہ دیا جائے(ابوزہرہ:ص۳۴۴)
(۴)ابن رشد کہتے ہیں وہ دلیل جس کاا ستعمال بکثرت ہو۔
(۵)ابن عربی کہتے ہیں کہ استثناء یا رخصت کے طور پر دلیل کو ترک کردینے کا نام استحسان ہے۔
(۶)شمس الائمہ کہتے ہیں کہ قوی الاثر کو قیاس اور ضعیف الاثر کو استحسان کہتے ہیں(ابوزہرہ:ص:۳۴۴)
مثالیں:۔استحسان کی بہت سی مثالیں ہیں۔
(۱)جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی سونے کے ظروف کو استعمال کرنے سے منع فرمایاہے ۔ارشاد ہے
ھی لھم فی الدنیاولکم فی الاٰخرہ
یہ کافروں کے لئے دنیا میں ہیں اور اور تمہارے لئے آخرت میں (مسند امام اعظم:ص۲۰۰)
نھی عن الاکل والشرب فی اٰنیۃ الذھب والفضۃ
آپ صلی علیہ وسلم نے سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے منع فرمایا ہے۔
ان آثار اور احادیث سے ثابت ہے کہ چاندی ،سونے کے برتنوں میں کھانا پینا حرام ہے لیکن فقہا حنفیہ نے اس کی استثنائی صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ چاندی والے برتن میں پانی پینا اس شرط کے ساتھ جائز ہےکہ پینے والے کا منہ چاندی پر نہ لگےاور ہاتھ سے بھی وہ جگہ نہ پکڑی جائے۔امام ابویوسفؒ نے اس کو بھی مکروہ قرار دیا ہے۔دوسری روایت یہ ہےکہ امام صاحب نےفرمایا ہے کہ اس طرح حقیقتاً چاندی کاا ستعمال نہیں ہے بلکہ اس وقت تو چاندی والاحصہ تابع ہے اور استعمال والا حصہ اس وقت اصل ہےاور اصل کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ تابع کا۔
(۱)عوام اور خواص کی سہولت اور راحت کی وجہ سے قیاس جلی کو ترک کردیا اور امر مستحسن کو اختیار کرنا(الجوہر:۱۱۳:ج:۲)
(۲) کتب اصول میں قیاس خفی کو استحسان کہتے ہیں ،یعنی قیاس جلی کے مقابلہ میں جس کی علت اور وجہ خفی ہو( قمرالاقمار:ص۲۴۳)
(۳) ابوالحسن کرخی فرماتے ہیں کسی ضرورت شدیدہ کی بنا پر مفتی یا مجہتد اس کے مثل نظائر پر حکم بیان کرنے سے باز رہے(ابو زہرہ:ص۳۴۴)یعنی قیاس چاہتا ہے کہ اس مسئلہ میں یہ حکم ہونا چاہئے لیکن کسی اثر(آیت،حدیث،قول صحابی،اجماع) معارض ہونے کی وجہ سے حکم نہ دیا جائے(ابوزہرہ:ص۳۴۴)
(۴)ابن رشد کہتے ہیں وہ دلیل جس کاا ستعمال بکثرت ہو۔
(۵)ابن عربی کہتے ہیں کہ استثناء یا رخصت کے طور پر دلیل کو ترک کردینے کا نام استحسان ہے۔
(۶)شمس الائمہ کہتے ہیں کہ قوی الاثر کو قیاس اور ضعیف الاثر کو استحسان کہتے ہیں(ابوزہرہ:ص:۳۴۴)
مثالیں:۔استحسان کی بہت سی مثالیں ہیں۔
(۱)جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی سونے کے ظروف کو استعمال کرنے سے منع فرمایاہے ۔ارشاد ہے
ھی لھم فی الدنیاولکم فی الاٰخرہ
یہ کافروں کے لئے دنیا میں ہیں اور اور تمہارے لئے آخرت میں (مسند امام اعظم:ص۲۰۰)
نھی عن الاکل والشرب فی اٰنیۃ الذھب والفضۃ
آپ صلی علیہ وسلم نے سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے منع فرمایا ہے۔
ان آثار اور احادیث سے ثابت ہے کہ چاندی ،سونے کے برتنوں میں کھانا پینا حرام ہے لیکن فقہا حنفیہ نے اس کی استثنائی صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ چاندی والے برتن میں پانی پینا اس شرط کے ساتھ جائز ہےکہ پینے والے کا منہ چاندی پر نہ لگےاور ہاتھ سے بھی وہ جگہ نہ پکڑی جائے۔امام ابویوسفؒ نے اس کو بھی مکروہ قرار دیا ہے۔دوسری روایت یہ ہےکہ امام صاحب نےفرمایا ہے کہ اس طرح حقیقتاً چاندی کاا ستعمال نہیں ہے بلکہ اس وقت تو چاندی والاحصہ تابع ہے اور استعمال والا حصہ اس وقت اصل ہےاور اصل کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ تابع کا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔