• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استعمار سے دانشوری تک: شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ(علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
استعمار سے دانشوری تک

شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ(علی گڑھ)

ہندوستان میں مسلمان سیاسی ہےئت حاکمہ سے محرومی کے بعد بے شمار فکری ودانشورانہ ناہمواریوں سے گذرے ہیں۔ استعمارسے دانشوری تک پہنچتے پہنچتے وہ لہولہان ہوگئے۔ استعمار کی عنایتیں کیا کم تھیں۔ استعمار کے سائے میں دانشوری نے انھیں نہ گھرکا چھوڑا نہ گھاٹ کا۔
ہندوستان میں مسلم دانشوری خواہ استعماری ہو، یا قومی، شوشلسٹ ہو، یا جدیدیت پسند یا مابعدجدیدیت کل کی کل مسلم سماج سے کٹی ہوئی رہی۔ سارے دانشوروں کا مسلمانوں سے اوران کے مسائل سے صرف اتنا تعلق تھا جتنا کسی کھلنڈر نے کوکسی کا مذاق اڑانے سے ہوتا ہے۔ ان سب کی دانشوری کا یہ حال تھا جیسے کسی گھنے عظیم شجرسایہ دار میں ایک سوکھی ہوئی چھوٹی سی ٹہنی۔
بات یہ ہے کہ جب انسان کے اندر علم دین کی کمی ہو، یا سرے سے اس سے بے خبری ہو تووہ شکوک کا شکار ہوجاتاہے۔ حقیقتوں کا ادراک اس کے لئے مشکل ہوجاتاہے۔ اورجب ضعف اعتقاد کا شکارہو تونفس کا شکار ہوجاتا ہے اوران گنت خداؤں کو اپناآقا بنالیتا ہے۔ ہندوستان میں ان دونوں قسم کی کمیاں تھیں، اورانھیں کے سہارے یہاں کی دانشوری پروان چڑھی۔
ضعف علم نے سارے غلط افکار ونظریات کو زندگی کی حقیت بنادیا، اورضعف عقیدہ نے انھیں تسلیم کرنے اوران پریقین جازم کرنے میں ذرا نہ ہچکچاہٹ محسوس کی۔ اس طرح دنیا کی ساری خرافات ، ضلالتیں گمراہیاں، فساد اورلغزشیں دانشوروں کا سرمایہ علم وثقافت بن گئیں، ان پر وہ سردھننے لگے اوران کے سہارے ان کی کاوشیں اورلغزشیں دانشوروں کے ذریعہ نوبہ نو کانٹے بن کر اگنے لگیں۔ اورملت اسلامیہ کے جسم میں چبھنے اوراسے لہولہان کرنے لگیں۔
مسلم سماج، دین اسلامی اورمسلم ماحول سے بے گانہ یہ بے ثبات دانشوری مختلف انداز میں ظاہرہوتی رہی اورمحدود ترحلقوں میں فکری آلودگی پھیلاتی رہی اورمسلمانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے اسے مزید الجھنوں میں ڈالتی اورکوستی رہی۔ بہت سی دانشوریاں ابلیس کی گاڑی کی قلی گیری کرتی رہیں۔
ہندوستان کی مسلم دانشوری بالکل بودہ ہے یہ ہمیشہ پھکڑپن کا شکاررہی ۔کبھی اسے توفیق نہ مل سکی کہ سنجیدگی سے صرف اپنے بارے میں سوچ سکے کہ وہ گھرکا پودا ہے یا باہر سے لاکر اسے غیرمناسب ماحول اورزمین میں پلانٹ کیا گیا ہے۔ اورآیاوہ نیم کا درخت ہے یا تھوہڑکا۔
دراصل ہندوستان میں مسلم دانشوری ذہنی غلامی کی ایک شکل ہے اوراستعماریت کا فکری عکس ۔استعمارنے جب استعماربچہ پیدا کرنے اورحکومتی اداروں میں نوکر فراہم کرنے کے لئے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے اورفرنگی تعلیم وتہذیب کے ذریعہ استعمار ی سوچ نونہالان ہند میں پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تواس نے اپنی استعماری حکومت کی سرپرستی میں اسکولوں میں نیا نظام تعلیم اورنصاب تعلیم شروع کیا اوراس طرح سیکولر تعلیم اور دینی تعلیم کو دوشعبوں میں تقسیم کردیا۔ سیکولر تعلیم کی سرپرستی حکومت نے کی اوردینی تعلیم کو اہل وطن کے ذمہ چھوڑدیا ، تیسری شکل عیسائی مشنریوں کی عیارانہ تعلیم کا سلسلہ تھا۔ سیکولر نظام تعلیم اور عیارانہ نظام تعلیم کو روزی روٹی سے جوڑدیا گیا۔ دینی نظام تعلیم کو استشراقی مشورے پر صوبائی بورڈوں کے تحت جزئی طورپر حکومتی سرپرستی حاصل رہی۔ اورآزاد دینی ادارے اشاعت علم واشاعت دین میں لگے رہے۔
اس نئے سیکولر نظام تعلیم نے اسلام اوراسلامی تہذیب سے بیگانگی کی مستقل راہ کھول دی۔ خود استعمار کا وجود اوراس کا جبرواستکبار اوراس کی بے خبری وحشت اورعیاری بھی اپنوں کے بے گانہ بنانے میں بہت بڑی مہمیزتھی۔ اس بے گانگی کی راہ سے دانشوری کو مسلم سماج میں داخلہ ملنا شروع ہوا۔ خود مسلمانوں کے اندر اصل اسلامی راہ سے بے گانگی کم نہ تھی۔ رسم ورواج ، تصوف تقلید بندہوا مزدوری جاگیرداری زمین داری سماجی اونچ نیچ مردوزن کے اندر غیرمعمولی جاہلانہ تفریق چھوت چھات ، اوہام وخرافات، قبرپرستی، پیر پرستی آباء پرستی نے فرد وسماج کا چہرا بگاڑکر رکھ دیا تھا۔ بے دینی کی ان گنت شکلیں سماج میں رواج پذیر تھیں استعمار کے سبب مسلمانوں کا رہا سہا سیاسی ہیکل بھی ٹوٹ پھوٹ گیا۔
مغرب کے زیر اثر مغربی تہذیب کو اپنانے اور مغربی علوم وفنون سے آسودگی حاصل کرنے والے یا ان سے تاثرپذیر حضرات نے آہستہ آہستہ دانشوری کی راہ اپنائی اورپھر نئے سے نئے دانشورپیدا ہونے لگے اوراب تک دانشوری کی راہ کھلی ہوئی ہے۔
ہندوستان کی دانشوری اسی بے گانگی کی راہ سے شروع ہوئی ہے۔ بذاتہ دانشوری فکر وتدبرکے ہم معنی ہے انسانی ذہن کے وہ تمام اعمال جو علمی اورثقافتی ممارست کے بعد انجام پاتے ہیں اوران کی بنیاد پر انسان ترتیب کلیات استخراج نتائج ، تجزیہ وتحلیل پر قادر ہوتا ہے۔ نیز اللہ کے بتائے گئے آفاق وانفس میں غور کرکے منافع کے حصول پر قادراورمضرتوں سے تجنب اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اوراصولی بنیادوں پر دوسروں کی راہنمائی کرسکتا ہے۔ قافلہ تہذیب وثقافت میں علوم وفنون میں بھرپور حصہ داری رکھ سکتا ہے اوراصولوں کی بنیاد پر چل کر تہذیب وثقافت کو تازہ کاری عطا کرسکتا، اور ترقی دے سکتا ہے اس عمل کو دانشوری اوراس عمل کو انجام دینے والے کو دانشورکہا جاسکتا ہے۔ دانشوری کا تعلق دینی اصطلاح میں اجتہاد ، تفقہ بصیرت اور حکمت سے بھی ہوسکتا ہے۔ دراصل اسلام میں مباحات اوراجتہاد کا دروازہ اس لئے کھلا ہوا ہے کہ عقل انسانی کی جادہ پیمائیاں رکیں نہیں۔ اورانسانی عمل کی جولان گاہیں محدود نہ ہوں۔ تغیر پذیر تنوع پذیر اور حوادث پذیر دنیا میں زندگی ٹھٹھرنہ جائے۔ مگر مسلمانوں کی بدنصیبی کہ علم کے دکانداروں نے دل دماغ پر قدغن لگاکر مسلم ذہن کی نموپذیری ہی ختم کردی اورعقل وذہن کی فکری مساعی کے لئے راہ ہی بند کردیا۔ اورپھر مسلم سماج مسلم فرد اورمسلم تہذیب کو جامد بانجھ اوربے اثربناکر رکھ دیا۔ بصیرت فکروفہم اوراجتہادی صلاحیت صرف فقہی مسائل ہی کے لئے نہیں بلکہ ترتیب حیات اورتنظیم زندگی کے لئے بھی ان کی یافت لازمی ہے۔
مشکل یہی ہے کہ فقہی اجتہاد اوراس کے قیود وشرائط نے دوسرے میادین حیات میں بھی عقل وخرد کو استعمال کرنے سے روک دیا۔ اورجن کے سبب یہ رکاوٹ ہوئی وہ دین انسانیت تمدن ثقافت اور نموپذیر تغیر پذیرحیات کے مجرم ہیں۔ دوسری طرف ہماری دانشوری ہے جس نے بے گانگی کی راہ اختیار کرلی اوراپنا تعلق اجتہاد تفقہ اوربصیرت سے جوڑاہی نہیں اس کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ناکے برابر ہے نہ مسلم کاز سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اردو دانشوری ہو یا دیگر زبان میں دانشوری ہو ان کی پہچان ہی اسلام اورمسلمانوں سے بے گانگی ہے اور اسلام اورمسلمانوں سے لگاؤ کا اظہار یا دعوی ہے تووہ بھی نہایت کھوکھلا یا جزوی اور زبانی۔
ہندوستان کی دانشوری آزادی سے قبل، اور آزادی کے بعد بیشتر آوارگئی فکروذہن سے تعبیر ہے یا پھر باطل کی چاکری سے ۔ اوراگر دانشوری نے خود کو اسلام اورمسلمانوں سے جوڑرکھا ہے تووہ بھی بے اصول اوربے لگام دانشوری ہے۔ دانشوری کا میدان بھی دانشوروں نے ادب نقد ناول افسانہ کہانی شاعری وغیرہ کو بنایاہے یا پھراسی بیگانہ دین دانشوری کو جس نے علمی وفنی میدان میں قدم رکھا۔ استعمار کی چاکری کی۔
ہندوستان میں جس دانشوری کی بات کی جاتی ہے ۔ اورجن کو شہرت ملی ہے اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں اگر کسی کو اس دانشوری کی شناخت مطلوب ہو تواسے حیرانی ہوگی۔ بس یوں کہیے کہ جس نے قلم اٹھالیا اورلکھنے کے قابل ہوگیا اورکسی حیثیت سے اس کی فکری وفنی کوئی شناخت بن گئی یا شناخت بنادی گئی بس وہ دانشوربن گیا۔ دانشوری کی شناخت عام طورپر بنائی گئی دانشوری کسی ادبی طائفے سے جڑگئی یا ادبی جتھوں سے وابستگی اختیار کرلی۔ یا کسی مشہور شخصیت کے گرد جماؤ لگادیا شناخت بن گئی۔
بہرحال اگرغور کیا جائے توہندوستان کی مسلم دانشوری کے سامنے نہ کوئی اساس ہے نہ مقصدیت ہے نہ دائر کار متعین ہے نہ خطوط کا رہیں۔ نہ ایسی شناخت ہے کہ ساری دانشوری اس کے اندر سمٹ سکے یا وہ اس دانشوری کا حدود اربعہ بن سکے۔
ادب وفن کے حوالے سے دانشوری کا مآل اورمستقبل بھی نہیں واضح تھا۔ لیکن دانشوری ہوتی رہی ۔ اورکبھی تویہ وہم گذرتا ہے کہ اردو مسلم دانشوروں کی پہچان ہے، لمبے زلف، گھٹی ہوئی آواز، چکنے گال بھانت بھانت کی بولی اوربھانت بھانت کی وفاداریاں پہلے عابد رضابیدار نے خود کو اس کا نمائندہ بنارکھا تھا اوراب عزیز برنی صاحب اس دانشوری کے دعوی دار معلوم ہوتے ہیں۔ ان جیسوں کی دانشوری یہ ہے کہ سیاہ سفید حق وباطل بدبوخوشبو اوراچھے برے سب یکساں ہیں۔یہ سارے رویوں اور رجحانات کو تماشا اورتفریح طبع سمجھتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی ان کے نزدیک حقہ کشی اورسگریٹ کشی ہے اور تنہائی میں بیٹھ کر بس کلوخ اندازی ہے ۔
اگرہم دانشوری کو عام معنوں میں لیں جس کی تشریح ہوچکی اوراس کے مختلف زایوں کو نگاہ میں رکھیں تویہ دانشوری کئی شکلوں میں نمایاں ہوگی اورہرایک کی مناسب شناخت بھی بن جائے گی اوراس کے مختلف رویوں کی تعیین بھی ہوجائے گی اورہرایک کی منہجیت عدم منہجیت افادیت اورعدم افادیت بھی طے ہوجائے گی اورہرایک کا دائرہ کااور دائرہ اثر بھی نمایاں ہوجائے گا۔ یہ تعیین بہت ضروری ہے تاکہ اصل ونقل فساد وصلاح ضلالت وہدایت مضرت ومنفعت بالکل واضح ہوجائے۔
اگر ہندوستانی دانشوری کو دیکھا جائے توسب سے پہلے اس کی دوقسم بن سکتی ۔ دین وملت سے آشنا دانشوری، اور دین وملت سے بیگانہ دانشوری۔ دین وملت سے آشنا دانشوری کو ہم تحریکیت وعصرانیت کانام دے سکتے ہیں۔ اوردین وملت سے بے گانہ دانشوری کو ہم الحاد سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس الحادی دانشوری میں کہیں کہیں اسلام اورمسلمانوں کا حوالہ آجاتا ہے لیکن یہ آنی اورطاری شے ہے اس کا اعتبارنہیں اصل اعتبار اس کا ہے کہ دانشوری کی بنیاد کیا ہے اگراسے دین وملت سے بے گانگی ہے تواس کا نام الحادہی ہوگا یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ جزوی طورپر اگرکسی الحادی دانشور کے ہاں کوئی دینی تعبیر ہے یا ملی مفاد ہے تواسے صحیح تسلیم کرلیا جائے اور ایسے دانشور کے فکر وفہم اورعمل کی تقویم وتثمین کی جائے تواس کے جزوی رجحان کو مدنظررکھا جائے۔
دین وملت آشنا دانشوری کوحرکیت یا عصرانیت کہا جاتاہے۔ تحریک اورتحریکیت پر جماعت اسلامی کے کم فہم اورخوش فہم لوگ اجارہ داری کا دعوی رکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ تحریکیت کوئی بڑی اونچی چیز ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ تحریکیت اورعصرانیت عملا ہم معنی ہیں اوریہ کسی دین پسند انسان کے لئے ایک عیب ہے تحریکیت کے کل عمل کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ دین کو وقت کے افکار ضرورت پسند وناپسند ذوق وجمال کے مطابق ڈھال دیا جائے اوردین کو تازہ اورمتحرک بنادیا جائے کوئی چاہے یا نہ چاہے تحریکیت کا حاصل یہی ہوتا ہے اس میں ایسا خلط ملط ہوتا ہے کہ ایک دین پسند انسان جودین کی سچی معرفت نہیں رکھتا نہ اسے گہرائی سے سمجھتا ہے وہ خوش ہوتا ہے کہ اس نے شعوری دین حاصل کرلیا ہے جبکہ وہ دین کا شعور کھوئے بیٹھا ہوتا ہے۔ اس خوش فہمی میں وہ دین کو سیاست کی مانند وقتی اور آنی شے بنادیتا ہے جبکہ دین اصلا اٹل حقیقت ہے اورقیامت تک ناقابل تغیر ۔مسئلہ یہ ہے کہ شعور دین میں دوبنیادی شے ہے ایک تعبدی شعور دوسرے تہذیبی شعور، تعبدی شعور میں اساس دین مثلا عقائد عبادات، حلال حرام حقوق اورمعاملات کی اساس آداب حیات، تعلیم وسیاست کی بنیادیں وغیرہ کو ابدی سمجھنا اوران کو اٹل سمجھنا اس میں کسی تغیر کو روانہ رکھنا۔ اس طرح اصول وعلوم طے ہیں اورتجربے کی بنیاد پر قائم ہیں ان کی حیثیت کو تسلیم کرنا اورجہاں تک یہ علوم اساس دین کا ساتھ دیں انھیں رفض نہ کرنا۔ اورجن لوگوں نے راست گفتاری اورراست عمل کا ثبوت دیا ہے ان پر انگشت نمائی نہ کرنا۔ ان کے سوا مباحات اجتہادات اورمجتہدات میں فکر وفہم کا استعمال کرنا اور نظائر ودلائل کی بنیادوں پر انھیں پروان چڑھانا ۔ دین کے مطابق فرد سماج ملک معیشت سیاست اورتعلیم کو ڈھالنا وغیرہ سب تہذیبی شعور میں داخل ہیں تہذیبی شعور دین کی عملی تطبیق میں اپنا کردار نبھاتا ہے تہذیب وتمدن علم وثقافت فکر وفن اورزندگی کی نیرنگیوں کو دین کے مطابق بڑھانے اورپروان چڑھانے میں تہذیبی شعو رکا قائدانہ رول ہوتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ دین اوردین کی عملی تطبیق یا شعو ردین وشعور تہذیب کے درمیان خط امتیاز ختم ہوجاتاہے اور کل دین تہذیبی شعور کا مسئلہ بنادیا جاتاہے۔ ہردورمیں بے اساس اوربے اصول دانشوری کرنے والوں نے ایسا ہی کیا ہے ۔ یہی مصیبت ہے جوتحریکیت سے وابستہ لوگوں پر سوار ہوجاتی ہے ۔ وہ تہذیب اوردین کے درمیان گڈمڈ کرتے ہیں اورمباحات فروعات متغیرات ومجتہدات کو ثوابت نصوصات اورقطعیات کا درجہ دے بیٹھتے ہیں۔ جوش اورخوش فہمی کے شکار خاص کر اس دورتحزب اورمادیت میں یہی خطرناک عمل دہراتے ہیں اورفقہ الواقع کے نام پر ساری بوالعجبیاں اورحماقتیں ان سے صادرہوتی رہتی ہیں اورخود کو اتنا اہم اعلی وارفع سمجھ بیٹھتے ہیں کہ فکری وعملی یک قطبیت کے مریض بن جاتے ہیں۔
بہرحال تحریکیت کی دانشوری کم خطرناک نہیں ہوتی۔ یہ اسلام سے جڑی بھی نظر آتی ہے اوراس سے کٹتے کٹتے کٹ بھی جاتی ہے تحریکیت دراصل ایک فتنہ ہے اورجب بھی جمود پیدا ہوتا ہے تواس کے رد عمل میں تحریک پیدا ہوتی ہے بسااوقات ثوابت پر استقامت کو بھی جمود مان لیا جاتا ہے۔ جیسے خوارج ، معتزلہ شیعہ قدریہ مرجۂ نے کیا۔
تحریکیت ایک الگ موضوع ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہے اوریہ تحریکیت کرامت علی (شیعہ) -کرامت علی شاگرد شاہ اسماعیل شہیدسے جدا شخصیت- سے یہ شروع ہوتی ہے پھر سرسید امیر علی، رفقاء سرسید خاص کر شبلی حالی چراغ علی سے گذرتے ہوئے اقبال دانشوران جامعہ خاکسارتحریک منکرین حدیث جماعت اسلامی ، تنظیم اسلامی وحید الدین خان اور دیگر چھوٹ بھیے یعنی ملی کونسل، ملی پارلیامنٹ طلبہ تحریکیں وغیرہم سے گذرتی ہوئی اب تک چل رہی ہے اس کے ساتھ مختلف فراہی گروپ وغیرہ وغیرہ تحریکیت میں مشترک ہیں کسی کی تحریکیت گاڑھی ہے کسی کی ہلکی لیکن سب کو تحریکیت کے دائرے میں رکھا جاسکتا ہے اورسبھی تحریکی رجحان والے لوگ ہیں اور عصرانیت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ۔
دین وملت سے بے گانہ دانشوری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ دین ہے نہ دنیا۔ ایسے دانشوروں سے ان کی ذات سے ان کے انداز واطوار سے ان کی تحریروں اورباتوں سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یہ سماج اور معاشرہ سے بالکل کٹے ہوئے تھے بغاوت ان کی پہچان تھی اورایسی نامانوس بولی بولتے تھے کہ سماج نے ان کا کوئی اثر قبول ہی نہیں کیا ۔ یا یہ ایسے دانشور تھے کہ زندگی بھر اپنا زخم چاٹتے رہے اپنی ذات کے حصار میں ایسے گم رہے کہ انہوں نے غموں کے مداوا کے طورپر جنس زدگی کی بات کی آوارگی پھیلائی اور غیر مفہوم باتوں سے اپنی حیثیت گنوائی۔
ہندوستان کی اردو دانشوری کو اگر پرکھا جائے تواس کا کل دائرہ مفاد ذات ہے یا یتیمی ومظلومیت۔ خواہ اس کا تعلق کسی رویے سے ہو۔ اس سے مفادامت یا اردو دانوں کا مفادوابستہ ہی نہیں ہوسکا۔ اردو کے لئے سرزمین ہند اجنبی بن گئی۔ اور علاقائی تعصبات نے اس کے لئے جگہ نہ چھوڑی جن لوگوں نے حکومت کی نوکریوں کے حوالے سے اردوسے فنی وفکری وابستگی اختیار کی خواہ وہ نوکریاں تعلیمی اداروں میں ہوں یا اردو اکیڈمیوں میں وہاں انہوں نے اردو کو صرف ذریعہ معاش بنایاکمایا کھایا شہرت بٹوری اورکتاب چھپوایا اردو اوراس سے وابستہ لوگوں کے متعلق سگریٹ کے دھوئیں میں لفاظی اوردورخی کی اوراپنی اولاد کو اردو سے دورکھا بلکہ ان کے لئے اسے شجر ممنوعہ بنائے رکھا۔ اورجن لوگوں نے اردو کو ترویج دی دین تہذیب وثقافت کا موضوع بنایا اور مسلم بچوں کو اس کی تعلیم دی اورآج تک اردو دان کے دم خم سے زندہ ہے اوراردو پڑھنے والے پیدا ہوتے رہے یہ مظلو م طبقہ اردو مکاتب ومدارس سے وابستہ علماء اور دین پسندوں کا ہے لیکن افسوس اردو کی روٹی کمانے والے ہمیشہ انہیں پرزبان طعن دراز کرتے رہے۔ اوراپنی دوغلی پالیسی سے اردو کی جڑکھودتے رہے اوردخانی دانشوری کرتے رہے یا دانشوری کے زلف دراز کو فضا میں لہراتے رہے ان کے سوا ایک تیسرا طبقہ اردو یتامی کا ہے جونہ دانشوروں سے وابستہ ہے نہ دین پسندوں سے یہ شاعری کرتے رہے افسانے لکھتے رہے اورفاقہ کرتے رہے ۔
دین وملت بے گانہ دانشوری کی ابتداء اس وقت ہوئی جب مسلم ٹوڈیوں کا ایک طبقہ پیدا ہوا اوراس نے ہرشے میں انگریزوں کی نقالی شروع کی اورمغربی ثقافت وکلچر کو ترجیحی طورپر قبول کرلیا۔ اوراس کی اولاد مغربی دانشگاہوں اورتعلیمی اداروں سے فیضیاب ہوکر وطن واپس آئی۔ یا حکومت اورمشنریوں کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں سے مغربی فکر وخیال اور آداب وتہذیب سیکھنے والوں نے دین وملت سے بے گانگی اختیار کی، اورایک وقت یہ طبقہ دین وملت سے نسبت کی بناء پر معذرت خواہی کرتا پھرتا تھا اوراستعمار کی بارگاہ میں اسی کواپنی معراج جانتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ قومیت کا جذبہ ابھرا اور بیسویں صدی کے ربع اول میں یہ قومیت تواناہوتی گئی پھر تیسرے دہے میں دوقومی یک قومی نظرئیے میں بٹ گئی اور اول نصف قرن کے اخیر تک پہنچتے پہنچتے دوقومی نقط نظر حاوی ہوگیا۔ پھر بقیہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کا نظریہ اپنی دیومالائیت کے ساتھ کارفرما ہوگیا۔
ایک قومی دوقومی نظریہ مسلمانوں کے لئے ایک فتنہ سے کم نہ تھا اس فتنے نے ہندوستانی مسلمانوں کو دولخت سہ لخت کردیا اورعلاقائی ولسانی بنیادوں پر لخت لخت ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا یا ختم ہوجائے گا۔ پورے برصغیرمیں ہزارہا ہزار رشد وہدایت کا کام کرنے والے اور بڑی بڑی مسلم زعامتیں اس فتنے سے مسلمانوں کو بچا نہ سکیں۔ مسلمانو ں کی سماجی اقتصادی خاندانی اور تعلیمی اسلامی عملی سدھار تودورکی رہی۔ کل کے کل مسلمان ایک قومی دوقومی نظرےئے کے دھارے میں بہہ گئے اوراستعمار پسندی وفرقہ پرستی کی دوہری سازشوں سے نمٹ نہ سکے۔ اس قوم پرستانہ فتنے نے جسموں اور دلوں کو بانٹ دیا ۔تباہ کاریوں کاختم نہ ہونے والا ریلا آگیا ۔ اوراس فتنے کا خمیازہ مسلمانوں کو برابر ملتا چلا جارہا ہے دوسرے اس سے متاثرہوئے ہیں لیکن جارحیت کے سبب، مگر مسلمان مظلومیت کا شکار بنتے ہیں۔ اس فتنے نے نہ ادھر کے مسلمانوں کو چین دیا نہ اس طرف کے مسلمانوں کو۔ نہ ادھر ان کی معاشی تعلیمی اورسماجی حالت سدھری نہ ادھر کی ۔مشکلات ہی مشکلات، آزمائشیں ہی آزمائشیں۔
مسلمانوں کے لئے آزادی وطن کے وقت شاید یہی موقف اختیار کرلینا کافی تھا کہ مفاد ملت ، حقوق وطن آزادی وطن کے لئے اسلام کی تعلیمات کا فی ہیں اس کے برعکس آزادی کا تصور قومیت کل اساطیریت اوردیویالائیت کے ساتھ قابل قبول ہوگیا۔ اورسیکولرزم جوایک الحادی نظریہ ہے کمیونزم کے مقابلے میں قابل مدح وستائش ٹھہرا اور متعد دالقومیات واللسانیات اورمتنوع المذاہب ملک میں اسے قابل قبول نظریہ حیات تسلیم کرلیا گیا۔ سیکولرزم کمیونزم کے مقابلے میں اس لئے قابل ترجیح ہے کہ اس سے نسل کشی کی بجائے جینے کا حق توملا رہے اور ایک محدود دائرے میں مذہب پر عمل کرنے کا حق توہے۔ متحدہ قومیت کے مقابلے میں فرقہ پرست قومیت اورانتہاپسندانہ قومیت نے جنم لیا۔ یہ الٹرانیشنلزم نظریاتی طورپراقلیت کی نسل کشی چاہتا ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے توپھریکساں سول کوڈاور ہند توکو بطور کلچراقلیتوں پر تھوپنا چاہتا ہے۔
اس دین بیزار اقلیت بیزار قومیت یااقلیت مہربان ہردو جمہوری طرز حکومت ، سیکولر نظریہ حیات ، اور پیدا واری واستہلاکی معیشت میں اقلیت کے دستوری حقوق کے تسلیم کرنے کے باوجود انھیں پھلنے پھولنے اور ترقی کا موقع دینے سے ہمیشہ گریز کا رویہ اپنا یاگیا ہے۔
ان المیوں کے باوجود اکثرمسلم دانشوراور سبھی زعماء خواہ دینی ہوںیا سیکولر موجودہ صورت حال پر قانع نہ ہونے کے باوجودایوان حکومت وسیاست میں اقلیت کے مطمئن ہونے کا حکمرانوں اورسیاست دانوں کو یقین دلاتے ہیں اورسب کچھ خیرہے کی سیاست کرتے ہیں تاکہ بارگاہ حکومت وسیاست میں انھیں سرخروئی ملی رہے۔ کم ہی ایسے سعادت مند ہیں جو ملت کے مسائل باحسن وجودہ حکومت کے سامنے رکھتے ہیں۔ اورجواصحاب جیہ دوستار ایوان حکومت میں رسائی پاجاتے ہیں وہ کچھ زیادہ ہی ملت کا سودا کرتے ہیں۔ نظریہ قومیت ووطنیت سے ہزار گنابہتر دین کو چھوڑکر قومیت کوایک نظریہ کے طورپر اپناکر مسلمانوں نے بہت سی گمراہیوں اور فتنوں کے لئے داروازہ کھول دیا اور لگتا ہے سب کچھ بھول کر انہوں نے یک قومی دوقومی نظرئیے کو دین سے بڑھ کر ذہن ودماغ میں بسایا اوربسااوقات اسلام کی تعلیمات وطن کے دائرے سے باہر الحادی اساطیری اور دیومالائی قومیت کو اپنا کر صحیح وغلط کی تمیزکھوکر قومیت کے گمراہ نظرےئے میں اکثر لو گ مبتلا ہوگئے ۔اورکھدر دھاریوں کی ایک عظیم بھیڑدین وملت کے لئے چیلنج بن گئی۔
ہندوستانی نیشلزم کی ایک شکل دیانند سرسوتی کے دورسے شروع ہوکر شیاماپرشاد مکھرجی اور بھگواتھنک ٹینک کی دانشوری کے ذریعہ ہند توکے فلسفے پر منتح ہوئی اوراس کو اتنا وسیع کیا گیا کہ ہندوستان میں بسنے والے کل باشندوں پر ہندتوکی کمند ڈالنے کی کوشش کی گئی اوریہ درشایا گیا کہ ہندوستان کا ہرباشندہ ہندوہے اوراس ملک میں بسنے کا تقاضا ہے کہ یہاں کا ہرباشندہ اس ملک کی روایات سنسکرتی دیوملائیت اوراساطیرکو مانے اورہندوکلچرکو تسلیم کرلے اوریہاں کی دھرتی اوراصنام سب کی پوجاکرے۔ دانشوری کا ایک رویہ یہ بھی ہے اورسارے باشندوں سے اس کو منوانے کی سرکاری نیم سرکاری جبریہ کوششیں ہوتی ہیں اوراس کے لئے اتہاس گھڑاوبنا یا جاتاہے اورہرطرح اس کی طرف آکرشت کیا جاتا ہے اوراس کے لئے طویل مدت اورقلیل مدت منصوبے بنتے ہیں اورملک میں الٹرانیشنلٹ اپنی ساری توانائیوں کے سہارے اسی پر لگے ہوئے ہیں۔ اوراس جدوجہد کو عالمی دہشت گردی کے قضیے نے زبردست کمک پہنچائی ہے اوران کی ہمت وحوصلے میں بڑا بھاری اضافہ ہوا ہے اورحکومتی پیمانے پریک جٹ ہوکر انتظامیہ انٹلیجنس حکومت اور میڈیا اسلام پسندوں پرپل پڑی ہے اورانھیں سب سے بڑا قومی خطرہ قرار دے دیا گیا ہے اور پوری مسلم اقلیت ایسے خطرے کے زد میں آگئی ہے۔
قومی دانشوری نے تعلیم صحافت سیاست ہرایک کو اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے اورفرد ومعاشرہ پر بھی اس کا رنگ چڑھ گیا ہے او ربسااوقات دیومالائی اورجارح قومی دانشوری ملک کا نمایاں رنگ اورنئی پہچان بنتی جارہی ہے اس کے نتیجے میں مسلم اقلیت کا مستقبل خاص کر بہت بہترنظرنہیں آرہا ہے۔ اس قومی نظرےئے کے دیومالائی فتنے سے مسلمانوں کی شناخت بگڑتی جارہی ہے اورجمہوری سیاست میں انتخابی حصہ داری ضمیر ایمان کو دھوئے دے رہی ہے اورتواوراس میدان میں پردہ دار خواتین بھی اتر کر اپنی اسلامیت کا مذاق خود بن رہی ہیں حقوق کی حصول یابی کے لئے انتخابی جمہوریت میں حصہ داری کے جواز کا فتوی عقل سلیم ہمیشہ دیتی رہی ہے۔ لیکن اس اجرامی سیاست میں جس طرح طبعی شرافت اورانسانی مروت کی گت بنتی ہے اس میں حصہ داری خوف زدہ اقلیت کواقلیت کی حیثیت سے سرے سے داغدار بنادیتی ہے اس جرائم زدہ عوامی سیاست کے اندر منصب کشیدگی اور زر اندوزی کے لئے جس طرح ناجائز امکانات نکالے جاتے ہیں اس نے پورے سماج کو گندہ کردیا ہے نفرت خونریزی لڑائی کا ایک سیلاب ہے جو پورے سماج کو اپنے گرداب میں لئے ہوئے ہے۔
قومیت پرستانہ دانشوری نے جس اندھے پن کا مظاہرہ کیا ہے اورجس طرح خوف زدہ اقلیت کواپنے گرفت میں لیا ہے عام مسلمانوں کے لئے ناقابل فہم ہونے کے باوجود نہایت مہلک ہے چونکہ اس کا تعلق سیاست سے جڑگیا اورروزمرہ زندگی میں اس کے ساتھ اساسی تعامل قائم ہوگیااس لئے اس کی برائی اورقیادت کی مار ہر فرد پرپڑی اگر سیاست سے اس کا تعلق نہ ہوتا تویہ قومی دانشوری بھی بے اساس تھی او رحقیقت تویہ ہے کہ قومیت پرستانہ نظریہ کی عملیت سے باہر اگر قومیت پرستانہ دانشوری کو لیا جائے تواس کی بے اساسی عیاں ہے اور اس کی فعالیت زیرو ہے۔
ساری دانشوریاں دین و ملت کے لیے زہر ہیں اور ملت سے غیر وابستہ۔ لے دے کے جو کچھ ہے اور جو سرمایۂ ملت ہے وہ ہے ہمارے علماء اور دین پسندوں کی دین و ملت کے تئیں مخلصانہ دینی و تہذیبی جدو جہد۔ آزادی کے بعد خاص کر ہر طرح کی جہود اور دانشوریوں میں علماء اور دین پسندوں کی جہود نتائج کے اعتبار سے زیرو کے درجے میں ہیں۔
 
Last edited by a moderator:
Top