- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہمارے فاضل دوست جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ سے، پریشانی میں مدد مانگنے اور مشکل میں ان کی دہائی دینے کے بارے، بریلوی علماء کا موقف کچھ ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔
"جو مسلمان اللہ کے سواء کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ھو، اور نہ اولیاء کو متصرف بالذات سمجھتا ھو، نہ انکو تصور میں مستقل سمجھتا ھو بلکہ یہ سمجھتا ھو کہ اولیاء کرام اللہ کی دی ھوئی قدرت اور اسکے اذن سے تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدے کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ھے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ھے۔"
اس موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ کو "عبادت کا مستحق" نہ سمجھا جائے تو ان سے مدد مانگنا جائز ہے اور یہ شرک نہیں ہے۔ یعنی عبادت ان کا حق نہیں ہے لیکن کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اسے ان کا حق نہ سمجھے۔ یہ موقف قطعی طور کتاب وسنت کے خلاف اور شیطان کا دجل اور فریب ہے۔ مشرکین مکہ نہ تو اپنے بتوں کو زمین وآسمان کی تخلیق میں اللہ کا شریک قرار دیتے تھے اور نہ ہی انہیں مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے بلکہ قرآن مجید انہیں مشرک اس لیے قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے بتوں سے استغاثہ اور استعانت کو اللہ کے تقرب کا ذریعہ یا اللہ کے ہاں سفارشی سمجھتے تھے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم ويقولون هؤلاء شفعاؤنا عند الله [يونس: 18]۔
اور وہ اللہ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے ہیں کہ جو انہیں نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ دے سکتے ہیں اور وہ کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
اس آیت میں شروع ہی میں اللہ عزوجل نے مشرکین مکہ کا عقیدہ بیان کر دیا کہ وہ بتوں کو مستقل بالذات فائدہ یا نقصان پہچانے والا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اللہ کے ہاں سفارشی تصور کر کے ان سے مدد مانگنے اور ان کی دہائی دینے کے قائل تھے جبکہ اللہ نے ان کے اس فعل کو شرک قرار دیا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ
( والذين اتخذوا من دونه أولياء ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى) [الزمر:3]
اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ کچھ اولیاء پکڑ لیے ہیں، وہ کہتے یہ ہیں کہ ہم ان اولیاء کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے بہت زیادہ قریب کر دیں۔
اسی لیے تو مشرکین مکہ کا حج کے موقع پر تلبیہ یہ تھا کہ:
لبيك اللهم لبيك لا شريك لك إلا شريك هو لك تملكه وما ملك۔
حاضر ہوں، اے اللہ، میں حاضر ہوں، اے اللہ، آپ کا کوئی شریک نہیں، سوائے اس شریک کے آپ ہی اس شریک کے مالک بھی ہیں اور اس چیز کے بھی کہ جو اس شریک کے پاس ہے۔
اگر مشرکین مکہ کے اس تلبیے میں غور کریں تو اللہ کا شریک ٹھہرانے میں انہوں نے کمال درجے کی توحید کا مظاہرہ کیا ہے کہ اے اللہ، اپنے شریک کا بھی تو ہی مالک اور جو اس شریک کے پاس ہے، اس کا بھی تو ہی مالک، یعنی اس شریک کا مستقل بالذات تو کچھ بھی نہیں، سب تیرا ہی ہے۔ اور یہی مشرکین مکہ کی توحید آج بدقسمتی سے برصغیر پاک ہند میں بریلوی طبقہ فکر کے علماء پیش کر رہے ہیں۔
چلیں، قرآن سمجھ نہیں آ پا رہا تو سنت سے سمجھ لیں کہ اس میں تفصیل زیادہ ہوتی ہے،
ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ "ما شاء اللہ وما شئت" کہ جو اللہ چاہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں، تو آپ نے جواب میں فرمایا: "اجعلتنی للہ ندا" کہ کیا تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا۔ اور ساتھ ہی حکم دیا کہ صرف یہ کہو کہ جو اللہ چاہے۔ [سنن ابو داود]
اب کیا وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے؟ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس قول کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دے دیا۔ اور آپ نے "ند" یعنی مدمقابل کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ جس کی جمع مشرکین کی مذمت میں قرآن مجید میں "انداد" آئی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر صحابہ کا گزر ایک درخت "ذات انواط" پر سے ہوا کہ جس سے مشرکین برکت حاصل کرتے تھے تو بعض صحابہ نے عرض کی آپ ہمارے لیے بھی فلاں بیری کے درخت کو "ذات انواط" کا درجہ دے دیں تو آپ نے جواب میں کہا کہ تم مجھ سے وہ مطالبہ کر رہے ہو جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کیا تھا جبکہ انہوں نے ایک قوم کو بتوں کا اعتکاف کرتے دیکھا تھا تو کہا تھا کہ "اجعل لنا إلها كما لهم آلهة"۔ اے موسی، ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دیں جیسا کہ ان کے معبود ہیں۔ [سنن الترمذی]
تو کیا فتح مکہ کے بعد بھی صحابہ سے یہ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ اس درخت کو مستحق عبادت اور متصرف بالذات سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کر رہے تھے؟
ان واقعات میں قابل غور بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے انہیں قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بنا کر انہیں اللہ کا بیان بنا دیا ہے۔ اب سب مل کر کہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو وہابی اور اہل حدیث تھے؟ کہ تمہارے بقول تو اتنی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر شرک کے فتوے تو یہی لگاتے ہیں۔
پس فوت شدگان سے مدد مانگنا، چاہے وہ انبیاء ہوں یا اولیاء، اور ان کی دہائی دینا، انہیں اپنے نفع یا نقصان کا مالک سمجھنا، ان کو اس لیے پکارنا کہ ان کو پکارنے سے میری کوئی تکلیف یا غم دور ہو جائے گا یا مجھے کوئی خوشی اور نعمت مل جائے گی، چاہے انہیں مسحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھے یا نہ سمجھے، یا غائب یعنی جو زندہ تو ہوں لیکن پاس موجود نہ ہوں، ان سے مدد مانگنا اور ان کی دہائی دینا جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ وغیرہ کی دہائی دینا یا انہیں مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد مانگنا، اور حاضر سے ایسی مدد مانگنا کہ جس کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو مثلا اس سے بیٹا مانگنا وغیرہ، شرک اکبر ہے اور ایسا کرنے والے دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے کہ یہی وہ شرک ہے جو مشرکین مکہ کا شرک تھا، جو قوم نوح کا شرک تھا بلکہ تمام انبیاء کی قوموں کا شرک یہی تھا اور یہی وہ شرک ہے کہ جس کے رد میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔
استغاثہ کے مسئلہ میں بریلوی علماء کی دلیل کا تجزیہ
تحریر: محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب
ہمارے فاضل دوست جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ سے، پریشانی میں مدد مانگنے اور مشکل میں ان کی دہائی دینے کے بارے، بریلوی علماء کا موقف کچھ ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔
"جو مسلمان اللہ کے سواء کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ھو، اور نہ اولیاء کو متصرف بالذات سمجھتا ھو، نہ انکو تصور میں مستقل سمجھتا ھو بلکہ یہ سمجھتا ھو کہ اولیاء کرام اللہ کی دی ھوئی قدرت اور اسکے اذن سے تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدے کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ھے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ھے۔"
اس موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ کو "عبادت کا مستحق" نہ سمجھا جائے تو ان سے مدد مانگنا جائز ہے اور یہ شرک نہیں ہے۔ یعنی عبادت ان کا حق نہیں ہے لیکن کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اسے ان کا حق نہ سمجھے۔ یہ موقف قطعی طور کتاب وسنت کے خلاف اور شیطان کا دجل اور فریب ہے۔ مشرکین مکہ نہ تو اپنے بتوں کو زمین وآسمان کی تخلیق میں اللہ کا شریک قرار دیتے تھے اور نہ ہی انہیں مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے بلکہ قرآن مجید انہیں مشرک اس لیے قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے بتوں سے استغاثہ اور استعانت کو اللہ کے تقرب کا ذریعہ یا اللہ کے ہاں سفارشی سمجھتے تھے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم ويقولون هؤلاء شفعاؤنا عند الله [يونس: 18]۔
اور وہ اللہ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے ہیں کہ جو انہیں نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ دے سکتے ہیں اور وہ کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
اس آیت میں شروع ہی میں اللہ عزوجل نے مشرکین مکہ کا عقیدہ بیان کر دیا کہ وہ بتوں کو مستقل بالذات فائدہ یا نقصان پہچانے والا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اللہ کے ہاں سفارشی تصور کر کے ان سے مدد مانگنے اور ان کی دہائی دینے کے قائل تھے جبکہ اللہ نے ان کے اس فعل کو شرک قرار دیا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ
( والذين اتخذوا من دونه أولياء ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى) [الزمر:3]
اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ کچھ اولیاء پکڑ لیے ہیں، وہ کہتے یہ ہیں کہ ہم ان اولیاء کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے بہت زیادہ قریب کر دیں۔
اسی لیے تو مشرکین مکہ کا حج کے موقع پر تلبیہ یہ تھا کہ:
لبيك اللهم لبيك لا شريك لك إلا شريك هو لك تملكه وما ملك۔
حاضر ہوں، اے اللہ، میں حاضر ہوں، اے اللہ، آپ کا کوئی شریک نہیں، سوائے اس شریک کے آپ ہی اس شریک کے مالک بھی ہیں اور اس چیز کے بھی کہ جو اس شریک کے پاس ہے۔
اگر مشرکین مکہ کے اس تلبیے میں غور کریں تو اللہ کا شریک ٹھہرانے میں انہوں نے کمال درجے کی توحید کا مظاہرہ کیا ہے کہ اے اللہ، اپنے شریک کا بھی تو ہی مالک اور جو اس شریک کے پاس ہے، اس کا بھی تو ہی مالک، یعنی اس شریک کا مستقل بالذات تو کچھ بھی نہیں، سب تیرا ہی ہے۔ اور یہی مشرکین مکہ کی توحید آج بدقسمتی سے برصغیر پاک ہند میں بریلوی طبقہ فکر کے علماء پیش کر رہے ہیں۔
چلیں، قرآن سمجھ نہیں آ پا رہا تو سنت سے سمجھ لیں کہ اس میں تفصیل زیادہ ہوتی ہے،
ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ "ما شاء اللہ وما شئت" کہ جو اللہ چاہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں، تو آپ نے جواب میں فرمایا: "اجعلتنی للہ ندا" کہ کیا تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا۔ اور ساتھ ہی حکم دیا کہ صرف یہ کہو کہ جو اللہ چاہے۔ [سنن ابو داود]
اب کیا وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے؟ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس قول کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دے دیا۔ اور آپ نے "ند" یعنی مدمقابل کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ جس کی جمع مشرکین کی مذمت میں قرآن مجید میں "انداد" آئی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر صحابہ کا گزر ایک درخت "ذات انواط" پر سے ہوا کہ جس سے مشرکین برکت حاصل کرتے تھے تو بعض صحابہ نے عرض کی آپ ہمارے لیے بھی فلاں بیری کے درخت کو "ذات انواط" کا درجہ دے دیں تو آپ نے جواب میں کہا کہ تم مجھ سے وہ مطالبہ کر رہے ہو جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کیا تھا جبکہ انہوں نے ایک قوم کو بتوں کا اعتکاف کرتے دیکھا تھا تو کہا تھا کہ "اجعل لنا إلها كما لهم آلهة"۔ اے موسی، ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دیں جیسا کہ ان کے معبود ہیں۔ [سنن الترمذی]
تو کیا فتح مکہ کے بعد بھی صحابہ سے یہ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ اس درخت کو مستحق عبادت اور متصرف بالذات سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کر رہے تھے؟
ان واقعات میں قابل غور بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے انہیں قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بنا کر انہیں اللہ کا بیان بنا دیا ہے۔ اب سب مل کر کہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو وہابی اور اہل حدیث تھے؟ کہ تمہارے بقول تو اتنی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر شرک کے فتوے تو یہی لگاتے ہیں۔
پس فوت شدگان سے مدد مانگنا، چاہے وہ انبیاء ہوں یا اولیاء، اور ان کی دہائی دینا، انہیں اپنے نفع یا نقصان کا مالک سمجھنا، ان کو اس لیے پکارنا کہ ان کو پکارنے سے میری کوئی تکلیف یا غم دور ہو جائے گا یا مجھے کوئی خوشی اور نعمت مل جائے گی، چاہے انہیں مسحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھے یا نہ سمجھے، یا غائب یعنی جو زندہ تو ہوں لیکن پاس موجود نہ ہوں، ان سے مدد مانگنا اور ان کی دہائی دینا جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ وغیرہ کی دہائی دینا یا انہیں مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد مانگنا، اور حاضر سے ایسی مدد مانگنا کہ جس کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو مثلا اس سے بیٹا مانگنا وغیرہ، شرک اکبر ہے اور ایسا کرنے والے دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے کہ یہی وہ شرک ہے جو مشرکین مکہ کا شرک تھا، جو قوم نوح کا شرک تھا بلکہ تمام انبیاء کی قوموں کا شرک یہی تھا اور یہی وہ شرک ہے کہ جس کے رد میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔