• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استفادے سے محروم لوگ

عالی جاہ

مبتدی
شمولیت
ستمبر 12، 2018
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
7
شیخ محمد العریفی کی شہرہ آفاق کتاب زندگی سے لطف اٹھائیں کا ایک باب۔

استفادے سے محروم لوگ

مجھے بخوبی یاد ہے کہ ایک دفعہ مجھے اپنے مو بائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا جو مختصر سے سوال پر مشتمل تھا ۔
یا شیخ ! خود کشی کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟
میں نے موبائل فون پر سائل سے رابطہ کیا ۔ دوسری طرف سے ایک نوجوان کی آواز آئی جس نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا ۔
میں نے کہا : معاف کرنا آپ کا سوال میری سمجھ میں نہیں آیا ذرا دہرا دیجیے ۔
اس نے زندگی سے بیزار لہجے میں جواب دیا : شیخ! سوال تو بڑا ہی واضح ہے کہ خودکشی کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟
میں نے چاھا کے اسے ایسا جواب دوں جس کی اسے توقع ہی نہ ہو۔
میں ہنسا اور بولا : مستحب (پسندیدہ) ہے۔
’’کیا‘‘ ؟ وہ چلایا۔
میں نے پوچھا :’’ کیا ہم یہ طے کرنے میں آپکا ہاتھ بٹائیں کہ آپ کو خودکشی کے لیے کونسا طریقہ استعمال کرنا چاہئے؟
نوجوان چپ رہا۔
اس پر میں نے کہا: اچھا یہ تو بتائیں کہ آپ کیوں خود کشی کرنا چا ہتے ہیں؟
وہ بولا : کیونکہ مجھے کوئی ملا زمت نہیں ملتی ، لوگ مجھے پسند نہیں کرتے ، در اصل میں ایک نا کام انسان ہوں ۔ پھر اس نے مجھے تفصیل سے اپنے حالات بتائے ۔ وہ اپنے آپ میں بہتر تبدیلی لانے اور اپنی دستیاب صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا تھا ۔ حقیقت یہ یے کہ ہم میں سے بیشتر افراد کو یہ مسئلہ درپیش ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر انسان اپنے آپ کو اس قدر گھٹیا کیوں تصور کرتا ہے ۔ وہ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے لوگوں کو ہی کیوں تاکتا رہتا ہے ۔ ان کی طرح وہ بھی پہاڑ کی بلندیوں پر کیوں نہیں پہنچ جاتا ۔ یا کم ازکم لوگوں کی دیکھا دیکھی پہاڑ پر چڑھنا ہی شروع کر دے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
و من یتھب صعود الجبال
یعیش ابد الدھر بین الحفر
’’ جو کوہ پیمائی سے گھبراتا رہتا ہے وہ ہمییشہ گڑھوں میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ ‘‘
کیا آپ جانتے ہیں کہ کون آدمی اس کتاب سے یا ان اصولوں پر لکھی گئی کسی بھی کتاب سے استفادہ نہیں کر سکتا ؟ وہ بے چارہ انسان جس نے اپنی بری عادتوں کے روبرو سر تسلیم خم کر دیا ہے، جو اپنی موجود صلاحیتوں پر قناعت کر کہ بیٹھ گیا ہے ۔ اور جو کہتا ہے کہ میں کیا کروں ۔ یہ میرے مزاج کا حصہ ہے ۔ اللہ تعالی نے مجھے ایسا ہی بنایا ہے ۔ میں اس کا عادی ہو چکا ہوں ْ۔ میں اپنا طریقہ کار تبدیل نہیں کر سکتا ۔ لوگ میرے اس مزاج کے عادی ہوچکے ہیں ۔ اگر آپ کہیں کہ میں خالد جیسی تقریر کرنے لگوں یا احمد جیسا خوش باش نظر آوں یا جواد کی مانند لوگوں کا پیارا بن جاوں تو یہ محال ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
ایک دن میں ایک مجلس میں حاضر تھا میرے ساتھ ایک خاصے عمر رسیدہ بزرگ تشریف فرما تھے ۔مجلس میں بیٹھے تقریبا تمام افراد عوام کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ وہ بزرگ اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ وہ مجلس کے دیگر افراد میں صرف اپنی بڑی عمر کی وجہ سے نمایاں تھے ۔ اس کے علاوہ ان میں ایسی کوئی خاص بات یا غیر معمولی صلاحیت نہیں تھی ۔ میں نے وہاں ایک مختصر تقریر کی جس میں شیخ عبدالعزیز بن باز کے ایک فتوے کا ذکر کیا ۔ جب میں اپنی بات کر چکا تو بڑے میاں فخریہ لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئے : میں اور ابن باز ہم جماعت تھے ۔ آج سے چا لیس سال قبل ہم مسجد میں شیخ محمد بن ابراہیم کے پاس اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔
میں حیران ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگا ۔ یہ خبر سنا کر مارے خوشی کے ان کے چہرے کی دھاریاں دمک رہی تھیں ۔ وہ ناس بات پر بے حد مسرور تھے کہ انھیں کسی زمانے میں ایک کامیاب انسان کی صحبت حاصل رہی ہے جبکہ میں دل ہی دل انھیں ملامت کر رہا تھا : اے لا چار آدمی !تم بھی ابن باز کی طرح کامیاب کیوں نہ ہو سکے ؟ تمھیں تو راستے کا علم بھی تھا ۔ پھر تم نے اپنا سفر کیوں نہ جاری رکھا؟
ایسا کیوں ہے کہ ابن باز وفات پائیں تو ایک زمانہ ان کے فراق پر نوحہ کناں نظر آئے اورجب تمھیں موت آئے تو شائد تم پر کوئی رونے والا نہ ہو! اگر کوئی روئے بھی تو زیادہ سے زیادہ دل جوئی کی خاطر یا رسم دنیا کے طور پر ۔
ہم میں سے ہر ایک کبھی نہ کبھی یہ ضرور کہتا ہے کہ میں فلاں بڑے آدمی کو جانتا ہوں یا میں فلاں کا ہم جماعت ہوں
یا فلاں کے ساتھ میری مجلسیں جما کرتی تھیں ۔ ان باتوں پر ناز نہیں کرنا چاہئے ۔ فخر کی بات صرف یہ ہیکہ آپ بھی اسی بلندی پر پہنچیں جس پر وہ فائز ہو۔
ھم میں سے ہر ایک کو بہادر بننا اور آج ہی سے یہ عزم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ان صلاحیتوں سے جن کے کارآمد ہونے پر اسے اطمئنان ہے ، اپنی زندگی میں فائدہ اٹھائے گا، اور ایک کامیاب انسان بننے کی کوشش کرے گا ۔
اس لیے ترش روئی چھوڑکر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائیں ۔ افسردگی کو خیر باد کہہ کر ہشاش بشاش اور خوش باش نظر آئیں ۔ کنجوسی چھوڑکر کشادہ دلی اہنائیں ۔ اپنے غصے پر قابو پائیں اور ادے برد باری اور ٹھراو میں بدل ڈالیں ۔ مصائب کے گھپ اندھیروں میں خوشی کی کرنیں تلاش کریں ۔ اپنے آپ کو ایمان ویقیں اور اعتماد کے ہتھیاروں سے لیس کریں ۔ اپنی زندگی میں دلچسپی لیں ۔ اس سے لطف اٹھائیں ۔ زندگی کے دن تھوڑے ہیں ، انھیں بے جا غم اور بے مقصد پریشانیوں میں ضائع نہ کریں ۔ رہا یہ سوال کہ یہ سب کیونکر ممکن ہے تو یہ کتاب میں نے اسی سوال کے جواب میں لکھی ہے ۔ میرے ساتھ رہیے ہم ان شاء اللہ جلد منزل پر پہنچ جائیں گے ۔
حاصل:
بہادر وہ ہے جو پختہ عزم کے ساتھ ا؛پنی صلاحیتوں کو ترقی دیتا رہے اور ان سے بھر پور فائدہ اٹھائے۔
 
Top