• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استقاط حمل كے متعلق دریافت کرنا ہے

ibnequrbani

مبتدی
شمولیت
مئی 18، 2015
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
13
السلام علیکم
جناب مجھے اس بارے میں مشورہ دیں کہ اگر کسی عورت کو حمل ٹہھر گیا ہے اور اسکا دودھ پیتا چھوٹا بچّہ ہے اور حاملہ ہونے سے دودھ کے کمی یا بند ہونے کی گنجاءش ہے تو کیا اس وقت دوائ کے ذریہ حمل گرایا جا سکتا ہے جب ابھی حمل ۱۵-۲۰ دن کا ہو اور حدیث و سائنس سے پتا چلتا ہے کہ ۱۲۰ دن بعد جان آتی ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

امرأة اكتشفت أنها حامل لأسبوعها الثاني أو الثالث وهي مرضعة لولد في شهره الرابع، هل يجوز لها إسقاط الحمل لما قد يترتب عنه من ضرر لها (لتوالي الحملين بأربعة أشهر) ثم لولدها في فترة الرضاع لكونها ستجبر على إيقاف الرضاع طيلة مدة الحمل .

أولا :
اختلف الفقهاء في حكم الإجهاض قبل الأربعين ، فذهب جماعة من الحنفية والشافعية وهو المذهب عند الحنابلة إلى جوازه .
قال ابن الهمام رحمه الله في "فتح القدير" (3/401): " وهل يباح الإسقاط بعد الحبل ؟ يباح ما لم يتخلق شيء منه ، ثم في غير موضعٍ قالوا : ولا يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما , وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط ؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة " انتهى .
وقال الرملي رحمه الله في "نهاية المحتاج" (8/443) : " الراجح تحريمه بعد نفخ الروح مطلقا ، وجوازه قبله ".
وفي حاشية قليوبي (4/160) : " نعم ، يجوز إلقاؤه ولو بدواء قبل نفخ الروح فيه خلافا للغزالي " .
وقال المرداوي رحمه الله في "الإنصاف" (1/386) : " يجوز شرب دواء لإسقاط نطفة . ذكره في الوجيز ، وقدمه في الفروع . وقال ابن الجوزي في أحكام النساء : يحرم . وقال في الفروع : وظاهر كلام ابن عقيل في الفنون : أنه يجوز إسقاطه قبل أن ينفخ فيه الروح وقال : وله وجه انتهى ".

وقال ابن رجب الحنبلي في "جامع العلوم والحكم" : ورُوي عن رفاعة بن رافع قال : جلس إليَّ عمر وعليٌّ والزبير وسعد في نفر مِنْ أصحابِ رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فتذاكَروا العزلَ ، فقالوا : لا بأس به ، فقال رجلٌ : إنَّهم يزعمون أنَّها الموؤدةُ الصُّغرى ، فقال علي : لا تكون موؤدةً حتَّى تمرَّ على التَّارات السَّبع : تكون سُلالةً من طين ، ثمَّ تكونُ نطفةً ، ثم تكونُ علقةً ، ثم تكون مضغةً ، ثم تكونُ عظاماً ، ثم تكون لحماً ، ثم تكون خلقاً آخرَ ، فقال عمرُ : صدقتَ ، أطالَ الله بقاءك . رواه الدارقطني في "المؤتلف والمختلف".
ثم قال ابن رجب : " وقد صرَّح أصحابنا بأنَّه إذا صار الولدُ علقةً ، لم يجز للمرأة إسقاطُه ؛ لأنَّه ولدٌ انعقدَ ، بخلاف النُّطفة ، فإنَّها لم تنعقد بعدُ ، وقد لا تنعقدُ ولداً " انتهى .

وذهب المالكية إلى عدم الجواز مطلقا وهو قول لبعض الحنفية وبعض الشافعية وبعض الحنابلة ، قال الدردير في "الشرح الكبير" (2/266) : " لا يجوز إخراج المني المتكون في الرحم ولو قبل الأربعين يوما، وإذا نفخت فيه الروح حرم إجماعا " انتهى .

ومن الفقهاء من قَيًّد الجواز بالعذر ، وينظر : "الموسوعة الفقهية الكويتية" (2/57).
وجاء في قرار مجلس هيئة كبار العلماء :
"1- لا يجوز إسقاط الحمل في مختلف مراحله إلا لمبرر شرعي وفي حدود ضيقة جداً .
2- إذا كان الحمل في الطور الأول ، وهي مدة الأربعين يوماً وكان في إسقاطه مصلحة شرعية أو دفع ضرر جاز إسقاطه . أما إسقاطه في هذه المدة خشية المشقّة في تربية الأولاد ، أو خوفاً من العجز عن تكاليف معيشتهم وتعليمهم أو من أجل مستقبلهم ، أو اكتفاء بما لدى الزوجين من الأولاد فغير جائز" انتهى نقلاً من الفتاوى الجامعة (3/1055).

وجاء في "فتاوى اللجنة الدائمة" (21/450) : "الأصل في حمل المرأة أنه لا يجوز إسقاطه في جميع مراحله إلا لمبرر شرعي ، فإن كان الحمل لا يزال نطفة وهو ما له أربعون يوماً فأقل ، وكان في إسقاطه مصلحة شرعية أو دفع ضرر يتوقع حصوله على الأم - جاز إسقاطه في هذه الحالة ، ولا يدخل في ذلك الخشية من المشقة في القيام بتربية الأولاد أو عدم القدرة على تكاليفهم أو تربيتهم أو الاكتفاء بعدد معين من الأولاد ونحو ذلك من المبررات الغير شرعية .
أما إن زاد الحمل عن أربعين يوماً حرم إسقاطه ، لأنه بعد الأربعين يوماً يكون علقة وهو بداية خلق الإنسان ، فلا يجوز إسقاطه بعد بلوغه هذه المرحلة حتى تقرر لجنة طبية موثوقة أن في استمرار الحمل خطراً على حياة أمه ، وأنه يخشى عليها من الهلاك فيما لو استمر الحمل " انتهى .
والذي يظهر أنه لا حرج من إسقاط الحمل في الصورة المسؤول عنها إذا كان في ذلك ضرر يتوقع حصوله على الأم بتوالي الحمل ، أو ضرر حاصل على الرضيع .
والله أعلم .
حكم إسقاط الجنين قبل الأربعين لئلا يتوالى الحمل


ایک عورت کو اپنے چار ماہ کے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ دوسرے یا تیسرے ہفتے کی حاملہ ہے، تو کیا چارہ ماہ کے اندر اندر دوبارہ حمل ہونے کی وجہ سےلاحق ہونے والے اندیشے کے باعث اسقاط حمل کروانا جائز ہے؟ مزید برآں کہ ابھی اسکا نومولود بچہ دودھ پلانے کی مدت میں ہے؛ اور حمل کی وجہ سےوہ اپنے بچے کو دودھ بھی نہیں پلا سکے گی۔.

الحمد للہ:
اول:
فقہائے کرام کا چالیس دن سے پہلے اسقاط حمل کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں، چنانچہ متعدد حنفی اور شافعی فقہائے کرام کے ساتھ ساتھ حنبلی فقہاء اسے جائز کہتے ہیں۔
جیسا کہ ابن ہمام رحمہ اللہ "فتح القدير" (3/401) میں کہتے ہیں:
"حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ جائز ہے، بشرطیکہ انسانی تخلیق شروع نہ ہو، مزید برآں دیگر کئی مواقع پر [حنفی فقہاء کا ] کہنا ہے کہ: تخلیق 120 دن گزرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقہاء نے "تخلیق" سے روح پھونکنا مراد لیا ہے، وگرنہ 120 دنوں کے بارے میں انکی یہ بات غلط ہوگی؛ کیونکہ حمل میں 120 دنوں سے قبل ہی انسانی اعضاء کی نشوو نما شروع ہوجاتی ہے" انتہی

اسی طرح رملی رحمہ اللہ "نہایۃ المحتاج" (8/443) میں کہتے ہیں:
"راجح موقف کے مطابق روح پھونکے جانے کے بعد کسی طور سے بھی اسقاط حمل حرام ہے، لیکن روح پھونکے جانے سے قبل جائز ہے" انتہی
اور اسی طرح:" حاشیہ قليوبی "(4/160) میں ہے کہ:
"روح پھونکے جانے سے قبل اسقاط حمل کسی دوا وغیرہ کے ذریعے کرنا بھی جائز ہے، لیکن غزالی کی رائے اس کے خلاف ہے" انتہی

مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (1/386) میں کہتے ہیں:
"نطفہ ساقط کرنے کیلئے دوا کا استعمال کرنا جائز ہے، "الوجیز"[حنبلی فقہ کی کتاب] میں یہی بات مذکور ہے، اور "الفروع" میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے، البتہ ابن الجوزی نے "احکام النساء" میں کہا ہے کہ: "یہ عمل حرام ہے" ، جبکہ "الفروع" میں ہے کہ : کتاب "الفنون" میں ابن عقیل کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ: "روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل جائز ہے"، اسے ذکر کرنے کے بعد انہوں نے کہا: "یہ بات بھی کسی اعتبار سے درست معلوم ہوتی ہے" انتہی

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ "جامع العلوم والحكم" میں کہتے ہیں کہ:
"رفاعہ بن رافع سے نقل کیا گیا ہے کہ : میرے پاس عمر، علی، زبیر، اور سعد سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جمع ہوئے، اور "عزل" [جماع کے دوران انزال باہر کرنا]کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو سب نے کہا : "اس میں کوئی حرج نہیں ہے"، اس پر ایک آدمی نے کہا کہ: "کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زندہ درگور کرنے کی چھوٹی صورت ہے"، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا:"زندہ درگوری اس وقت شمار ہو گی جب سات مراحل گزرچکےہوں ، سب سے پہلے مٹی کا سلالہ [جوہر] ، پھر اس سے نطفہ، پھر علقہ[لوتھڑا]، پھر مضغہ [چبایا ہوا]، پھر ہڈیاں، پھر گوشت، اور پھر باقی اعضاء کی تخلیق " اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "تم سچ کہتے ہو، اللہ تعالی آپکو لمبی زندگی دے" اس روایت کو دارقطنی نے "المؤتلف و المختلف" میں نقل کیا ہے۔

پھر اس کے بعد ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جب نطفہ لوتھڑا بن جائے تو عورت کیلئے اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ یہ نطفہ اب بچے کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگیا ہے، تاہم نطفہ کے مرحلہ میں اسقاطِ حمل جائز ہے، اس لئے کہ ابھی بچے کی صورت شروع نہیں ہوئی، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نطفہ بچے کی شکل اختیار ہی نہ کرے" انتہی
[کیونکہ نطفہ سے اگر لوتھڑا بن جائے تو بچے کی نشوونما ہوتی ہے، اور اگر نطفہ کی شکل میں ہی رہے تو بچہ کی نشوو نما نہیں ہوتی۔مترجم]

جبکہ تمام مالکی فقہاء مطلق طور پر اسے منع قرار دیتے ہیں، یہی موقف کچھ حنفی، شافعی، اور حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔

چنانچہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الكبیر" (2/266) میں کہتے ہیں:
"رحم میں موجود منی کو چالیس دن سے پہلے خارج کروانا جائز نہیں ہے، اور اگر روح پھونک دی جائے تو اجماعی طور پر حرام ہوگا" انتہی
تاہم کچھ فقہائے کرام نے اس عمل کو جائز قرار دینے کیلئے عذر کی شرط لگائی ہے، اس کی تفصیلات کیلئے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية الكويتية" (2/57)
سپریم علماء کونسل کے اجلاس میں منظور شدہ قرار داد میں ہے کہ:

1- حمل کے کسی بھی مرحلہ میں اسقاط حمل جائز نہیں ہے، البتہ کسی شرعی عذر کی بنا پر انتہائی سنگین اور دشواری کی حالت میں اس کی اجازت ہے۔
2- اگر حمل کا ابھی پہلا مرحلہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہو تو شرعی مصلحت، یا بڑے نقصان سے بچنے کیلئے ساقط کرنا جائز ہے، تاہم اس مدت میں صرف اس وجہ سے حمل ساقط کرنا کہ بچوں کی پرورش میں مشقت ہو گی، یا انکی تعلیم و تربیت کے خرچے برداشت نہیں ہوں گے، یا اس لئے ساقط کرنا کہ جتنے بچے موجود ہیں یہی کافی ہیں، تو یہ درست نہیں ہے" انتہی
"الفتاوى الجامعہ" (3/1055)

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (21/450) میں ہے:
"اصل یہی ہے کہ کسی بھی مرحلے میں شرعی عذر کے بغیر اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے، تاہم اگر حمل ابھی تک نطفہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہے، اور کسی شرعی مصلحت یا ماں کو حمل کی وجہ سے نقصان کا خدشہ ہے تو اسقاطِ حمل جائز ہوگا، لیکن اس میں بچوں کی پرورش، ان کے خرچے، اور تعلیم و تربیت کے لئے درکار مشقت کی وجہ سےاسقاطِ حمل درست نہیں ہے، اسی طرح معین تعداد میں بچوں پر اکتفاء کرنا بھی غیر شرعی عذر شمار ہوتا ہے۔
اور اگر حمل کی مدت چالیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے؛ تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل حرام ہوگا، کیونکہ چالیس دن کے بعد نطفہ علقہ [لوتھڑا] بن جاتا ہے، اور یہ مرحلہ تخلیق انسان کی ابتدا ہوتی ہے، چنانچہ اس مرحلے میں پہنچنے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے، اور اگر معتبر طبی ماہرین کی ٹیم یہ رائے دے کہ حمل ٹھہرنے سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہوگا، اور اگر حمل جاری رہا تو ماں کی زندگی شدید خطرے میں چلی جائے گی، تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل جائز ہوگا" انتہی

سوال میں مذکور صورت کے بارے میں یہی ظاہر ہے کہ اسقاط حمل جائز ہے، کیونکہ مسلسل حمل کی صورت میں ماں ، اور شیر خوار بچے کو نقصان کا خطرہ ہے۔
واللہ اعلم.
مسلسل حمل کے ڈر سے چالیس دن سے قبل اسقاط ِحمل کا حکم

ترجمہ کی تصحیح بشکریہ شیخ اسحاق سلفی بھائی!
وهذا ما جاء في قرار مجلس هيئة كبار العلماء ونصه :
" 1- لا يجوز إسقاط الحمل في مختلف مراحله إلا لمبرر شرعي وفي حدود ضيقة جداً .
2- إذا كان الحمل في الطور الأول ، وهي مدة الأربعين يوماً وكان في إسقاطه مصلحة شرعية أو دفع ضرر جاز إسقاطه . أما إسقاطه في هذه المدة خشية المشقّة في تربية الأولاد ، أو خوفاً من العجز عن تكاليف معيشتهم وتعليمهم ، أو من أجل مستقبلهم ، أو اكتفاء بما لدى الزوجين من الأولاد فغير جائز " انتهى نقلاً من الفتاوى الجامعة (3/1055).
وجاء في "فتاوى اللجنة الدائمة" (21/450) : "الأصل في حمل المرأة أنه لا يجوز إسقاطه في جميع مراحله إلا لمبرر شرعي ، فإن كان الحمل لا يزال نطفة وهو ما له أربعون يوماً فأقل ، وكان في إسقاطه مصلحة شرعية أو دفع ضرر يتوقع حصوله على الأم - جاز إسقاطه في هذه الحالة ، ولا يدخل في ذلك الخشية من المشقة في القيام بتربية الأولاد أو عدم القدرة على تكاليفهم أو تربيتهم أو الاكتفاء بعدد معين من الأولاد ونحو ذلك من المبررات الغير شرعية.
أما إن زاد الحمل عن أربعين يوماً حرم إسقاطه ، لأنه بعد الأربعين يوماً يكون علقة وهو بداية خلق الإنسان ، فلا يجوز إسقاطه بعد بلوغه هذه المرحلة حتى تقرر لجنة طبية موثوقة أن في استمرار الحمل خطراً على حياة أمه ، وأنه يخشى عليها من الهلاك فيما لو استمر الحمل " انتهى .
والذي يظهر هو القول بالجواز قبل الأربعين إذا كانت هناك حاجة لذلك ، ومنها ما ذلك ؛ لما في توالي الحمل ثلاث مرات على الأم في هذه الفترة الزمنية المتقاربة من مشقة شديدة وإضعاف لجسمها ، مما قد يؤثر على الجنين نفسه ، وقد لا تستطيع الأم القيام بخدمة أطفالها الثلاثة في هذا السن الصغير .
والله أعلم .

کمیٹی نے استفتاء پرغور کرنے کے بعد درج ذیل جواب دیا:
پہلی بات: اسقاط حمل کا حکم:
1- اصل یہ ہے کہ حمل کے مختلف مراحل میں اسقاط جائز نہیں ہے۔
2- حمل کے پہلے مرحلہ یعنی چالیس دن کی مدت میں یہ عمل اسی وقت جائز ہے جب کوئی متوقع نقصان ہو یا شرعی مصلحت ہو، اور ہر حالت وکیفیت کی صحیح حقیقت کا اندازہ شرعی وطبی ماہرین کے ذریعہ کیا جائیگا، لیکن اگر کوئی اس مدت میں بچوں کی تربیت کیپریشانی کے خوف سے، یا روزی روٹی اور تعلیم کے اخراجات کے پوری نہ کرنے کے ڈر سے، یا ان کے
مستقبل کے ڈر سے، یا زوجین کے پاس موجود اولاد پر اکتفاء کرنے کی غرض سے حمل ساقط کرانا چاہے تو جائز نہیں ہے۔

3 - اگر حمل علقہ یا مضغہ ( یعنی گوشت کا لوتھڑا) بن جائے تو ساقط کرانا جائز نہیں ہے، جب تک کہ با اعتماد طبی کمیٹی یہ فیصلہ نہ کرے کہ حمل برقرار رکھنے سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے، مثلا یہ کہ ماں ہلاک ہوسکتی ہے، جب کمیٹی یہ طے کردے تو خطرہ سے بچنے کے لئے تمام وسائل کو آزمانے کے بعد اسقاط حمل جائز ہوگا۔

4 - تیسرے مرحلہ کے بعد اور حمل کے چار مہینہ مکمل ہونے کے بعد اسقاط جائز نہیں ہے، الا یہ کہ با اعتماد ماہرین اطباء کی ایک جماعت فیصلہ کردے کہ ماں کے پیٹ میں جنین کا باقی رہنا ماں کے لئے موت کا سبب بن جائیگا، اور یہ اس صورت میں ہوگا جب جنین کی زندگی بچانے کے لئے تمام وسائل اختیار کئے جاچکے ہوں۔ اس اقدام کی رخصت ان شرائط کے ساتھ اس لئے دی گئی ہے تاکہ دو نقصان میں سے بڑے نقصان سے بچا جاسکے، اور دو مصلحتوں میں سے بڑی مصلحت کا تحقق ہوجائے۔

دوسری بات: حمل ساقط ہونے کے بعد کے احکامات:
یہ احکامات حمل کے چاروں مراحل میں اسقاط کے اعتبار سے مختلف اور الگ الگ ہیں جو درج ذیل ہیں:

پہلا حکم: اگر پہلے دو مرحلوں میں حمل ساقط ہوجائے: یعنی دونوں نطفوں کے اختلاط ہونے کا مرحلہ جو پہلے چالیس دن کا ہے، جس میں رحم میں نطفہ علقہ بننے کے مرحلہ میں ہوتا ہے، اور علقہ کا مرحلہ جو دوسرے چالیس دن کے دوران نطفہ کے جامد خون بننے کا مرحلہ ہے، اس حالت میں نطفہ یا علقہ کے مرحلہ میں حمل ساقط ہونے پر کوئی احکامات مرتب نہیں ہوتے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اور عورت نماز روزہ اس طرح ادا کرتی رہیگی، جیسے کہ حمل ساقط ہی نہیں ہوا، اور ایسی عورت اگر
مستحاضہ کی طرح خون دیکھے تو اس پر ہر نماز کے لئے وضو کرنا واجب ہوگا۔

دوسرا حکم: اگرحمل تیسرے مرحلہ میں یعنی مضغہ کے مرحلہ میں جس میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے، اور جس مرحلہ میں جنین کے اعضاء اور شکل وصورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یہ مرحلہ 81 دن سے 120 دن کے درمیان کا ہوتا ہے، اس حمل کی دو حالتیں ہوتی ہیں:
1- ایک یہ کہ مضغہ کی کوئی شکل نہ تو ظاہری اور نہ ہی مخفی شکل وصورت میں ہوتی ہے، اور نہ ہی اسپتال کی دایہ کی گواہی ہوتی ہے کہ یہ حمل بنیادی طور پر انسان ہے، تو اس طرح کے مضغہ کے سقوط کا حکم پہلے دو مرحلے کے سقوط جیسا ہوگا یعنی اس سقوط پر کوئی حکم مرتب نہیں ہوگا۔
2- دوسرے یہ کہ مضغہ کی ظاہری شکل انسان کی بن چکی ہو، یا اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ ہوں، یا ہلکی ہی شکل میں ہو یا اسپتال کی دایہ گواہی دے کہ یہ بنیادی طور پر انسان ہے، تو اس مضغہ کے سقوط پر نفاس اور قضاء عدت کا حکم مرتب ہوگا۔

تیسرا حکم: اگر حمل چوتھے مرحلہ میں ساقط ہو یعنی روح پھونکے جانے کے بعد اور یہ مرحلہ پانچویں مہینہ کی ابتداء سے یعنی 121 ویں دن اور اس کے بعد تک کا ہے، تو اس کی دو حالتیں ہیں: اور وہ درج ذیل ہیں:
1 - ایک یہ کہ بچہ زور سے نہ چیخا ہو، تو اس حالت کا بھی وہی حکم ہے جو دوسری مضغہ کی حالت کا ہے، اس میں اضافی طور پر یہ حکم ہے کہ ایسے بچے کی تجہیز وتکفین کی جائیگی اور نماز پڑھی جائیگی اور اس کا عقیقہ کیا جائیگا اور نام رکھا جائیگا۔
2 - یہ بچہ زور سے چیخے، تو ایسی صورت میں اس بچے کا حکم باضابطہ نومولود بچہ جیسا ہوگا، جن میں سے کچھ وہ ہیں جو گزشتہ سطور میں بیان ہوئے، اور اس میں اضافی طور پر یہ حکم ہے کہ: وہ وصیت اور میراث وغیرہ کے مال میں شریک ہوگا، لہذا وہ وارث بھی ہوگا اور مورث بھی ہوگا۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
بکر ابو زید (ممبر )عبد العزیزآل الشيخ (ممبر ) صالح الفوزان (ممبر ) عبد اللہ بن غدیان(ممبر ) عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز (صدر افتاء کمیٹی )


نوٹ ناقل (ابن داود) کی طرف سے : صرف دودھ کی کمی کیا واقعی شرعی عذر ہے یا نہیں، یہ ایک الگ نکتہ ہے کہ بچہ کی عمر کیا ہے، اور کیا واقعی اس کے لئے ماں کا دودھ ہی لازم ہے، یا وہ دیگر غذا بھی اسے کفایت کر سکتی ہے!
 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

السلام علیکم
جناب مجھے اس بارے میں مشورہ دیں کہ اگر کسی عورت کو حمل ٹہھر گیا ہے اور اسکا دودھ پیتا چھوٹا بچّہ ہے اور حاملہ ہونے سے دودھ کے کمی یا بند ہونے کی گنجاءش ہے تو کیا اس وقت دوائ کے ذریہ حمل گرایا جا سکتا ہے جب ابھی حمل ۱۵-۲۰ دن کا ہو اور حدیث و سائنس سے پتا چلتا ہے کہ ۱۲۰ دن بعد جان آتی ہے
آپ کی ایک غلط فہمی دور کر دوں کہ جس حمل کو آپ 15 یا 20 دن کہہ رہے ہیں وہ ڈیرھ مہینہ کا حمل ھے نہ کہ 15 یا 20 دن۔

جس جان نے دنیا میں آنا ھے اسے کوئی روک نہیں سکتا! کچا پپیتا کھلا دیا جائے تو کافی ھے جو کہ بہت گرم ہوتا ھے اور اسی کام کے لئے سپیشل ھے۔ باقی اھل علم کی اجازت و مفید رائے کا انتظار فرمائیں۔

والسلام
 

ibnequrbani

مبتدی
شمولیت
مئی 18، 2015
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
13
جناب آپ تو اتنی پختگی سے کہ رہے ہیں مانو وہ عورت آپ کے پاس ہی رہتی ہو
مجھے تو یے بتایا گیا ہے کی ۱۵-۲۰ دن کا ہے کوئ ڈاکٹری چیک اپ تو ھوا نہی ہے
خیر اپنی راے دینے کے لئے شکریہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم



آپ کی ایک غلط فہمی دور کر دوں کہ جس حمل کو آپ 15 یا 20 دن کہہ رہے ہیں وہ ڈیرھ مہینہ کا حمل ھے نہ کہ 15 یا 20 دن۔

جس جان نے دنیا میں آنا ھے اسے کوئی روک نہیں سکتا! کچا پپیتا کھلا دیا جائے تو کافی ھے جو کہ بہت گرم ہوتا ھے اور اسی کام کے لئے سپیشل ھے۔ باقی اھل علم کی اجازت و مفید رائے کا انتظار فرمائیں۔

والسلام
وعلیکم السلام کنعان بھائی!
آپ کا یہ بیان جس بنیاد پر ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

وعلیکم السلام کنعان بھائی!
آپ کا یہ بیان جس بنیاد پر ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے ۔
جی ضرور جواب سپائلر میں چیک کر سکتے ہیں!

کیا اس وقت دوائ کے ذریہ حمل گرایا جا سکتا ہے جب ابھی حمل ۱۵- ۲۰ دن کا ہو
یوسف بھائی سوال آپ نے پوچھا ھے اس لئے جواب بھی آپ ہی کے لئے ھے اس پر اگر آپ نے کسی بھی قسم کی کنورسیشن کرنی ہو کراس کویسچن بھی تو آپ کر سکتے ہیں۔ کچھ سمجھنے کے لئے کچھ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں، جواب نیلے رنگ میں ہو گا۔

خاتون حاملہ ھے اس کا علم کیسے ہو گا؟ اس پر جتنے بھی ٹوٹکے ہیں وہ کنفرم نہیں ہوتے۔
ان ٹوٹکوں کے اندازہ کے اگر کسی ہسپتال میں عورت رجسٹرڈ ہونے جائے تو پہلا سوال یہی کیا جاتا ھے کہ پریڈ کب ہو کے ختم ہوئے؟ جواب اگر یہ ہو کہ ہر مہینہ کی فلاں تاریخ شروع ہونے کی ھے اور اس مرتبہ اس تاریخ سے چند دن اوپر ہوئے ہیں تو ڈاکٹر یہی کہیں گی کہ چند دن نہیں مزید پریڈ کی تاریخ سے ایک یا دو مہینہ بعد آنا کیونکہ اکثر اگر حمل پکا ھے تو اس مدت کا ٹھہرا رہے گا ورنہ اس کے اندر ریلیز ہو سکتا ھے۔ ایک مہینہ بعد بھی اگر جائیں تو وہ حمل ٹیسٹ سٹک سے نہیں بلکہ لیبارٹری سے کرتے ہیں اور یہی طریقہ کارآمد ہوتا ھے، یہ الامارات اور انگلینڈ سے معلومات ھے،

اب آتے ہیں جواب کی طرف! اس تصویر پر بھی فوکس رکھیں۔
جب بھی کوئی حاملہ کسی کلینک میں رجسٹرڈ ہونے جاتی ہے تو اس پر اس کی فائل بنتی ھے جس پر پہلا سوال یہی ہوتا ھے کہ آخری مرتبہ پریڈ کب ہوئے تھے، مثال سے اب یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ 15 دن اوپر ہو گئے اور آج ہی پی سٹک سے خود ہی چیک کیا ھے، تو حمل کی گنتی پچھلے پریڈ سے شروع ہو گی جو ڈیرھ مہینہ بنتا ھے۔

ہو سکتا ھے کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ کچھ نہیں معلوم تو پھر کیسے علم ہو گا تو اس پر کچھ ٹیسٹ کی مدد سے علم ہو جاتا ھے۔

والسلام

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس مسئلہ پر مزید ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں :
السؤال :
حملت وأناعندى 3 بنات، فهل ممكن أن أجهض الجنين ؟
سائلہ کہتی ہے کہ میری تین بیٹیاں ہیں، اور میں پھر امید سے ہوں ،
تو کیا میں ۔۔ جنین ۔۔کو گرا سکتی ہوں ؟


الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فأما تعمد إسقاط الجنين فإنه لا يجوز بحال بعد نفخ الروح فيه، وأما في الأربعين الأولى قبل نفخ الروح فيه، فالعلماء مختلفون في ذلك، فمنهم من حرمه، ومنهم من كرهه، ومنهم من أباحه، والراجح عندنا جوازه للحاجة والمصلحة، ولتراجع الفتوى رقم: 65114، ورقم: 143889.

جواب :
روح کے پھونکے جانے کے بعد تو کسی حال میں اسقاط جائز نہیں ۔
اور پہلے چالیس ایام میں ،روح پڑنے قبل اسقاط حمل میں اختلاف ہے ،
بعض اہل علم اس کو حرام ،بعض مکروہ، اور بعض جواز کا فتوی دیتے ہیں ۔
اور ہمارے نزدیک پہلے چالیس ایام میں ،کسی حاجت و مصلحت کے سبب اس کا جائز و مباح ہونا راجح ہے ۔

ثم اعلمي أن كثرة النسل من مقاصد الشريعة، وأن النبي صلى الله عليه وسلم يباهي بأمته الأمم يوم القيامة، فلا ينبغي لك أن تقتصري على عدد معين من الأولاد ما دمت تقدرين على الحمل والولادة بلا ضرر، ويجوز لك إذا أردت إيقاف الحمل مدة معينة لأجل تربية الأطفال أو للحوق الضعف بك أو لغير ذلك من الأغراض المباحة أن تستعملي وسيلة من الوسائل التي تعين على إيقاف الحمل إيقافا مؤقتا، وأما استعمال ما يقطع النسل ويمنع الحمل بالكلية فلا يجوز إلا لضرورة، وقد فصلنا هذا في الفتوى رقم: 31968 فانظريها.

والله أعلم.

اور آپ کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیئے کہ کثرت اولاد بھی شرعی مقاصد میں شامل ہے ،اور نبی آخر الزماں روز قیامت اپنی امت کی کثرت پر فخر کریں گے ۔
لہذا جب تک بغیر کسی جسمانی نقصان کے حمل اور ولادت کی قدرت موجود ہے ،آپ کیلئے بچوں کے کسی معین عدد کی پابندی درست نہیں ،(مثلاً دو بچوں کے بعد بچہ پیدا نہیں کرنا )

ہاں البتہ پہلے سے موجود بچوں کی پرورش کی غرض سے ،یا جسمانی ضعف کے سبب وقتی مانع حمل اسباب استعمال میں لائے جاسکتے ہیں ۔
لیکن مستقل مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا،جو سلسلہ نسل کو حتمی منقطع کر دیں،وہ انتہائی ضرورت کے بغیر جائز نہیں ،جیسا کہ ہم دوسری جگہ اس کی وضاحت کردی ہے ؛

فتوی اسلام ویب
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بلا شبہ ’’ حمل ‘‘ کو روکنا ایک غیر شرعی عمل ہے ، لیکن بعض دفعہ ایسے حالات ہوتے ہیں کہ اس کو برقرار رکھنا بھی پریشانی کا سبب بنتا ہے ، بہر صورت اس سلسلے میں کوئی عمومی حکم بیان نہیں کیا جاسکتا ، جس جوڑے کو ان مسائل کا سامنا ہو ، انہیں ذاتی طور پر علماء سے ملنا چاہیے ، صورت حال کی وضاحت کرنی چاہیے ، علماء کو ڈاکٹروں کی رپورٹیں اور مشوروں وغیرہ سے بھی آگاہ کرنا چاہیے ، اور پھر اپنی سہولت اور آرام طلبی کو ایک طرف رکھ کر جو بات درست محسوس ہو اس پر عمل کرنا چاہیے ، میں بحیثیت ایک شادی شدہ انسان یہ کہہ سکتا ہوں کہ عورت کسی کام کی طاقت یا سکت رکھتی ہے یا نہیں رکھتی ؟ اس کا فیصلہ بعض دفعہ صرف مرد نہیں کرسکتا ، بالفاظ دیگر اس سلسلے میں عورت جس صورت حال سے گزر رہی ہے اسے صرف مرد عالم دین کے لیے جاننا بعض دفعہ مشکل ہوجاتا ہے ، لہذا اگر ممکن ہوسکے تو عورت کو کسی خاتون عالم دین سے بھی رابطہ کرنا چاہیے ، یا کسی ایسے عالم دین سے رابطہ کرنا چاہیے جو اپنی بیوی کے ذریعے سوال پوچھنے والی عورت کی صورت حال کو صحیح طریقے سے سمجھ سکے ۔
یہ ساری باتیں میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں کچھ ایسا جوڑوں کو جانتا ہوں ، جن میں خاوند دین سے تعلق رکھتے ہیں ، اور عورت کو منع حمل وغیرہ چیزوں سے سختی سے منع کرتے ہیں ، عورت بھی دین اسلام کے احترام اور خود خاوند کے احترام میں سب مان جاتی ہیں ، لیکن بچے کی پیدائش سے قرب و جوار میں وہ ’ عام معمول سے ہٹ کر ‘ ایسے سخت حالات سے گزرتی ہیں کہ اگر ان حالات کا سامنا مرد کو کرنا پڑ جائے تو یقینا وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں گے ، اور علماء سے پوچھ کر مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
 
Top