• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسرئیل کا پیشوائے اعظم چل بسا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
اسرئیل کا پیشوائے اعظم چل بسا

یروشلم: غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آنجہانی عوفادیا کی 93 سالہ زندگی فلسطینیوں کے مخالفت ہی نہیں بلکہ ان کے خون کے پیاسے ایک انتہا پسند یہودی ربی کے طور پر عبارت ہے۔

اس یہودی خاخام نے سن 2001 میں عرب قوم کی نابودی کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ ان عربوں کو میزائل کے ذریعے نابود کر دینا چاہیئے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب دنیا میں درندہ اور موزی حیوانات کی مانند ہیں۔

2010 میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ
''غیر یہودی یہودیوں کے نوکر ہیں اور انکو صٓرف یہودیوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے''۔

اپنی نفرت کے الاؤ کو بھڑکانے کے لیے عوفودیا نے سنہ 1984ء میں اپنی قیادت میں "شاس" نامی ایک جماعت کی بنیاد رکھی۔ عوفادیا یوسف کے نزدیک فلسطینیوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے نزدیک فلسطینی زہریلے سانپ، بچھو، جوئیں اور چونٹیاں تھیں اور وہ فلسطینیوں کو مخاطب کر کے ہمیشہ انہی الفاظ میں بات کرتا۔ اس نے بارہا اپنی تقاریر میں فلسطینیوں پر بم برسا کر انہیں نیست و نابود کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ نہتے فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث یہودیوی آباد کاروں اور فوجیوں کا بہی خواہ اور ہمدرد رہا۔

عمر کے آخری ایام میں عوفادیا زیادہ علیل رہنے لگا اور سیاسی سرگرمیاں تقریبا ختم کر دیں لیکن علالت کے دنوں میں بھی اس کے دل سے فلسطینیوں کے خلاف دشمنی کم نہیں ہوئی۔

اس کی سب سے بڑی وجہ شہرت فلسطینیوں کے خلاف اس کی نفرت بھری تقریریں، بیانات اور 'فتاویٰ' تھے۔

سنہ 2000ء عوفادیا نے "فرمودات دینی" کے عنوان سے ایک تقریر کی جو بعد میں ایک کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ اس نے کہا کہ "میں نے کہا نا کہ عرب کیڑے مکوڑے ہیں۔ میں سال ہا سال سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ فلسطینی زہریلے سانپ اور بچھو ہیں۔ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل بم برسائے۔ بمباری اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک آخری عرب لقمہ اجل نہیں بن جاتا"۔

پیر کے روز جب اسرائیلی ٹی وی نے عوفادیا یوسف کے انتقال کی خبر دی تو ایسے لگ رہا تھا کہ اسرائیل سکتے میں آ گیا ہے۔

روزنامہ خبریں: 9 اکتوبر 2013
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اسرئیل کا پیشوائے اعظم چل بسا

یروشلم: غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آنجہانی عوفادیا کی 93 سالہ زندگی فلسطینیوں کے مخالفت ہی نہیں بلکہ ان کے خون کے پیاسے ایک انتہا پسند یہودی ربی کے طور پر عبارت ہے۔

اس یہودی خاخام نے سن 2001 میں عرب قوم کی نابودی کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ ان عربوں کو میزائل کے ذریعے نابود کر دینا چاہیئے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب دنیا میں درندہ اور موزی حیوانات کی مانند ہیں۔

2010 میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ
''غیر یہودی یہودیوں کے نوکر ہیں اور انکو صٓرف یہودیوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے''۔

اپنی نفرت کے الاؤ کو بھڑکانے کے لیے عوفودیا نے سنہ 1984ء میں اپنی قیادت میں "شاس" نامی ایک جماعت کی بنیاد رکھی۔ عوفادیا یوسف کے نزدیک فلسطینیوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے نزدیک فلسطینی زہریلے سانپ، بچھو، جوئیں اور چونٹیاں تھیں اور وہ فلسطینیوں کو مخاطب کر کے ہمیشہ انہی الفاظ میں بات کرتا۔ اس نے بارہا اپنی تقاریر میں فلسطینیوں پر بم برسا کر انہیں نیست و نابود کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ نہتے فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث یہودیوی آباد کاروں اور فوجیوں کا بہی خواہ اور ہمدرد رہا۔

عمر کے آخری ایام میں عوفادیا زیادہ علیل رہنے لگا اور سیاسی سرگرمیاں تقریبا ختم کر دیں لیکن علالت کے دنوں میں بھی اس کے دل سے فلسطینیوں کے خلاف دشمنی کم نہیں ہوئی۔

اس کی سب سے بڑی وجہ شہرت فلسطینیوں کے خلاف اس کی نفرت بھری تقریریں، بیانات اور 'فتاویٰ' تھے۔

سنہ 2000ء عوفادیا نے "فرمودات دینی" کے عنوان سے ایک تقریر کی جو بعد میں ایک کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ اس نے کہا کہ "میں نے کہا نا کہ عرب کیڑے مکوڑے ہیں۔ میں سال ہا سال سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ فلسطینی زہریلے سانپ اور بچھو ہیں۔ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل بم برسائے۔ بمباری اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک آخری عرب لقمہ اجل نہیں بن جاتا"۔

پیر کے روز جب اسرائیلی ٹی وی نے عوفادیا یوسف کے انتقال کی خبر دی تو ایسے لگ رہا تھا کہ اسرائیل سکتے میں آ گیا ہے۔

روزنامہ خبریں: 9 اکتوبر 2013
ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہییں کہ یہ لوگ مسلمانوں سے کس قدر بغض و عناد رکھتے ہیں
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
اس کے باوجود تشدد پسند اور دہشت گرد مسلمانوں کو ہی کہا جاتا ہے۔کیا یہ یہودی خبیث امن پسند تھا۔
 
Top