ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے نکلی مدخلیوں کی چیخیں
جب غزہ میں اسرائیلی یہودی فوج فلسطینی مسلمان عورتوں اور بچوں کا قتل عام کر رہی تھی اور ان کے گھروں پر بمباری کر انہیں زندہ جلا رہی تھی اسی وقت اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء اور ایندھن کی سپلائی روکنے کے بھی احکامات جاری کیے جس کے سبب فوری طور پر غزہ کے مسلمانوں کا پانی بند کر سپلائی لائنیں کاٹ دی گئی۔ اسی دوران اسرائیل نواز کمپنی مکڈونلڈ نے اسرائیلی فورس کو ہزاروں ٹن مفت کھانے بانٹنے شروع کر دئے۔
اور میکڈونلڈ اسرائیل کی جانب سے ٹویٹ کر کہا گیا ہے کہ ہم نے 5 برانچز کھولی ہیں جو صرف اسرائیل کی سیکیورٹی اور ریسکیو فورسز کے لیے امداد اور عطیات سے متعلق ہیں۔ ہم ہر روز تقریباً 4000 کھانے عطیہ کریں گے۔
یہ ٹویٹ وائرل ہونے کے بعد ’بائیکاٹ مکڈونلڈز‘ کی مہم شروع ہوئی تو اسرائیل میں میکڈونلڈز کے ٹوئٹر (ایکس) اکاؤنٹ پر پرائیویسی لگا دی اور پوسٹ کو ان فالوورز محدود کر دیا گیا ہے جنہیں ادارہ اکاؤنٹ فالو کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ مکڈونلڈز اسرائیل کی ویب سائیٹ پر ’اسرائیلی فوج کے لیے ڈسکاؤنٹ‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔ مکڈونلڈز کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نے یونیفارمڈ سیکیورٹی اور ریسکیو فورسز کے لیے ہر خریداری پر ڈسکاؤنٹ 15 سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا ہے۔‘ اعلان کے مطابق ’وہ قتل کیے گئے اسرائیلی فوجی اہلکاروں کے اہلخانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔‘
ایک طرف فلسطینی عوام کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اور دوسری جانب میکڈونلڈ فلسطینی بچوں کی قاتل اسرائیلی فوج کو مفت کھانا فراہم کر اس ظالم اسرائیلی فوج کی معاونت کر رہا ہے جس کے بعد دنیا بھر میں مختلف ممالک خصوصاً مسلم ممالک میں عوامی سطح پر اسرائیل کی حمایتی کمپنی میکڈونلڈ اور دیگر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جانے لگا ہے۔
جب پوری دنیا کے مسلمان اسرائیل حامی کمپنی میکڈونلڈ کا بائیکاٹ کر رہے ہیں عین اسی وقت خبیث و اخبث لعین و نجس سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کا سربراہ ترکی آل الشیخ میکڈونلڈز کے حق میں مہم چلا رہا ہے۔
میکڈونلڈ پہ دو آرڈر کرو
ایک اپنے لیئے اور تحفہ دینے کے لیئے!،،
یہ منافقین ہیں جو مسلمانوں کو زخم لگانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ غزہ کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے باوجود بھی سعودی بھکت مدخلی یہودی قاتلوں سے اظہار یکجہتی دکھا رہے ہیں۔ اور اس ترکی آل شیخ نے تو بے غیرتی بے شرمی اور بے حمیتی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں،،بلاشبہ یہ فخلف من بعدهم خلف کا حقیقی مصداق ہے۔
اس کے علاوہ مسلم عوام کے اسرائیل کی حمایتی کمپنی میکڈونلڈ اور دیگر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ پر صیہونیوں کے سہولت کار مدخلیوں و سعودی بھکتوں کی چیخیں نکلنی بھی شروع ہو گئی اور مدخلیوں کی جانب سے اسرائیل کی حامی کمپنیوں جیسے میکڈونلڈ وغیرہ کے بائکاٹ کی سختی سے مخالفت کی جانے لگی۔
پس اسی ضمن میں، مدخلی مولوی سلیمان رُحیلی نے ایک بیان جاری کر میکڈونلڈ کا بائکاٹ کرنے کو ناجائز قرار دیا ملاحظہ فرمائیں رُحیلی کا بیان :
اس کے علاوہ اسرائیل کے نیوز اجنسی "Terror Alarm" کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک مدخلی پنڈت کی ویڈیو اپلوڈ کی گئی جس میں فارس الحمادی نام کا مدخلی زندیق اسرائیلی مصنوعات کے بائکاٹ کو حرام قرار دے رہا ہے ملاحظہ فرمائیں:
اس صیہونیوں کے سہولت کار مدخلی زندیق کی ویڈیو شیئر کر اسرائیل کی اس یہودی نیوز اجنسی نے لکھا :
To our Muslim followers: "Boycotting Israeli products is Haram" according to your own religion.
اس کے ساتھ برطانیہ کے ایک مدخلی بچومڑے شمسی نے بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والے مسلمانوں کی خوب ہنسی اڑائی جس کے بعد اس مدخلی بچومڑے شمسی کی بیچ سڑک پر مسلمانوں نے کُٹائی لگا دی تھی:
یہ تھا ان مدخلی منافقین کی خباثت و اسلام دشمنی کا ایک نمونہ اب اسرائیل کے بائیکاٹ کے خلاف ان کے پشت پناہ مدخلیوں کے بھانڈ پن اور بکواس کا جواب احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے فتویٰ کی روشنی میں پیش کریں گے ان شاء اللہ۔
شریعت اسلام میں کفار کے اقتصادی بائیکاٹ کی اصل
سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا، عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ گئے تو اہل مکہ نے انھیں اسلام قبول کرنے پر بے دین ہونے کے طعنے دیے. سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے پاس گندم سپلائی کی ایجنسی تھی. اہل مکہ کو بھی گندم کی سپلائی وہی کرتے تھے. جب اہل مکہ نے اسلام قبول کرنے پر انھیں برا بھلا کہا۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ہے :
فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ صَبَوْتَ قَالَ لَا وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور اللہ کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔ [صحيح البخاري، حدیث نمبر: 4372]
حافظ ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْيَمَامَةِ فَمَنَعَهُمْ أَنْ يَحْمِلُوا إِلَى مَكَّةَ شَيْئًا
حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے یمامہ پہنچ کر اہل یمامہ کو حکم نامہ جاری کردیا کہ اہل مکہ کو غلہ نہ بھیجا جائے تو انھوں نے غلہ روک لیا۔ [فتح الباری:111/8]
یہ حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی طرف سے اہل مکہ کا اقتصادی بائیکاٹ تھا اور اقتصادی بائیکاٹ کے ذریعے انھیں مالی نقصان پہنچانا مقصود تھا۔ تو آج بھی اقتصادی بائیکاٹ کر کے کافر قوم کو نقصان پہنچانا بالکل جائز ہے۔
سلف سے تجارتی بائیکاٹ کا جواز
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عن الحسن قال: لا يحل لمسلم أن يحمل إلى عدو المسلمين سلاحا يقويهم به على المسلمين ولا كراعا ولا ما يستعان به على السلاح والكراع.
"کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے دشمن کو ہتھیار فراہم کر کے انہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں طاقتور بنائے، اور نہ بار برداری کے جانور (گھوڑے، خچر، گدھے) فراہم کرے، اور نہ کوئی ایسی چیز جس سے ہتھیار اور بار برداری کے انتظام میں مدد لی جاتی ہے۔"
[الخراج للإمام أبي يوسف القاضي ص٢٠٧]
امام اہل السنۃ مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما كل ما هو قوة على أهل الإسلام مما يتقوون به في حروبهم من كراع أو سلاح أو خرثي أو شيئا مما يعلم أنه قوة في الحرب من نحاس أو غيره فإنهم لا يباعون ذلك
" وہ چیز جو مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کے دشمنوں کی قوت کا سبب بنے، یعنی جس سے وہ اپنی جنگوں میں طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوں، جیسے بار برداری کے جانور، ہتھیار، خُرثی (گھر کا سامان) یا اور دوسری کوئی چیز جس کے متعلق معلوم ہو کہ وہ جنگ میں قوت کا ذریعہ بن سکتی ہے جیسے پیتل، تانبا وغیرہ، تو لوگ ان چیزوں کی خرید و فرخت نہیں کر سکتے۔"
[المدونة الكبرى: ١٠/ ٢٧٠، كتاب التجارة بأرض العدو، في بيع الكراع والسلاح والعروض لأهل الحرب]
محمد بن رشد الجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو مما لا اختلاف فيه أنه لا يجوز أن يباعوا شيئا مما يستعينون به في حروبهم على المسلمين من ثياب ولا صفر ولا حرير ولا شيء من الأشياء
جن چیزوں میں کوئی اختلاف نہیں، ان میں یہ بات شامل ہے کہ کفار سے کسی ایسی چیز کی تجارت نہیں کی جائے گی، جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کا سبب بنے۔ خواہ وہ تجارت کپڑے کی ہو، ریشم کی ہو، لوہے کی ہو یا کسی بھی چیز کی ہو۔ (ایسی تجارت جائز نہیں).
[البيان والتحصيل، ١٦٨/٤]
علامہ عبد الرحمٰن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والمقصود أنَّ مقاطعة الأعداء بالاقتصاديات والتجارات والأعمال وغيرها ركن عظيم من أركان الجهاد، وله النفع الأكبر وهو جهاد سلمي، وجهاد حربي.
"مقصود یہ ہے کہ اقتصادیات، تجارت، کاروبار اور دیگر چیزوں کے ذریعہ دشمنوں کا بائیکاٹ کرنا جہاد کا ایک بڑا ستون ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے، یہ پُرامن جہاد اور حربی جہاد ہے۔"
["رسالة فضل الجهاد في سبيل الله"، للعلامة عبد الرحمن بن ناصر السعدي، مجموع مؤلفات الشيخ ج٢٦ / ص١٠٣-١٠٧]
یہ شیخ ابن عثیمین کے استاذ تھے اور ان کی تفسیرِ سعدی مشہور ہے۔
اب مدخلی منافقین کی جانب سے جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ "وہ تو اسرائیل کا مقامی مکڈونلڈ ہے اس کا امریکہ اور عرب ممالک کے مکڈونلڈ سے کیا لینا دینا؟"
کوئی بھی ملٹی نیشنل، کسی بھی ملک میں اپنے برانڈ کا لائسنس جاری کرتی ہے تو اس کی اس کے ساتھ شرائط ہوتی ہیں۔ اندازہ کریں، اگر کسی ملک کا "مقامی" فرینچائز مغربی مفادات کے خلاف عطیات دے رہا ہو تو کیا یہ ملٹی نیشنلز خاموش رہیں گی؟ یہ کہہ کر کہ "وہ تو مقامی مکڈونلڈ ہے، اس کا ہم سے کیا لینا دینا"؟ کیا یہ سوچا بھی جا سکتا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین پر جارحیت کے موقع پر روس میں کوئی مغربی ملٹی نیشنل روس کے فوجیوں کو مفت سروسز یا مصنوعات فراہم کرنا شروع ہو جائے اور مغربی ممالک میں سب لوگ یہ کہہ دیں کہ "وہ تو ہماری ملٹی نیشنل کی صرف روسی مقامی برانچز ہیں"؟۔، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسے بھونڈے جواز دینے والے مدخلی کتنے بے غیرت ہوتے ہیں۔
یہ ظاہری بات ہے کہ ملٹی نیشنلز ایسے کام اپنے لیے Goodwill حاصل کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ یہ تو انوکھی بات ہو گئی کہ جب کسی ملک میں کوئی ملٹی نیشنل کسی اچھے کام میں حصہ لے تو اس کی برانڈ کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہو اور لوگ اس کے مداح بن جائیں، لیکن جب یہ کوئی گندا کام کرے تو پھر ہم یہ کہیں کہ یہ تو مقامی سطح پرملکی فرینچائز ذمہ دار ہے؟۔ میٹھا میٹھا ہپ؟ کڑوا کڑوا تھو؟ ہرگز نہیں خبیث بھانڈ صاحب، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے !
دوسرا اعتراض جو مدخلیوں کہ جانب سے ہوتا ہے کہ "پھر ان کی بنائی فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام کیوں استعمال کرتے ہو؟ "
یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ پہ جب کوئی مدخلی، آپکو فیس بک یا دوسری سوشل میڈیا استعمال کرنے کا طعنہ دے تو ان سے کہیں کہ یہ تو ایک میدان ہے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ایک پلیٹ فارم ہے ان یہودیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم سوشل میڈیا سے ہی چلائی گئی دشمن کی وہ چیز جس سے ہم انہیں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ان سے انہیں مزید چوٹ مارنی چاہیئے۔ مثلاً سوشل میڈیا جس سے ہم انکے نظریات پر ضرب لگاتے ہیں یا جنگی ہتھیار جن سے ہم انکے خلاف خود کو مضبوط کرتے ہیں۔ سوشل پلیٹ فارم کو ہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ ہوٹل نری عیاشی تھا جس کا ترک ان کی معیشت کو تباہ کرنے واسطے واجب تھا۔