رانا اویس سلفی
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 387
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 109
اسلامي نظام سياست اور جمہوريت کے مابين فرق کو سمجھنے کے ليے اس کتاب کا مطالعہ ضروري ہے ۔ يہ کتاب عبد القدوس سلفي صاحب کي تصنيف ہے اور اسکا مقدمہ پروفيسر محمد شفيع ناطق کے قلم سے ہے اور کتاب کے آخر ميں مولانا عبد الرحمن کيلاني صاحب کا مضمون "جمہوريت کيا ہے" بطور ضميمہ شامل کيا گيا ہے ۔ اس کتابچہ کو طلباء مرکز الدعوۃ والارشاد نے شائع کيا تھا
http://ia601207.us.archive.org/12/items/aslaf-ki-siyast/aslaf-ki-siyast.pdf
السلام میں نظام امارات اور امیر کی اہمیت
نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم!۔
محترم قارئین!۔
اسلام میں جماعتی نظم کے اندر زندگی بسر کرنا لازمی اور ضروری امور میں سے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء ہی سے جب کے ابھی چند شخص ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان کی جماعت بندی کردی تھی اور اُن کو امیر اور مامور کا نظر سمجھادیا تھا۔۔۔ پھر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کو ہجرت کے بعد مسلمانوں کو ایک آزاد فضاء میسر آئی تو فورا ایک منظم جماعتی نظام حکومت کی بنیاد رکھ دی اور جماعت بندی کو اس حد تک وسیع کیا کے اگر دو آدمی اکٹھے ہی سفر کریں تو ہدایت فرمائی کے ان میں سے ایک کو امیر بنا لیا جائے اور دوسرا اس کے ساتھ تابع فرمان ہو کر سفر کرے تو ظاہر ہے کے جب اس طرح کے وقتی اور عارضی اُمور میں امیر اور مامور کا قیام ضروری تھا تو زندگی کے باقی کسی بھی معاملے کو امارت کے نظام کی سرپرستی میں لئے بغیر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے لہذا زندگی کے ہر شعبہ نظام امارت میں ایسا منظم اور مرتب کردیا گیا کے دنیا کا کوئی نظام آج تک اس کی نظیر اور مثال پیش نہیں کرسکا۔۔
کفر کے مقابلے میں اسلام قبول کرنے کا مقصد ہی ہے کے ہم اس جہاں فانی میں اللہ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں تاکہ آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ کر آرام کی جگہ یعنی جنت میں پہنچ جائیں احکام الٰہی میں ایمان کے بعد جس طرح نماز، روزہ زکات، حج ضروری امور ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان امور کو دانستہ اور بلاعذر بجا نہ لانے والا شرعی اعتبار سے مجرم اور گناہ گار ہے۔۔۔ اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے اور قیامت کو وہ گرفتار عذاب ہوگا بالکل اسی طرح ایک سچے مسلمان کے لئے جماعت میں شامل ہو کر ایک امیر کی سرگردگی میں زندگی بسر کرنا فرض ہے اور بلاعذر شرعی جماعت سے دور رہنا کٹنا یا معروف میں امیر کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے یہ مسئلہ بڑا ہم اور بنیادی ہے مگر غیر اسلامی ماحول نے ہمیں اسلامی قدروں سے باغی بنادیا ہے اور ہمیں اس کا صحیح شعور بھی باقی نہیں رہا۔۔۔
اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا۔۔۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ
تم وہ بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہو (ربط)
اسی طرح سورہ البقرہ میں ابراھیم علیہ السلام کی وہ دُعا درج ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر تعمیر کعبہ کی تکمیل کے وقت کی اس میں جہاں اللہ سے یہ درخواست کی کے میری اولاد میں سے ایک معزز رسول بھیج وہاں یہ بھی درخواست کی۔۔۔
ارشاد ہوا!۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ
اے ہمارے رب!۔ ہمیں بھی اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک مسلمان جماعت پیدا فرما (ربط)
ان آیات میں مسلمانوں کو جماعت کہا گیا ہے یعنی مسلمان ہمیشہ ایک جماعتی زندگی بسر کرتے ہیں۔۔۔
جماعت سے کٹ کر رہنا مسلمان کا کام نہیں۔۔۔
اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے!۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ فَكُّ رَقَبَةٍ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ
جہنم کی گھاٹی وہی سر کرتا ہے جو غلام آزاد کرے یا انتہائی بھوک اور بدحالی کے ماحول میں اپنی تنگی اور فاقہ کشی کے باوجود کسی رشتے دار یتیم کو یا کسی غریب بےکس کو کھانا کھلائے (ربط)
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
پھر وہ اُن میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کرتے ہیں یہ ہی لوگ جنتی ہیں (ربط)
احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی جمعت کے ساتھ رہنے کی تاکید اور اس سے علیحیدگی اختیار کرنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔۔۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد عن زيد بن محمد عن نافع قال جا عبد الله بن عمر إلی عبد الله بن مطيع حين کان من أمر الحرة ما کان زمن يزيد بن معاوية فقال اطرحوا لأبي عبد الرحمن وسادة فقال إني لم آتک لأجلس أتيتک لأحدثک حديثا سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقوله سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية
عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابن محمد بن زید، زید بن محمد، نافع، عبداللہ بن عمر، حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ سے سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اسکی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر ٢٩٦)۔
بعض لوگ امیر یا اپنے رفقاء سے بعض شکایات کو عذر بنا کر جماعت سے علیحیدگی اختیار کر لیتے ہیں مگر اسلامی تعلیمات کی رو سے اس کی قطعاََ گنجائش نہیں ہے ہر حال میں جماع کے ساتھ رہنا اور اپنا فرض ادا کرنا ضروری ہے۔۔۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے!۔
حدثنا مسدد حدثنا عبد الوارث عن الجعد عن أبي رجائ عن ابن عباس عن النبي صلی الله عليه وسلم قال من کره من أميره شيئا فليصبر فإنه من خرج من السلطان شبرا مات ميتة جاهلية
مسدد، عبدالوارث، جعد، ابوالرجاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے امیر سے کوئی ناگوار چیز دیکھے تو اس کو صبر کرنا چاہیے اس لئے کہ جو شخص بادشاہ کی اطاعت سے ایک بالشت بھی باہر ہوا تو وہ جاہلیت کی موت (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر (١٩٥٠)۔۔۔
حدثنا أبو النعمان حدثنا حماد بن زيد عن الجعد أبي عثمان حدثني أبو رجائ العطاردي قال سمعت ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلی الله عليه وسلم قال من رأی من أميره شيئا يکرهه فليصبر عليه فإنه من فارق الجماعة شبرا فمات إلا مات ميتة جاهلية
ابوالنعمان، حماد بن زید، جعد، ابوعثمان، ابورجاء، عطاردی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے امیر سے کوئی ایک بات دیکھے جو اس کو ناپسند ہو تو اس کو چاہیے کہ صبر کرے، اس لئے کہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت جدا ہوگیا اور مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر (١٩٥١)
ایک موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے میرے بعد تم دیکھو گے کے امراء غلط لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ ایسے معاملات بھی دیکھو گے جن کو تم اوپر اور ناجائز سمجھتے ہو گے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس بارے میں ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟؟؟۔۔۔
المخرج من فتنة الأمراء و الأئمة
فعن عبدالله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه و سلم انه قال: إنكم سترون بعدي أثرة وأمورا تنكرونها
قالوا : فما تأمرنا يا رسول الله ؟
قال: أدوا إليهم حقهم، وسلوا الله حقكم
خلاصة الدرجة: صحيح
المحدث: البخاري
المصدر: الجامع الصحيح
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کے اگر امراء اپنے حقوق کا ہم سے مطالبہ کریں لیکن ہمارے حقوق دبالیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟؟؟۔۔۔
(( أسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم))
وفي رواية لمسلم – أيضاً : فجذبه الأشعث بن قيس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
(( أسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم ))
والمعني : أن الله – تعالي- حمل الولاة وأوجب عليهم العدل بين الناس فإذا لم يقيموه أثموا، وحمل الرعية السمع والطاعة لهم، فإن قاموا بذلك أثيبوا عليه، وإلا أثموا.
مندرجہ بالا ارشادات سے واضح ہے کہ امراء سے خدانخواستہ اگر کچھ ایسا بھی سرزد ہو جائے جو بظاہر معیوب ہو تو اس کو بہانہ بنا کر جماعت سے علیحدگی پھر بھی کسی صورت جائز نہیں بلکہ صبر، حوصلہ اور برداشت سے کام لینا اور جماعت کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔۔۔
بخاری شریف میں حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی اور اپنے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بیعت کا ذکر فرماتے ہیں جو صورتحال کو بہت زیادہ واضح کرتا ہے فرمایا!۔
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا عبد الله بن إدريس عن يحيی بن سعيد وعبيد الله بن عمر عن عبادة بن الوليد بن عبادة عن أبيه عن جده قال بايعنا رسول الله صلی الله عليه وسلم علی السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمکره وعلی أثرة علينا وعلی أن لا ننازع الأمر أهله وعلی أن نقول بالحق أينما کنا لا نخاف في الله لومة لام
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، یحیی بن سعید، عبیداللہ بن عمر، عبادہ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر ٢٧١)۔۔۔
حدثنا أحمد بن عبد الرحمن بن وهب بن مسلم حدثنا عمي عبد الله بن وهب حدثنا عمرو بن الحارث حدثني بکير عن بسر بن سعيد عن جنادة بن أبي أمية قال دخلنا علی عبادة بن الصامت وهو مريض فقلنا حدثنا أصلحک الله بحديث ينفع الله به سمعته من رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال دعانا رسول الله صلی الله عليه وسلم فبايعناه فکان فيما أخذ علينا أن بايعنا علی السمع والطاعة في منشطنا ومکرهنا وعسرنا ويسرنا وأثرة علينا وأن لا ننازع الأمر أهله قال إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من الله فيه برهان
احمد بن عبدالرحمن، ابن وہب بن مسلم، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، بسر بن سعید، جنادہ بن ابوامیہ، حضرت جنادہ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عبادہ بن صامت کے پاس حاضر ہوئے اور وہ بیمار تھے ہم نے کہا اللہ آپ کو تندرست کرے ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو اور اللہ اس کے ذریعہ نفع عطا فرمائے تو انہوں نے کہا ہمیں رسول اللہ نے بلایا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور جن امور کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے بیعت کی وہ یہ تھے ہم نے بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی کہ اپنی خوشی اور ناخوشی میں تنگی اور آسانی میں اور ہم پر ترجیح دیے جانے پر اور اس بات پر کہ ہم حکام سے جھگڑا نہ کریں گے سوائے اس کے کہ ہم واضح دیکھیں اور تمہارے پاس اس کے کفر ہونے پر اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو۔(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر ٢٧٤)۔
اس حدیث مبارکہ میں بیعت اگرچہ رسول رب العالمین کے ساتھ مذکور ہے مگر ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔۔۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے (ربط)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کی روشنی میں امیر کی اطاعت ضروری ہے معروف میں اس کا حکم ماننا فرض ہے اس کا نافرمان اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے کیونکہ ارشاد ہوا۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
اے ایمان والو تم اللہ کی بات مانو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو اور جو تم کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چلائے۔(ربط)
اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلق اور اپنی ذات میں مستقل ہے مگر اولی الامر یا امیر کی اطاعت مقید اور مشروط ہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ!۔
اس فرق کے ساتھ امیر کی اطاعت یقینا لازمی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔ کے تمہارے لئے بہتریں آئمہ (امراء اور حاکم) وہ ہیں جن کو تم پسند کرو اور وہ تم کو پسند کریں تم ان کے لئے دُعا خیر کرو اور وہ تمہارے لئے دعائے خیر کرتے ہوں اور تمہارے بدترین (امراء وحاکم) وہ ہیں جن پر تم لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔۔۔ (صحابہ کرام کا بیان ہے ) ہم نے عرض کیا کے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حالات میں ہم ان سے اپنی بیعت کا عہد توڑ نہ ڈالیں؟؟؟۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں جب تک وہ تم میں نماز کا نظام قائم رکھیں۔۔۔ خبردار !۔ سُنو من ولی علیہ وال فراہ یاتی شیئا من معصیۃ اللہ فلیکرہ من معصیۃ اللہ ولا ینزعن یدا من طاعۃ کے جس شخص پر کوئی ولی(امیر، حاکم، یاسربراہ) بنایا جائے تو اس میں جو کچھ اللہ کی نافرمانی کا عمل دیکھے اس سے بےزاری کا اظہار کرے لیکن اطاعت سے سرتابی بالکل نہ کرے ( رواہ مسلم)
سورہ نور اطاعت امیر کے آداب سکھائے گئے ہیں ارشاد ربانی ہے کے!۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٦٢﴾لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾
باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان ﻻچکے ہیں۔ پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگیں، بےشک اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے۔ تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں۔ سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔(ربط)
علی امر جامع کی تشریح میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں!۔
ای علی امر طاعة یجتمعون علیھا نحوالجمعة والنحر والفطر والجهاد واشاہ ذلک۔
یعنی اس سے مراد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھما کا اطاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمع ہونا جیسے جمعہ عیدین جہاد اور اُن سے مشابہہ دوسرے مواقع پر نیز لکھتے ہیں کہ۔۔۔
اعلم ان المؤمنین انا کانوا مع نبه فیما یحتاج فیه الی الجماعة لم یذهبوا حتی یستاننوه وکذالک ینبغی ان یکونوا مع الامام لا یخالفونه ولا یرجعون عنه فی جمع من جموعهم الاباذنه وللامام ان یاذن له وان لایاذن علی مایری لقوله تعالٰی فاذن لمن شئت۔
یعنی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کے مسلمان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الله کے ساتھ کسی ایسے معاملے میں اکھٹے ہوتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اجتماع کی ضرورت ہوتی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر وہاں سے ہرگز نہ جاتے اور اسی طرح ان کو یہی زیبا اور لائق ہے کے اپنے امراء کا ساتھ دیں ان کی مخالفت نہ کریں اور اپنے کسی اجتماع میں علیحدہ نہ ہوں اور اس کی اجازت کے بغیر نہ جائیں اور امام (امیر) کو اختیار ہے کے حالات کے مطابق کسی کو اجازت دے یا نہ دے جیسا کے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے تو جس کو چاہئے اجازت دے نیز۔
قال العلماء کل امر اجتمع علیه المسلمون مع الامام لایخالفونه ولا یرجعون عنه الا باذن (فتح الباری جلد ٤ سورہ نور)۔۔۔
یعنی علماء کا یہ فیصلہ ہے کے ہر وہ معاملہ جس میں مسلمان اپنے امام (امیر) کے ساتھ (جب) اکھٹے ہوں تو اس کی مخالفت نہ کریں اور نہ اس کو بلا اجازت چھوڑ کرجائیں۔۔۔
قارئیں کرام!۔ یہ قرآن اور علماء کی ہدایات ہیں اور اب مزید ایک ارشاد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصی الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جو شخص حاکم شریعت کی اطاعت کرے گا اس نے میری اطاعت کی اور جو حاکم کی خلاف ورزی کر یگا اس نے میری نافرمانی کی۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر(٢١٦)
اور آخر میں امیر کی اطاعت کی تحدید کا ذکر کرنا بھی ضرور ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔
السمع والطاعة علی المرء المسلم فیما احب وکره مالم یؤمر لمعصیة فاذا امر لمعصیة فلا سمع ولا طاعة (متفق علیه)۔۔۔
یعنی ایک مسلمان شخص پر اپنے امیر کی بات سننا اور ماننا ضروری ہے چاہے اس کو وہ پسند ہو یا ناپسند بشرطیکہ امیر کا یہ حکم اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا سبب نہ بنتا ہو اگر یہ حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے زمرے میں آئے تو پھر یہ وہ بات سنی جائے گی اور نہ مانی جائے گی (رواہ بخاری)۔۔۔
اسی طرح ارشاد ہوا!
لاطاعة فی معصیة انما اطاعة فی المعروفز
یعنی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی نہ مانی جائے اطاعت امیر صرف جائز اُمور میں ہوگی ( رواہ بخاری ومسلم)۔۔۔
اور شرح السنہ کی حدیث میں ایک کلئے قائدے کے طور پر بتا دیا گیا لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق کے کسی بھی ایسی صورت میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے گی جس سے خالق برحق کی نافرمانی ہوتی ہو۔۔۔
یہ ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اطاعت امیر کی حدبندی کرتے ہیں اور اطاعت خالق کے استقلال اور اطاعت اولی الامر کے مشروط مقید ہونے کا مختصر تعارف اور خاکہ ہے طالب حق کو ان شاء اللہ بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔۔۔
پروفیسر شفیع ناطق رحمہ اللہ علیہ۔۔۔
دعوت جہاد کی تحریک پر اُٹھنے والے سوالات
السلام علیکم۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سنائیے کیا حال ہیں؟۔
میں آپ کا ہی انتظار کررہا تھا۔ اچھا ہوا آپ تشریف لے آئے۔
میں تو حاضر ہوں
یہ جو آپ لوگوں نے مرکز الدعوۃ والارشاد بنا رکھا ہے اس کے بارے میں مجھے ذرا بتائیں۔
مرکز الدعوۃ والارشاد ایک دعوتی وجہادی ادارہ ہے اس کے قیام کا مقصد کتاب وسنت کے مسلک کی بنیاد پر دعوت وجہاد کے منہج پر لوگوں کو جمع کرنا ہے ہم نہ کوئی فرقہ وارانہ ذہن رکھتے ہیں نہ جماعتی سیاسی دھڑے بندی سے ہمارا کوئی تعلق ہے (کہ جن کا مسلک کتاب وسنت ہے فرقہ وارنہ مذہب نہیں) سلفیت کو زندہ کرنا، دھڑے سازی یا گروہ سازی کی بجائے ایسے افراد تیار کررہے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو زندہ کرسکیں۔
افراد کی تیاری کا کیا مطلب ہے؟۔
ہم مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کے ان کا اصل کام لوگوں کو قرآن وسنت کی دعوت دینا ہے اور اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے جہاد کرنا ہے ہم اس کام کو چھوڑ چکے ہیں دعوت وجہاد سے عبارت ہے مکہ میں دعوت وجہاد کی شکل اور ہے مدینہ میں شکل اور ہے لیکن دعوت جہاد دونوں ساتھ ساتھ رہے ہیں یہی وہ راستہ تھا جس کے نتیجے میں خلافت اسلامیہ قائم ہوئی آج اسی طریقہ پر خلافت کا قیام ممکن ہے۔
آپ کا ملطب یہ ہے کے اب ہم تبلیغی جماعت والا کام شروع کردیں۔
اللہ کے بندے آپ سمجھے ہی نہیں دعوت جہاد کا تبلیغی جماعت سے کیا تعلق تبلیغی جماعت کا مسلک فرقہ وارانہ ہے اس لئے وہ اپنے مسلک کی دعوت نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس مسلک کے لئے جہاد کیا جاسکتا ہے اس لئے ان کی تبلیغ محض فضائل اعمال کی ہوتی ہے جو کہ ان کی مجبوری ہے عقائد ومسائل ان کی تبلیغ سے خارج ہیں کیونکہ یہ چیزیں حق وباطل میں تمیز کی بنیاد ہیں اس لئے وہ اس طرف نہیں آتے تبلیغی جماعت کا کام تو محض فضائل کی تبلیغ ہے جس سے لوگوں کی کچھ نہ کچھ اخلاقی حالت تو بہتر ہوسکتی ہے حق وباطل میں تمیز کرنے کے لئے کوئی بصیرت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس تقلیدی ذہنیت پختہ ہوتی ہے جب کے ہمارا کام تو لوگوں میں بصیرت پیدا کرنا ہے اور دین کے احیاء کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کرنا ہے ہماری دعوت میں اتنی جان ہے کے باطل کبھی اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ نتیجتاََ وہ اس مقابلے کے لئے میدان میں آئے گا اور اس کے مقابلے کے لئے میدان جہاد ہے۔۔۔۔ نہ کے جمہوریت۔۔۔۔۔ جو جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں نے بھی غلطی سے اپنا رکھی ہے اور مسلسل ناکامی ہورہی ہے جمہوریت تو حق وہباطل میں صلح کرواتی ہے جب کے جہاد سے حق غالب آتا ہے اگرچہ عددی کثرت حاصل نہ بھی ہو بلکہ اہل حق کہ اقلیت کو باطل کی اکثریت پر غلبہ نصیب ہوجاتا ہے اور اسی راستے سے خلافت کا قیام بھی ممکن ہے۔۔۔
آپ کا خیال ہے کہ موجودہ سیاست سے ہم بالکل لاتعلق ہوجائیں۔
نہیں ہمارا تو موجودہ سیاست سے بڑا گہرا تعلق ہے ہم ہی نے اس کفر کی سیاست کو مسلمان کرنا ہے لیکن جہاں تک اس سیاست سے سمجھوتہ کرنے والی بات ہے ایسا ستم ہم نہیں کرسکتے ہماری سیاست دعوت وجہاد کے ذریعے خلافت وامارت کے قیام کی جدوجہد ہے۔۔۔
ہم نے آخر اس ملک میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اگر آپ جمہوریت کو ترک کردیتے ہیں تو آپ اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتے۔
کیوں نہیں!۔ جمہوریت ہمارے حقوق کی قطعا محافظ نہیں آپ سمجھتے ہیں کے ہم الیکشن میں حصہ لے کر اپنے حقوق کی حفاظت کر لیتے ہیں یہ محض دھوکہ ہے ہم اہل حدیث اگر اپنے حقوق لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک امیر کے تحت منظم ہونا ہوگا حکومت کوئی بھی ہو وہ منظم گروہ کی بات سنتی ہے مثلا قادیانیوں یا اسماعیلیوں کو دیکھ لیجئے کے ان کی کوئی سیاسی جماعت نہیں مگر وہ اپنے حقوق منواتے ہیں اور پھر ہمارا سب سے بڑا حق یہ ہونا چاہئے کے ہمیں تو صرف اسلام چاہئے حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو ہم اس کو دعوت دیں کے وہ اسلامی نظام حکومت اپنائے اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ہمیں کلمہ حق کہنا چاہئے خواہ ہمیں اس کے لئے قید وبند کی صعوبتیں ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں۔۔۔
ہم حکمرانوں کو بتائیں کے خلافت کا نظام ہی اسلام کا نظام ہے جس کے بغیر حکومت کفر کی حکومت ہوتی ہے حکومت اور مملکت کا دستور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا جائے اس کے علاوہ کوئی چیز دستور نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کو دستور تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تب ممکن ہے جب ہم خود اپنی جماعت میں ایسا مثالی نظام (نظام امارت) قائم کردکھائیں ہمارا امیر ایک ہو اور اس کی سمع وطاعت میں زندگی گزاریں ہر مسجد کی سطح پر بھی ایک امیر ہو جو اپنے علاقہ کے لوگوں کے لئے قاضی کا کام بھی کرے ہمارے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ وہ امیر کتاب وسنت کے مطابق کرے۔ ہم کفر اور انگریز کے قانون کی عدالتوں کا عملا بائیکاٹ کریں لوگ ہمیں دیکھیں اور پکار اٹھیں کے یہ اسلام کا نظام ہے ہم یہی تربیت جماعت کے افراد کی کررہے ہیں اور قائدین کو بھی ہی سمجھا رہے ہیں۔۔۔
مشن تو آپ کا زبردست ہے مگر یہ کام بڑا مشکل ہے۔
دیکھئے مشکل کو آسان کرنے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے ہم اگرچہ منزل پر دیر سے ہی کیوں نہ پہنچیں لیکن ہمیں صحیح راستہ میں قدم اٹھانا چاہئے۔
موجودہ جماعتی صلح کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟؟؟۔۔۔
جب تک ہم جمہوری سیاست سے وابستہ رہے اور اپنی جماعت کو خالص شرعی نظام جو کہ امارت کا نظام ہے سے وابستہ نہ کیا ہر اتحاد اور صلح ناپائیدار ہوگی برصغیر میں اہلحدیث کی تاریخ دعوت جہاد سے معمور ہے جمہوریت نے ہمیں جہاد کی راہ سے ہٹادیا ہے ہم جلسے، جلوسوں اور نعروں ہی کو جہاد سمجھ بیٹھے ہیں حتٰی کے “نوبت بایں جارست“ کہ اب ایک دوسرے کے خلاف کوششیں ہی جہاد سمجھی جاتی ہیں ہم جمہوریت کو چھوڑ کر دعوت جہاد کے منہج کو اختیار کریں تب ہمارا اتحاد ہوگا اور اس راتے پر خلافت اور امارت کا نظام قائم ہوگا۔
موجودہ حالات میں ہم جہاد کیسے کرسکتے ہیں؟؟؟ِ۔۔۔
جہاد کے لئے محض اسلحہ نہیں اٹھانا ہوتا کلمہ حق کو بلند کرنا بھی جہاد ہے بلکہ جابر سلطان کے سامنے تو یہ افضل جہاد ہے اپنے ملک میں ہم جہاد کی یہی شکل اختیار کریں اور بوسنیا اور کشمیر وغیرہ کے علاقوں میں جاری مسلح جہاد میں شریک ہوکر یہ فریضہ سرانجام دیں۔۔۔
مگر ہمارے بزرگ تو کلمہ حق کہنے کی بجائے نظام کفر سے صلح کر بیٹھے ہیں۔
صلح تو نہیں کی ہمارے اکابرین کلمہ حق تو کہتے ہی رہتے ہیں
جمہوریت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے بعد کلمہ حق کہنے کا کوئی وزن نہیں رہتا اور نہ ہی یہ درست طریقہ ہے۔۔۔۔۔۔ جمہوریت کو قبول کرکے کلمہ حق بلند کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے آپ دیکھتے نہیں جمہوریت نے ایک عورت کو سربراہ مملکت بنا دیا کتنے علماء ہیں جنہوں نے کلمہ حق کہا لیکن ان سب کا جواب وہ یہ دیتی رہی کہ میں ٧٣ء کے آئیں کے مطابق جمہوریت کے ذریعے برسراقتدار آئی ہوں۔
٧٣ء کا دستور قرآن وسنت سے بالاتر تو نہیں ہوسکتاہے۔
رونا تو اسی بات کا ہے کے ہم نے قرآن وسنت کو چھوڑ کر ٧٣ء کا خود ساختہ دستور قبول کرلیا ہے اگر ہمارے ملک کا دستور کتاب وسنت ہوتا تو عورت کبھی سربراہ نہ بن سکتی۔
علماء نے کلمہ حق تو کہا ہے کے یہ غیر شرعی حکمرانی ہے۔
لیکن وہی علماء انہی اسمبلیوں میں موجود ہیں اسی آئین کا حلف دے چکے ہیں جس نے عورت کو حکمران بنایا ہے اب بتائیے اس کلمہ حق کو کلمہ حق کہا جاسکتا ہے جس میں جمہوریت سے محبت بدستور موجود ہو نہ شیطان ناراض ہو اور راضی رہے رحمان بھی؟؟؟۔۔۔ یہ کھلی منافقت ہے اور یہ جمہوریت کا تحفہ ہے جو دینی سیاسی جماعتوں کو نصیب ہوا۔
ہماری جمہوریت تو اسلامی ہے مغربی نہیں کے اس میں قرآن سے ہٹ کر بھی فیصلہ کیا جاسکتے۔
آپ کتنے بھولے ہیں کفر کو اسلامی بنارہے ہیں!۔ کفر بھی کبھی اسلامی ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔ جمہوریت کفر ہے خواہ وہ امریکہ وفرانس میں ہو یا پاکستان میں جس طرح سے سوشلزم اور کمیونزم کافروں کے نظام ہیں یہ اسلامی نہیں ہوسکتے اسطرح جمہوریت کافروں کا نظام ہے یہ کبھی اسلامی نہیں ہوسکتا جس طرح اسلام کا کمیونیزم وسوشلزم سے تصادم ہے۔۔۔
بعینہ جمہوریت سے بھی تصادم ہے۔
آپ اسلامی جمہوریت کو بھی کافرانہ سیاسی نظام سمجھتے ہیں؟؟؟۔۔۔
آپ اسلامی سوشلزم کو کافرانہ معاشی نظام سمجھتے ہیں؟؟؟۔۔۔
سوشلزم تو اسلامی ہوہی نہیں سکتا۔
پھر جمہوریت کس طرح اسلامی ہوسکتی ہے؟؟؟۔۔۔
جمہوریت تو محض حکومت کی تبدیلی کا ایک ذریعہ ہے یہ کوئی خاص نظام نہیں جس کو ہم اسلام سے متصادم سمجھیں۔۔۔
جمہوریت ایک نظام ہے محض حکومت عوام کی حاکمیت ہے آپ کہتے ہیں جمہوریت اسلام کے منافی نہیں۔۔۔ حالانکہ۔۔۔ جمہوریت تو اسلامی بنیادی عقیدے ان الحکم الا اللہ (قانون اللہ کا ہے) سے متصادم ہے کیونکہ جمہوریت میں قانون انسان کا چلتا ہے انسان کے لئے انسان ہی قانون بناتے ہیں جبکہ اسلام میں قانون بنا بنایا آسمان سے نازل ہوا ہے قانون سازی کا اختیار تو اللہ نے اپنے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا اور یہاں انسان اللہ کے مقابلے میں قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں۔۔۔
تعجب ہے! یہ کون بیوقوف کہتا ہے کے جمہوریت میں اللہ کے مقابلے میں قانون سازی ہوتی ہے ہمارے دستور ١٩٧٣ء میں یہ بات طے کی گئی ہے کے اسمبلی کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بناسکتی۔۔۔
آپ کسی بات کرتے ہیں ہمارے دستور میں قرآن وسنت کو بعنیہ اس طرح تسلیم کیا گیا ہے جس طرح بریلوی ہمارے ہاں اس مکتب فکر کے لوگ غلطی سے اپنے آپ کو اہلسنت والجماعت کہتے ہیں حالانکہ اصلی اہلسنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو صرف قرآن وحدیث کو اپنا مذہب قرار دیتے ہیں اور صحابہ کرام کے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے فرقہ وارنہ تقلیدی سیاسی گروہ بندیوں سے الگ تھلگ دعوت جہاد کو نبوی منہج پر گامزن ہیں جبکہ بریلوی حضرات احمد رضا خان بریلوی کے عقائد اختیار کرتے ہی جو قرآن وسنت اور صحابہ کرام کے طریق کے منافی ہیں لہذا یہ اہلسنت نہیں۔ توحید کو تسلیم کرتے ہیں کوئی بریلوی ایسا نہیں آپ کو نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کے فلاں بزرگ ہمارا معبود ہے یا ہم فلاں بزرگ کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ جو کچھ بزرگوں سے کرتے ہیں ہوتی اُن کی عبادت ہی ہے مثلا یہ حضرات یاعلی مدد اور یارسول اللہ مدد کے نعرے لگاتے ہیں جو کہ غائبانہ پکار ہے اور غائبانہ پکار عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کی ہوتی ہے اس لئے یہ شرک ہے لفظ بدل دینے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی اسی طرح ٧٣ء کے دستور میں اللہ کی حاکمیت اور قرآن وسنت کو تسلیم کیا گیا ہے اور عملا پارلمنٹ جو کچھ کرتی ہے وہ اللہ کی حاکمیت میں شرک پوتا ہے کے صرف اللہ کو حاصل قانون سازی کا خدائی اختیار خود پارلمینٹ استعمال کرتی ہے۔
میرے بھائی! ہماری جمہوریت سیاست کا اصل بگاڑ یہی دستور سازی ہے کتاب وسنت جو اللہ کی وحی ہے کے علاوہ کسی بھی چیز کو دستور قرار دینا خواہ وہ قرآن وسنت کے مطابق ہی کیوں نہ ہو شرک ہے کیونکہ اللہ نے حاکم کو ماانزل اللہ (جو کچھ اللہ نے نازل کیا) کا پابند کیا ہے اب جو چیز ماانزل اللہ نہیں وہ دستور نہیں ہوسکتی۔۔۔
کیا مطلب!۔ کتاب وسنت کے مطابق اگر دستور بنایا جائے تو وہ کیسے شرک ہے؟؟؟۔۔۔
کتاب وسنت کے مطابق بہت کچھ بنایا جاسکتا ہے مجتہد کی فقہ اور قاضی کا فیصلہ یہ سب چیزیں کتاب وسنت کے مطابق ہوسکتی ہیں اور وہتی بھی ہیں لیکن کتاب وسنت کا فہم جو کسی مجتہد یا قاضی کو حاصل ہوتا ہے اس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے اس لئے وہ شریعت نہیں کہلا سکتا۔۔۔ کتاب وسنت سے اخذ کردہ کوئی بھی چیز کیوں نہ ہو اُسے آپ فقہ کہہ لیں یا مختلف فقہاء کی آراء پر مشتمل ایک دستاویز یہ سب غیروحی ہیں تو کسی غیر وحی کو وحی کا درجہ دراصل اللہ کے اختیار میں غیر اللہ کو شریک کرنے کی جسارت ہے اور یہ صریح شرک ہے وحی اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ دستور ہے جس کی پابندی ہر حکومت پر لازم ہے اب کوئی شخص اپنی فہم یا کسی بھی انسانی فہم کو دستور مملکت قرار دیتا ہے تویا وہ اس کو شریعت کے مقابلے میں لارہا ہے اور اللہ کے مقابلے میں قانون سازی کا دعویدار ہے اس لئے یہ شرک ہے۔
یہ بات سمجھ نہیں آرہی کے آخر ملک کو چلانے کے لئے حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ قواعد وضوابط تو وضع کرنا ہی پڑیں گے مثلا مختلف محکموں کی تشکیل ان کے اختیارات کی تقسیم وغیرہ یہ سب چیزیں من وعن کتاب وسنت میں تو نہیں پائی جاتیں ان میں تو صرف یہ دیکھنا ہوگا کے کوئی ایسا ضابطہ نہ بنایا جائے جو کتاب وسنت کے منافی ہو۔
بات دستور کی ہورہی ہے قواعد وضوابط کی نہیں۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں
میرے بھائی!۔ دستور وہ ہوتا ہے جس کی پابندی پوری حکومت پر لازم ہوتی ہے عدالتوں کو اس دستور کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں قواعد وضوابط دستور کا حصہ نہیں ہوتے انگریزی میں دستور کو Constitution اور قواعد وضوابط کو Rules and Regulations کہا جاتا ہے Constitution (دستور) اقتدار اعلٰٰی کا مظہر ہوتا ہے جمہوریت میں مقتدر اعلٰی چونکہ عوام ہوتے ہیں اس لئے عوام ہی کے منتخب نمائندوں کو یہ حق دیا جاتا ہے کے وہ ملک کا دستور بنائیں جبکہ اسلام میں مقتدر اعلٰی صرف اللہ تعالٰی کی پاک ذات ہے اس لئے دستور سازی کا حق بھی صرف اسی کا ہے مملکت براہ راست اللہ کے وضع کردہ، نازل کردہ، دستور کتاب وسنت کی پابند ہے قاضی (جج) جب بھی فیصلہ کرے گا وہ کتاب وسنت کا ہی پابند ہوگا۔ اگر قاضیوں کو کسی غیر منزل من اللہ انسانی وضع کردہ دستور کا پابند کیا جائے تو حکومت اسلامی نہیں رہے گی بلکہ طاغوت کی حکومت ہوگی۔۔۔
یہ بڑا بایک نکتہ آپ نے بیان فرمایا۔۔۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کے اگر کتاب وسنت کو سامنے رکھ کر دستور مرتب صورت میں تیار کرہی لیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟؟؟۔۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کے ہم ماشاء اللہ اہلسنت اہلحدیث ہیں یعنی ہمارا مسلک صرف کتاب وسنت ہے ہم کسی فرقہ وارانہ فقہی پابندی کو قبول نہیں کرتے ہمارا مقلدین سے ہمیشہ یہ ہی جھگڑا رہا ہے کے وہ نصوص فقہ کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا دعوٰی یہی ہے کے ہماری فقہ کتاب وسنت کے مطابق مرتب کی گئی ہے ہم کہتے ہیں فقہ اول وآخر انسانی کاوش ہے جس میں صواب وخطا کا احتمال ہے یہی وجہ کے فقہ کو شریعت کوئی نہیں کہتا حتٰی کے ہمارے، حنفی دوست بھی فقہ حنفیہ کو شریعت کا نام نہیں دیے سکتے شریعت صرف کتاب وسنت ہے اور فقہ انسانی سمجھ بوجھ کو کہتے ہیں۔ کسی ایک انسان یا متعدد انسانوں کی اجتماعی سمجھ کو شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا جب وہ شریعت نہیں تو وہ کسی اسلامی مملکت کا دستور نہیں بن سکتی۔۔۔ حنفی حضرات یہی نعرہ تو لگاتے ہیں کے حنفی فقہ کو پاکستان کا دستور قرار دیا جائے اور اہلحدیث ان کے مقابلے میں کتاب وسنت کے نفاذ کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن جب جمہوریت کی بات آتی ہے تو حنفی اور اہلحدیث باہم بلغگیر ہوجاتے ہیں دونوں ١٩٧٣ء کے انسانی دستور کی پابندی کا حلف اٹھا کر اہلحدیث کتاب وسنت کو اور حنفی اپنے فقہ کو فراموش کردیتے ہیں۔۔۔
لیکن دستور میں ترمیم کی گنجائش کو سب ہی مانتے ہیں یعنی دستور میں جو بات کتاب وسنت کے مخالف ہو اس میں ترمیم ہوسکتی ہے حتی کے حنفی حضرات بھی فقہ حنفی میں ترمیم کے قائل ہیں۔
ترمیم کی یہ گنجائش دستور کی ناپائیداری کی دلیل ہے آپ ہزار ترمیمیں کرتے رہیں وہ اول وآخر انسانی کاوش ہی قرار پائے گی اور وہ صاف ظاہر ہے شریعت نہیں بن سکتی اس طرح کی بےشمار انسانی کاوشیں ہوسکتی ہیں ان سے استفادہ ہوسکتا ہے راہنمائی بھی لی جاسکتی ہے۔۔۔۔ لیکن ان کو نہ شریعت قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ملک کا دستور بنایا جاسکتا ہے اگر ملک کا دستور کتاب وسنت کو قرار دیا جائے تو پھر ترمیم وتنسیخ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔آپ ذرا خلافت راشدہ کو ملاحظہ کیجئے اس وقت کیا دستور تھا وہاں کونسی پارلمنٹ دستورسازی کے لئے بیٹھی تھی؟؟؟۔۔۔
جب ہم کتاب وسنت کو سامنے رکھ کر کوئی چیز اخذ کرہی نہیں سکتے نہ دستور بنا سکتے ہیں تو پھر اجتہاد کس چیز کا نام ہے خلافت راشدہ میں صحابہ کرام اجتہاد کرتے تھے اور آج پارلمنٹ یہ کام کرلیتی ہے۔۔۔
میرے بھائی!۔ آپ ایک بہت بڑے مغالطہ میں مبتلا ہیں میں نے یہ کہا کے کتاب وسنت کو سامنے رکھ کر ہم کچھ اخذ نہیں کرسکتے ہم بہت کچھ اخذ کرسکتے ہیں اور اخذ کرتے بھی ہیں لیکن سوال یہ ہے کے ہم جو کچھ بھی کتاب وسنت سے اخذ کریں گے وہ کیا ہوگا آیا وہ منزل من اللہ ہے۔۔۔ صاف ظاہر ہے وہ منزل من اللہ نہیں ہے وہ تو ہماری سمجھ ہے لہذا وہ شریعت نہیں۔۔۔ فہم شریعت ہے اس لئے اس کو اسلامی مملکت کا دستور نہیں بنایا جاسکتا۔۔۔ اور آپ کو یہ بھی زبردست غلط فہمی ہے کے پارلمنٹ کا دستور سازی کا شغل اور صحابہ کرام کا مسائل واحکام میں اجتہاد ایک جیسی چیزیں معلوم ہورہی ہیں اس سے پتہ چلا ہے آپ کو اجتہاد کا صحیح مفہوم بھی واضح نہیں۔۔۔۔ اجتہاد کا مطلب دستور سازی نہیں ہوتا اور نہ ہی صحابہ کرام نے کوئی دستور اپنے اجتہادات سے مرتب کیا تھا اگر وہتا تو آج ہمارے تاریخ اس دستور کا پتہ دیتی۔۔۔
جمہوریت میں پارلمینٹ ایک دستور ساز ادارہ ہوتا ہے جبکہ اسلام میں شورٰی ہوتی ہے جس کا دستور سازی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اس کا کام امیر المومنین کو ضرورت کے وقت تدبیری امور میں مشورے دینا ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کے شورٰی کے ارکان کی تعداد مقرر ہو نہ ہی ان ارکان کا نامزد یا منتخب ہونا ضروری ہے۔۔۔ اصل مصیبت یہ ہے کے ہم مغربی تصور کو مشرف بہ اسلام کرنے پر تلے رہتے ہیں پہلے جمہوریت کو اسلامی بناتے ہیں پھر اس کے تمام متعلقات کو اسلامی اور ووٹ کے تصور کو برابر ثابت کرنے کی زحمت فرماتے ہیں۔۔۔۔ یہ سب تکلفات اس لئے کرنے پرتے ہیں کے اسلام کا اپنا مثالی نظام ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔۔۔ آپ مجھے بتائیے یہ جمہوریت آئی کہاں سے ہے؟؟؟۔۔۔ کتاب وسنت میں اس کا کہیں کوئی نام ونشان ملتا ہے صحابہ کرام کی زندنگی یا سلف صالحین میں کوئی اس کا وجود ہے پھر ہم کیوں اس کے اتنے دیوانے ہوگئے ہیں؟؟؟۔۔۔ ہمیں سلف کی طرف نسبت کرتے ہوئے سلفیت وجمہوریت کی باہمی تعلق وتصادم کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔۔۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کے کوئی ملک کسی دستور کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟؟؟۔۔۔
میں نے کب کہا ہے کے کوئی ملک دستور کے بغیر چل سکتا ہے میں تو کہہ رہا ہوں کے مسلمانوں کا دستور اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے انسانوں کا بنایا ہوا نہیں اور وہ کتاب وسنت ہی ہے۔۔۔
میرا مطلب یہ ہے کے حالالت کے مطابق جب تک کوئی دستور مرتب نہ کیا جائے کیسے چلے گا یہ بات ٹھیک ہے کے کتاب وسنت کو دستور ہونا چاہئے اور وہ مستقل دستور ہے اور ایک دستور رہے جو ملک کا نظام کے لئے بنانا ضروری ہے۔۔۔
آپ کے خیال میں دستور دو ہیں ایک بڑا دستور یعنی کتاب وسنت اور دوسرا اس کی روشنی میں مرتب کردہ چھوٹا دستور!۔
ہاں بالکل ایسے ہی کہہ رہا ہوں۔۔۔
پھر آپ دستور کو سمجھے ہی نہیں آپ بالکل بریلویوں والی توحید بیان کرنے لگ گئے ہیں وہ کہتے ہیں اللہ تو ایک ہے مگر یہ بزرگ اسی اللہ کے عطاء کردہ اختیارات سے تصرف فرماتے ہیں یہ بڑے الہ کیساتھ چھوٹے الہوٰں کا تصور ہی شرک کی اصل بنیاد ہے جیسے بریلوی توحید سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے تمام اختیارات بزرگوں میں تقسیم کردیئے ہیں اب اللہ کا بظاہر کوئی کردار نہیں اسی طرح آپ اللہ کو دستور ساز مان کر انسان کو بھی ساتھ ساتھ مرتب کرلیں جس کی پابندی انسانوں پر واجب ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انسان کو انسان کے آگے جھکانا نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟۔۔۔
پھر بتائیے آپ ملک کا نظام کیسے چلائیں گے۔۔۔
دراصل آپ کے ذہن میں یہ الجھن ہے کے جب تک حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی دستور مرتب نہ کرلیا جائے اس وقت تک کوئی حکومت چل ہی نہیں سکتی حالانکہ اس کی بہت سی مثالیں تاریخ میں اور موجودہ دور میں موجود ہیں اس کی سب سے بڑی مثال تو مسلمانوں کی خلافت کی عظیم تاریخ ہے اس دور میں کوئی مرتب ومدون دستورمملکت جو انسانوں نے مل کر بنایا ہو موجود نہ تھا خلفائے راشدین ہوں یا خلفائے بنی امیہ اور اس کے بعد بھی مسلمان حکمرانوں نے بعض شخصی کمزوریوں کے باوجود کتاب وسنت کو ہی دستور قرار دیا ہوا تھا قاضی کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرتے تھے آج سعودی عرب کا کوئی تحریری دستور موجود نہیں وہاں سب قاضی کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں جب کے ہمارے ملک میں جج صاحبان ١٩٧٣ء کے دستور کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔۔۔ ہماری شرعی عدالتیں بھی ١٩٧٣ء کے دستور کے خلاف کوئی مقدمہ سننے کی مجاز نہیں جیسا کے حال ہی میں عورت کی سربراہی کا مسئلہ کھڑا ہوا بعض لوگوں نے وفاقی شرعی عدالت کی طرف رجوع کیا اُن کی درخواست اس بناء پر خارج کردی گئی کے ١٩٧٣ء کے دستور کے منافی عدالت کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی اسمبلی ہی دستور میں ترمیم کرے تو کرے وہ چاہئے تو شریعت کے کسی حکم کو قانون بنائے ورنہ شریعت کا کوئی حکم ازخود یہ صلاحیت نہیں رکھتا کے اسے ملکی قانون تصور کیا جائے گویا شریعت پر پارلیمنٹ کی بالادستی ہے نہ کے پارلمنٹ پر شریعت کی۔۔۔
یہ تو میں نے آج سنا ہے کے بعض ممالک میں بغیر کسی تحریری دستور کے بھی نظام چل رہا ہے۔۔۔
یہ صرف اسلامی ملک کی بات نہیں برطانیہ جو بہت بڑا جمہوری ملک ہے وہاں بھی کوئی تحریری دستور موجود نہیں یہ کم بختی صرف مسلمانوں کے لئے ہے کے وہ اللہ کے نازل کردہ دستور ( جو ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہے) کی موجودگی میں خود دستور بنانے لگتے ہیں۔۔۔
یہ بات تو واضح ہوگئی کے اسلامی مملکت میں دستور صرف اور صرف کتاب وسنت ہی ہوسکتا ہے لیکن یہ ذرا سمجھائیے کے قاضی جو فیصلہ کتاب وسنت کے مطابق کرے گا اس کی کیا قانونی اور دستوری حیثیت ہوگی؟؟؟۔۔۔
قاضی کا فیصلہ کبھی دستور نہیں کہلاسکتا مجتہد کا اجتہاد کا فیصلہ اور مفتی کا فتوٰٰی یہ سب چیزیں فہم شریعت ہیں نہ کے شریعت قاضی کا فیصلہ نافذ العمل تو ہوتا ہے لیکن اس کو شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس میں بھی غلطی کا احتمال ہے۔۔۔
جب اس میں بھی غلطی کا احتمال ہے تو نافذ العمل کیسے ہوگا؟؟؟۔۔۔
غلطی کا احتمال ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کے وہ نافذ العمل بھی نہ ہو مقدمات کے فیصلے تو آخر انسانوں کو ہی کرنے ہوتے ہیں قاضی فیصلہ کرتے وقت صرف کتاو سنت کا ہی پابند ہوتا ہے وہ وقتی ہوتا ہے وہ دستور نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس کو دلیل بنا کر مزید فیصلے کئے جاسکتے ہیں ہر قاضی براہ راست کتاب وسنت سے دلیل اخز کرے گا اگرچہ وہ فقہاء اور مجتہدین کی آراء سے راہنمائی لے سکتا ہے لیکن کسی انسانی راہنمائی کو دلیل وحجت کے طور پر پیش نہیں کرسکتا یہی تو فرق ہے اہلحدیث اور اہل الرائے کے طرف فکر میں کے اہلحدیث ایک اجتہاد سے دوسرا اجتہاد نہیں کرتے ہر دور میں ہر نئے مسئلہ کے لئے کتاب وسنت سے ازسرنو اجتہاد ہوگا اور سابقہ اجتہادات سے صرف راہنمائی لیجاسکے گی۔۔۔ یہ ہی وجہ ہے اہلحدیث مفتی فتوٰٰی لکھتے وقت آئمہ دین کی آراء سے راہنمائی لیتے ہیں لیکن دلیل کے طور پر کتاب وسنت کو ہی پیش کرتے ہیں کیونکہ شریعت کی دلیلیں صرف دو ہیں کتاب وسنت یہاں یہ بات بھی خوب سمجھ لیں کے اجتہاد دین وشریعت میں قطعاََ کوئی اضافہ نہیں کرتا۔ اجتہاد کا مطلب نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کتاب وسنت سے تلاش کرنا ہے دین وشریعت مکمل ہے احکامات بھی سب موجود ہوتے ہیں شریعت میں موجود احکامات کو نئے حالات میں منطبق کرنے کا نام اجتہاد ہے نہ کے حالات کے مطابق شریعت کو تبدیل کرنے کا نام۔۔
ڈاؤنلوڈ
http://ia601207.us.archive.org/12/items/aslaf-ki-siyast/aslaf-ki-siyast.pdf
السلام میں نظام امارات اور امیر کی اہمیت
نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم!۔
محترم قارئین!۔
اسلام میں جماعتی نظم کے اندر زندگی بسر کرنا لازمی اور ضروری امور میں سے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء ہی سے جب کے ابھی چند شخص ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان کی جماعت بندی کردی تھی اور اُن کو امیر اور مامور کا نظر سمجھادیا تھا۔۔۔ پھر جب مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کو ہجرت کے بعد مسلمانوں کو ایک آزاد فضاء میسر آئی تو فورا ایک منظم جماعتی نظام حکومت کی بنیاد رکھ دی اور جماعت بندی کو اس حد تک وسیع کیا کے اگر دو آدمی اکٹھے ہی سفر کریں تو ہدایت فرمائی کے ان میں سے ایک کو امیر بنا لیا جائے اور دوسرا اس کے ساتھ تابع فرمان ہو کر سفر کرے تو ظاہر ہے کے جب اس طرح کے وقتی اور عارضی اُمور میں امیر اور مامور کا قیام ضروری تھا تو زندگی کے باقی کسی بھی معاملے کو امارت کے نظام کی سرپرستی میں لئے بغیر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے لہذا زندگی کے ہر شعبہ نظام امارت میں ایسا منظم اور مرتب کردیا گیا کے دنیا کا کوئی نظام آج تک اس کی نظیر اور مثال پیش نہیں کرسکا۔۔
کفر کے مقابلے میں اسلام قبول کرنے کا مقصد ہی ہے کے ہم اس جہاں فانی میں اللہ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں تاکہ آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ کر آرام کی جگہ یعنی جنت میں پہنچ جائیں احکام الٰہی میں ایمان کے بعد جس طرح نماز، روزہ زکات، حج ضروری امور ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان امور کو دانستہ اور بلاعذر بجا نہ لانے والا شرعی اعتبار سے مجرم اور گناہ گار ہے۔۔۔ اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے اور قیامت کو وہ گرفتار عذاب ہوگا بالکل اسی طرح ایک سچے مسلمان کے لئے جماعت میں شامل ہو کر ایک امیر کی سرگردگی میں زندگی بسر کرنا فرض ہے اور بلاعذر شرعی جماعت سے دور رہنا کٹنا یا معروف میں امیر کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے یہ مسئلہ بڑا ہم اور بنیادی ہے مگر غیر اسلامی ماحول نے ہمیں اسلامی قدروں سے باغی بنادیا ہے اور ہمیں اس کا صحیح شعور بھی باقی نہیں رہا۔۔۔
اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا۔۔۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ
تم وہ بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہو (ربط)
اسی طرح سورہ البقرہ میں ابراھیم علیہ السلام کی وہ دُعا درج ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر تعمیر کعبہ کی تکمیل کے وقت کی اس میں جہاں اللہ سے یہ درخواست کی کے میری اولاد میں سے ایک معزز رسول بھیج وہاں یہ بھی درخواست کی۔۔۔
ارشاد ہوا!۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ
اے ہمارے رب!۔ ہمیں بھی اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک مسلمان جماعت پیدا فرما (ربط)
ان آیات میں مسلمانوں کو جماعت کہا گیا ہے یعنی مسلمان ہمیشہ ایک جماعتی زندگی بسر کرتے ہیں۔۔۔
جماعت سے کٹ کر رہنا مسلمان کا کام نہیں۔۔۔
اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے!۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ فَكُّ رَقَبَةٍ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ
جہنم کی گھاٹی وہی سر کرتا ہے جو غلام آزاد کرے یا انتہائی بھوک اور بدحالی کے ماحول میں اپنی تنگی اور فاقہ کشی کے باوجود کسی رشتے دار یتیم کو یا کسی غریب بےکس کو کھانا کھلائے (ربط)
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
پھر وہ اُن میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کرتے ہیں یہ ہی لوگ جنتی ہیں (ربط)
احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی جمعت کے ساتھ رہنے کی تاکید اور اس سے علیحیدگی اختیار کرنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔۔۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد عن زيد بن محمد عن نافع قال جا عبد الله بن عمر إلی عبد الله بن مطيع حين کان من أمر الحرة ما کان زمن يزيد بن معاوية فقال اطرحوا لأبي عبد الرحمن وسادة فقال إني لم آتک لأجلس أتيتک لأحدثک حديثا سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقوله سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية
عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابن محمد بن زید، زید بن محمد، نافع، عبداللہ بن عمر، حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ سے سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اسکی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر ٢٩٦)۔
بعض لوگ امیر یا اپنے رفقاء سے بعض شکایات کو عذر بنا کر جماعت سے علیحیدگی اختیار کر لیتے ہیں مگر اسلامی تعلیمات کی رو سے اس کی قطعاََ گنجائش نہیں ہے ہر حال میں جماع کے ساتھ رہنا اور اپنا فرض ادا کرنا ضروری ہے۔۔۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے!۔
حدثنا مسدد حدثنا عبد الوارث عن الجعد عن أبي رجائ عن ابن عباس عن النبي صلی الله عليه وسلم قال من کره من أميره شيئا فليصبر فإنه من خرج من السلطان شبرا مات ميتة جاهلية
مسدد، عبدالوارث، جعد، ابوالرجاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے امیر سے کوئی ناگوار چیز دیکھے تو اس کو صبر کرنا چاہیے اس لئے کہ جو شخص بادشاہ کی اطاعت سے ایک بالشت بھی باہر ہوا تو وہ جاہلیت کی موت (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر (١٩٥٠)۔۔۔
حدثنا أبو النعمان حدثنا حماد بن زيد عن الجعد أبي عثمان حدثني أبو رجائ العطاردي قال سمعت ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلی الله عليه وسلم قال من رأی من أميره شيئا يکرهه فليصبر عليه فإنه من فارق الجماعة شبرا فمات إلا مات ميتة جاهلية
ابوالنعمان، حماد بن زید، جعد، ابوعثمان، ابورجاء، عطاردی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے امیر سے کوئی ایک بات دیکھے جو اس کو ناپسند ہو تو اس کو چاہیے کہ صبر کرے، اس لئے کہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت جدا ہوگیا اور مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر (١٩٥١)
ایک موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے میرے بعد تم دیکھو گے کے امراء غلط لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ ایسے معاملات بھی دیکھو گے جن کو تم اوپر اور ناجائز سمجھتے ہو گے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس بارے میں ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟؟؟۔۔۔
المخرج من فتنة الأمراء و الأئمة
فعن عبدالله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه و سلم انه قال: إنكم سترون بعدي أثرة وأمورا تنكرونها
قالوا : فما تأمرنا يا رسول الله ؟
قال: أدوا إليهم حقهم، وسلوا الله حقكم
خلاصة الدرجة: صحيح
المحدث: البخاري
المصدر: الجامع الصحيح
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کے اگر امراء اپنے حقوق کا ہم سے مطالبہ کریں لیکن ہمارے حقوق دبالیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟؟؟۔۔۔
(( أسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم))
وفي رواية لمسلم – أيضاً : فجذبه الأشعث بن قيس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
(( أسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم ))
والمعني : أن الله – تعالي- حمل الولاة وأوجب عليهم العدل بين الناس فإذا لم يقيموه أثموا، وحمل الرعية السمع والطاعة لهم، فإن قاموا بذلك أثيبوا عليه، وإلا أثموا.
مندرجہ بالا ارشادات سے واضح ہے کہ امراء سے خدانخواستہ اگر کچھ ایسا بھی سرزد ہو جائے جو بظاہر معیوب ہو تو اس کو بہانہ بنا کر جماعت سے علیحدگی پھر بھی کسی صورت جائز نہیں بلکہ صبر، حوصلہ اور برداشت سے کام لینا اور جماعت کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔۔۔
بخاری شریف میں حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی اور اپنے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بیعت کا ذکر فرماتے ہیں جو صورتحال کو بہت زیادہ واضح کرتا ہے فرمایا!۔
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا عبد الله بن إدريس عن يحيی بن سعيد وعبيد الله بن عمر عن عبادة بن الوليد بن عبادة عن أبيه عن جده قال بايعنا رسول الله صلی الله عليه وسلم علی السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمکره وعلی أثرة علينا وعلی أن لا ننازع الأمر أهله وعلی أن نقول بالحق أينما کنا لا نخاف في الله لومة لام
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، یحیی بن سعید، عبیداللہ بن عمر، عبادہ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر ٢٧١)۔۔۔
حدثنا أحمد بن عبد الرحمن بن وهب بن مسلم حدثنا عمي عبد الله بن وهب حدثنا عمرو بن الحارث حدثني بکير عن بسر بن سعيد عن جنادة بن أبي أمية قال دخلنا علی عبادة بن الصامت وهو مريض فقلنا حدثنا أصلحک الله بحديث ينفع الله به سمعته من رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال دعانا رسول الله صلی الله عليه وسلم فبايعناه فکان فيما أخذ علينا أن بايعنا علی السمع والطاعة في منشطنا ومکرهنا وعسرنا ويسرنا وأثرة علينا وأن لا ننازع الأمر أهله قال إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من الله فيه برهان
احمد بن عبدالرحمن، ابن وہب بن مسلم، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، بسر بن سعید، جنادہ بن ابوامیہ، حضرت جنادہ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عبادہ بن صامت کے پاس حاضر ہوئے اور وہ بیمار تھے ہم نے کہا اللہ آپ کو تندرست کرے ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو اور اللہ اس کے ذریعہ نفع عطا فرمائے تو انہوں نے کہا ہمیں رسول اللہ نے بلایا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور جن امور کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے بیعت کی وہ یہ تھے ہم نے بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی کہ اپنی خوشی اور ناخوشی میں تنگی اور آسانی میں اور ہم پر ترجیح دیے جانے پر اور اس بات پر کہ ہم حکام سے جھگڑا نہ کریں گے سوائے اس کے کہ ہم واضح دیکھیں اور تمہارے پاس اس کے کفر ہونے پر اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو۔(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر ٢٧٤)۔
اس حدیث مبارکہ میں بیعت اگرچہ رسول رب العالمین کے ساتھ مذکور ہے مگر ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔۔۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے (ربط)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کی روشنی میں امیر کی اطاعت ضروری ہے معروف میں اس کا حکم ماننا فرض ہے اس کا نافرمان اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے کیونکہ ارشاد ہوا۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
اے ایمان والو تم اللہ کی بات مانو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو اور جو تم کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چلائے۔(ربط)
اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلق اور اپنی ذات میں مستقل ہے مگر اولی الامر یا امیر کی اطاعت مقید اور مشروط ہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ!۔
اس فرق کے ساتھ امیر کی اطاعت یقینا لازمی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔ کے تمہارے لئے بہتریں آئمہ (امراء اور حاکم) وہ ہیں جن کو تم پسند کرو اور وہ تم کو پسند کریں تم ان کے لئے دُعا خیر کرو اور وہ تمہارے لئے دعائے خیر کرتے ہوں اور تمہارے بدترین (امراء وحاکم) وہ ہیں جن پر تم لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔۔۔ (صحابہ کرام کا بیان ہے ) ہم نے عرض کیا کے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حالات میں ہم ان سے اپنی بیعت کا عہد توڑ نہ ڈالیں؟؟؟۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں جب تک وہ تم میں نماز کا نظام قائم رکھیں۔۔۔ خبردار !۔ سُنو من ولی علیہ وال فراہ یاتی شیئا من معصیۃ اللہ فلیکرہ من معصیۃ اللہ ولا ینزعن یدا من طاعۃ کے جس شخص پر کوئی ولی(امیر، حاکم، یاسربراہ) بنایا جائے تو اس میں جو کچھ اللہ کی نافرمانی کا عمل دیکھے اس سے بےزاری کا اظہار کرے لیکن اطاعت سے سرتابی بالکل نہ کرے ( رواہ مسلم)
سورہ نور اطاعت امیر کے آداب سکھائے گئے ہیں ارشاد ربانی ہے کے!۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٦٢﴾لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾
باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان ﻻچکے ہیں۔ پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگیں، بےشک اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے۔ تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں۔ سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔(ربط)
علی امر جامع کی تشریح میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں!۔
ای علی امر طاعة یجتمعون علیھا نحوالجمعة والنحر والفطر والجهاد واشاہ ذلک۔
یعنی اس سے مراد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھما کا اطاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمع ہونا جیسے جمعہ عیدین جہاد اور اُن سے مشابہہ دوسرے مواقع پر نیز لکھتے ہیں کہ۔۔۔
اعلم ان المؤمنین انا کانوا مع نبه فیما یحتاج فیه الی الجماعة لم یذهبوا حتی یستاننوه وکذالک ینبغی ان یکونوا مع الامام لا یخالفونه ولا یرجعون عنه فی جمع من جموعهم الاباذنه وللامام ان یاذن له وان لایاذن علی مایری لقوله تعالٰی فاذن لمن شئت۔
یعنی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کے مسلمان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الله کے ساتھ کسی ایسے معاملے میں اکھٹے ہوتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اجتماع کی ضرورت ہوتی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر وہاں سے ہرگز نہ جاتے اور اسی طرح ان کو یہی زیبا اور لائق ہے کے اپنے امراء کا ساتھ دیں ان کی مخالفت نہ کریں اور اپنے کسی اجتماع میں علیحدہ نہ ہوں اور اس کی اجازت کے بغیر نہ جائیں اور امام (امیر) کو اختیار ہے کے حالات کے مطابق کسی کو اجازت دے یا نہ دے جیسا کے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے تو جس کو چاہئے اجازت دے نیز۔
قال العلماء کل امر اجتمع علیه المسلمون مع الامام لایخالفونه ولا یرجعون عنه الا باذن (فتح الباری جلد ٤ سورہ نور)۔۔۔
یعنی علماء کا یہ فیصلہ ہے کے ہر وہ معاملہ جس میں مسلمان اپنے امام (امیر) کے ساتھ (جب) اکھٹے ہوں تو اس کی مخالفت نہ کریں اور نہ اس کو بلا اجازت چھوڑ کرجائیں۔۔۔
قارئیں کرام!۔ یہ قرآن اور علماء کی ہدایات ہیں اور اب مزید ایک ارشاد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصی الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جو شخص حاکم شریعت کی اطاعت کرے گا اس نے میری اطاعت کی اور جو حاکم کی خلاف ورزی کر یگا اس نے میری نافرمانی کی۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر(٢١٦)
اور آخر میں امیر کی اطاعت کی تحدید کا ذکر کرنا بھی ضرور ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔
السمع والطاعة علی المرء المسلم فیما احب وکره مالم یؤمر لمعصیة فاذا امر لمعصیة فلا سمع ولا طاعة (متفق علیه)۔۔۔
یعنی ایک مسلمان شخص پر اپنے امیر کی بات سننا اور ماننا ضروری ہے چاہے اس کو وہ پسند ہو یا ناپسند بشرطیکہ امیر کا یہ حکم اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا سبب نہ بنتا ہو اگر یہ حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے زمرے میں آئے تو پھر یہ وہ بات سنی جائے گی اور نہ مانی جائے گی (رواہ بخاری)۔۔۔
اسی طرح ارشاد ہوا!
لاطاعة فی معصیة انما اطاعة فی المعروفز
یعنی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی نہ مانی جائے اطاعت امیر صرف جائز اُمور میں ہوگی ( رواہ بخاری ومسلم)۔۔۔
اور شرح السنہ کی حدیث میں ایک کلئے قائدے کے طور پر بتا دیا گیا لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق کے کسی بھی ایسی صورت میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے گی جس سے خالق برحق کی نافرمانی ہوتی ہو۔۔۔
یہ ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اطاعت امیر کی حدبندی کرتے ہیں اور اطاعت خالق کے استقلال اور اطاعت اولی الامر کے مشروط مقید ہونے کا مختصر تعارف اور خاکہ ہے طالب حق کو ان شاء اللہ بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔۔۔
پروفیسر شفیع ناطق رحمہ اللہ علیہ۔۔۔
دعوت جہاد کی تحریک پر اُٹھنے والے سوالات
السلام علیکم۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سنائیے کیا حال ہیں؟۔
میں آپ کا ہی انتظار کررہا تھا۔ اچھا ہوا آپ تشریف لے آئے۔
میں تو حاضر ہوں
یہ جو آپ لوگوں نے مرکز الدعوۃ والارشاد بنا رکھا ہے اس کے بارے میں مجھے ذرا بتائیں۔
مرکز الدعوۃ والارشاد ایک دعوتی وجہادی ادارہ ہے اس کے قیام کا مقصد کتاب وسنت کے مسلک کی بنیاد پر دعوت وجہاد کے منہج پر لوگوں کو جمع کرنا ہے ہم نہ کوئی فرقہ وارانہ ذہن رکھتے ہیں نہ جماعتی سیاسی دھڑے بندی سے ہمارا کوئی تعلق ہے (کہ جن کا مسلک کتاب وسنت ہے فرقہ وارنہ مذہب نہیں) سلفیت کو زندہ کرنا، دھڑے سازی یا گروہ سازی کی بجائے ایسے افراد تیار کررہے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو زندہ کرسکیں۔
افراد کی تیاری کا کیا مطلب ہے؟۔
ہم مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کے ان کا اصل کام لوگوں کو قرآن وسنت کی دعوت دینا ہے اور اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے جہاد کرنا ہے ہم اس کام کو چھوڑ چکے ہیں دعوت وجہاد سے عبارت ہے مکہ میں دعوت وجہاد کی شکل اور ہے مدینہ میں شکل اور ہے لیکن دعوت جہاد دونوں ساتھ ساتھ رہے ہیں یہی وہ راستہ تھا جس کے نتیجے میں خلافت اسلامیہ قائم ہوئی آج اسی طریقہ پر خلافت کا قیام ممکن ہے۔
آپ کا ملطب یہ ہے کے اب ہم تبلیغی جماعت والا کام شروع کردیں۔
اللہ کے بندے آپ سمجھے ہی نہیں دعوت جہاد کا تبلیغی جماعت سے کیا تعلق تبلیغی جماعت کا مسلک فرقہ وارانہ ہے اس لئے وہ اپنے مسلک کی دعوت نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس مسلک کے لئے جہاد کیا جاسکتا ہے اس لئے ان کی تبلیغ محض فضائل اعمال کی ہوتی ہے جو کہ ان کی مجبوری ہے عقائد ومسائل ان کی تبلیغ سے خارج ہیں کیونکہ یہ چیزیں حق وباطل میں تمیز کی بنیاد ہیں اس لئے وہ اس طرف نہیں آتے تبلیغی جماعت کا کام تو محض فضائل کی تبلیغ ہے جس سے لوگوں کی کچھ نہ کچھ اخلاقی حالت تو بہتر ہوسکتی ہے حق وباطل میں تمیز کرنے کے لئے کوئی بصیرت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس تقلیدی ذہنیت پختہ ہوتی ہے جب کے ہمارا کام تو لوگوں میں بصیرت پیدا کرنا ہے اور دین کے احیاء کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کرنا ہے ہماری دعوت میں اتنی جان ہے کے باطل کبھی اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ نتیجتاََ وہ اس مقابلے کے لئے میدان میں آئے گا اور اس کے مقابلے کے لئے میدان جہاد ہے۔۔۔۔ نہ کے جمہوریت۔۔۔۔۔ جو جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں نے بھی غلطی سے اپنا رکھی ہے اور مسلسل ناکامی ہورہی ہے جمہوریت تو حق وہباطل میں صلح کرواتی ہے جب کے جہاد سے حق غالب آتا ہے اگرچہ عددی کثرت حاصل نہ بھی ہو بلکہ اہل حق کہ اقلیت کو باطل کی اکثریت پر غلبہ نصیب ہوجاتا ہے اور اسی راستے سے خلافت کا قیام بھی ممکن ہے۔۔۔
آپ کا خیال ہے کہ موجودہ سیاست سے ہم بالکل لاتعلق ہوجائیں۔
نہیں ہمارا تو موجودہ سیاست سے بڑا گہرا تعلق ہے ہم ہی نے اس کفر کی سیاست کو مسلمان کرنا ہے لیکن جہاں تک اس سیاست سے سمجھوتہ کرنے والی بات ہے ایسا ستم ہم نہیں کرسکتے ہماری سیاست دعوت وجہاد کے ذریعے خلافت وامارت کے قیام کی جدوجہد ہے۔۔۔
ہم نے آخر اس ملک میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اگر آپ جمہوریت کو ترک کردیتے ہیں تو آپ اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتے۔
کیوں نہیں!۔ جمہوریت ہمارے حقوق کی قطعا محافظ نہیں آپ سمجھتے ہیں کے ہم الیکشن میں حصہ لے کر اپنے حقوق کی حفاظت کر لیتے ہیں یہ محض دھوکہ ہے ہم اہل حدیث اگر اپنے حقوق لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک امیر کے تحت منظم ہونا ہوگا حکومت کوئی بھی ہو وہ منظم گروہ کی بات سنتی ہے مثلا قادیانیوں یا اسماعیلیوں کو دیکھ لیجئے کے ان کی کوئی سیاسی جماعت نہیں مگر وہ اپنے حقوق منواتے ہیں اور پھر ہمارا سب سے بڑا حق یہ ہونا چاہئے کے ہمیں تو صرف اسلام چاہئے حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو ہم اس کو دعوت دیں کے وہ اسلامی نظام حکومت اپنائے اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ہمیں کلمہ حق کہنا چاہئے خواہ ہمیں اس کے لئے قید وبند کی صعوبتیں ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں۔۔۔
ہم حکمرانوں کو بتائیں کے خلافت کا نظام ہی اسلام کا نظام ہے جس کے بغیر حکومت کفر کی حکومت ہوتی ہے حکومت اور مملکت کا دستور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا جائے اس کے علاوہ کوئی چیز دستور نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کو دستور تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تب ممکن ہے جب ہم خود اپنی جماعت میں ایسا مثالی نظام (نظام امارت) قائم کردکھائیں ہمارا امیر ایک ہو اور اس کی سمع وطاعت میں زندگی گزاریں ہر مسجد کی سطح پر بھی ایک امیر ہو جو اپنے علاقہ کے لوگوں کے لئے قاضی کا کام بھی کرے ہمارے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ وہ امیر کتاب وسنت کے مطابق کرے۔ ہم کفر اور انگریز کے قانون کی عدالتوں کا عملا بائیکاٹ کریں لوگ ہمیں دیکھیں اور پکار اٹھیں کے یہ اسلام کا نظام ہے ہم یہی تربیت جماعت کے افراد کی کررہے ہیں اور قائدین کو بھی ہی سمجھا رہے ہیں۔۔۔
مشن تو آپ کا زبردست ہے مگر یہ کام بڑا مشکل ہے۔
دیکھئے مشکل کو آسان کرنے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے ہم اگرچہ منزل پر دیر سے ہی کیوں نہ پہنچیں لیکن ہمیں صحیح راستہ میں قدم اٹھانا چاہئے۔
موجودہ جماعتی صلح کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟؟؟۔۔۔
جب تک ہم جمہوری سیاست سے وابستہ رہے اور اپنی جماعت کو خالص شرعی نظام جو کہ امارت کا نظام ہے سے وابستہ نہ کیا ہر اتحاد اور صلح ناپائیدار ہوگی برصغیر میں اہلحدیث کی تاریخ دعوت جہاد سے معمور ہے جمہوریت نے ہمیں جہاد کی راہ سے ہٹادیا ہے ہم جلسے، جلوسوں اور نعروں ہی کو جہاد سمجھ بیٹھے ہیں حتٰی کے “نوبت بایں جارست“ کہ اب ایک دوسرے کے خلاف کوششیں ہی جہاد سمجھی جاتی ہیں ہم جمہوریت کو چھوڑ کر دعوت جہاد کے منہج کو اختیار کریں تب ہمارا اتحاد ہوگا اور اس راتے پر خلافت اور امارت کا نظام قائم ہوگا۔
موجودہ حالات میں ہم جہاد کیسے کرسکتے ہیں؟؟؟ِ۔۔۔
جہاد کے لئے محض اسلحہ نہیں اٹھانا ہوتا کلمہ حق کو بلند کرنا بھی جہاد ہے بلکہ جابر سلطان کے سامنے تو یہ افضل جہاد ہے اپنے ملک میں ہم جہاد کی یہی شکل اختیار کریں اور بوسنیا اور کشمیر وغیرہ کے علاقوں میں جاری مسلح جہاد میں شریک ہوکر یہ فریضہ سرانجام دیں۔۔۔
مگر ہمارے بزرگ تو کلمہ حق کہنے کی بجائے نظام کفر سے صلح کر بیٹھے ہیں۔
صلح تو نہیں کی ہمارے اکابرین کلمہ حق تو کہتے ہی رہتے ہیں
جمہوریت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے بعد کلمہ حق کہنے کا کوئی وزن نہیں رہتا اور نہ ہی یہ درست طریقہ ہے۔۔۔۔۔۔ جمہوریت کو قبول کرکے کلمہ حق بلند کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے آپ دیکھتے نہیں جمہوریت نے ایک عورت کو سربراہ مملکت بنا دیا کتنے علماء ہیں جنہوں نے کلمہ حق کہا لیکن ان سب کا جواب وہ یہ دیتی رہی کہ میں ٧٣ء کے آئیں کے مطابق جمہوریت کے ذریعے برسراقتدار آئی ہوں۔
٧٣ء کا دستور قرآن وسنت سے بالاتر تو نہیں ہوسکتاہے۔
رونا تو اسی بات کا ہے کے ہم نے قرآن وسنت کو چھوڑ کر ٧٣ء کا خود ساختہ دستور قبول کرلیا ہے اگر ہمارے ملک کا دستور کتاب وسنت ہوتا تو عورت کبھی سربراہ نہ بن سکتی۔
علماء نے کلمہ حق تو کہا ہے کے یہ غیر شرعی حکمرانی ہے۔
لیکن وہی علماء انہی اسمبلیوں میں موجود ہیں اسی آئین کا حلف دے چکے ہیں جس نے عورت کو حکمران بنایا ہے اب بتائیے اس کلمہ حق کو کلمہ حق کہا جاسکتا ہے جس میں جمہوریت سے محبت بدستور موجود ہو نہ شیطان ناراض ہو اور راضی رہے رحمان بھی؟؟؟۔۔۔ یہ کھلی منافقت ہے اور یہ جمہوریت کا تحفہ ہے جو دینی سیاسی جماعتوں کو نصیب ہوا۔
ہماری جمہوریت تو اسلامی ہے مغربی نہیں کے اس میں قرآن سے ہٹ کر بھی فیصلہ کیا جاسکتے۔
آپ کتنے بھولے ہیں کفر کو اسلامی بنارہے ہیں!۔ کفر بھی کبھی اسلامی ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔ جمہوریت کفر ہے خواہ وہ امریکہ وفرانس میں ہو یا پاکستان میں جس طرح سے سوشلزم اور کمیونزم کافروں کے نظام ہیں یہ اسلامی نہیں ہوسکتے اسطرح جمہوریت کافروں کا نظام ہے یہ کبھی اسلامی نہیں ہوسکتا جس طرح اسلام کا کمیونیزم وسوشلزم سے تصادم ہے۔۔۔
بعینہ جمہوریت سے بھی تصادم ہے۔
آپ اسلامی جمہوریت کو بھی کافرانہ سیاسی نظام سمجھتے ہیں؟؟؟۔۔۔
آپ اسلامی سوشلزم کو کافرانہ معاشی نظام سمجھتے ہیں؟؟؟۔۔۔
سوشلزم تو اسلامی ہوہی نہیں سکتا۔
پھر جمہوریت کس طرح اسلامی ہوسکتی ہے؟؟؟۔۔۔
جمہوریت تو محض حکومت کی تبدیلی کا ایک ذریعہ ہے یہ کوئی خاص نظام نہیں جس کو ہم اسلام سے متصادم سمجھیں۔۔۔
جمہوریت ایک نظام ہے محض حکومت عوام کی حاکمیت ہے آپ کہتے ہیں جمہوریت اسلام کے منافی نہیں۔۔۔ حالانکہ۔۔۔ جمہوریت تو اسلامی بنیادی عقیدے ان الحکم الا اللہ (قانون اللہ کا ہے) سے متصادم ہے کیونکہ جمہوریت میں قانون انسان کا چلتا ہے انسان کے لئے انسان ہی قانون بناتے ہیں جبکہ اسلام میں قانون بنا بنایا آسمان سے نازل ہوا ہے قانون سازی کا اختیار تو اللہ نے اپنے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا اور یہاں انسان اللہ کے مقابلے میں قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں۔۔۔
تعجب ہے! یہ کون بیوقوف کہتا ہے کے جمہوریت میں اللہ کے مقابلے میں قانون سازی ہوتی ہے ہمارے دستور ١٩٧٣ء میں یہ بات طے کی گئی ہے کے اسمبلی کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بناسکتی۔۔۔
آپ کسی بات کرتے ہیں ہمارے دستور میں قرآن وسنت کو بعنیہ اس طرح تسلیم کیا گیا ہے جس طرح بریلوی ہمارے ہاں اس مکتب فکر کے لوگ غلطی سے اپنے آپ کو اہلسنت والجماعت کہتے ہیں حالانکہ اصلی اہلسنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو صرف قرآن وحدیث کو اپنا مذہب قرار دیتے ہیں اور صحابہ کرام کے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے فرقہ وارنہ تقلیدی سیاسی گروہ بندیوں سے الگ تھلگ دعوت جہاد کو نبوی منہج پر گامزن ہیں جبکہ بریلوی حضرات احمد رضا خان بریلوی کے عقائد اختیار کرتے ہی جو قرآن وسنت اور صحابہ کرام کے طریق کے منافی ہیں لہذا یہ اہلسنت نہیں۔ توحید کو تسلیم کرتے ہیں کوئی بریلوی ایسا نہیں آپ کو نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کے فلاں بزرگ ہمارا معبود ہے یا ہم فلاں بزرگ کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ جو کچھ بزرگوں سے کرتے ہیں ہوتی اُن کی عبادت ہی ہے مثلا یہ حضرات یاعلی مدد اور یارسول اللہ مدد کے نعرے لگاتے ہیں جو کہ غائبانہ پکار ہے اور غائبانہ پکار عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کی ہوتی ہے اس لئے یہ شرک ہے لفظ بدل دینے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی اسی طرح ٧٣ء کے دستور میں اللہ کی حاکمیت اور قرآن وسنت کو تسلیم کیا گیا ہے اور عملا پارلمنٹ جو کچھ کرتی ہے وہ اللہ کی حاکمیت میں شرک پوتا ہے کے صرف اللہ کو حاصل قانون سازی کا خدائی اختیار خود پارلمینٹ استعمال کرتی ہے۔
میرے بھائی! ہماری جمہوریت سیاست کا اصل بگاڑ یہی دستور سازی ہے کتاب وسنت جو اللہ کی وحی ہے کے علاوہ کسی بھی چیز کو دستور قرار دینا خواہ وہ قرآن وسنت کے مطابق ہی کیوں نہ ہو شرک ہے کیونکہ اللہ نے حاکم کو ماانزل اللہ (جو کچھ اللہ نے نازل کیا) کا پابند کیا ہے اب جو چیز ماانزل اللہ نہیں وہ دستور نہیں ہوسکتی۔۔۔
کیا مطلب!۔ کتاب وسنت کے مطابق اگر دستور بنایا جائے تو وہ کیسے شرک ہے؟؟؟۔۔۔
کتاب وسنت کے مطابق بہت کچھ بنایا جاسکتا ہے مجتہد کی فقہ اور قاضی کا فیصلہ یہ سب چیزیں کتاب وسنت کے مطابق ہوسکتی ہیں اور وہتی بھی ہیں لیکن کتاب وسنت کا فہم جو کسی مجتہد یا قاضی کو حاصل ہوتا ہے اس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے اس لئے وہ شریعت نہیں کہلا سکتا۔۔۔ کتاب وسنت سے اخذ کردہ کوئی بھی چیز کیوں نہ ہو اُسے آپ فقہ کہہ لیں یا مختلف فقہاء کی آراء پر مشتمل ایک دستاویز یہ سب غیروحی ہیں تو کسی غیر وحی کو وحی کا درجہ دراصل اللہ کے اختیار میں غیر اللہ کو شریک کرنے کی جسارت ہے اور یہ صریح شرک ہے وحی اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ دستور ہے جس کی پابندی ہر حکومت پر لازم ہے اب کوئی شخص اپنی فہم یا کسی بھی انسانی فہم کو دستور مملکت قرار دیتا ہے تویا وہ اس کو شریعت کے مقابلے میں لارہا ہے اور اللہ کے مقابلے میں قانون سازی کا دعویدار ہے اس لئے یہ شرک ہے۔
یہ بات سمجھ نہیں آرہی کے آخر ملک کو چلانے کے لئے حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ قواعد وضوابط تو وضع کرنا ہی پڑیں گے مثلا مختلف محکموں کی تشکیل ان کے اختیارات کی تقسیم وغیرہ یہ سب چیزیں من وعن کتاب وسنت میں تو نہیں پائی جاتیں ان میں تو صرف یہ دیکھنا ہوگا کے کوئی ایسا ضابطہ نہ بنایا جائے جو کتاب وسنت کے منافی ہو۔
بات دستور کی ہورہی ہے قواعد وضوابط کی نہیں۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں
میرے بھائی!۔ دستور وہ ہوتا ہے جس کی پابندی پوری حکومت پر لازم ہوتی ہے عدالتوں کو اس دستور کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں قواعد وضوابط دستور کا حصہ نہیں ہوتے انگریزی میں دستور کو Constitution اور قواعد وضوابط کو Rules and Regulations کہا جاتا ہے Constitution (دستور) اقتدار اعلٰٰی کا مظہر ہوتا ہے جمہوریت میں مقتدر اعلٰی چونکہ عوام ہوتے ہیں اس لئے عوام ہی کے منتخب نمائندوں کو یہ حق دیا جاتا ہے کے وہ ملک کا دستور بنائیں جبکہ اسلام میں مقتدر اعلٰی صرف اللہ تعالٰی کی پاک ذات ہے اس لئے دستور سازی کا حق بھی صرف اسی کا ہے مملکت براہ راست اللہ کے وضع کردہ، نازل کردہ، دستور کتاب وسنت کی پابند ہے قاضی (جج) جب بھی فیصلہ کرے گا وہ کتاب وسنت کا ہی پابند ہوگا۔ اگر قاضیوں کو کسی غیر منزل من اللہ انسانی وضع کردہ دستور کا پابند کیا جائے تو حکومت اسلامی نہیں رہے گی بلکہ طاغوت کی حکومت ہوگی۔۔۔
یہ بڑا بایک نکتہ آپ نے بیان فرمایا۔۔۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کے اگر کتاب وسنت کو سامنے رکھ کر دستور مرتب صورت میں تیار کرہی لیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟؟؟۔۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کے ہم ماشاء اللہ اہلسنت اہلحدیث ہیں یعنی ہمارا مسلک صرف کتاب وسنت ہے ہم کسی فرقہ وارانہ فقہی پابندی کو قبول نہیں کرتے ہمارا مقلدین سے ہمیشہ یہ ہی جھگڑا رہا ہے کے وہ نصوص فقہ کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا دعوٰی یہی ہے کے ہماری فقہ کتاب وسنت کے مطابق مرتب کی گئی ہے ہم کہتے ہیں فقہ اول وآخر انسانی کاوش ہے جس میں صواب وخطا کا احتمال ہے یہی وجہ کے فقہ کو شریعت کوئی نہیں کہتا حتٰی کے ہمارے، حنفی دوست بھی فقہ حنفیہ کو شریعت کا نام نہیں دیے سکتے شریعت صرف کتاب وسنت ہے اور فقہ انسانی سمجھ بوجھ کو کہتے ہیں۔ کسی ایک انسان یا متعدد انسانوں کی اجتماعی سمجھ کو شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا جب وہ شریعت نہیں تو وہ کسی اسلامی مملکت کا دستور نہیں بن سکتی۔۔۔ حنفی حضرات یہی نعرہ تو لگاتے ہیں کے حنفی فقہ کو پاکستان کا دستور قرار دیا جائے اور اہلحدیث ان کے مقابلے میں کتاب وسنت کے نفاذ کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن جب جمہوریت کی بات آتی ہے تو حنفی اور اہلحدیث باہم بلغگیر ہوجاتے ہیں دونوں ١٩٧٣ء کے انسانی دستور کی پابندی کا حلف اٹھا کر اہلحدیث کتاب وسنت کو اور حنفی اپنے فقہ کو فراموش کردیتے ہیں۔۔۔
لیکن دستور میں ترمیم کی گنجائش کو سب ہی مانتے ہیں یعنی دستور میں جو بات کتاب وسنت کے مخالف ہو اس میں ترمیم ہوسکتی ہے حتی کے حنفی حضرات بھی فقہ حنفی میں ترمیم کے قائل ہیں۔
ترمیم کی یہ گنجائش دستور کی ناپائیداری کی دلیل ہے آپ ہزار ترمیمیں کرتے رہیں وہ اول وآخر انسانی کاوش ہی قرار پائے گی اور وہ صاف ظاہر ہے شریعت نہیں بن سکتی اس طرح کی بےشمار انسانی کاوشیں ہوسکتی ہیں ان سے استفادہ ہوسکتا ہے راہنمائی بھی لی جاسکتی ہے۔۔۔۔ لیکن ان کو نہ شریعت قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ملک کا دستور بنایا جاسکتا ہے اگر ملک کا دستور کتاب وسنت کو قرار دیا جائے تو پھر ترمیم وتنسیخ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔آپ ذرا خلافت راشدہ کو ملاحظہ کیجئے اس وقت کیا دستور تھا وہاں کونسی پارلمنٹ دستورسازی کے لئے بیٹھی تھی؟؟؟۔۔۔
جب ہم کتاب وسنت کو سامنے رکھ کر کوئی چیز اخذ کرہی نہیں سکتے نہ دستور بنا سکتے ہیں تو پھر اجتہاد کس چیز کا نام ہے خلافت راشدہ میں صحابہ کرام اجتہاد کرتے تھے اور آج پارلمنٹ یہ کام کرلیتی ہے۔۔۔
میرے بھائی!۔ آپ ایک بہت بڑے مغالطہ میں مبتلا ہیں میں نے یہ کہا کے کتاب وسنت کو سامنے رکھ کر ہم کچھ اخذ نہیں کرسکتے ہم بہت کچھ اخذ کرسکتے ہیں اور اخذ کرتے بھی ہیں لیکن سوال یہ ہے کے ہم جو کچھ بھی کتاب وسنت سے اخذ کریں گے وہ کیا ہوگا آیا وہ منزل من اللہ ہے۔۔۔ صاف ظاہر ہے وہ منزل من اللہ نہیں ہے وہ تو ہماری سمجھ ہے لہذا وہ شریعت نہیں۔۔۔ فہم شریعت ہے اس لئے اس کو اسلامی مملکت کا دستور نہیں بنایا جاسکتا۔۔۔ اور آپ کو یہ بھی زبردست غلط فہمی ہے کے پارلمنٹ کا دستور سازی کا شغل اور صحابہ کرام کا مسائل واحکام میں اجتہاد ایک جیسی چیزیں معلوم ہورہی ہیں اس سے پتہ چلا ہے آپ کو اجتہاد کا صحیح مفہوم بھی واضح نہیں۔۔۔۔ اجتہاد کا مطلب دستور سازی نہیں ہوتا اور نہ ہی صحابہ کرام نے کوئی دستور اپنے اجتہادات سے مرتب کیا تھا اگر وہتا تو آج ہمارے تاریخ اس دستور کا پتہ دیتی۔۔۔
جمہوریت میں پارلمینٹ ایک دستور ساز ادارہ ہوتا ہے جبکہ اسلام میں شورٰی ہوتی ہے جس کا دستور سازی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اس کا کام امیر المومنین کو ضرورت کے وقت تدبیری امور میں مشورے دینا ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کے شورٰی کے ارکان کی تعداد مقرر ہو نہ ہی ان ارکان کا نامزد یا منتخب ہونا ضروری ہے۔۔۔ اصل مصیبت یہ ہے کے ہم مغربی تصور کو مشرف بہ اسلام کرنے پر تلے رہتے ہیں پہلے جمہوریت کو اسلامی بناتے ہیں پھر اس کے تمام متعلقات کو اسلامی اور ووٹ کے تصور کو برابر ثابت کرنے کی زحمت فرماتے ہیں۔۔۔۔ یہ سب تکلفات اس لئے کرنے پرتے ہیں کے اسلام کا اپنا مثالی نظام ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔۔۔ آپ مجھے بتائیے یہ جمہوریت آئی کہاں سے ہے؟؟؟۔۔۔ کتاب وسنت میں اس کا کہیں کوئی نام ونشان ملتا ہے صحابہ کرام کی زندنگی یا سلف صالحین میں کوئی اس کا وجود ہے پھر ہم کیوں اس کے اتنے دیوانے ہوگئے ہیں؟؟؟۔۔۔ ہمیں سلف کی طرف نسبت کرتے ہوئے سلفیت وجمہوریت کی باہمی تعلق وتصادم کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔۔۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کے کوئی ملک کسی دستور کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟؟؟۔۔۔
میں نے کب کہا ہے کے کوئی ملک دستور کے بغیر چل سکتا ہے میں تو کہہ رہا ہوں کے مسلمانوں کا دستور اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے انسانوں کا بنایا ہوا نہیں اور وہ کتاب وسنت ہی ہے۔۔۔
میرا مطلب یہ ہے کے حالالت کے مطابق جب تک کوئی دستور مرتب نہ کیا جائے کیسے چلے گا یہ بات ٹھیک ہے کے کتاب وسنت کو دستور ہونا چاہئے اور وہ مستقل دستور ہے اور ایک دستور رہے جو ملک کا نظام کے لئے بنانا ضروری ہے۔۔۔
آپ کے خیال میں دستور دو ہیں ایک بڑا دستور یعنی کتاب وسنت اور دوسرا اس کی روشنی میں مرتب کردہ چھوٹا دستور!۔
ہاں بالکل ایسے ہی کہہ رہا ہوں۔۔۔
پھر آپ دستور کو سمجھے ہی نہیں آپ بالکل بریلویوں والی توحید بیان کرنے لگ گئے ہیں وہ کہتے ہیں اللہ تو ایک ہے مگر یہ بزرگ اسی اللہ کے عطاء کردہ اختیارات سے تصرف فرماتے ہیں یہ بڑے الہ کیساتھ چھوٹے الہوٰں کا تصور ہی شرک کی اصل بنیاد ہے جیسے بریلوی توحید سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے تمام اختیارات بزرگوں میں تقسیم کردیئے ہیں اب اللہ کا بظاہر کوئی کردار نہیں اسی طرح آپ اللہ کو دستور ساز مان کر انسان کو بھی ساتھ ساتھ مرتب کرلیں جس کی پابندی انسانوں پر واجب ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انسان کو انسان کے آگے جھکانا نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟۔۔۔
پھر بتائیے آپ ملک کا نظام کیسے چلائیں گے۔۔۔
دراصل آپ کے ذہن میں یہ الجھن ہے کے جب تک حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی دستور مرتب نہ کرلیا جائے اس وقت تک کوئی حکومت چل ہی نہیں سکتی حالانکہ اس کی بہت سی مثالیں تاریخ میں اور موجودہ دور میں موجود ہیں اس کی سب سے بڑی مثال تو مسلمانوں کی خلافت کی عظیم تاریخ ہے اس دور میں کوئی مرتب ومدون دستورمملکت جو انسانوں نے مل کر بنایا ہو موجود نہ تھا خلفائے راشدین ہوں یا خلفائے بنی امیہ اور اس کے بعد بھی مسلمان حکمرانوں نے بعض شخصی کمزوریوں کے باوجود کتاب وسنت کو ہی دستور قرار دیا ہوا تھا قاضی کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرتے تھے آج سعودی عرب کا کوئی تحریری دستور موجود نہیں وہاں سب قاضی کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں جب کے ہمارے ملک میں جج صاحبان ١٩٧٣ء کے دستور کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔۔۔ ہماری شرعی عدالتیں بھی ١٩٧٣ء کے دستور کے خلاف کوئی مقدمہ سننے کی مجاز نہیں جیسا کے حال ہی میں عورت کی سربراہی کا مسئلہ کھڑا ہوا بعض لوگوں نے وفاقی شرعی عدالت کی طرف رجوع کیا اُن کی درخواست اس بناء پر خارج کردی گئی کے ١٩٧٣ء کے دستور کے منافی عدالت کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی اسمبلی ہی دستور میں ترمیم کرے تو کرے وہ چاہئے تو شریعت کے کسی حکم کو قانون بنائے ورنہ شریعت کا کوئی حکم ازخود یہ صلاحیت نہیں رکھتا کے اسے ملکی قانون تصور کیا جائے گویا شریعت پر پارلیمنٹ کی بالادستی ہے نہ کے پارلمنٹ پر شریعت کی۔۔۔
یہ تو میں نے آج سنا ہے کے بعض ممالک میں بغیر کسی تحریری دستور کے بھی نظام چل رہا ہے۔۔۔
یہ صرف اسلامی ملک کی بات نہیں برطانیہ جو بہت بڑا جمہوری ملک ہے وہاں بھی کوئی تحریری دستور موجود نہیں یہ کم بختی صرف مسلمانوں کے لئے ہے کے وہ اللہ کے نازل کردہ دستور ( جو ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہے) کی موجودگی میں خود دستور بنانے لگتے ہیں۔۔۔
یہ بات تو واضح ہوگئی کے اسلامی مملکت میں دستور صرف اور صرف کتاب وسنت ہی ہوسکتا ہے لیکن یہ ذرا سمجھائیے کے قاضی جو فیصلہ کتاب وسنت کے مطابق کرے گا اس کی کیا قانونی اور دستوری حیثیت ہوگی؟؟؟۔۔۔
قاضی کا فیصلہ کبھی دستور نہیں کہلاسکتا مجتہد کا اجتہاد کا فیصلہ اور مفتی کا فتوٰٰی یہ سب چیزیں فہم شریعت ہیں نہ کے شریعت قاضی کا فیصلہ نافذ العمل تو ہوتا ہے لیکن اس کو شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس میں بھی غلطی کا احتمال ہے۔۔۔
جب اس میں بھی غلطی کا احتمال ہے تو نافذ العمل کیسے ہوگا؟؟؟۔۔۔
غلطی کا احتمال ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کے وہ نافذ العمل بھی نہ ہو مقدمات کے فیصلے تو آخر انسانوں کو ہی کرنے ہوتے ہیں قاضی فیصلہ کرتے وقت صرف کتاو سنت کا ہی پابند ہوتا ہے وہ وقتی ہوتا ہے وہ دستور نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس کو دلیل بنا کر مزید فیصلے کئے جاسکتے ہیں ہر قاضی براہ راست کتاب وسنت سے دلیل اخز کرے گا اگرچہ وہ فقہاء اور مجتہدین کی آراء سے راہنمائی لے سکتا ہے لیکن کسی انسانی راہنمائی کو دلیل وحجت کے طور پر پیش نہیں کرسکتا یہی تو فرق ہے اہلحدیث اور اہل الرائے کے طرف فکر میں کے اہلحدیث ایک اجتہاد سے دوسرا اجتہاد نہیں کرتے ہر دور میں ہر نئے مسئلہ کے لئے کتاب وسنت سے ازسرنو اجتہاد ہوگا اور سابقہ اجتہادات سے صرف راہنمائی لیجاسکے گی۔۔۔ یہ ہی وجہ ہے اہلحدیث مفتی فتوٰٰی لکھتے وقت آئمہ دین کی آراء سے راہنمائی لیتے ہیں لیکن دلیل کے طور پر کتاب وسنت کو ہی پیش کرتے ہیں کیونکہ شریعت کی دلیلیں صرف دو ہیں کتاب وسنت یہاں یہ بات بھی خوب سمجھ لیں کے اجتہاد دین وشریعت میں قطعاََ کوئی اضافہ نہیں کرتا۔ اجتہاد کا مطلب نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کتاب وسنت سے تلاش کرنا ہے دین وشریعت مکمل ہے احکامات بھی سب موجود ہوتے ہیں شریعت میں موجود احکامات کو نئے حالات میں منطبق کرنے کا نام اجتہاد ہے نہ کے حالات کے مطابق شریعت کو تبدیل کرنے کا نام۔۔