سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 141
- پوائنٹ
- 118
کتاب " تحفۃ الاحوذی " کے بارے میں میرے تاثرات
( A Short Book Review )
تحریر:ثاقب غنی
تحفۃ الاحوذی جامع ترمذی کی شرح ہے .یہ کتاب محدث عبد الرحمن بن عبد الرحیم مبارکپوری نے لکھی ہے . یہ کتاب عرب و عجم میں بے حد مقبول ہے . جید علماء عرب کا اس کتاب کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ جامع ترمذی کی اس سے بہتر کوئی شرح نہیں . اہل علم سے اس کتاب کی قدر و منزلت مخفی نہیں ہے .
دار السلام کی طبع کے مطابق یہ دس جلدیں ہیں جن میں سے ہر جلد کے تقریبا کم و بیش 600 سے 700 تک صفحات ہے . طبع نہایت ہی دلکش اور خوبصورت ہے . دیکھ کر پڑھنے کو جی کرتا ہے.
ظاہر ہے کتاب عربی میں ہے . کتاب کی پہلی پوری جلد مقدمۃ پر قائم ہے . یہ مقدمۃ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے . مقدمۃ میں جن امور پر مولف نے تفصیلا بحث کی ہے ان امور کا اجمالا ذکر کردوں .
1 : اصول حدیث اور کتاب ترمذی کے حوالے سے چند مخصوص اصولی بحثیں کیں ہیں .
2: جامع ترمذی کی اہمیت اور اس کے منفرد مقام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے .
3: حجیۃ السنۃ کے اوپر گفتگو کی ہے اور منکرین حدیث کا رد کیا ہے .
4 : اسماء الرجال کے حوالے سے گفتگو کی ہے .
5: اس کے علاوہ شیخ کی ذاتی علمی مرتبہ اور ان کے شیوخ وغیرہ اور ان کی خدمات وغیرہ بھی مذکور ہیں ......
اس کے بعد دوسری جلد سے جامع ترمذی کی شرح شروع ہوتی ہے . شیخ کیونکہ اہل حدیث ہیں اور وہ بھی برصغیر کے تو جو اختلافی مسائل رائج ہیں ہمارے ماحول میں ان پر بہت تفصیلی اور مدلل گفتگو کرتے ہیں . بہت ہی کثیر المطالعہ معلوم ہوتے ہیں . اکابر کے اقوال جس طرح سے نقل کرتے ہیں یہ ان کے حسن مطالعہ کا پتا دیتے ہیں . صحیح کے محدث ہیں . اکثر مخالفیں کا رد حدیث کی صحت یا ضعف سے ہی کرتے ہیں . البتہ جہاں اس طریقہ سے بات نہ بنے تو بہت اصولی فقہی باتیں بھی کرتے ہیں جو کہ ان کی اصول فقہ پر رسوخ پر دلالت ہے .
شیخ ظاہری بالکل بھی نہیں ہیں . اکثر عمیق باتیں کرجاتے ہیں . اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ان کا رجحان کس مذھب کی طرف زیادہ ہے تو میرے لیے اس کا تعین مشکل تھا .... کیونکہ شیخ کی رائے اکثر جمھور فقہاء ( مالکی شافعی حنابلہ ) کے موافق ہوتی ہے . لیکن شیخ مجتھد تھے نہ کہ مقلد . وہ اپنی رائے کو دلیل سے ثابت کرتے ہیں . کچھ مقامات پر انہوں نے جمھور کی مخالفت بھی کی ہے جس پر انہوں نے اصولی دلائل دیے ہیں ( مثال کے طور پر یہ مسئلہ کہ رفع حاجت کرتے ہوئے کیا قبلہ کی طرف دبر یا قبل کیا جاسکتا ہے . جمھور کہتے ہیں کہ اگر بند کمرے میں ہیں تو حرج نہیں اور اگر کھلی فضا میں ہے تو جائز نہیں لیکن شیخ صاحب نے کمال کا اصولی رد کیا ہے ) .
احناف کے سخت ناقد ہیں . بعض اوقات بڑے جارحانہ انداز میں رد کرتے نظر آتے ہیں . ایسے پانچ چھےمقامات مجھے یاد پڑتے ہیں . دو تین جگہ پر بدر الدین عینی ( صاحب عمدۃ القاری ) کا بھی سخت تعاقب کیا ہے .
شیخ کیونکہ اہل حدیث ہیں . اس لیے معروف معاملات میں تو مجھے ان کا کوئی مسلکی انحراف نہیں ملا . لیکن دو ایسے معاملات ہیں جن میں انہوں جمھور اہل الحدیث کی مروجہ فتوی کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اس مخالفت میں دلائل کے انبار لگا دیے ہیں . ایک معاملہ موزوں پر مسح کا اور دوسرا معاملہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنے کا ہے .
شیخ صاحب کا ان دونوں مسائل میں وہی موقف ہے جو احناف کا ہے . ( میری یادداشت کے مطابق یہی دو مقامات تھے ) .
شیخ کی شرح کا انداز مختصر لیکن جامع ہے . زبان نہ بہت آسان ہے نہ مشکل لیکن باآسانی سمجھ آتی ہے اگر پڑھنے والا صحیح ہو . حدیث کے مشکل الفاظ اور عبارتوں کو آسان فہم کردیتے ہیں .اکثر متعلقہ مسئلہ سے جڑی دیگر روایات کو بھی بیان کرتے ہیں اور ایسی شرح فرماتے ہیں کہ ایک ابتدائی طالب علم کی تشنگی دور ہوجاتی ہے . لیکن !! بعض ایسے مقامات ضرور ہیں جہاں مزید شرح کی گنجائش میں نے ذاتی طور پر محسوس کی تھی . اگر ان امور کا بھی ذکر ہوجاتا جو ان سے بعض مقامات پر رہ گیا تو مزید بہتر تھا . بالخصوس کتاب کے آخر میں میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ انداز جو شروع میں تھا وہ نہیں ہے لیکن پھر بھی بہت زبردست کوشش ہے .
مختصرا یہ کہ تحفۃ الاحوذی , جامع ترمذی کی نہایت ہی عمدہ اور لاجواب شرح ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک نایاب کوشش ہے . طلباء دین کو اس کتاب کا بضرور مطالعہ کرنا چائیے . اس کتاب میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے ..... واللہ اعلم بالصواب
( A Short Book Review )
تحریر:ثاقب غنی
تحفۃ الاحوذی جامع ترمذی کی شرح ہے .یہ کتاب محدث عبد الرحمن بن عبد الرحیم مبارکپوری نے لکھی ہے . یہ کتاب عرب و عجم میں بے حد مقبول ہے . جید علماء عرب کا اس کتاب کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ جامع ترمذی کی اس سے بہتر کوئی شرح نہیں . اہل علم سے اس کتاب کی قدر و منزلت مخفی نہیں ہے .
دار السلام کی طبع کے مطابق یہ دس جلدیں ہیں جن میں سے ہر جلد کے تقریبا کم و بیش 600 سے 700 تک صفحات ہے . طبع نہایت ہی دلکش اور خوبصورت ہے . دیکھ کر پڑھنے کو جی کرتا ہے.
ظاہر ہے کتاب عربی میں ہے . کتاب کی پہلی پوری جلد مقدمۃ پر قائم ہے . یہ مقدمۃ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے . مقدمۃ میں جن امور پر مولف نے تفصیلا بحث کی ہے ان امور کا اجمالا ذکر کردوں .
1 : اصول حدیث اور کتاب ترمذی کے حوالے سے چند مخصوص اصولی بحثیں کیں ہیں .
2: جامع ترمذی کی اہمیت اور اس کے منفرد مقام پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے .
3: حجیۃ السنۃ کے اوپر گفتگو کی ہے اور منکرین حدیث کا رد کیا ہے .
4 : اسماء الرجال کے حوالے سے گفتگو کی ہے .
5: اس کے علاوہ شیخ کی ذاتی علمی مرتبہ اور ان کے شیوخ وغیرہ اور ان کی خدمات وغیرہ بھی مذکور ہیں ......
اس کے بعد دوسری جلد سے جامع ترمذی کی شرح شروع ہوتی ہے . شیخ کیونکہ اہل حدیث ہیں اور وہ بھی برصغیر کے تو جو اختلافی مسائل رائج ہیں ہمارے ماحول میں ان پر بہت تفصیلی اور مدلل گفتگو کرتے ہیں . بہت ہی کثیر المطالعہ معلوم ہوتے ہیں . اکابر کے اقوال جس طرح سے نقل کرتے ہیں یہ ان کے حسن مطالعہ کا پتا دیتے ہیں . صحیح کے محدث ہیں . اکثر مخالفیں کا رد حدیث کی صحت یا ضعف سے ہی کرتے ہیں . البتہ جہاں اس طریقہ سے بات نہ بنے تو بہت اصولی فقہی باتیں بھی کرتے ہیں جو کہ ان کی اصول فقہ پر رسوخ پر دلالت ہے .
شیخ ظاہری بالکل بھی نہیں ہیں . اکثر عمیق باتیں کرجاتے ہیں . اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ان کا رجحان کس مذھب کی طرف زیادہ ہے تو میرے لیے اس کا تعین مشکل تھا .... کیونکہ شیخ کی رائے اکثر جمھور فقہاء ( مالکی شافعی حنابلہ ) کے موافق ہوتی ہے . لیکن شیخ مجتھد تھے نہ کہ مقلد . وہ اپنی رائے کو دلیل سے ثابت کرتے ہیں . کچھ مقامات پر انہوں نے جمھور کی مخالفت بھی کی ہے جس پر انہوں نے اصولی دلائل دیے ہیں ( مثال کے طور پر یہ مسئلہ کہ رفع حاجت کرتے ہوئے کیا قبلہ کی طرف دبر یا قبل کیا جاسکتا ہے . جمھور کہتے ہیں کہ اگر بند کمرے میں ہیں تو حرج نہیں اور اگر کھلی فضا میں ہے تو جائز نہیں لیکن شیخ صاحب نے کمال کا اصولی رد کیا ہے ) .
احناف کے سخت ناقد ہیں . بعض اوقات بڑے جارحانہ انداز میں رد کرتے نظر آتے ہیں . ایسے پانچ چھےمقامات مجھے یاد پڑتے ہیں . دو تین جگہ پر بدر الدین عینی ( صاحب عمدۃ القاری ) کا بھی سخت تعاقب کیا ہے .
شیخ کیونکہ اہل حدیث ہیں . اس لیے معروف معاملات میں تو مجھے ان کا کوئی مسلکی انحراف نہیں ملا . لیکن دو ایسے معاملات ہیں جن میں انہوں جمھور اہل الحدیث کی مروجہ فتوی کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اس مخالفت میں دلائل کے انبار لگا دیے ہیں . ایک معاملہ موزوں پر مسح کا اور دوسرا معاملہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنے کا ہے .
شیخ صاحب کا ان دونوں مسائل میں وہی موقف ہے جو احناف کا ہے . ( میری یادداشت کے مطابق یہی دو مقامات تھے ) .
شیخ کی شرح کا انداز مختصر لیکن جامع ہے . زبان نہ بہت آسان ہے نہ مشکل لیکن باآسانی سمجھ آتی ہے اگر پڑھنے والا صحیح ہو . حدیث کے مشکل الفاظ اور عبارتوں کو آسان فہم کردیتے ہیں .اکثر متعلقہ مسئلہ سے جڑی دیگر روایات کو بھی بیان کرتے ہیں اور ایسی شرح فرماتے ہیں کہ ایک ابتدائی طالب علم کی تشنگی دور ہوجاتی ہے . لیکن !! بعض ایسے مقامات ضرور ہیں جہاں مزید شرح کی گنجائش میں نے ذاتی طور پر محسوس کی تھی . اگر ان امور کا بھی ذکر ہوجاتا جو ان سے بعض مقامات پر رہ گیا تو مزید بہتر تھا . بالخصوس کتاب کے آخر میں میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ انداز جو شروع میں تھا وہ نہیں ہے لیکن پھر بھی بہت زبردست کوشش ہے .
مختصرا یہ کہ تحفۃ الاحوذی , جامع ترمذی کی نہایت ہی عمدہ اور لاجواب شرح ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک نایاب کوشش ہے . طلباء دین کو اس کتاب کا بضرور مطالعہ کرنا چائیے . اس کتاب میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے ..... واللہ اعلم بالصواب