محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
حملہ آوروں کی ثقافت کا اصلی مقصد کہ جسے انہوں نے پہلے سے ترسیم کیا ہوا ہے ، آج دنیا بالکل اسی سمت حرکت کررہی ہے یعنی اسلامی معاشرے کی شناخت اور اس کے اثرات کو تباہ و برباد کرنا ، دینی اعتقادات کو کمزور کرنا اور خصوصا نسل جوان کو بے دین بنانے کے درپے ہیں ۔ یہ ثقافتی یلغار کا مقدمہ ہے تاکہ توحیدی فکر کو تمام دنیا سے ہٹاکر اس کے جگہ اپنی ثقافت کو مسلط کرے ؛ اس لئے اس کو دو اہم مقصد میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
۱۔ اسلام کو ہٹانا ،
۲۔اسلامی ثقافت کی جگہ حملہ آور کی ثقافت کو لے آنا۔
ثقافتی یلغار کے اسباب اور عوامل
ثقافتی یلغار کو شکل دینے میں جو عوامل اور اسباب مؤثر ہیں ، ان کو دو حصوں یعنی اندرونی اور بیرونی اسباب میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ہاں البتہ جو پہلے ذکر کئے گئے وہ بھی انہی کا حصہ ہیں جو سب مل کر ایک دوسرے کو مکمل کررہے ہیں ، وہ عوامل یہ ہیں:
1۔ خود اعتمادی کی کمی
یہ عامل انسان کے فردی ، سیاسی اور اقتصادی پہلؤوں میں ظہور کرتا ہے ۔ اس کا معنی اور مطلب یہ ہے کہ عام مسلمان خصوصا جوان نسل ، اپنی قابلیتوں اور خدادادی استعدادوں کو کچھ نہ سمجھے بلکہ اس تفکر کو اپنے اندر باور کرائے کہ استعداد اور قابلیت تو صرف مغرب والوں کے اختیار میں ہے ۔ اسی طرح یہ سبب سیاسی اور اقتصادی عرصہ میں بھی یہی معنی رکھتا ہے جس کی وجہ سے بعض مسلمانوں کا تصور یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اس میدان میں مستقل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اس لئے جب تک خود کو دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے وابستہ نہ کرلیں تب تک مستقل نہیں ہوسکتے !جس کے نتیجے میں یہ عامل سبب بنا کہ اسلامی معاشرے کے جوانوں کے اندر خود اعتمادی میں کمزوری آجائے اور ثقافتی حملہ آور ممالک کی طرف رغبت پیدا کریں ۔ شاید اسلام اسی چیز کا مقابلہ کرنے کی طرف دعوت دے رہا ہے اور یہ پکار رہا ہے کہ اپنے اوپر یقین کرو ، اپنے کو پہچانو اور مستقل رہنے کی طلب و تڑپ میں رہو ۔ جیسا کہ امام خمینی (رہ) دعوت اسلام کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (( اگر یہ جوان نسل اپنے آپ کو پہچان لے اور اپنے سے مایوسی کو دور کرے اور دوسروں سے وابستہ ہونے کی طرف نظر نہ رکھے تو ایک طویل مدت کے بعد سب کچھ کرنے اور بنانے کی طاقت رکھتے ہیں )) ۔
2 ۔ کم تجربہ گی و نا پختگی
ثقافتی یلغار کے اسباب میں سے ایک سبب ، جوانوں کی کم تجربہ گی اور علم کی کمی ہے ۔ یہ جوان طبقہ جو زمانے کا کافی تجربہ نہیں رکھتے ہیں ، اپنی پرنشیب و فراز زندگی کے آغاز میں ہیں ؛ لذا بہت ہی جلد منافع خوروں کی مذموم سیاستوں سے متاثر ہوتے ہیں ۔ ان جوانوں کی کم تجربہ گی سبب بنتی ہے کہ وہ حق و باطل کی پہچان میں مشکل سے دوچار ہوجائیں ۔ جوانوں کا مغربی ثقافت اپنانا ، وہاں کی شخصیتوں کو اپنے لئے گفتار میں ماڈل قرار دینا اس معنی کی بہترین دلیل ہے ۔ ثقافتی حملہ آور بھی اسی خصوصیت سے بھرپور استفادہ کرکے جوانوں کو غفلت کے دام میں ڈال دیتے ہیں ۔ امام صادق ؑ فرماتے ہیں : (( اے جوانو ! تقوا اختیار کرو اور جھوٹے رہبروں کو اپنا ماڈل نہ بناؤ تاکہ ان کی پیروی نہ کرسکو )) ۔ امام صادق ؑ کے اس نورانی جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ؑ کے زمانے میں بھی جوان طبقہ اس ثقافتی یلغار کے جال میں شکار ہورہے تھے ۔
3۔ دینی عقائد کی کمزوری
دینی عقائد کی کمزوری بھی ، ثقافتی یلغار کے لئے ایک سبب ہے ۔ اگر دینی عقائد کمزور ہوجائیں تو جوان نسل اپنے بنیادی سوالوں کے جواب سے محروم ہوجاتی ہے ، درنتیجہ عمل کے میدان میں آہستہ آہستہ دوسروں کے افکار و خیالات میں جذب ہوکر ان کو اپنا ماڈل قرار دیتے ہیں ۔ دوسری طرف ثقافتی حملہ کرنے والے بھی ہمیشہ دین سے لڑنے اور اس سے جدا کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں اور اس طرح اپنی تبلیغ کررہے ہیں کہ دین ایک قسم کا دیا گیا خیالی افکار کے مجموعہ کا نام ہے جو کہ فردی زندگی سے مربوط ہے اور اس کا علم و دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ شاید اس قسم کی ثقافتی یلغار سے روکنے کے لئے ہماری دینی تعلیمات میں سب سے مخاطب ہوکر ، خصوصا جوانوں کو اپنی فکری بنیادوں کو مضبوط کرنے اور دینی معارف کو سیکھنے پر زور دیا گیا ہے ، یہاں تک کہ امام باقر ؑ اور امام صادق ؑفرماتے ہیں : (( اگر شیعوں میں سے کسی جوان کو اس طرح دیکھوں کہ وہ اپنے دین کو نہیں سمجھ رہا ہے اور اس وظیفے کے ادا کرنے میں سستی کرتا ہے اور خلاف ورزی کررہا ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا )) ۔
۴۔ ثقافتی خلاء :
یہ عامل بھی ثقافتی یلغار کا ایک سبب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحیح طور پر جوان نسل کو ثقافتی غذا نہیں دی گئی ہے اور وہ عملی طور پر اپنے ثقافتی آثار سے بے خبر ہیں ؛ جس طرح تازہ نونہال پودے کی مانند جب سخت ہوائیں چلتی ہیں تو اکھڑ جاتے ہیں اسی طرح اس دور کے تند ثقافتی حملوں نے ہمارے جوانوں کو بھی اپنی قومی ثقافتی پہچان سے دور کردیا ہے ۔
ثقافتی خلاء ہونے کی صورت میں دشمن کی ثقافت کو قبول کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے ؛ کیونکہ ہمیشہ جوان طبقہ اپنے ثقافتی آئی ڈی کو حاصل کرنے کے پیچھے لگے ہوتے ہیں ؛ اس لئے جوانوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک بے نیاز ثقافت رکھتا ہے اور یہ بھی ان کو یاد دلایا جائے کہ بہت سے علمی میدانوں میں تمغات کو حاصل کرنے والے اور جیتنے والے بہادر ، اسلامی معاشرے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلامی معاشرہ ، اہلبیت ؑ کے علوم و معارف سے بہرہ مند ہے ، ان کی تعلیمات کو اسلامی معاشرے میں اگر صحیح طریقے سے فروغ دیا جائے تو لوگ خصوصا جوان نسل کبھی بھی بیگانہ ثقافت کو نہیں اپنائیں گے ؛ اسی لئے تو معصوم ؑ نے فرمایا ہے : (( اگر ہمارے کلام کو صحیح طور پر بیان کردیا جائے تو لوگ ہماری طرف مائل ہوجائیں گے )) ۔
5۔ دین کی غلط تفسیر کرنا :
دین اور اس کی تعلیمات کی غلط تفسیر کرنا بھی ثقافتی یلغار کا باعث ہے ۔ دین کے تمام احکام ، اخلاق اور الہی حدود کی اس طرح تفسیر کی جائے کہ کسی دشمن کو تحریف کرنے کا موقع نہ ملے ۔ شاید اسی وجہ سے دین اسلام میں اس کی صحیح تفسیر کے لئے اجتہاد کا باب کھول دیا گیا ہے ، تاکہ ہر کس و ناکس دین کی غلط تفسیر نہ کرسکیں ۔
یہ مجتہدین و علماءربانیین کا کام ہے کہ وہ الہی احکام کا صحیح استنباط کرکے لوگوں تک پہنچائیں ۔ ا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض نے دین کو دنیا سے جدا تفسیر کیا ہے ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ دین صرف آخرت کے مسائل کا جوابگو ہے ۔ اسی طرح بعض مسلّٖم عقائد اور دینی تعلیمات کے مفاہیم میں مشکل کے روبرو ہوگئے ہیں ۔
6 ۔ بہت سے دیگر عوامل :
یہاں اور بہت سارے عوامل و اسباب ہیں جن کو طولانی ہونے کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں : گھریلوے اختلافات ، بے روزگاری ، غریبی و ناداری ، تعلیم سے محرومیت ، میڈیا و اخبارات کی طرف سے فحش تصاویر اور فلموں کی نمائش و۔۔۔ یہ سب ثقافتی حملہ آوروں کے طریقے شمار ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرہ میں بعض اسلامی لیڈر و حکام اور ذمہ دار افراد بھی باعث بنتے ہیں کہ جوان نسل اپنی ثقافتی شناخت اور دینی تعلیمات سے دور ہوجائے اور بیگانہ ثقافت کی طرف مائل ہوجائے۔
۱۔ اسلام کو ہٹانا ،
۲۔اسلامی ثقافت کی جگہ حملہ آور کی ثقافت کو لے آنا۔
ثقافتی یلغار کے اسباب اور عوامل
ثقافتی یلغار کو شکل دینے میں جو عوامل اور اسباب مؤثر ہیں ، ان کو دو حصوں یعنی اندرونی اور بیرونی اسباب میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ہاں البتہ جو پہلے ذکر کئے گئے وہ بھی انہی کا حصہ ہیں جو سب مل کر ایک دوسرے کو مکمل کررہے ہیں ، وہ عوامل یہ ہیں:
1۔ خود اعتمادی کی کمی
یہ عامل انسان کے فردی ، سیاسی اور اقتصادی پہلؤوں میں ظہور کرتا ہے ۔ اس کا معنی اور مطلب یہ ہے کہ عام مسلمان خصوصا جوان نسل ، اپنی قابلیتوں اور خدادادی استعدادوں کو کچھ نہ سمجھے بلکہ اس تفکر کو اپنے اندر باور کرائے کہ استعداد اور قابلیت تو صرف مغرب والوں کے اختیار میں ہے ۔ اسی طرح یہ سبب سیاسی اور اقتصادی عرصہ میں بھی یہی معنی رکھتا ہے جس کی وجہ سے بعض مسلمانوں کا تصور یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اس میدان میں مستقل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اس لئے جب تک خود کو دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے وابستہ نہ کرلیں تب تک مستقل نہیں ہوسکتے !جس کے نتیجے میں یہ عامل سبب بنا کہ اسلامی معاشرے کے جوانوں کے اندر خود اعتمادی میں کمزوری آجائے اور ثقافتی حملہ آور ممالک کی طرف رغبت پیدا کریں ۔ شاید اسلام اسی چیز کا مقابلہ کرنے کی طرف دعوت دے رہا ہے اور یہ پکار رہا ہے کہ اپنے اوپر یقین کرو ، اپنے کو پہچانو اور مستقل رہنے کی طلب و تڑپ میں رہو ۔ جیسا کہ امام خمینی (رہ) دعوت اسلام کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (( اگر یہ جوان نسل اپنے آپ کو پہچان لے اور اپنے سے مایوسی کو دور کرے اور دوسروں سے وابستہ ہونے کی طرف نظر نہ رکھے تو ایک طویل مدت کے بعد سب کچھ کرنے اور بنانے کی طاقت رکھتے ہیں )) ۔
2 ۔ کم تجربہ گی و نا پختگی
ثقافتی یلغار کے اسباب میں سے ایک سبب ، جوانوں کی کم تجربہ گی اور علم کی کمی ہے ۔ یہ جوان طبقہ جو زمانے کا کافی تجربہ نہیں رکھتے ہیں ، اپنی پرنشیب و فراز زندگی کے آغاز میں ہیں ؛ لذا بہت ہی جلد منافع خوروں کی مذموم سیاستوں سے متاثر ہوتے ہیں ۔ ان جوانوں کی کم تجربہ گی سبب بنتی ہے کہ وہ حق و باطل کی پہچان میں مشکل سے دوچار ہوجائیں ۔ جوانوں کا مغربی ثقافت اپنانا ، وہاں کی شخصیتوں کو اپنے لئے گفتار میں ماڈل قرار دینا اس معنی کی بہترین دلیل ہے ۔ ثقافتی حملہ آور بھی اسی خصوصیت سے بھرپور استفادہ کرکے جوانوں کو غفلت کے دام میں ڈال دیتے ہیں ۔ امام صادق ؑ فرماتے ہیں : (( اے جوانو ! تقوا اختیار کرو اور جھوٹے رہبروں کو اپنا ماڈل نہ بناؤ تاکہ ان کی پیروی نہ کرسکو )) ۔ امام صادق ؑ کے اس نورانی جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ؑ کے زمانے میں بھی جوان طبقہ اس ثقافتی یلغار کے جال میں شکار ہورہے تھے ۔
3۔ دینی عقائد کی کمزوری
دینی عقائد کی کمزوری بھی ، ثقافتی یلغار کے لئے ایک سبب ہے ۔ اگر دینی عقائد کمزور ہوجائیں تو جوان نسل اپنے بنیادی سوالوں کے جواب سے محروم ہوجاتی ہے ، درنتیجہ عمل کے میدان میں آہستہ آہستہ دوسروں کے افکار و خیالات میں جذب ہوکر ان کو اپنا ماڈل قرار دیتے ہیں ۔ دوسری طرف ثقافتی حملہ کرنے والے بھی ہمیشہ دین سے لڑنے اور اس سے جدا کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں اور اس طرح اپنی تبلیغ کررہے ہیں کہ دین ایک قسم کا دیا گیا خیالی افکار کے مجموعہ کا نام ہے جو کہ فردی زندگی سے مربوط ہے اور اس کا علم و دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ شاید اس قسم کی ثقافتی یلغار سے روکنے کے لئے ہماری دینی تعلیمات میں سب سے مخاطب ہوکر ، خصوصا جوانوں کو اپنی فکری بنیادوں کو مضبوط کرنے اور دینی معارف کو سیکھنے پر زور دیا گیا ہے ، یہاں تک کہ امام باقر ؑ اور امام صادق ؑفرماتے ہیں : (( اگر شیعوں میں سے کسی جوان کو اس طرح دیکھوں کہ وہ اپنے دین کو نہیں سمجھ رہا ہے اور اس وظیفے کے ادا کرنے میں سستی کرتا ہے اور خلاف ورزی کررہا ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا )) ۔
۴۔ ثقافتی خلاء :
یہ عامل بھی ثقافتی یلغار کا ایک سبب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحیح طور پر جوان نسل کو ثقافتی غذا نہیں دی گئی ہے اور وہ عملی طور پر اپنے ثقافتی آثار سے بے خبر ہیں ؛ جس طرح تازہ نونہال پودے کی مانند جب سخت ہوائیں چلتی ہیں تو اکھڑ جاتے ہیں اسی طرح اس دور کے تند ثقافتی حملوں نے ہمارے جوانوں کو بھی اپنی قومی ثقافتی پہچان سے دور کردیا ہے ۔
ثقافتی خلاء ہونے کی صورت میں دشمن کی ثقافت کو قبول کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے ؛ کیونکہ ہمیشہ جوان طبقہ اپنے ثقافتی آئی ڈی کو حاصل کرنے کے پیچھے لگے ہوتے ہیں ؛ اس لئے جوانوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک بے نیاز ثقافت رکھتا ہے اور یہ بھی ان کو یاد دلایا جائے کہ بہت سے علمی میدانوں میں تمغات کو حاصل کرنے والے اور جیتنے والے بہادر ، اسلامی معاشرے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلامی معاشرہ ، اہلبیت ؑ کے علوم و معارف سے بہرہ مند ہے ، ان کی تعلیمات کو اسلامی معاشرے میں اگر صحیح طریقے سے فروغ دیا جائے تو لوگ خصوصا جوان نسل کبھی بھی بیگانہ ثقافت کو نہیں اپنائیں گے ؛ اسی لئے تو معصوم ؑ نے فرمایا ہے : (( اگر ہمارے کلام کو صحیح طور پر بیان کردیا جائے تو لوگ ہماری طرف مائل ہوجائیں گے )) ۔
5۔ دین کی غلط تفسیر کرنا :
دین اور اس کی تعلیمات کی غلط تفسیر کرنا بھی ثقافتی یلغار کا باعث ہے ۔ دین کے تمام احکام ، اخلاق اور الہی حدود کی اس طرح تفسیر کی جائے کہ کسی دشمن کو تحریف کرنے کا موقع نہ ملے ۔ شاید اسی وجہ سے دین اسلام میں اس کی صحیح تفسیر کے لئے اجتہاد کا باب کھول دیا گیا ہے ، تاکہ ہر کس و ناکس دین کی غلط تفسیر نہ کرسکیں ۔
یہ مجتہدین و علماءربانیین کا کام ہے کہ وہ الہی احکام کا صحیح استنباط کرکے لوگوں تک پہنچائیں ۔ ا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض نے دین کو دنیا سے جدا تفسیر کیا ہے ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ دین صرف آخرت کے مسائل کا جوابگو ہے ۔ اسی طرح بعض مسلّٖم عقائد اور دینی تعلیمات کے مفاہیم میں مشکل کے روبرو ہوگئے ہیں ۔
6 ۔ بہت سے دیگر عوامل :
یہاں اور بہت سارے عوامل و اسباب ہیں جن کو طولانی ہونے کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں : گھریلوے اختلافات ، بے روزگاری ، غریبی و ناداری ، تعلیم سے محرومیت ، میڈیا و اخبارات کی طرف سے فحش تصاویر اور فلموں کی نمائش و۔۔۔ یہ سب ثقافتی حملہ آوروں کے طریقے شمار ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرہ میں بعض اسلامی لیڈر و حکام اور ذمہ دار افراد بھی باعث بنتے ہیں کہ جوان نسل اپنی ثقافتی شناخت اور دینی تعلیمات سے دور ہوجائے اور بیگانہ ثقافت کی طرف مائل ہوجائے۔