• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی سیاسی نظام کی خصوصیات

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس میں ایک ضمنی بات بھی آ جاتی ہے کہ فقہاء کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب حاکم کے سیاسی نظام کے تحت کسی خطہ میں توحید کا غلبہ ہو تو وہ دارالاسلام کہلائے گا البتہ اس سلسلے میں میری اوپر والی وضاحت کو بھی دیکھا جائے گا

محترم اشماریہ بھائی نے دوسری جگہ کچھ باتیں اسی حوالے سے پوچھی تھیں اب انکی تھوڑی وضاحت کر دینا چاہوں گا
یہاں اس بات میں تشنگی رہ جاتی ہے کہ جب یہ سب ایسا ہی ہے جیسا ظاہر ہو رہا ہے تو پھر ہم اس میں کیا اصلاح کر سکتے ہیں اور اس کے لیے کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟
میرے خیال میں کسی چیز کی اصلاح کرنے کے لئے پہلے اس پر شرح صدر حاصل ہونا چاہئے کہ وہ غلط ہے پھر اگر استطاعت ہو گی تو اصلاح کر دیں گے ورنہ اصلاح کی عدم استطاعت اسکے جواز کی دلیل تو بہر حال نہیں بن سکتی
پہلے کس کی اصلاح
اصلاح کے لئے اقبال کے اس شعر کو دیکھنا ہو گا کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ضیاں جاتا رہا

دیکھیں ہمارے سامنے دو نقصانات ہیں
1-یہ کہ قانون غلط بنائے گئے ہیں
2-یہ کہ ان غلط قاوانین کو غلط نہ سمجھنا بلکہ شریعت کے تابع ہی سمجھنا

پس آج کم از کم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قوانین کو درست نہیں کر سکتے مگر یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ قوانین شریعت سے متصادم ہیں پس اگر ہم جب تک دوسری غلطی کو درست نہیں کریں گے کون بے وقوف پہلی غلطی کی طرف توجہ دے گا جیسے بدعتی چونکہ بدعت(غلط کام) کو درست سمجھ رہا ہوتا ہے تو اسکا اس سے چھٹکارا پانے کا کیوں سوچے گا جبکہ گناہ گار کے جو غلط کام گناہ سمجھ کے کر رہا ہوتا ہے پس اس سے رجوع آسان ہوتا ہے یہی بات اوپر شعر میں بتائی گئی ہے

بعض باتیں کہنے میں تو بہت آسان ہوتی ہیں اور میں بھی کہتا رہا ہوں لیکن زمین پر موجودہ حالات میں لانا بہت مشکل ہوتی ہیں۔اگر آپ کے خیال میں کثرت سے قانون پاکستان میں نہیں ہونا چاہیے تو قانون کس طرح بنایا جائے اور اس کا نفاذ کس طرح کیا جائے؟ یہ ایک اہم اور فکری سوال ہے؟ اگر آپ تمام ملک کے افراد کے تناظر میں اس پر غور فرمائیں اور اپنی رائے عنایت فرمائیں تو وہ نہایت قیمتی ہوگی۔
محترم بھائی ہمیں جتنا مکلف بنایا گیا ہے اتنا ہم سے پوچھا جائے گا پس اعمال میں طاقت نہ ہونے پر تو ہمیں رخصت مل سکتی ہے مگر غلط چیز کو غلط نہ کہنے پر ہمیں رخصت شاید نہ ملے
جہاں تک تمام افراد یا اکثریت کے تناظر میں شریعت کو دیکھنے کا تعلق ہے تو یہ بات بذات خود شریعت کے خلاف ہے کیونکہ وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ کے تحت تو جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اعلی اخلاق والے انکو راضی نہیں کر سکتے تو ہم کیسے اکثریت کو راضی کر سکتے ہیں
جہاں تک ہماری کوششوں کا تعلق ہے کہ وہ کس طرح کی ہونی چاہئیں تو اس سلسلے میں واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ کے تحت ہمیں اپنی زبانی مالی جسمانی طاقتوں کو اس فیلڈ میں لانا پڑے گا لیکن اس کے لئے صرف نتیجہ کو دیکھنے کی بجائے شریعت کے حکم کو دیکھا جائے گا
مثلا اگر ہمیں نظر آ رہا ہو کہ ہمارے حق بات کرنے سے تو لوگ دور ہوں جائیں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو دیکھنا ہو گا کہ جن کی زندگی سے پتا چلتا ہے کہ ایک موقع پر تو وہ لا تثریب علیکم الیوم کہ کر سب کو معاف کرنے پر تیار ہوتے ہیں جب کہ دوسرے موقع پر اپنی بیٹی کی مثال دے کے کہتے ہیں کہ میں اسکو بھی معاف نہ کرتا
پس آج ضرورت ان مواقع میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جس کو الجھا کر ہی شیطان اپنا کام پورا کرتا ہے مثلا آجکل کالم نگار ان دونوں پہلوؤں کو کیسے استعمال کر رہے ہیں اس کے لئے آپ مندرجہ ذیل دھاگہ دیکھیں
http://forum.mohaddis.com/threads/موئے-مبارک-از-جاوید-چوہدری.21173/
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جزاک اللہ عبدہ بھائی۔ یہ ایک فکری موضوع ہے اور کتنا ہی اچھا ہو کہ اگر یہ موضوع ہمیں آگے کے راستے کے انتخاب میں مدد دے۔
یہاں تک تو اتفاق ہے کہ جو قوانین شریعت سے متصادم ہیں ان کے بارے میں بتایا جائے بلکہ میں کہتا ہوں کہ ان کی تبدیلی کے لیے بھی ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے (طریقہ کار کو اس بحث کے بعد ڈسکس کریں گے ان شاء اللہ)۔ لیکن اگر اسی طرز پر کچھ ایسے قانون بھی موجود ہوں جو شریعت سے متصادم نہ ہوں تو انہیں قبول کیا جائے گا یا نہیں؟

تمام افراد کے تناظر میں ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ درست۔ لیکن کیا اس سوچ سے موجودہ وقت میں وہ لوگ متفق ہیں جن کی ذات پر یہ قوانین نافذ ہوں گے؟ یقینا نہیں۔
ہمیں پہلا اسٹیپ بہرصورت ان افراد کو ہی اس پر تیار کرنے کا لینا ہوگا۔ اس کا طریقہ ان کی فکری و دینی تربیت ہوسکتا ہے۔

محترم انس بھائی اہل حدیث تقطہ نظر سے اورمحترم اشماریہ بھائی حنفی نقطہ نظر سے میری ساتھ ساتھ اصلاح کرتے رہیں کیونکہ یہ سب کچھ میں سیکھنے کے لئے ہی لکھ رہا ہوں اللہ جزائے خیر دے امین

میں نہیں سمجھتا کہ اس میں حنفی یا اہلحدیث نقطہ نظر میں کوئی اختلاف ہوگا۔ ساری چیزیں متفقہ ہیں۔ صرف طریقہ کار میں دو گروپ بنتے ہیں۔ ان میں اہلحدیث و مقلدین دونوں شامل ہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جزاک اللہ عبدہ بھائی۔ یہ ایک فکری موضوع ہے اور کتنا ہی اچھا ہو کہ اگر یہ موضوع ہمیں آگے کے راستے کے انتخاب میں مدد دے۔
جی محترم بھائی میرا مقصد یہی تھا کہ یہ موضوع ہمیں آگے کے راستے کے انتخاب میں بھی مدد دے گا وہ اس طرح کہ ابھی ہم اس شش و پنج میں پڑے ہوئے ہیں کہ ہمارا وزیر اعظم یا صدر کس طریقے سے بننا چاہئے اور اس بات کی فکر نہیں کہ صدر یا وزیر اعظم بن کر کرنا کیا چاہئے
پس اصل مسئلہ یہ ہے کہ صدر کو کرنا کیا ہے نہ کہ یہ ہے کہ بننا کیسے ہے یعنی کم از کم ہمیں بیماری کی تشخیص میں مدد ملے گی

یہاں تک تو اتفاق ہے کہ جو قوانین شریعت سے متصادم ہیں ان کے بارے میں بتایا جائے بلکہ میں کہتا ہوں کہ ان کی تبدیلی کے لیے بھی ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے (طریقہ کار کو اس بحث کے بعد ڈسکس کریں گے ان شاء اللہ)۔ لیکن اگر اسی طرز پر کچھ ایسے قانون بھی موجود ہوں جو شریعت سے متصادم نہ ہوں تو انہیں قبول کیا جائے گا یا نہیں؟
جی محترم بھائی اوپر والی بات کا خیال رکھتے ہوئے یعنی غلط اور درست میں تمیز کی سمجھ رکھنے کے بعد آپ شریعت سے متصادم قانون کو مجبوری کی صورت میں قبول کر سکتے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں
اسکے لئے اس لنک پر مندرجہ ذیل وضاحت کارآمد ہو گی



ہم تکفیریوں کی جانب سے امیر جماعت الدعوۃ حافظ سعید کی تکفیر کا رد خود انہیں کے امام
ابو بصیر طرطوسی کے فتوی کی شکل میں پیش کرتے ہیں:
اقتباس فتوی:
ابو بصیر طرطوسی اپنی کتاب"طاغوت" پہچان ،حکم ،برتاو میں رقمطراز ہیں:
رہے وہ حالات جن میں شرعی عدالتیں نہ پائی جاتیں ہوں اور مسلم سلطان بھی موجود نہ ہو جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرتااور جھگڑا کرنے والوں پر اللہ کے حکم کے نفاذ کی طاقت و قدرت رکھتا ہوگویا ان حالات میں طاغوتی قوانین سے فیصلہ کروانے والے مجبور ہوں ۔ وہ دل میں اس سے بغض و کراہت رکھنے اور اللہ کی شریعت سے محبت کرنے کے باوجود ان حالات میں اپنے حقوق حاصل کرنے یا اپنے سے ظلم کو دفع کرنے کے لیے ان طواغیت کی عدالتوں سے فیصلے کروانے جاتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔جو شخص مجبور کر دیا جائے تو شرعاً اور عقلاً اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہناغلط ہے کہ وہ تحاکم الی الطاغوت کرنے والے اور اللہ کی شریعت سے اعراض کرنے والے ہیں ۔اس سے بہت سے ان مسلمانوں کی تکفیر لازم آتی ہے جو ایسے علاقہ میں رہتے ہیں جہاں طاقت رکھنے والی شرعی عدالتیں موجود نہیں ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا خوارج کا طریقہ ہے۔
پھر مزید لکھتے ہیں :
۵۔اپنا حق حاصل کرنااور مظلوم کی مدد کرنا (چاہے یہ غیر مسلموں اور کافر عدالتوں کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو) جائز ہے اسے تحاکم الیٰ الطاغوت کہنا غلط ہے ۔
۶۔مروجہ عدالتوں میں پیش ہونے والے بہت سے ذاتی نوعیت کے جھگڑوں کی دو شقیں ہوتی ہیں ،ایک شق اللہ کے حق سے جبکہ دوسری بندے کے حق سے تعلق رکھتی ہے۔جیسے چوری :۔اس میں اللہ کا حق یہ ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں جبکہ بندے کا حق یہ ہے کہ اُس کا مال چور سے برآمد کروایا جائے ۔اگر کسی وجہ سے اللہ کا حق لینا ممکن نہ ہو اور صرف بندے کا حق ہی مل سکتا ہو تو بندے کا حق لینا ضروری ہے چاہے ہم اللہ کا حق لینے پر قدرت نہ بھی رکھتے ہوں ،کیونکہ دونوں کے حق کو چھوڑ دینے سے کسی ایک کا حق لینا تو بہتر ہی ہے ۔
۷۔ان مروجہ وضعی عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں صاحب حق کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے جائز حق سے زیادہ کا مطالبہ کرے ۔اس صورت میں وہ ظلم کا مقابلہ ظلم کے ساتھ کرنے والا شمار ہوگا۔اسی طرح اُس کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ ان عدالتوں سے اپنے مخالف کو غیر اسلامی سزا دینے کا مطالبہ کرے ۔اگر یہ کہا جائے کہ عدالت مطالبہ کیے بغیر ہی اگر غیر شرعی سزا سنائے تو پھر کس کو گناہ ہو گا ؟جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں گناہ فیصلہ کرنے والے پر ہے نہ کہ اپنے حق کی خاطر وہاں جانے والے پر۔
۸۔غیر مسلموں کی مدد سے کسی نیکی کاکام کرنا، کسی برائی کا خاتمہ کرنایاظلم کو روکنا تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں کہلاتا۔
۹۔عدل کا فیصلہ چاہے کسی کافر کے ہاتھوں ہی کیوں نہ صادر ہو تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں کہلاتا ۔ عدل ہر حال میں محمود و مطلوب ہے ،اس کا کرنے والا چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو ۔
۱۰۔کافرانہ نظاموں کے تحت بعض ممالک میں قائم شرعی عدالتیں جنہیں شخصی معاملات میں فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا ہے اُن سے شخصی معاملات (شادی بیاہ،طلاق وخلع،وراثت وغیرہ) میں فیصلہ کروانا تحاکم الیٰ الطاغوت نہیں ہے ۔
۱۱۔غیر اسلامی عدالتوں سے ان مسائل میں رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں جو اسلامی شریعت کے مخالف نہیں ہیں،جیسے اداری اور نظم ونسق کے امور جن میں بعض تجارتی قوانین ،شناختی کارڈ اورپاسپورٹ سے متعلق ملکی قوانین وغیرہ آتے ہیں۔



تمام افراد کے تناظر میں ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ درست۔ لیکن کیا اس سوچ سے موجودہ وقت میں وہ لوگ متفق ہیں جن کی ذات پر یہ قوانین نافذ ہوں گے؟ یقینا نہیں۔
ہمیں پہلا اسٹیپ بہرصورت ان افراد کو ہی اس پر تیار کرنے کا لینا ہوگا۔ اس کا طریقہ ان کی فکری و دینی تربیت ہوسکتا ہے۔
جی محترم بھائی آپ کی بات بالکل درست ہے میں بھی یہی کہتا ہوں کہ لوگوں کی فکری و دینی تربیت کی ضرورت ہے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا پس بات یہ نہیں ہو رہی کہ کیا یہاں عین اسلامی قوانین لاگو کرنا آسان ہے یا مشکل- بلکہ یہ بات ہو رہی ہے کہ کیا عین اسلامی قوانین لاگو کرنا واجب ہے یا جائز
 
Top