- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
اس میں ایک ضمنی بات بھی آ جاتی ہے کہ فقہاء کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب حاکم کے سیاسی نظام کے تحت کسی خطہ میں توحید کا غلبہ ہو تو وہ دارالاسلام کہلائے گا البتہ اس سلسلے میں میری اوپر والی وضاحت کو بھی دیکھا جائے گا
محترم اشماریہ بھائی نے دوسری جگہ کچھ باتیں اسی حوالے سے پوچھی تھیں اب انکی تھوڑی وضاحت کر دینا چاہوں گا
پہلے کس کی اصلاح
اصلاح کے لئے اقبال کے اس شعر کو دیکھنا ہو گا کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ضیاں جاتا رہا
دیکھیں ہمارے سامنے دو نقصانات ہیں
1-یہ کہ قانون غلط بنائے گئے ہیں
2-یہ کہ ان غلط قاوانین کو غلط نہ سمجھنا بلکہ شریعت کے تابع ہی سمجھنا
پس آج کم از کم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قوانین کو درست نہیں کر سکتے مگر یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ قوانین شریعت سے متصادم ہیں پس اگر ہم جب تک دوسری غلطی کو درست نہیں کریں گے کون بے وقوف پہلی غلطی کی طرف توجہ دے گا جیسے بدعتی چونکہ بدعت(غلط کام) کو درست سمجھ رہا ہوتا ہے تو اسکا اس سے چھٹکارا پانے کا کیوں سوچے گا جبکہ گناہ گار کے جو غلط کام گناہ سمجھ کے کر رہا ہوتا ہے پس اس سے رجوع آسان ہوتا ہے یہی بات اوپر شعر میں بتائی گئی ہے
جہاں تک تمام افراد یا اکثریت کے تناظر میں شریعت کو دیکھنے کا تعلق ہے تو یہ بات بذات خود شریعت کے خلاف ہے کیونکہ وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ کے تحت تو جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اعلی اخلاق والے انکو راضی نہیں کر سکتے تو ہم کیسے اکثریت کو راضی کر سکتے ہیں
جہاں تک ہماری کوششوں کا تعلق ہے کہ وہ کس طرح کی ہونی چاہئیں تو اس سلسلے میں واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ کے تحت ہمیں اپنی زبانی مالی جسمانی طاقتوں کو اس فیلڈ میں لانا پڑے گا لیکن اس کے لئے صرف نتیجہ کو دیکھنے کی بجائے شریعت کے حکم کو دیکھا جائے گا
مثلا اگر ہمیں نظر آ رہا ہو کہ ہمارے حق بات کرنے سے تو لوگ دور ہوں جائیں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو دیکھنا ہو گا کہ جن کی زندگی سے پتا چلتا ہے کہ ایک موقع پر تو وہ لا تثریب علیکم الیوم کہ کر سب کو معاف کرنے پر تیار ہوتے ہیں جب کہ دوسرے موقع پر اپنی بیٹی کی مثال دے کے کہتے ہیں کہ میں اسکو بھی معاف نہ کرتا
پس آج ضرورت ان مواقع میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جس کو الجھا کر ہی شیطان اپنا کام پورا کرتا ہے مثلا آجکل کالم نگار ان دونوں پہلوؤں کو کیسے استعمال کر رہے ہیں اس کے لئے آپ مندرجہ ذیل دھاگہ دیکھیں
http://forum.mohaddis.com/threads/موئے-مبارک-از-جاوید-چوہدری.21173/
محترم اشماریہ بھائی نے دوسری جگہ کچھ باتیں اسی حوالے سے پوچھی تھیں اب انکی تھوڑی وضاحت کر دینا چاہوں گا
میرے خیال میں کسی چیز کی اصلاح کرنے کے لئے پہلے اس پر شرح صدر حاصل ہونا چاہئے کہ وہ غلط ہے پھر اگر استطاعت ہو گی تو اصلاح کر دیں گے ورنہ اصلاح کی عدم استطاعت اسکے جواز کی دلیل تو بہر حال نہیں بن سکتییہاں اس بات میں تشنگی رہ جاتی ہے کہ جب یہ سب ایسا ہی ہے جیسا ظاہر ہو رہا ہے تو پھر ہم اس میں کیا اصلاح کر سکتے ہیں اور اس کے لیے کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟
پہلے کس کی اصلاح
اصلاح کے لئے اقبال کے اس شعر کو دیکھنا ہو گا کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ضیاں جاتا رہا
دیکھیں ہمارے سامنے دو نقصانات ہیں
1-یہ کہ قانون غلط بنائے گئے ہیں
2-یہ کہ ان غلط قاوانین کو غلط نہ سمجھنا بلکہ شریعت کے تابع ہی سمجھنا
پس آج کم از کم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قوانین کو درست نہیں کر سکتے مگر یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ قوانین شریعت سے متصادم ہیں پس اگر ہم جب تک دوسری غلطی کو درست نہیں کریں گے کون بے وقوف پہلی غلطی کی طرف توجہ دے گا جیسے بدعتی چونکہ بدعت(غلط کام) کو درست سمجھ رہا ہوتا ہے تو اسکا اس سے چھٹکارا پانے کا کیوں سوچے گا جبکہ گناہ گار کے جو غلط کام گناہ سمجھ کے کر رہا ہوتا ہے پس اس سے رجوع آسان ہوتا ہے یہی بات اوپر شعر میں بتائی گئی ہے
محترم بھائی ہمیں جتنا مکلف بنایا گیا ہے اتنا ہم سے پوچھا جائے گا پس اعمال میں طاقت نہ ہونے پر تو ہمیں رخصت مل سکتی ہے مگر غلط چیز کو غلط نہ کہنے پر ہمیں رخصت شاید نہ ملےبعض باتیں کہنے میں تو بہت آسان ہوتی ہیں اور میں بھی کہتا رہا ہوں لیکن زمین پر موجودہ حالات میں لانا بہت مشکل ہوتی ہیں۔اگر آپ کے خیال میں کثرت سے قانون پاکستان میں نہیں ہونا چاہیے تو قانون کس طرح بنایا جائے اور اس کا نفاذ کس طرح کیا جائے؟ یہ ایک اہم اور فکری سوال ہے؟ اگر آپ تمام ملک کے افراد کے تناظر میں اس پر غور فرمائیں اور اپنی رائے عنایت فرمائیں تو وہ نہایت قیمتی ہوگی۔
جہاں تک تمام افراد یا اکثریت کے تناظر میں شریعت کو دیکھنے کا تعلق ہے تو یہ بات بذات خود شریعت کے خلاف ہے کیونکہ وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ کے تحت تو جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اعلی اخلاق والے انکو راضی نہیں کر سکتے تو ہم کیسے اکثریت کو راضی کر سکتے ہیں
جہاں تک ہماری کوششوں کا تعلق ہے کہ وہ کس طرح کی ہونی چاہئیں تو اس سلسلے میں واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ کے تحت ہمیں اپنی زبانی مالی جسمانی طاقتوں کو اس فیلڈ میں لانا پڑے گا لیکن اس کے لئے صرف نتیجہ کو دیکھنے کی بجائے شریعت کے حکم کو دیکھا جائے گا
مثلا اگر ہمیں نظر آ رہا ہو کہ ہمارے حق بات کرنے سے تو لوگ دور ہوں جائیں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو دیکھنا ہو گا کہ جن کی زندگی سے پتا چلتا ہے کہ ایک موقع پر تو وہ لا تثریب علیکم الیوم کہ کر سب کو معاف کرنے پر تیار ہوتے ہیں جب کہ دوسرے موقع پر اپنی بیٹی کی مثال دے کے کہتے ہیں کہ میں اسکو بھی معاف نہ کرتا
پس آج ضرورت ان مواقع میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جس کو الجھا کر ہی شیطان اپنا کام پورا کرتا ہے مثلا آجکل کالم نگار ان دونوں پہلوؤں کو کیسے استعمال کر رہے ہیں اس کے لئے آپ مندرجہ ذیل دھاگہ دیکھیں
http://forum.mohaddis.com/threads/موئے-مبارک-از-جاوید-چوہدری.21173/