• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی شادی اور جہیز ۔ شیخ سلیم ساجد مدنی حفظہ اللہ (ویڈیو)

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اعجاز بھائی ،بات تو آ پ نے ٹھیک کی ہے لیکن لوگوں کی زبانیں کون بند کروائے۔
فرض کریں ایک امیر آدمی اپنی بیٹی کو اس کی شادی پر ضروریات زندگی کی اشیاء نہیں دیتا تو جو لوگ ان کی شادی پر آئیں گے وہ اس طرح کے جملے کسیں گے۔
"اس آدمی کے کام تو دیکھو ، اپنی بیٹی کو کچھ بھی نہیں دیا،حالانکہ اس کے پاس تو سب کچھ ہے"
پھر لڑکی کو یہ طعنے سننے پڑیں گے کہ
"تمہارے والد نے تمہیں کچھ نہیں دیا ،گھر سے خالی ہاتھ آئی ہو"
آئیے ایک واقعہ سناتا ہوں،ہمارے شہر میں ایک صاحب حیثیت آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی کی ،ہر چیز دی ،امیر جو تھا لیکن ایک آدھ چیز نہ دی یا بھول گیا تو جب لڑکی کو اپنے سسرال میں اس چیز کی ضرورت پیش آئی اور وہ چیز اپنے سامان میں نہ پائی تو اس کی ساس نے کہا "تمہارے والد نے تمہیں یہ فلاں چیز نہیں لے کر دی"
تو جب لڑکی کی ماں کو یہ بات پتہ چلی کہ اس کی بیٹی کو ایک آدھ چیز کی وجہ سے ساس کے طعنے سننے پڑیں ہیں تو افسردہ ہو کر بولی کہ
"کاش میں اپنی بیٹی کو یہ چیز بھی دے دیتی ،اس وجہ سے اسے طعنے تو نہ سننے پڑتے"

اب اندازہ لگائیے یہ تو ایک آدھ چیز نہ دینے کا حال ہے،
اہم بات سوچ بدلنے کی ہے جو میں نے شروع میں کہا ہے کہ "لڑکے والوں کا لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا بُری بات ہے"لڑکے والوں کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ لڑکی والوں سے ڈیمانڈ کریں۔

اب اور واقعہ سنیں اور دونوں طرف کے لوگوں کا حال دیکھیں
ہمارے ہی شہر میں ایک آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی ایک بستی کے لوگوں میں کرنا چاہی تو وہاں جا کر ان سے بھاری ڈیمانڈ کی کہ "دس مرلے کا حصہ لکھ دو نیز سونا وغیرہ بھی تھا" تو میں نے سنا ہے کہ لڑکے والوں نے بھی کہہ دیا کہ "ٹھیک ہے لکھ پڑھ تو ہم کر دیں گے پھر اپنی بیٹی کو اتنا سامان دے کر بھیجنا کہ ہمارے گھر کے کم از کم دو کمرے بھر جائیں۔"لو دسو

اب تو لوگوں کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ جب تک ہم نے ابھی بیٹی کو سامان نہیں دینا ہم نے اس کی شادی کرنی ہی نہیں۔یہ سوچ غلط ہے بلکہ بہت غلط ہے،سامان لے کر دے سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ سیدھی بات کر دینی چاہیے کہ ہم اس کنڈیشن میں نہیں ہیں کہ اپنی بیٹی کو ضروریات زندگی کا سامان لے کر دیں،رشتہ کرنا ہے تو کرو ورنہ نہیں۔
اور پھر اب تو ایسی صورت حال ہو گئی ہے کہ لڑکے والے اس خوشی میں رہتے ہیں کہ لڑکی کچھ نہ کچھ لے کر آئے گی۔
دنیا میں کئی ایسی مثالیں ہیں اعجاز بھائی،کس کس چیز کا رونا روئیں؟

میں تو خود بھی اسی چیز کا قائل ہوں کہ جہیز کی فکر میں اپنی بیٹیوں کو بٹھا کر بوڑھا نہ کر دیں۔ کاش کہ ہمارے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سوچ جیسی سوچ پیدا ہو جائے،کاش ہم ان کی زندگی سے کچھ تو سیکھیں،کاش ہمارے اندر قرآن و سنت کا شعور پیدا ہو جائے،آمین۔اللہ تعالیٰ ہماری حالتوں پر رحم فرمائے آمین۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی،
شرعی موقف بیان کرنا مقصود نہیں۔ اس کے لئے علمائے کرام موجود ہیں۔ لیکن صراط الہدیٰ پر ایک تحریر نظروں سے گزری جو اس سوال کے جواب میں کم سے کم پاکستان کے حالات کی روشنی میں تلخ حقائق کو پیش کرتی ہے، ایک اقتباس ملاحظہ کریں::


خوشی سے دینے اور لینے میں بُرائی کیا ہے ؟

وہ کچھ اور شئے ہے محبت نہیں ہے
سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

فرار کا یہ تیسرا فلسفہ انتہائی موثر اور منطقی Effective & Logical ہوتا ہے۔ جس کے آگے بڑے بڑے متشرع ، باریشBearded دیندار بزرگ بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔جواز یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تحفے دینے اور تحفے خوش دلی سے قبول کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔
( تهادوا تحابوا . حديث)

اس لیے اگر کوئی ماں باپ اپنی بچی کی رخصتی پر تحفتاً کچھ دیتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟ برائی اس وقت ہوتی جب لڑکے والے مانگتے ۔ زمانے کے رواج کے مطابق لڑکے کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لڑکی والے اگر اپنی خوشی سے کچھ دے دیں تو نہ لڑکے والوں کے ضمیر پر بوجھ رہتا ہے نہ گناہ کا احساس ۔

کتنا بڑا دھوکہ ہے جو ہم ایک دوسرے کو دے رہے ہیں ؟ ہر شخص جانتا ہے کہ اس دور میں کماتے کماتے آدمی ٹوٹ جاتا ہے ۔ایک بیٹی یا بہن کی شادی کر کے کئی سال پیچھے ہوجاتا ہے۔کیا واقعی یہ سب ’ خوشی ‘ سے ہوتا ہے ؟ ایک بھائی جو اپنے خون پسینے کی کمائی جو کہ اس کے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کام آسکتی ہے ۔ جوڑے ، جہیز ، منگنی ، باراتیوں کی ضیافت وغیرہ میں ہر گز نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً خرچ کرتا ہے اور پھر سے صفر پر آجاتا ہے۔ لیکن یہی شخص اپنی باری میں کسی دوسرے باپ یا بھائی کو وہی حالات سے دوچار کرنا اپنا جائزحق سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اُسے بھی ’ خوشی ‘ سے ہی دیا جارہا ہے اس طرح معاشرہ کا ہر فرد خود فریبی Self Deception میں مبتلا ہے ۔دونوں فریق ایک دوسرے کو ”خوشی “سے دینے کے نام پرپوری دانستگی کے ساتھ ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھتے ہیں۔

لطیفہ یہ ہیکہ سارا کاروبار ”خوشی “ سے دینے لینے کے نام پر ہوتا ہے اسکے باوجود جب دونوں فریق شادی کی بات چیت کے لئے مل بیٹھتے ہیں سامانِ جہیز ، نقد رقم ، باراتیوں کی تعداد وغیرہ پر خوب بحث ہوتی ہے۔لڑکے والے ایک طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بھی دینا ہے اپنی خوشی سے دیجیئے دوسری طرف پلنگ، بستر، زیور وغیرہ کی فہرست پر تکرار بھی کرتے ہیں۔ اور لڑکی والوں کا حال وہی ہوتا ہے جو کسی بچے کے اغوا ہوجانے پر اُس کے ماں باپ کا ہوتا ہے ۔ اغوا کنندگان Kidnappers کے ہر مطالبے کو خوشی سے ماننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ اس دور کی مہذب بلیک میلنگ ہے۔ ان ”خوشی“ سے جو چاہے دیجیئے کہہ کر لینے والوں کو دیکھ کر وہ بے شمار لوگ یاد آتے ہیں جو معاملے کے شروع ہونے سے پہلے تو کہتے ہیں”جو چاہے خوشی سے دے دیجیئے“۔ لیکن بعد اپنی اصلیت پر اتر آتے ہیں اور آخر میں دینے والے کی خوشی نہیں چلتی بلکہ لینے والا اپنی خوشی منوا کر رہتاہے۔

جیسے آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسطرح آٹو رکشا والے، اسٹیشن پر سامان اٹھانے والے قُلی، اڈّے کے مزدور ، پیشہ ور عورتیں، رشوت کھانے والے تمام حضرات چاہے وہ پولیس والے ہوں کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والے جہاں آپ کا معاملہ اٹکا ہو۔ یہ تمام لوگ پہلے تو انتہائی خودداری اور خوش اخلاقی سے یہی کہتے ہیں کہ ”آپس کا معاملہ ہے آپ جو چاہے خوشی سے دے دیجیئے“۔

بعض تو یہ تک کہتے ہیں کہ ”آپ نہ بھی دیں تو کوئی بات نہیں اللہ کا دیا بہت کچھ ہے“۔ لیکن ایک بار جب ڈیل ہوجائے پھر یہ اپنی حرص اور بے غیرتی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے بالکل نہیں شرماتے۔لڑکے والے بھی بالکل اسی طرح پیش آتے ہیں۔۔

مزید پڑھئے ۔۔۔۔۔ یہاں
اس پوسٹ پر میں نے جواب تحریر کر دیا ہے۔

جہاں تک تعلق ہے جہیز فاطمی کا تو اس بارے میں میں زیادہ نہیں جانتا،بس سید سلمان ندوی صاحب کی کتاب میں اس بارے میں پڑھا تو شئیر کر دیا۔میں نے کبھی بھی جہیز کی حمایت نہیں کی ،کیونکہ یہ ایک غلط رسم ہے اور معاشرے میں اس سے بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے،جہیز کے حوالے سے یہ دو چیزیں بہت غلط ہیں،
  • لڑکے والوں کا لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ
  • لڑکی والوں کی یہ سوچ کہ جب تک جہیز اکھٹا نہیں ہوتا تب تک لڑکیوں کی شادی نہیں کرنی
پوسٹ نمبر 3 میں آپ نے جس شخص کی یہ تحریر پیش کی ،اس میں صرف صاحب تحریر نے اپنی ذاتی رائے پیش کی ہے ،کتاب و سنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کی،لہذا یہ رائے حجت نہیں بن سکتی،حجت قرآن و حدیث ہے۔
ہر انسان کی سوچ ایک جیسی نہیں ہوتی،اب کوئی شخص کہیں شادی کرتا اور وہ اپنی بیٹی یا بہن کے لیے خوشی سے کچھ دینا چاہیں لیکن یہ شخص جا کر ان کو روک آئے کہ نہیں آپ خوشی سے بھی کوئی تحفہ نہ دیں تو ایسے شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اسلام میں جبر،زبردستی،ظلم و زیادتی کی ہرگز اجازت نہیں ۔اگر عورت خوشی سے اپنا حق مہر بھی اپنے شوہر کو دینا چاہے تو وہ اسے لے سکتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ شادی کے موقع پر اگر کوئی اپنی بہن یا بیٹی کو خوشی سے بغیر کسی کے دباؤ میں آئے ضروریات زندگی کا سامان خرید کر دے تواس بات کی ممانعت میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل ہو تو پیش کریں؟
دلیل قرآن و سنت سے ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو ہمارے لیے حلال کر دے وہی حلال ہے اور جس کو حرام کر دے وہی حرام ہے۔
 
Top