محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
اعجاز بھائی ،بات تو آ پ نے ٹھیک کی ہے لیکن لوگوں کی زبانیں کون بند کروائے۔
فرض کریں ایک امیر آدمی اپنی بیٹی کو اس کی شادی پر ضروریات زندگی کی اشیاء نہیں دیتا تو جو لوگ ان کی شادی پر آئیں گے وہ اس طرح کے جملے کسیں گے۔
"اس آدمی کے کام تو دیکھو ، اپنی بیٹی کو کچھ بھی نہیں دیا،حالانکہ اس کے پاس تو سب کچھ ہے"
پھر لڑکی کو یہ طعنے سننے پڑیں گے کہ
"تمہارے والد نے تمہیں کچھ نہیں دیا ،گھر سے خالی ہاتھ آئی ہو"
آئیے ایک واقعہ سناتا ہوں،ہمارے شہر میں ایک صاحب حیثیت آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی کی ،ہر چیز دی ،امیر جو تھا لیکن ایک آدھ چیز نہ دی یا بھول گیا تو جب لڑکی کو اپنے سسرال میں اس چیز کی ضرورت پیش آئی اور وہ چیز اپنے سامان میں نہ پائی تو اس کی ساس نے کہا "تمہارے والد نے تمہیں یہ فلاں چیز نہیں لے کر دی"
تو جب لڑکی کی ماں کو یہ بات پتہ چلی کہ اس کی بیٹی کو ایک آدھ چیز کی وجہ سے ساس کے طعنے سننے پڑیں ہیں تو افسردہ ہو کر بولی کہ
"کاش میں اپنی بیٹی کو یہ چیز بھی دے دیتی ،اس وجہ سے اسے طعنے تو نہ سننے پڑتے"
اب اندازہ لگائیے یہ تو ایک آدھ چیز نہ دینے کا حال ہے،
اہم بات سوچ بدلنے کی ہے جو میں نے شروع میں کہا ہے کہ "لڑکے والوں کا لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا بُری بات ہے"لڑکے والوں کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ لڑکی والوں سے ڈیمانڈ کریں۔
اب اور واقعہ سنیں اور دونوں طرف کے لوگوں کا حال دیکھیں
ہمارے ہی شہر میں ایک آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی ایک بستی کے لوگوں میں کرنا چاہی تو وہاں جا کر ان سے بھاری ڈیمانڈ کی کہ "دس مرلے کا حصہ لکھ دو نیز سونا وغیرہ بھی تھا" تو میں نے سنا ہے کہ لڑکے والوں نے بھی کہہ دیا کہ "ٹھیک ہے لکھ پڑھ تو ہم کر دیں گے پھر اپنی بیٹی کو اتنا سامان دے کر بھیجنا کہ ہمارے گھر کے کم از کم دو کمرے بھر جائیں۔"لو دسو
اب تو لوگوں کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ جب تک ہم نے ابھی بیٹی کو سامان نہیں دینا ہم نے اس کی شادی کرنی ہی نہیں۔یہ سوچ غلط ہے بلکہ بہت غلط ہے،سامان لے کر دے سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ سیدھی بات کر دینی چاہیے کہ ہم اس کنڈیشن میں نہیں ہیں کہ اپنی بیٹی کو ضروریات زندگی کا سامان لے کر دیں،رشتہ کرنا ہے تو کرو ورنہ نہیں۔
اور پھر اب تو ایسی صورت حال ہو گئی ہے کہ لڑکے والے اس خوشی میں رہتے ہیں کہ لڑکی کچھ نہ کچھ لے کر آئے گی۔
دنیا میں کئی ایسی مثالیں ہیں اعجاز بھائی،کس کس چیز کا رونا روئیں؟
میں تو خود بھی اسی چیز کا قائل ہوں کہ جہیز کی فکر میں اپنی بیٹیوں کو بٹھا کر بوڑھا نہ کر دیں۔ کاش کہ ہمارے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سوچ جیسی سوچ پیدا ہو جائے،کاش ہم ان کی زندگی سے کچھ تو سیکھیں،کاش ہمارے اندر قرآن و سنت کا شعور پیدا ہو جائے،آمین۔اللہ تعالیٰ ہماری حالتوں پر رحم فرمائے آمین۔
فرض کریں ایک امیر آدمی اپنی بیٹی کو اس کی شادی پر ضروریات زندگی کی اشیاء نہیں دیتا تو جو لوگ ان کی شادی پر آئیں گے وہ اس طرح کے جملے کسیں گے۔
"اس آدمی کے کام تو دیکھو ، اپنی بیٹی کو کچھ بھی نہیں دیا،حالانکہ اس کے پاس تو سب کچھ ہے"
پھر لڑکی کو یہ طعنے سننے پڑیں گے کہ
"تمہارے والد نے تمہیں کچھ نہیں دیا ،گھر سے خالی ہاتھ آئی ہو"
آئیے ایک واقعہ سناتا ہوں،ہمارے شہر میں ایک صاحب حیثیت آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی کی ،ہر چیز دی ،امیر جو تھا لیکن ایک آدھ چیز نہ دی یا بھول گیا تو جب لڑکی کو اپنے سسرال میں اس چیز کی ضرورت پیش آئی اور وہ چیز اپنے سامان میں نہ پائی تو اس کی ساس نے کہا "تمہارے والد نے تمہیں یہ فلاں چیز نہیں لے کر دی"
تو جب لڑکی کی ماں کو یہ بات پتہ چلی کہ اس کی بیٹی کو ایک آدھ چیز کی وجہ سے ساس کے طعنے سننے پڑیں ہیں تو افسردہ ہو کر بولی کہ
"کاش میں اپنی بیٹی کو یہ چیز بھی دے دیتی ،اس وجہ سے اسے طعنے تو نہ سننے پڑتے"
اب اندازہ لگائیے یہ تو ایک آدھ چیز نہ دینے کا حال ہے،
اہم بات سوچ بدلنے کی ہے جو میں نے شروع میں کہا ہے کہ "لڑکے والوں کا لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا بُری بات ہے"لڑکے والوں کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ لڑکی والوں سے ڈیمانڈ کریں۔
اب اور واقعہ سنیں اور دونوں طرف کے لوگوں کا حال دیکھیں
ہمارے ہی شہر میں ایک آدمی نے اپنی بیٹی کی شادی ایک بستی کے لوگوں میں کرنا چاہی تو وہاں جا کر ان سے بھاری ڈیمانڈ کی کہ "دس مرلے کا حصہ لکھ دو نیز سونا وغیرہ بھی تھا" تو میں نے سنا ہے کہ لڑکے والوں نے بھی کہہ دیا کہ "ٹھیک ہے لکھ پڑھ تو ہم کر دیں گے پھر اپنی بیٹی کو اتنا سامان دے کر بھیجنا کہ ہمارے گھر کے کم از کم دو کمرے بھر جائیں۔"لو دسو
اب تو لوگوں کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ جب تک ہم نے ابھی بیٹی کو سامان نہیں دینا ہم نے اس کی شادی کرنی ہی نہیں۔یہ سوچ غلط ہے بلکہ بہت غلط ہے،سامان لے کر دے سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ سیدھی بات کر دینی چاہیے کہ ہم اس کنڈیشن میں نہیں ہیں کہ اپنی بیٹی کو ضروریات زندگی کا سامان لے کر دیں،رشتہ کرنا ہے تو کرو ورنہ نہیں۔
اور پھر اب تو ایسی صورت حال ہو گئی ہے کہ لڑکے والے اس خوشی میں رہتے ہیں کہ لڑکی کچھ نہ کچھ لے کر آئے گی۔
دنیا میں کئی ایسی مثالیں ہیں اعجاز بھائی،کس کس چیز کا رونا روئیں؟
میں تو خود بھی اسی چیز کا قائل ہوں کہ جہیز کی فکر میں اپنی بیٹیوں کو بٹھا کر بوڑھا نہ کر دیں۔ کاش کہ ہمارے اندر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سوچ جیسی سوچ پیدا ہو جائے،کاش ہم ان کی زندگی سے کچھ تو سیکھیں،کاش ہمارے اندر قرآن و سنت کا شعور پیدا ہو جائے،آمین۔اللہ تعالیٰ ہماری حالتوں پر رحم فرمائے آمین۔