• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی شریعت کا ایک معروف قاعدہ

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اسلامی فقہاء اور علماء نے شریعت کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک اصول متعین فرمایا ہے کہ ’’ضرورتیں حرام چیزوں کو جائز کر دیتی ہیں‘‘ اس اصول کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں کس قدر نرمی ہے اور اسلامی قانون میں لوگوں کی ضرورتوں کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے۔ مثلا سؤر کا گوشت کھانا اسلامی قانون کی روح سے حرام ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کھا لینا جائز ہے۔شرک کرنا بالکل ہی منع ہے لیکن مجبوری کی حالت میں اگر کرنا پڑھ جائے تو کوئی قباحت نہیں۔جیسے حضرت عمار بن یاسر نے آپﷺ سے رخصت لی تھی۔سو اس طرح آج بھی معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات میں کوئی کام کرنا جائز ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ واضح رہے کہ یہ قانون صرف مجبوری کی حالت کے لئے ہے چنانچہ جیسے ہی یہ حالت بدل جائے ویسے ہی شریعت کا اصل حکم واپس آجائے گا۔جبکہ کچھ لوگوں کا اجتہادی نظریہ کہتا ہے کہ حالت کے بدلنے سے شرعی حکم جو تبدیلی آتی ہے وہ مستقل ہوتی ہے۔ یہ فاسدانہ خیال ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ مجبوری کی حالت میں حرام اور ممنوع چیز کو صرف اسی قدر استعمال کرنا چاہیے جتنی ضرورت ہے۔اس میں زیادتی وغیرہ نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ آج جو لوگ سود کھانے یا سودی کار وبار کرنے پر مجبور ہیں وہ اپنی ضرورت کے مطابق کریں۔ اسی طرح سیاسی یا دیگر معاملات وغیرہ میں خیال کرنا چاہیے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یہاں ایک بات یہ بھی واضح ہونی چاہیے کہ ضرورت اور حلت کی حدیں بھی علماء مجتہدین ہی طے کریں گے ۔ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اجازت نہیں کہ حالات اور مجبوری کا حوالہ دے کر خود ہی حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چنانچہ آج جو لوگ سود کھانے یا سودی کار وبار کرنے پر مجبور ہیں وہ اپنی ضرورت کے مطابق کریں۔
کیلانی بھائی نے ایک اچھے قاعدے اور اصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لیکن اگر مذکورہ بالا جملہ یوں ہو جاتا تو زیادہ بہتر تھا
چنانچہ آج جو لوگ بھوک سے مرنے سے بچنے کے لیے سود کھانے یا سودی کاروبار کرنے پر مجبور ہوں تو صرف اتنا ہی سود کھائیں یا سودی کاروبار کریں کہ جس سے ان کی جان بچ جائے۔
جزاکم اللہ خیرا
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
کیلانی بھائی نے ایک اچھے قاعدے اور اصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لیکن اگر مذکورہ بالا جملہ یوں ہو جاتا تو زیادہ بہتر تھا
چنانچہ آج جو لوگ بھوک سے مرنے سے بچنے کے لیے سود کھانے یا سودی کاروبار کرنے پر مجبور ہوں تو صرف اتنا ہی سود کھائیں یا سودی کاروبار کریں کہ جس سے ان کی جان بچ جائے۔
جزاکم اللہ خیرا
شکریہ ابوالحسن بھائی آپ کی تعبیر شریعت کے زیادہ موافق لگتی ہے۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
اسلامی فقہاء اور علماء نے شریعت کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک اصول متعین فرمایا ہے کہ ’’ضرورتیں حرام چیزوں کو جائز کر دیتی ہیں‘‘ اس اصول کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں کس قدر نرمی ہے اور اسلامی قانون میں لوگوں کی ضرورتوں کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے۔ مثلا سؤر کا گوشت کھانا اسلامی قانون کی روح سے حرام ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کھا لینا جائز ہے۔شرک کرنا بالکل ہی منع ہے لیکن مجبوری کی حالت میں اگر کرنا پڑھ جائے تو کوئی قباحت نہیں۔جیسے حضرت عمار بن یاسر نے آپﷺ سے رخصت لی تھی۔سو اس طرح آج بھی معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات میں کوئی کام کرنا جائز ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ واضح رہے کہ یہ قانون صرف مجبوری کی حالت کے لئے ہے چنانچہ جیسے ہی یہ حالت بدل جائے ویسے ہی شریعت کا اصل حکم واپس آجائے گا۔جبکہ کچھ لوگوں کا اجتہادی نظریہ کہتا ہے کہ حالت کے بدلنے سے شرعی حکم جو تبدیلی آتی ہے وہ مستقل ہوتی ہے۔ یہ فاسدانہ خیال ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ مجبوری کی حالت میں حرام اور ممنوع چیز کو صرف اسی قدر استعمال کرنا چاہیے جتنی ضرورت ہے۔اس میں زیادتی وغیرہ نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ آج جو لوگ سود کھانے یا سودی کار وبار کرنے پر مجبور ہیں وہ اپنی ضرورت کے مطابق کریں۔ اسی طرح سیاسی یا دیگر معاملات وغیرہ میں خیال کرنا چاہیے۔
محترم کیلانی صاحب!
سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس قاعدہ کو بیان کرنے کی ضرورت اپنے ہم فکر چند نادان دوستوں کی شریعت سے ناواقفیت پر بطور علاج محسوس ہوئی۔
لیکن شاید یہ دوست پھر بھی آپ کی بات سے اتفاق نہ کریں کہ قرآن اور حدیث کے بعد یہ فقہ یا فقہی اصول یا قاعدہ کہا سے آگیا؟
انسان کو اپنی جان بچانا فرض ہے یا ضروری۔ یہ ہے اصل بنیاد اس قاعدہ کی
لیکن آپ نے لفظ ضرورت کا استعمال کیا ہے، ضرورت کو آج ہمارے معاشرے میں عام معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔
میرے دوسوال ہیں اگر مناسب سمجھیں تو آپ تحقیق کرکے بتادیں یا مولانا ابو الحسن صاحب رہنمائی فرمادیں۔
سوال1 نمبر
شریعت کا یہ قاعدہ ایسی صورت میں صرف جائز کی حد تک ہے یا اسے لازم کردیا گیا ہے کہ جان بچانا ضروری ہے لہذا جو ایسی صورت میں اپنی جان نہیں بچاتا وہ خود کشی کے مترادف ہوگا یا گناہ گار ہوگا؟
مثال کے طور پر
ایک شخص بھوک سے مررہا ہے لیکن اس کا تقوی اس کے ضمیر کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ سور کا گوشت کھائے یا کسی حرام جانور کا گوشت کھائے ، وہ ترجیح دیتا ہے موت کو ،۔۔۔۔۔۔۔ یا
ایک عورت جو دیندار، پرہیز گار اور متقی ہے۔ اسے آپریشن کی ضرورت ہے۔ کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں لیکن وہ عورت ترجیح دیتی ہے موت کو کہ جتنی زندگی اللہ نے دی ہے وہ قبول ہے لیکن کسی غیر مرد کے سامنے ستر کھولنا گوارہ نہیں۔
ایسی صورت میں کیا صرف جائز ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ یا لازم ہوگا کہ اپنی جان بچائیں ؟؟؟
سوال نمبر 2
یہ قاعدہ صرف بھوک پیاس تک محدود ہے یا ہر اس بیماری یا صورت جس میں جان جانے کا اندیشہ ہو اور بطور علاج صحیح معالج کی ہدایات پر کسی حرام یا ناجائز صورت کو بطور علاج اس قاعدہ کا اطلاق ہوگا؟؟؟؟
شکریہ
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ہر پیش آمدہ مسئلہ میں علماء فیصلہ کریں گے کہ ضرورت کی شدت کیا واقعتا اتنی ہے کہ حلت کے دروازے کھولے جاسکیں ۔ یا کسی مسئلہ میں کوئی ممنوع چیز محض مباح ہوئی ہے یا وجوب کی حد تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ حکم ضرورت کی شدت کے اعتبار سے الگ الگ معاملات میں تبدیل بھی ہوسکتا ہے ۔

اس معاملہ میں اخف الضررین یا اھون البلیتین کا قاعدہ نافذ ہوگا ۔ یعنی دونوں میں کم نقصاندہ اور نسبتا کم حرام چیز کو اختیار کیا جائے گا ۔
پہلے مسئلہ میں تو قرآن کی ہدایت صاف ہے کہ کھانے پینے والی چیزوں کی حرمت ہی سرے سے وقتی طور پر ساقط ہوجائے گی اگر ان کے استعمال نہ کرنے پر جان چلی جانے کا خدشہ ہے ۔{وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ } [الأنعام: 119]
دوسرے مسئلہ میں بھی جان کا بچانا واجب ہے ۔ایسے معاملات میں ستر کے احکام نافذ نہیں ہوں گے ۔واللہ اعلم

رہی بات تقویٰ کی تو تقویٰ کا تقاضہ یہی ہے کہ اللہ کی دی گئی سہولتوں سے سے فائدہ اٹھایا جائے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
سرفراز فیضی صاحب
شریعت اسلامی میں ایک شے"عزیمت"نام کی بھی ہے۔ تھوڑی اس کی بھی وضاحت کردیں تاکہ ہم جیسے طالب علموں کو مزید رہنمائی ملے کہ
تقویٰ کا تقاضہ یہی ہے کہ اللہ کی دی گئی سہولتوں سے سے فائدہ اٹھایا جائے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سرفراز فیضی صاحب
شریعت اسلامی میں ایک شے"عزیمت"نام کی بھی ہے۔ تھوڑی اس کی بھی وضاحت کردیں تاکہ ہم جیسے طالب علموں کو مزید رہنمائی ملے کہ
جزاک اللہ بھائی ، پوسٹ کرنے کے بعد میرے بھی ذہن میں یہ بات آئی تھی ۔ تقویٰ والی بات کیونکہ مذکور دو مسائل کے ضمن میں کہی گئی تھی اس لیے میں نے یہ کہا کہ تقویٰ اللہ کی دی گئی رخصتوں کے قبول کرنے کا نام ہے ۔
البتہ جہاں رخصتوں کا ترک کردینا کچھ مصلحتوں کے حق میں مفید ہو وہ راستے عزیمت کے راستے ہیں ۔ جیسا امام احمد ابن حنبل نے خلق قرآن کے مسئلہ میں رخصت کو چھوڑ کر عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وما يلقاها إلا الذين صبروا وما يلقاها إلا ذو حظ عظيم
لیکن جہاں رخصتوں کا ترک کرنا کسی مصلحت سے وابستہ نہ ہو وہاں خود کو بلاوجہ نقصان میں ڈالنا صحیح نہیں لگتا ۔ لا ضرر و لاضرار
البتہ کون سے راستے عزیمت کے راستے ہیں اس کو بھی علماء ہی طے کریں گے ۔
اس مسئلہ میں یہی بات میں سمجھ سکا ہوں ۔ غلطی پر ہوں تو اصلاح کردیں ، نوازش ہوگی ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
دین خالص جو شاید رفیق طاہر کی سائٹ ہے اس پر رخصت اورعزیمت کے تعلق سے یہ لکھاہے

رخصت اور عزیمت:
عزیمت: لغت میں عزیمت 'پختہ ارادے' کو کہتے ہیں۔
اصطلاح میں اس حکم کو عزیمت کہتے ہیں جو کسی شرعی دلیل سے ثابت ہو اور اپنے سے معارض (مخالف) راجح دلیل سے خالی ہو۔ جیسا کہ زناکا حرام ہونا منہیات (جن سے روکا گیاہو)میں سے عزیمت ہے اور نماز کا واجب ہونا مامورات (جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو)میں سے عزیمت ہے۔
رخصت: لغت میں نرمی اور سہولت کو کہتے ہیں،
اصطلاح میں رخصت اس حکم کو کہتےہیں جو کسی راجح معارض کی وجہ سے شرعی دلیل کے خلاف ثابت ہو۔جیسا کہ مریض کا اپنے مرض کی وجہ سے پانی کی موجودگی کے باوجودتیمم کرنا اور مجبوری کے وقت مردار کھانا (یہ رخصت ہے )۔
تیمم شرعی دلیل کے خلاف ثابت ہے ۔شرعی دلیل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ يا أَيهَا الَّذِينَ آمَنُوا إذَا قُمْتُمْ إلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ ﴾ [المائدة:6]
ترجمہ: اے ایمان والو! تم جب نماز پڑھنے کےلیے کھڑے(ہونے کا ارادہ کرو) تو اپنے چہروں کودھو لو۔
اس کے خلاف جو راجح معارض ہے وہ اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَإن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ ﴾ [النساء:34]
ترجمہ: اور اگر تم مریض ہو یا مسافر ہو (اور پانی نہ ملے تو تیمم کرلیا کرو)
اسی طرح مجبور آدمی کا مردار کھانا بھی شرعی دلیل کے خلاف ثابت ہے ۔ شرعی دلیل اللہ مالک الملک کا یہ فرمان گرامی ہے: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيكُمُ الْمَيتَةُ ﴾ [المائدة:3]
ترجمہ: تم پر مردار حرام کردیا گیا ہے۔
اس (مردار) کو کھانے کی اجازت اس کے خلاف راجح دلیل کی وجہ سے دی گئی ہے جو رب ذوالجلال والاکرام کا یہ فرمان ہے: ﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ ﴾ [المائدة:3]
ترجمہ: تو جو بھوک کی وجہ سے مجبور ہوجائے (تو اس کےلیے مرداروغیرہ کھانا جائز ہے۔)
ایک مجبور شخص کا مردار کھا کر اپنی ذات سے موت (ہلاکت) کی طرف لے جانی والی بھوک کو دور کرلینا ، مردار کی خباثت کی بناء پر حاصل ہونے والے نقصان کی نسبت کہیں زیادہ راجح (یعنی بہتر )ہے۔
لیکن رخصت اور عزیمت کی یہ تعریف مع مثال مکمل طورپر درست نہیں ہے۔

اس میں نہ عزیمت کی تعریف درست طورپر کی گئی ہے اورنہ ہی مثالیں درست ہیں۔ ابھی رات کے 9بج رہے ہیں اوروقت ہوگیاہے کہ اب گھرچلاجائے ۔لہذا کمپیوٹر بند کررہاہوں۔ انشاء اللہ کل کچھ لکھتاہوں کہ رخصت کسے کہتے ہیں۔ عزیمت کسے کہتے ہیں اوررخصت وعزیمت کی درست مثالیں کیاکیاہیں۔ والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
دین خالص جو شاید رفیق طاہر کی سائٹ ہے اس پر رخصت اورعزیمت کے تعلق سے یہ لکھاہے



لیکن رخصت اور عزیمت کی یہ تعریف مع مثال مکمل طورپر درست نہیں ہے۔

اس میں نہ عزیمت کی تعریف درست طورپر کی گئی ہے اورنہ ہی مثالیں درست ہیں۔ ابھی رات کے 9بج رہے ہیں اوروقت ہوگیاہے کہ اب گھرچلاجائے ۔لہذا کمپیوٹر بند کررہاہوں۔ انشاء اللہ کل کچھ لکھتاہوں کہ رخصت کسے کہتے ہیں۔ عزیمت کسے کہتے ہیں اوررخصت وعزیمت کی درست مثالیں کیاکیاہیں۔ والسلام
شاید یہ انتظار ہمیشہ کے لیے انتظار ہی رہ گیا۔
 
Top