اسلامی فقہاء اور علماء نے شریعت کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک اصول متعین فرمایا ہے کہ ’’ضرورتیں حرام چیزوں کو جائز کر دیتی ہیں‘‘ اس اصول کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں کس قدر نرمی ہے اور اسلامی قانون میں لوگوں کی ضرورتوں کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے۔ مثلا سؤر کا گوشت کھانا اسلامی قانون کی روح سے حرام ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کھا لینا جائز ہے۔شرک کرنا بالکل ہی منع ہے لیکن مجبوری کی حالت میں اگر کرنا پڑھ جائے تو کوئی قباحت نہیں۔جیسے حضرت عمار بن یاسر نے آپﷺ سے رخصت لی تھی۔سو اس طرح آج بھی معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات میں کوئی کام کرنا جائز ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ واضح رہے کہ یہ قانون صرف مجبوری کی حالت کے لئے ہے چنانچہ جیسے ہی یہ حالت بدل جائے ویسے ہی شریعت کا اصل حکم واپس آجائے گا۔جبکہ کچھ لوگوں کا اجتہادی نظریہ کہتا ہے کہ حالت کے بدلنے سے شرعی حکم جو تبدیلی آتی ہے وہ مستقل ہوتی ہے۔ یہ فاسدانہ خیال ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ مجبوری کی حالت میں حرام اور ممنوع چیز کو صرف اسی قدر استعمال کرنا چاہیے جتنی ضرورت ہے۔اس میں زیادتی وغیرہ نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ آج جو لوگ سود کھانے یا سودی کار وبار کرنے پر مجبور ہیں وہ اپنی ضرورت کے مطابق کریں۔ اسی طرح سیاسی یا دیگر معاملات وغیرہ میں خیال کرنا چاہیے۔
محترم کیلانی صاحب!
سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس قاعدہ کو بیان کرنے کی ضرورت اپنے ہم فکر چند نادان دوستوں کی شریعت سے ناواقفیت پر بطور علاج محسوس ہوئی۔
لیکن شاید یہ دوست پھر بھی آپ کی بات سے اتفاق نہ کریں کہ قرآن اور حدیث کے بعد یہ فقہ یا فقہی اصول یا قاعدہ کہا سے آگیا؟
انسان کو اپنی جان بچانا فرض ہے یا ضروری۔ یہ ہے اصل بنیاد اس قاعدہ کی
لیکن آپ نے لفظ ضرورت کا استعمال کیا ہے، ضرورت کو آج ہمارے معاشرے میں عام معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔
میرے دوسوال ہیں اگر مناسب سمجھیں تو آپ تحقیق کرکے بتادیں یا مولانا ابو الحسن صاحب رہنمائی فرمادیں۔
سوال1 نمبر
شریعت کا یہ قاعدہ ایسی صورت میں صرف جائز کی حد تک ہے یا اسے لازم کردیا گیا ہے کہ جان بچانا ضروری ہے لہذا جو ایسی صورت میں اپنی جان نہیں بچاتا وہ خود کشی کے مترادف ہوگا یا گناہ گار ہوگا؟
مثال کے طور پر
ایک شخص بھوک سے مررہا ہے لیکن اس کا تقوی اس کے ضمیر کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ سور کا گوشت کھائے یا کسی حرام جانور کا گوشت کھائے ، وہ ترجیح دیتا ہے موت کو ،۔۔۔۔۔۔۔ یا
ایک عورت جو دیندار، پرہیز گار اور متقی ہے۔ اسے آپریشن کی ضرورت ہے۔ کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں لیکن وہ عورت ترجیح دیتی ہے موت کو کہ جتنی زندگی اللہ نے دی ہے وہ قبول ہے لیکن کسی غیر مرد کے سامنے ستر کھولنا گوارہ نہیں۔
ایسی صورت میں کیا صرف جائز ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ یا لازم ہوگا کہ اپنی جان بچائیں ؟؟؟
سوال نمبر 2
یہ قاعدہ صرف بھوک پیاس تک محدود ہے یا ہر اس بیماری یا صورت جس میں جان جانے کا اندیشہ ہو اور بطور علاج صحیح معالج کی ہدایات پر کسی حرام یا ناجائز صورت کو بطور علاج اس قاعدہ کا اطلاق ہوگا؟؟؟؟
شکریہ