• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی مساجد انسانی اتحاد کا مرکز ہیں + خدا کا کوئی ولد نہیں ۔ تفسیر السراج

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللہِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ۝۰ۥۭ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۱۴ وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۤ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۱۱۵ وَقَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا۝۰ۙ سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ بَلْ لَّہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ۝۱۱۶

اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے خدا کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کرنے سے منع کیا اور مسجدوں کو اجاڑنے کی کوشش کی۔ ایسوں کو لائق نہیں تھا مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے۔۱؎ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے ۔(۱۱۴) مشرق اور مغرب اللہ کی ہے۔ پس جدھر تم منہ کرو، وہاں ہی اللہ متوجہ ہے ۔ بے شک اللہ سمائی والا ہے۔ سب کچھ جاننے والا ہے۔(۱۱۵) اورکہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ۔حالانکہ وہ پاک ذات (سب سے نرالا ہے)بلکہ زمین اور آسمان اسی کا ہے اور سب اس کے آگے ادب سے (فرمانبردار ) ہیں۔۲؎ (۱۱۶)
۱؎ مختلف معابد نے ہمیشہ انسانی جماعتوں کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کردیا ہے ۔زہرہ کے پجاری مشتری کے ماننے والوں کو اپنے مندروں میں نہیں گھسنے دیتے اور موسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا عیسائیوں کو نازک سمجھتے ہیں اور اپنے کلیساؤں میں انھیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ غرضیکہ معابد جن کی غرض وغایت انسانیت کا تزکیہ وتطہیر ہوسکتی ہے ، بجائے خود محاذِ جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہرعبادت گاہ اپنے پس پشت ایک جماعت رکھتی ہے جو اس کے نام پر نسل انسان میں تفریق پیدا کرے۔ پھرمعزز اورغیر معزز کا سوال بھی ہزاروں سال سے قائم ہے ۔ہرمندر میں، ہرمعبد میں ،ہرکلیسا وکنیسا میں ہرحیثیت کا انسان داخل نہیں ہوسکتا بلکہ رنگ وبو کے ہزاروں دیوتا ہیں جن کی پرستش کرنا پڑتی ہے اور جو عبدومعبود کے پاک اور براہ راست راستہ میں روک ہیں۔ اسلام کہتا ہے خدا کے تمام بندے ،ہرنوع کے انسان اگرخدا کے نام پر کسی معبد میں جمع ہوتے ہیں تو انھیں قطعاً نہ روکو۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا کہ ایک چاکر اپنے مالک کے پاس آئے اور روکا جائے ۔ وہ جو اس کے آستانۂ رحمت پر سجدہ کرنا چاہتا ہے ، اس کی اعانت کرو۔ تم کون ہو جو اللہ کے بندوں کو اللہ کے گھر سے نکالتے ہو۔ مسجدیں دنیا میں ہمہ گیر پیغام اخوت کے مراکز ہیں۔ یہاں رنگ ونسل کے تمام بت توڑ دیے جاتے ہیں۔ ہرشخص کو ہروقت ہرمسجد میں اللہ کے سامنے رکوع وسجود کا اختیار ہے اورحق۔
خدا کا کوئی ولد نہیں
۲؎ اسلام سے پہلے مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے اکلوتے اور پہلوٹھے بیٹے ہیں ۔قرآن حکیم کہتا ہے سبحانہٗ یعنی اللہ جل جلالہٗ اس قسم کے مشرکانہ اوصاف سے پاک ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ ساری کائنات اس کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔ ہرچیز اس کی تسبیح وقنوت میںمصروف ہے ۔آفتاب سے لے کر ذرہ تک سب اس کی حمد وثنا کررہے ہیں۔کیا تمھیں آسمانوں اور زمینوں میں کوئی اورقوت کار فرما نظرآتی ہے؟فرشتے بھی اس کے محکوم ہیں۔ حضرت عزیرعلیہ السلام اورحضرت مسیح علیہ السلام کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور دوسری مخلوق کو بھی ۔ کیاایک قانون بھی قدرت کا ایسا ہے جس سے فرشتے بے نیاز ہوں اور عزیر ومسیح علیہما السلام الگ، کیا فرشتے اس کے حکموں کے ماتحت نہیں؟ اور کیا عزیر ومسیح علیہما السلام تمام انسانی عوارض سے مبرا ہیں؟پھرکُلٌّ لَّہٗ قَانِتُوْنَ کی اس صداقت کے بعد شرک کے لیے کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ دوسری دلیل اس کی توحید وتفرید پریہ ہے کہ اسے اقنوم وشریک کی کیا ضرورت ہے ،جب کہ اس کی قدرتیں غیر محدود طورپر وسیع ہیں۔ اس نے آسمان وزمین کی تمام کائنات بغیر کسی ساجھی اور دوست کی اعانت کے پیدا کی ہے ۔ اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ا س کی ضرورت اس آفرینش کے وقت تھی نہ اس وقت جب کہ وہ سب کچھ پیدا کرچکا۔ اس کی قدرت کا غیر مبہم کمال یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا فیصلہ کرلے، وہ پیدا ہوجاتی ہے۔ اسے کسی مادہ یا کسی مستعد تخلیق چیز کی حاجت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے ارادے سے اپنی قدرت سے اپنے کمال الوہیت سے ساری کائنات کو پیدا کرلیتا ہے ۔پھر ایسے قادر مطلق، ایسے مرید با جبروت اور ایسے کامل خدا کے لیے اقانیم کی کیا حاجت ہے ؟کُنْ کہنا اور دنیا کا پیدا ہوجانا یہ ایک انداز بیان ہے ۔ مقصدیہ ہے کہ کہا اور چیز بن گئی۔ وہاں کوئی مختلف یا انتظار نہیں ہوتا۔ یہ مراد نہیں کہ واقعی اسے تخلیق کے لیے کُنْ کہنا پڑتا ہے ۔ یا کُنْ کوئی طلسم ہے جس کے ورد سے وہ دنیا پیداکرتا ہے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ توریت میں بھی اسی قسم کے الفاظ آئے ہوں گے جس سے عیسائیوں کو ٹھوکر لگی ۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ کلام کوئی الگ صفت ہے جس سے دنیا کو پیدا کیا گیا۔ چنانچہ انجیل میں ہے کہ ابتداء میں کلام تھا اورپھر یہ لکھاہے کہ کلام کے وسیلے سے ساری چیزیں پیدا ہوئیں۔ حالانکہ اس احکم الحاکمین خدا کو بجزایک ارادے کے اور کسی چیز کی کیا حاجت ہے ؟ یہ درست ہے کلام اس کی صفت ہے۔ قدرت بھی اس کی صفت ہے ۔ یعنی وہ قادر ہے اور اپنے خاص بندوں پرکلام نازل کرنے والا بھی ۔یہ نہیں کہ کلام یا قدرت کوئی الگ چیزیں ہیں اور وہ خدا ہیں بلکہ خدا نام ہی ہے اس ذات اقدس کا جس میں علم۔ قدرت۔ ارادہ ایسا صفات کمال بدرجۂ غایت موجود ہوں۔
حل لغات
{سَعٰی} کوشش کی۔ مادہ سعی۔ { وَجْہُ اللّٰہ} رخ اور منہ۔ کنایہ ہے اللہ کے فضل وکرم سے ۔
 
Top