عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
یعنی وہ اقدام جو انسان کے اعضاء کو آخرت سے بچاتا ہو دنیوی فلاح و بہبود کا بھی یقینی ذریعہ بن جاتا ہے۔ مصائب و آلامِ دنیا میں سے شاید کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں جس کا سبب احکامِ الٰہیہ سے انحراف نہ ہو۔ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ کا بھی یہی مفہوم ہے کہ نیکیاں ہرحال برائیوں کے اثر سے محفوظ رکھتی ہیں۔ قرآن حکیم ہر ایسی کامیابی کو جو فلاح آخرت سے بے نیاز ہو کر حاصل کی جائے قابلِ مذمت و نفرت قرار دیتا ہے بلکہ اس کو کامیابی کی بجائے ناکامی اور خسارے سے عبیر کر رہا ہے اور یہ مذمت بے سبب نہیں ہوتی بلکہ قرآن اپنے عام اسلوب کے مطابق اس کے دلائل بھی بیان کرتا ہے مثلاً:
وَاللہُ عِنْدَہ حُسْنُ الْمَاٰبِ (آل عمران۔ ع 6)
یعنی بہت اچھے معلوم ہوتے ہیں یہ مرغوبات، یہ اولاد، یہ سونے چاندی کے ڈھیر۔ یہ گھوڑے مویشی اور مال و متاع ہر چند کہ انسان کے لئے دلکش ہیں لیکن بہتر ٹھکانہ چاہو تو وہ اللہ کے پاس ہی ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ وہاں بھی ہے اور اس سے بہتر ہے۔
قرآن حکیم اس قسم کے مضامین سے بھرا پڑا ہے لیکن اس کا مدعا ہرگز یہ نہیں ہے کہ قوتِ ناطقہ انسانی، دینی و عقلی صلاحیتیں اور اس کے ترقی پسندانہ رجحانات کو یک قلم معطل سمجھ لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ سوال ہے جو اربابِ عقل کی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے لیکن یہ الجھن قرآنِ حکیم میں عدم فکر و تدبر کے باعث پیدا ہوتی ہے۔
وَاللہُ عِنْدَہ حُسْنُ الْمَاٰبِ (آل عمران۔ ع 6)
یعنی بہت اچھے معلوم ہوتے ہیں یہ مرغوبات، یہ اولاد، یہ سونے چاندی کے ڈھیر۔ یہ گھوڑے مویشی اور مال و متاع ہر چند کہ انسان کے لئے دلکش ہیں لیکن بہتر ٹھکانہ چاہو تو وہ اللہ کے پاس ہی ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ وہاں بھی ہے اور اس سے بہتر ہے۔
’’لیکن یاد رکھو کہ یہاں کا تمام کیا کرایا معرضِ تلف میں ہے لیکن جو ار وہاں کا ہے وہ غیر فانی اور باقی ہے۔‘‘
(اعلیٰ۔ ضحٰی)’’لہٰذا لازم ہے کہ پیش نظر عارصی مفاد کو نظر انداز کر دیا جائے اور انجام کے دائمی مفاد کو پیش رکھا جائے اس لئے کہ اول کے مقابلہ میں آخر ہی کو فوقیت حاصل ہے۔‘‘
قرآن حکیم اس قسم کے مضامین سے بھرا پڑا ہے لیکن اس کا مدعا ہرگز یہ نہیں ہے کہ قوتِ ناطقہ انسانی، دینی و عقلی صلاحیتیں اور اس کے ترقی پسندانہ رجحانات کو یک قلم معطل سمجھ لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ سوال ہے جو اربابِ عقل کی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے لیکن یہ الجھن قرآنِ حکیم میں عدم فکر و تدبر کے باعث پیدا ہوتی ہے۔