مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
سوشل میڈیا اس قدر پاور ہوگیا ہے کہ اس کی طاقت سے ہرکوئی متاثر ہوگیا اور ہرقسم کے لوگ اس سے جڑ گئے ۔
لوگوں کی بھیڑ بھاڑ اور مختلف قسم کی اشیاء ادھر سے ادھر ہونے کے سبب بہت قسم کے مسائل بھی پیدا ہوگئے ۔
ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ واٹس اپ اور فیس بوک وغیرہ کی پوسٹ پہ جب اس کے لکھنے والے کا نام ہوتا ہے تو کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس پہ نام کیوں لکھا جاتا ہے ؟
کچھ اس قسم کے خیالات کا بھی اظہار کرتے ہیں جو میرے ایک قریبی حبیب کو کسی نے مشورۃًیا طنزاً کہا ہے ۔
"ایک شخص مجھے کہتا ہےکہ قرآن وحدیث تمہاری جاگیر نہیں ہے اس لئے جب مضمون لکھو تو اس پر اپنا نام لکھنا ضروری نہیں اور وہ میرا نام میرے مضمون سے ہٹا دیتا ہے. کہتا ہیکہ تم شہرت کے لئے تبلیغ کر رہے ہو یا اللہ کی رضا کے لئے؟"
یہ جملہ طنز کے ساتھ اپنے اندر صاحب مضمون سے بعض و عداوت بھی رکھتا ہے ۔
یہ سوال سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے نہیں تھا۔ آپ دیکھتے ہوں گے ، اخبارات ہوں،رسائل ہوں، مضامین ہوں، کتابیں ہوں یا کتابچے کوئی بھی بغیر محرر کے نام کے نہیں ہوتا، یہ سوال یہاں نہیں کیا جاتا ہے ، صرف واٹس اپ یا فیس بوک وغیرہ جیسے سماجی میڈیا پہ کیا جاتا ہے ۔
اس سلسلے میں کہتا چاہتاہوں کہ کوئی بھی پوسٹ یا مضمون ہو اس کے لکھنے والے کا نام خصوصا اِس وقت بیحد ضروری ہے ۔
اِس کے کئی وجوہات ہیں میری نظر میں اُن میں دو اہم الاہم ہیں ۔
(1) مضمون ، مضمون نگار کی حیثیت سے جانا جائے گا جوکہ روایت اور حق ہے ۔
(2) بدعت وخرافات کے دور میں مضمون نگار کے نام سے ہی مضمون کی حیثیت واضح ہوجائے گی جبکہ اس نے نام کے ساتھ اضافی صفت لگارکھی ہو۔
اسی سبب ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی بات کو باوزن کرنی ہو تو کسی متعبر عالم کا ان کے نام کے ساتھ قول ذکر کیا جاتاہے۔
سماجی میڈیاکےمضمون پہ نام لکھنے کے اثرات :
٭ مضمون کا مقصد تبلیغ واصلاح ہوتا ہے ، اس لئے کچھ لوگ مضمون میں اس کے لکھنے والے کا نام ہو یا ہو وہ مضمون کو ویسے ہی دوسرے سماجی میڈیا پہ شیئر کرتے ہیں ۔ حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہئے۔
٭ مضمون کتنا اچھا ہی کیوں نہ ہو، کچھ لوگ مضمون نگار کا نام دیکھ کر جل بھن جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دوقسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک تووہ ہیں جو وہ مضمون کہیں شیئر ہی نہیں کرتے ، اور ایک وہ ہی جو فورا ًنام کاٹ دیتے ہیں پھر اسے شیئر کرتے ہیں ۔
٭ کچھ ایسے بھی ملے جو دوسروں کے مضامین سے ان کانام اڑاکر اپنا اسم گرامی ثبت کردیتے ہیں ۔یہ بدترین قسم کا جرم ہے۔
٭ لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو ایسے مضامین اور پوسٹ شیئر کرتی ہے جن پہ کسی کا نام نہ ہو۔
میں آخر میں سوال کرنے والے اور شیئر کرنے والوں سے عرض کرتا ہوں کہ کام کرنے والوں کو کام کرنے دیں ، ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں اور اگر کسی پوسٹ پہ مضمون نگار کا نام ہے اور آپ اس وجہ سے اسے شیئر نہیں کرنا چاہتے تو آپ خود ہی محنت کرکے مضمون تیار کریں اور اپنانام لکھ کر شائع کریں یا نہ لکھیں جیساکہ آپ کا سوال ہے ۔
اور اسی طرح مضمون لکھنے والوں سے بھی عرض کرتا ہوں کہ کسی کا مضمون لیکر دوچار جملے ادھر سے ادھر کرکے اپنا نام نہ لکھیں بلکہ اپنی محنت سے خود کی کاوش تیار کریں پھر اپنا نام لکھیں ، ترجمہ ہے تو ترجمہ لکھیں۔
اور یہ دھیان میں رہے کہ کسی پوسٹ پہ نام لکھنا ہی ہے ایسی بات نہیں ہے بغیر نام کے بھی کام چل سکتا ہے اور چل رہا ہے ،تاہم مضمون پہ محرر کا نام ہو یہ حق بھی ہے اور بہتر بھی ۔
لوگوں کی بھیڑ بھاڑ اور مختلف قسم کی اشیاء ادھر سے ادھر ہونے کے سبب بہت قسم کے مسائل بھی پیدا ہوگئے ۔
ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ واٹس اپ اور فیس بوک وغیرہ کی پوسٹ پہ جب اس کے لکھنے والے کا نام ہوتا ہے تو کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس پہ نام کیوں لکھا جاتا ہے ؟
کچھ اس قسم کے خیالات کا بھی اظہار کرتے ہیں جو میرے ایک قریبی حبیب کو کسی نے مشورۃًیا طنزاً کہا ہے ۔
"ایک شخص مجھے کہتا ہےکہ قرآن وحدیث تمہاری جاگیر نہیں ہے اس لئے جب مضمون لکھو تو اس پر اپنا نام لکھنا ضروری نہیں اور وہ میرا نام میرے مضمون سے ہٹا دیتا ہے. کہتا ہیکہ تم شہرت کے لئے تبلیغ کر رہے ہو یا اللہ کی رضا کے لئے؟"
یہ جملہ طنز کے ساتھ اپنے اندر صاحب مضمون سے بعض و عداوت بھی رکھتا ہے ۔
یہ سوال سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے نہیں تھا۔ آپ دیکھتے ہوں گے ، اخبارات ہوں،رسائل ہوں، مضامین ہوں، کتابیں ہوں یا کتابچے کوئی بھی بغیر محرر کے نام کے نہیں ہوتا، یہ سوال یہاں نہیں کیا جاتا ہے ، صرف واٹس اپ یا فیس بوک وغیرہ جیسے سماجی میڈیا پہ کیا جاتا ہے ۔
اس سلسلے میں کہتا چاہتاہوں کہ کوئی بھی پوسٹ یا مضمون ہو اس کے لکھنے والے کا نام خصوصا اِس وقت بیحد ضروری ہے ۔
اِس کے کئی وجوہات ہیں میری نظر میں اُن میں دو اہم الاہم ہیں ۔
(1) مضمون ، مضمون نگار کی حیثیت سے جانا جائے گا جوکہ روایت اور حق ہے ۔
(2) بدعت وخرافات کے دور میں مضمون نگار کے نام سے ہی مضمون کی حیثیت واضح ہوجائے گی جبکہ اس نے نام کے ساتھ اضافی صفت لگارکھی ہو۔
اسی سبب ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی بات کو باوزن کرنی ہو تو کسی متعبر عالم کا ان کے نام کے ساتھ قول ذکر کیا جاتاہے۔
سماجی میڈیاکےمضمون پہ نام لکھنے کے اثرات :
٭ مضمون کا مقصد تبلیغ واصلاح ہوتا ہے ، اس لئے کچھ لوگ مضمون میں اس کے لکھنے والے کا نام ہو یا ہو وہ مضمون کو ویسے ہی دوسرے سماجی میڈیا پہ شیئر کرتے ہیں ۔ حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہئے۔
٭ مضمون کتنا اچھا ہی کیوں نہ ہو، کچھ لوگ مضمون نگار کا نام دیکھ کر جل بھن جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دوقسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک تووہ ہیں جو وہ مضمون کہیں شیئر ہی نہیں کرتے ، اور ایک وہ ہی جو فورا ًنام کاٹ دیتے ہیں پھر اسے شیئر کرتے ہیں ۔
٭ کچھ ایسے بھی ملے جو دوسروں کے مضامین سے ان کانام اڑاکر اپنا اسم گرامی ثبت کردیتے ہیں ۔یہ بدترین قسم کا جرم ہے۔
٭ لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو ایسے مضامین اور پوسٹ شیئر کرتی ہے جن پہ کسی کا نام نہ ہو۔
میں آخر میں سوال کرنے والے اور شیئر کرنے والوں سے عرض کرتا ہوں کہ کام کرنے والوں کو کام کرنے دیں ، ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں اور اگر کسی پوسٹ پہ مضمون نگار کا نام ہے اور آپ اس وجہ سے اسے شیئر نہیں کرنا چاہتے تو آپ خود ہی محنت کرکے مضمون تیار کریں اور اپنانام لکھ کر شائع کریں یا نہ لکھیں جیساکہ آپ کا سوال ہے ۔
اور اسی طرح مضمون لکھنے والوں سے بھی عرض کرتا ہوں کہ کسی کا مضمون لیکر دوچار جملے ادھر سے ادھر کرکے اپنا نام نہ لکھیں بلکہ اپنی محنت سے خود کی کاوش تیار کریں پھر اپنا نام لکھیں ، ترجمہ ہے تو ترجمہ لکھیں۔
اور یہ دھیان میں رہے کہ کسی پوسٹ پہ نام لکھنا ہی ہے ایسی بات نہیں ہے بغیر نام کے بھی کام چل سکتا ہے اور چل رہا ہے ،تاہم مضمون پہ محرر کا نام ہو یہ حق بھی ہے اور بہتر بھی ۔