عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
اسلام امن و سلامتی کا دین 2011/12/09ء .... 1433/01/14ھ
خطیب : سعود بن ابراہیم الشریح
مترجم: فاروق رفیع
پہلا خطبہ:
سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لائق ہے۔ جو بڑا ذیشان، عزت، قوت او رجلال کا مالک ہے۔ خوف اور طمع کی غرض سے آسمانی بجلی بھیجتا ہے، بھاری بادل چلاتا ہے، دانہ اور گٹھلی پھاڑتا ہے اور بڑا مدبر ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات خوشی ناخوشی اس کو سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے صبح وشام اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں او رمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں او رمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جو بلنداوصاف کے حامل، اقوال و افعال میں نمونہ اور ظاہر و باطن میں صادق و مصدوق ہیں۔ آپ ؐپر ، آپ ؐکی ازواج مطہرات پر، آل اولاد پر اور آپؐ کے اصحاب ، تابعین اور قیامت تک جو ان کے نقش قدم پر چلیں ،ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت اور سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ ان پر بہت زیادہ سلامتی بھیجے۔
حمد و ثنا کے بعد!
بندگان خدا میرے لیے اور آپ کے لیے عمدہ ترین وصیت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگلوں پچھلوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
دو سری جگہ ارشاد فرمایا:’’ولقد وصینا الذین اوتوا الکتاب من قبلکم و ایاکم ان اتقوا اللہ‘‘ (النساء:131)
’’اور یقیناً ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے قبل کتاب دیئے گئے اور تمہیں بھی حکم دیا کہ تم اللہ سے ڈرو۔‘‘
اے مسلمانو!’’فابتغوا عنداللہ الرزق واعبدوہ واشکروا لہ الیہ ترجعون‘‘ (العنکبوت:17)
’’تم اللہ سے رزق طلب کرو، اس کی عبادت کرو او راس کا شکر کرو اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اس اعلیٰ و ادنیٰ مخلوق جن و انس، فرشتے، جمادات اور چرند پرند محض اس لیے پیدا کیے ہیں کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اور تمام کائنات اس کی عظمت کو تسلیم کرلے اور اپنے خالق کی عبودیت کی معترف ہوجائے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا یہ مقصد کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔
(1) ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ (الذاریات:56)
’’میں نے جن و انس کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
(2) ’’وما خلقنا السمآء والارض وما بینھما باطلاً ذلک ظن الذین کفروا فویل للذین کفروا من النار‘‘ (ص:27)
’’او رہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے، کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا بس کفار کے لیے آگ کی ہلاکت ہے۔‘‘
سوچیئے، جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کائنات کوفضول پیدا نہیں کیا، کائنات کو اپنے بندوں کے لیے بے مقصد مسخر نہیں کیا اور ان کے لیے زمین کی تخلیق بے مقصد نہیں کی کہ یہ اس کے کناروں میں چلیں اور اس کا رزق کھائیں(یہ تمام چیزوں کے پیدا کرنے کا خاص مقصد ہے) ان کی تخلیق بے مقصد ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق کا مقصد خود ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔(3) ’’وما خلقنا السمٰوات والارض و بینھما لا عبین ما خلقنا ھما الا بالحق ولکن اکثرھم لا یعلمون‘‘ (الدخان:38، 39)
’’ہم نے آسمانوں اور زمین او ران کے درمیان کی چیزوں کو تفریح طبع کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے ناگواری کا اظہار کیا اور زجر و توبیخ کی ہے جو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے مقصد سے ناواقف ہیں او رمخلوقات الٰہیہ کو اس کی عبودیت تسلیم کرنے کا وسیلہ نہیں بناتے ۔ایسے لوگوں سے اللہ تبارک و تعالیٰ اس اندازمیں مخاطب ہیں۔’’وما خلقنا السماء والارض وما بینھما لاعبین۔ لو اردنا ان نتخذ لھوا لا تخذناہ من لدنا ان کنافاعلین۔ بل نقذف الحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق ولکم الویل مماتصفون۔ ولہ من فی السمٰوات والارض ومن عندہ لایستکبرون عن عبادتہ ولایستحسرون۔ یسبحون اللیل والنھار لا یفترون‘‘ (الانبیاء:16۔20)
’’ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے مابین (خلا) کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔ اگرہم کھیل بنانے کا ارادہ رکھتے تو اسے اپنے پاس بنا لیتے۔ اگر ہم کرنے والے ہوتے، بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینکتے ہیں، تو وہ اسے کچل ڈالتا ہے اور وہ اچانک نابود ہوجاتا ہے اور تمہارے لیے ہلاکت جو تم باتیں بناتے ہو اور اسی کے لیے جو آسمانوں او رزمین میں ہے او رجو اس کے پاس ہیں نہ تو وہ اس کی عبادت سے سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وہ دن رات تسبیح کرتے ہیں اور بالکل کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘
مزید فرمایا:’’قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون لہ اندادا ذلک رب العالمین‘‘ (فصلت:9)
’’کہیئے، کیا تم اس ذات کے ساتھ کفر کرتے ہو، جس نے زمین دو دن میں پیدا کی اور تم اس کے لیے شریک بناتے ہو، یہ ہے جہانوں کا رب۔‘‘
تعجب ہے زمین کی مخلوق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت سے کیونکر سرکش ہے جب کہ آسمان جو ان پر سائبان ہے او رزمین جس نے ان کا بوجھ اٹھا رکھا ہے یہ دونوں اللہ مالک الملک کی فرماں بردار ہیں۔’’ثم استوی الی السمآء وھی دخان فقال لھا وللارض ائتیا طوعا اوکرھا قالتا اتینا طائعین‘‘ (فصلت:11)
’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا، اس نےاسے اور زمین سے کہا خوشی یا ناخوشی تم دونوں آؤ تو انہوں نے کہا۔ ہم بخوشی حاضر ہیں۔‘‘
نیز فضا میں محو پرواز پرندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’والطیر صآفات کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ‘‘ (النور:41)
’’اور اڑنے والے پرندے اس کی تسبیح کر تےہیں ہر ایک کی نماز اور تسبیح اسے معلوم ہے او رجمادات و نباتات ، شجر و حجر او رچوپایوں کے متعلق فرمایا:
دیگر مخلوقات عقل و شعور سے تہی دست ہونے کےباوجود عقیدہ توحید سے واقف اور عبادات وتسبیحات میں مشغول ہیں، لیکن انسان عقل و شعور کے باوجود عقیدہ توحید اور عبادات سے منحرف ہے۔’’وان من شئ الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحھم (الاسراء:44)
’’او رہر چیز اس کی تسبیح بیان کرتی ہے اس کی تعریف کے ساتھ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔‘‘
اے انسان !تیری عقل کدھر گئی، تیرا دل کہاں ہے اور تمام مخلوقات سے افضل ہونے کے باوجود تو جانوروں سے کم تر کیوں ہوگیا ہے؟
انسان پر اللہ کی مار ہو کہ یہ کس قدر ناشکرا ہے، پیدا تو اسے اس کے رب نے کیا ہے لیکن یہ غیروں کے آگے جھکتا ہے۔ رزق تواسے اس کا مالک عطا کرتا ہے لیکن قدر یہ کسی او رکی کرتا ہے۔ اس کے رب نے اسے عقل و حکمت اور آدمیت کے وصف سے نواز اہے۔ لیکن یہ جانوروں سے بھی کم تر ہوچکا ہے۔ اس کی ناقدری و ناشکری اللہ تبارک و تعالیٰ کئی مقامات پر بیان کرتے ہیں:
1۔ ’’فأبی اکثر الناس الا کفورا‘‘ (الاسراء :89) ’’لیکن اکثر لوگ انکار ہی کرتے ہیں۔‘‘
2۔ ’’ولکن اکثر الناس لا یشکرون‘‘ (البقرہ:243) ’’لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘
3۔ ’’ولکن اکثر الناس لا یعلمون‘‘ (الاعراف:187) ’’لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔‘‘
لیکن انتہائی تعجب انگیز او رحسرت ناک بات یہ ہے کہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی عبودیت و الوہیت کی پہچان کا سب سے زیادہ ملکہ رکھتا تھا تمام مخلوقات کی نسبت یہی اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے کم جھکتا ہے۔ اس بات کا شکوہ اللہ تعالیٰ اس انداز میں کرتے ہیں۔4۔ ’’ولکن اکثر الناس لا یؤمنون‘‘ (ھود:17) ’’لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائی۔‘‘
غور کیجئے! اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات میں سے انسان ہی کو مستثنیٰ کیا ہے کہ باقی مخلوقات کی نسبت یہی سرکشی کرتا ہے۔مزید ارشاد ہے:’’الم تر ان اللہ یسجد لہ من فی السمٰوات ومن فی الارض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب و کثیر من الناس و کثیر حق علیہ العذاب ومن یھن اللہ فمالہ من مکرم ان اللہ یفعل ما یشآء‘‘ (الحج:18)
’’کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ کے لیے ہر وہ چیز سجدہ کرتی ہے ، جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں اور سورج اور چاند اور ستارے او رپہاڑ اور درخت اور چوپائے اور لوگوں کی کثیر تعداد (اسی کے سامنے سجدہ ریز ہوئی ہے) او ربہت سے لوگ وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا ہے او رجسے اللہ ذلیل کردے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں بے شک اللہ جو چاہے کرتا ہے۔‘‘
فمنھم من امن و منھم من کفر‘‘ (البقرہ:253) ’’او ران میں سے بعض ایمان لائے اور بعض نےکفر کیا۔‘‘
اللہ کے بندو! ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جو مادی اعتبار سے بہت ترقی یافتہ ہے، جس میں فلسفیانہ نظریات کا عروج، عسکری اسلحہ سے مسلح اقوام کا تسلط ہے، جن کی روح میں انانیت اور دشمنی بھری ہے، زمین میں برتری کابھوت سوار اور کھیتی او رنسل کی ہلاکت کے درپے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فتنہ و فساد کو ناپسند کرتے ہیں۔موجودہ معاشرہ پیاسی انسانی روح کو رحمت، اطمینان، حکمت، عدل اور ایثار دینے سے قاصر ہے۔معاشرہ بدامنی اور ظلم کی اس انتہاء کو جاپہنچا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تین مہلک چیزیں عالمی سیاست پر غالب ہیں۔ (1) روحوں کا خالی پن (2) تاریخی حقائق کی جعل سازی (3) فوجی دباؤ۔’’ وما اکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین‘‘ (یوسف:103)’’اگر آپ حریص بھی ہوں تب بھی لوگوں کی اکثریت ایمان نہ لائے گی‘‘
جس کی وجہ سے امن و سلامتی کو حماقت ، رحمت و شفقت کو بے بسی او رعدل و انصاف کو کمزوری کا رنگ دیا گیا ہے۔ جو شخص عدل و انصاف کے نام سے اپنا حق لینا چاہیے اسے نادان سمجھا جاتا ہے او رجو ظلم و جور کے بغیر خوش حال اور ترقی کا امیدوار ہو اسے ایسے لاغر کمزور کی طرح سمجھا جاتا ہے جو گھٹنوں کے بل کھڑا ہو او ردھکیلنے سے پہلے ہی روپڑے (یعنی ایسے عزائم و خواہشات کو فضول سمجھا جاتا ہے او رمعاشرتی ترقی او رحق حاصل کرنے کا یہ ذہن بن چکا ہے کہ ہم تمام چیزیں ظلم و جور اور بزور بازو ہی حاصل ہوسکتی ہیں)
صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ ظلم ہی کو عدل سے اور جنگ و جدل کو امن و سلامتی سے تعبیر کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اقوام عالم میں سیاسی، معاشی اور فوجی کئی طرح کی زیادتیاں اور ظلم و جور روا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اقوام میں امن و سلامتی سراب معلوم ہوتی ہے۔
ان ساری زیادتیوں، مظالم اور عدل و انصاف کی بے ترتیبی کی اصلاح کا راز یہ ہے کہ امن و سلامتی کی حقیقی وضاحت کی جائے۔ جی ہاں، اسلام میں امن و سلامتی ، اطمینان، سکنیت و استقرار کا باعث ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو حاک، عادل ،معبود کی عبودیت کو ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو تمام کائنات کا خالق مالک اور رازق اس پر ایمان لایا جائے، اسلام سلامتی والا دین ہے کہ جسے اللہ مالک القدوس نے شریعت کا درجہ دیا ہے، دین اسلام میں یہ وصف ہے کہ اس کے آگے پیچھے او رکسی بھی سمت سے باطل دخل انداز نہیں ہو سکتا ۔ اسلام اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء میں سے مبارک اسم بھی ہے۔ اسلام انسانوں کے رب کا انسانیت کی طرف امن و سلامتی کا پیغام بھی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
انسان جتنی بھی محنت کرلے، علوم و معارف کو کتنا ہی استعمال کرلے اور وسائل کو کتنا ہی تصرف میں لائے، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں سے ذرہ برابر چیز حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’ومن احسن دینا ممن اسلم وجھہ وھو محسن و اتبع ملۃ ابراھیم حنیفا و اتخذ اللہ ابراھیم خلیلا‘‘ (النساء :125)
’’دین کے اعتبار سے اس سے اچھا کون ہے جواپنے چہرے کو اللہ کا مطیع کرلے اور وہ نیکو کار بھی ہو او رملت ابراہیم کا یکسوئی سے تابع ہو او راللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو دوست بنایا ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:’’ولا یحیطون بہ علما‘‘ (طہٰ:110) ’’او روہ علم کے ذریعے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔‘‘
اس حقیقت کے مطابق انسانیت اللہ تعالیٰ کی عظمت و وقار کو تسلیم کیوں نہیں کرتی جس نے انہیں مرحلہ وار پیدا کیا ہے۔ امن و سلامتی والے دین کے انتخاب کے سوا انسانوں کی اصلاح اور ظلم و جور کے خاتمہ ناممکن ہے ۔ تاریخ انسانیت میں کوئی مذہب، دین، فکری تحریک ایسی نہیں ملتی جو دین اسلام سے زیادہ شفیق ، مہربان اور عدل پسند ہو، اسلام کے مہربان اور امن و شانتی کا دین ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ باتفاق المسلمین حالت جنگ میں بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا جائز نہیں اور نہ ہی درخت کاٹنا جائز ہیں۔ اس دین سے زیادہ امن و سلامتی کا علمبردار کون سا دین ہوسکتا ہے۔’’ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بماشا‘‘ (البقرہ:255)
’’وہ اس کے علم میں سے کچھ بھی احاطہ نہیں کرسکتے سوا اس کے جو اس کی مشیت ہو۔‘‘
لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمان دولت کی چمک اور فلسفیانہ نظریات کی طرف سرپٹ بھاگتے ہیں اور اسلام کی ایسی توجیہ بیان کرتے ہیں جس کے بارے میں شریعت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ وہ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔ بلا شبہ جیسے جیسے اسلام کے مفہوم کی تعیین میں بیداری اور فکر کمزور ہوگی مسلمان بناوٹی اسلام کے گرداب میں مزید سرگرداں ہوں گے۔ وہ اس کے رنگ کی طرف متوجہ ہوں گے لیکن اس کے ذائقے سے محروم ہوں گے۔ یہ دھوکہ باز کے آنسو تو دیکھیں گے لیکن اس کے عزائم سے کوتاہ نظر رہیں گے۔ انہیں یہ تو علم ہے کہ سانپ ڈستا ہے مسکراتا نہیں، لیکن ان سے وہ لوگ مخفی ہیں جو ڈس کر بھی ہنستے ہیں۔
ابوحاتم بستی نے اپنے ایک استاد کی بیان کردہ بڑی ہی عمدہ مثال بیان کی۔ وہ کہتے ہیں: ایک شکاری تیز آندھی والے دن چڑیوں کا شکار کررہا تھا کہ تیز آندھی سے غبار اس کی آنکھوں میں داخل ہوا تو اس کی آنکھیں بہنےلگیں ،پھر وہ جو بھی چڑیا شکار کرتا اس کے پر توڑ کر اسے اپنے تھیلے میں ڈال دیتا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک شخص نے اپنے ساتھی سے کہا۔ یہ چڑیوں پر کس قدر مشفق و مہربان ہے ، چڑیوں کی تکلیف پر تم اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو نہیں دیکھ رہے۔ دوسرے ساتھی نے کہا۔ اس کی آنکھوں کے آنسو نہ دیکھو بلکہ اس کے ہاتھوں کا کردار ملاحظہ کرو۔لہٰذا اسلام کو ایک زاویے سے نہ دیکھو بلکہ مکمل اسلام کو من و عن قبول کرو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ ظلم و انانیت کے قوانین کی قید سے رہائی حاصل کرے او راسلام مخالف افکار کی زنجیریں او رطوق اتار پھینکے تاکہ وہ اسلام کی عظیم الشان عمارت میں ایک اچھی اینٹ ثابت ہو، اسلام ایسی عمارت ہے جس کا تعمیر کار نہ کبھی ناکام ہوا ہے او راسے گھر بنانے والا کبھی نادم نہیں ہوا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حقیقی پہچان اوراس کی نازل کردہ شریعت پر ایمان واحد راستہ ہے جو حقیقی اور جعلی اسلام کے درمیان بنیادی فارق ہے کیونکہ اسلا م میں سلامتی سے مراد صدق و عدل او رامانت و مہربانی ہے جبکہ سلامتی کی جعلی تعبیر ذاتی مفاد، بے تحاشا قوت حاصل کرنا، او راپنے سے قوی تر سے ہمدردیاں لینا ہے۔یاایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کآفۃ ولا تبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدومبین٭ فان زللتم من بعد ماجاء تکم البینات فاعلموا ان اللہ عزیز حکیم‘‘ (البقرہ:208، 209)
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نشانات قدم کی پیروی نہ کرو بلا شبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ پھر اگر تم واضح دلائل آنے کے بعد (راہ حق سے )پھسل گئے تو جان لو کہ اللہ بہت غالب نہایت دانا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے غالب آنے کی صورت میں ان بُرے کردار پریوں روشنی ڈالی ہے۔
اللہ تعالیٰ میرے لیے اور تمہارے لیے قرآن حکیم کو مبارک بنائے اور اس کی آیات اور ذکر کریم کو ہمارے لیے نفع مند بنائے، جو خطبہ میں نے بیان کیا ہے اگریہ حق پر مبنی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے اور اگر اس میں کوئی غلط وغیرہ ہے تو یہ میری اور شیطان کی طرف سے ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے خطاوؤں کی معافی چاہتا ہوں یقیناً وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔’’انھم ان یظھر و اعلیکم یرجموکم او یعیدوکم فی ملتھم ولن تفلحوا اذا ابدا‘‘ (الکہف:20)
’’بلا شبہ اگر وہ تم پر غالب آگئے تو وہ تمہیں رجم کردیں گے یا تمہیں اپنے دین میں لوٹا دیں گے اور تب تم ہرگز کامیاب نہ ہوگے۔‘‘
دوسرا خطبہ :
اللہ تعالیٰ کے احسان پر سب تعریف اس کے لائق ہے اور اس کی توفیق پر اس کا شکر ہے ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تنہا ہے اس کی عظمت کے پیش نظر اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ پر، آپؐ کی آل و ازواج اور اصحاب و اخوان پر درود و سلام بھیجے۔
حمد و ثنا کے بعد!
سامعین محترم! جب ہم اسلام کے عظیم قانون امن و سلامتی کے متعلق بحث کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مذہب اسلام ہی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ انسانیت کو گھپ اندھیروں اور عقائد و اخلاق او رافکار و عساکر کی چیرہ دستیوں سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔ جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں تو ہماری یہ مراد نہیں ہوتی کہ اسلام زوال، جھکنے او رعاجزی کا متقاضی ہے (بلکہ اسلام میں عروج اور بلندی ہے) چنانچہ جو امت صرف خالق حقیقی کے سامنے جھکتی ہو ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی او رطاقت کے سامنے جھکے گی۔ جو امت اللہ تعالیٰ کی پہچان رکھتی ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت سے ناواقف اقوام اس پر کبھی غلبہ نہیں پاسکتیں بشرطیکہ وہ اسلام پر مکمل عمل پیرا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قرآن مجید میں لفظ السلام یعنی سلامتی ، چوالیس مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جب کہ حرب (جنگ) کا لفظ قرآن میں فقط چھ مقامات پر آیا ہے۔ اور مسلمان نبیﷺ کی اقتداء میں لفظ ’’السلام‘‘ کا روزانہ دس مرتبہ استعمال کرتے ہیں، کیونکہ نبیﷺ جب نماز سے سلام پھیرتے تو یہ کلمات کہتے تھے، تین مرتبہ’’السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر‘‘ (الحشر:23) ’’وہ سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبان، زورآور اور بڑائی والا ہے۔‘‘
زمین میں معتبر دین سلامتی والا (اسلام) ہی ہے اور زمین میں مسلمانوں کے دعائیہ کلمات باہمی سلام ہے، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:استغفر اللہ، اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذوالجلال والاکرام ( رواہ مسلم)
’’ اے اللہ تو سلامتی والا ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے تو بابرکت ہے اے شان و اکرام کے مالک۔‘‘
’’أفشوا السلام بینکم‘‘ ’’آپس میں سلام پھیلاؤ‘‘ (رواہ مسلم)
اسلام اس قدر امن و سلامتی کا پیکر ہے کہ دوران جنگ اگر دشمن سلام کا لفط زبان سے بولے تو اسے مسلمان خیال کرنا او راس سے لڑائی روک لینا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یہ تو دنیا میں سلامتی کا حال ہے تو جنت میں آخرت کا گھر بھی سلامتی والا ہی ہے۔یاایھا الذین امنوا اذا ضربتھم فی سبیل اللہ فتبینوا ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مؤمناتبتغون عرض الحیٰوۃ الدنیا فعند اللہ مغانم کثیرۃ کذلک کنتم من قبل فمن علیکم فتبینوا ان اللہ کان بما تعملون خبیرا‘‘ (النساء:94)
’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جارہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ، تم دنیاوی زندگی کے اسباب چاہتے ہو، (لیکن) اللہ کے پاس تو بے شمار غنیمتیں ہیں۔ پہلے تم بھی ایسے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ۔لہٰذا تحقیق کرلیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو، اس سے بہت باخبر ہے۔‘‘
فرمان باری تعالیٰ ہے:
جس دن اہل ایمان کی رب تعالیٰ سے ملاقات ہوگی تو ان کے دعائیہ کلمات سلام ہی ہوں گے۔ ’’تحیتھم یوم یلقونہ سلام و اعدلھم اجرا کریما‘‘ (الاحزاب:44)’’جس دن یہ اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے باعزت اجر تیار کررکھا ہے ۔اور فرشتے جب جنتیوں کے پاس حاضر ہوں گے تو وہ ان پر سلام پیش کریں گے۔‘‘’’واللہ یدعو الی دارالسلام و یہدی من یشآء الی صراط مستقیم ‘‘ (یونس:25)
’’او راللہ تعالیٰ سلامتی والے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘
نیز مومنوں کی جنتی زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ وصف بیان کیا ہے؟’’والملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب۔ سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار‘‘
’’اور فرشتے ان کے پاس ہر دروازے سے داخل ہوں گے (اور کہیں گے) تم پر سلامتی ہو اس چیز کے سبب جو تم نے صبر کیا پس آخرت کا انجام بہت شاندار ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ میرے لیے اور تمہارے لیے قرآن مجید کو بابرکت بنائے۔’’لا یسمعون فیھا لغوا ولاتاثیما۔٭ الا قیلا سلاما سلاما ‘‘ (الواقعہ:25، 26)
’’وہ اس میں لغو او رگناہ کی بات نہ سنیں گے ، صرف سلام سلام کہا جائے گا۔‘‘
سامعین محترم ! یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ایسا حکم دیا ہے، جس کا آغاز اس نے اپنی ذات سے ، پھر فرشتوں سے کیا ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ان اللہ وملائکۃ یصلون علی النبی یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیما‘‘
اللھم صل وسلم علی عبدک و رسولک محمد، وعلی آلہ و أصحابہ التابعین، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، وعنا معھم بعفوک وجودک و کرمک یا أرحم الراحمین۔
اللھم أعز الإسلام والمسلمین، اللھم أعز الإسلام والمسلمین، اللھم أعز الإسلام والمسلمین، اللھم انصر دینک و کتابک و سنۃ نبیک و عبادک المؤمنین۔
اللھم فرج ھم المھمومین من المسلمین و نفس کرب المکروبین، واقض الدین عن المدینین، واشف مرضانا و مرضی المسلمین برحمتک یا أرحم الراحمین۔
اللھم آت نفوسنا تقواھا، وزکھا انت خیر من زکاھا، أنت ولیھا و مولاھا، برحمتک یا أرحم الراحمین۔
اللھم آمنا فی أوطاننا، و أصلح أئمتنا وولاۃ أمورنا، واجعل ولا یتنا فیمن خافک و اتقاک، واتبع رضاک یارب العالمین۔
اللھم وفق ولی أمرنا لما تحبہ و ترضاہ من الأقوال و الأعمال یا حیی یا قیوم ، اللھم أصلح لہ بطانتہ یا ذا الجلال والإکرام۔
اللھم أنت اللہ لا إلہ إلا أنت، أنت الغنیی و نحن الفقراء، أنزل علینا الغیث ولا تجعلنا من القانطین، اللھم أنزل علینا الغیث ولا تجعلنا من القانطین، اللھم أنزل علینا الغیث ولا تجعلنا من القانطین، اللھم لا تحرمنا خیر ما عندک بشر ما عندنا برحمتک یا أرحم الراحمین۔
اللھم إنا خلق من خلقک فلا تمنع عنا بذنوبنا فضلک یا ذا الجلال والإکرام۔
(ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) (البقرہ:201)
سبحان ربنا رب العزۃ عما یصفون ، وسلام علی المرسلین، وآخر دعوانا أن الحمدللہ رب العالمین
۔۔۔۔۔:::::۔۔۔۔۔