سمیع اللہ سعدی کی تحریر پر کچھ اہم تبصرے :
غلام نبي مدني :
چند دن پہلے جامعی صاحب کے ایک شاگرد دوست سے ملاقات ہوئی،یہی کچھ انہوں نے بتایا،توہین رسالت پر غامدی صاحب کے رد میں جامعی صاحب کا مضمون بھی دیا،جسے پڑھ کر غامدی صاحب کے تضادات کااندازہ ہوا۔المیہ یہی ہے کہ ہم مغرب کے تصورات کو سمجھے بغیر محض اصطلاحات پر اعتماد کرکے انہیں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں،پھر اسے اسلامیانے کی جسارت بھی کرتے جاتے ہیں۔نتیجتا کشمکش کا سلسلہ دراز ہوجاتاہے۔مغرب کا تصور جمہوریت اور تصور آزادی اس کی زبردست مثالیں ہیں۔
Syed Mateen Ahmad :
بہت خوب سعدی صاحب ۔ عمدہ نکات کا خلاصہ آ گیا ہے۔ جامعی صاحب غنیمت شخصیت ہیں۔ فون پر ان سے سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ کچھ باتوں پر تحفظ پیش کرنا چاہوں گا :
یہ جو کہا کہ "۳۔کتب و لائبریریز کا قیام کسی معاشرے کے متمدن اور تعلیم یافتہ ہونے کے لیے ایک مغربی معیار ہے ،اس معیار کے مطابق اسلامی تاریخ کا سب سے پست دور (نعوذ باللہ)دور نبوت و دور صحابہ ہے ،کہ نہ کسی بڑی لائبریری کا ثبوت ملتا ہے ،اور نہ ہی کتب و مصنفین کی کثرت کا،حالانکہ اسلامی ڈسکورس میں یہ سب سے اعلی ترین دور ہے ۔"
---------------
یہ جامعی صاحب کا بہت افسوس ناک کمنٹ ہے۔ صحابہ کے دور میں اس چیز کا چلن ہی کہاں تھا۔ بہت سی چیزیں صحابہ کے دور میں نہ تھیں، مگر مسلم تاریخ کے امتیاز کے طور پر انھیں پیش کیا جاتا ہے۔ لائبریریوں کا قیام مغرب کی روایت نہیں بلکہ خود مسلم دنیا کی روایت رہی ہے اور اپنے عہد میں تمدن کی علامت ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔محمد حسن عسکری کی تحریروں میں جدیدیت کے خلاد بڑا مواد موجود ہے ،فرمایا کہ ان کی تحریروں سے اس مواد کو یکجا کر رہا ہوں ۔
----------------------
حسن عسکری کے خلاف "ساحل " میں کسی دور میں کافی سخت باتیں بھی لکھی گئی تھیں۔ دارالعلوم سے "جدیدیت" کے اخراج کی طرف بھی بعض "خاص" اشارات کیے گئے تھے۔ خالد صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ کہیں مکتب روایت کی زہرناکیوں سے خود ہی وہ کام نہ کر بیٹھیں جس سے دوسروں کو ڈراتے رہے ہیں۔
انس حسان :
1_ جامعی صاحب کی قابلیت اوروسعت مطالعہ میں شک نہیں۔ لیکن میراتاثرانہیں پڑھ کرہمیشہ یہ قائم ہواکہ وہ خوداپنےفکری مقدمات میں تذبذب اوربےیقینی کاشکارہیں۔ اس پرمستزادان کااپنےبارےاناالحق اوردیگربارےجہل مطلق والارویہ بھی کبھی دل کونہیں بھایا۔ممکن ہےمیراتاثرغلط ہو۔
2_ اسلام اورمغرب کی باہمی کشمکش ایک عرصہ سےجاری ہے۔ اس حوالےسےمعاصراسلامی فکرمیں جامعی صاحب اوران کےحلقے نےجوکام شروع کیاتھاوہ بتدریج ایک دوسری انتہاکی طرف جاتانظرآرہاہے۔ اس حوالےسےڈاکٹرمحموداحمدغازی کااسلوب معتدل نظرآتاہےجواگرچہ مغرب کےسخت ناقدہیں مگرپھر بھی ''خذ ماصفاودع ماکدر''کارویہ اپنانےکی دعوت دیتےہیں۔
3_ سائنسی اورعلمی ترقی کل انسانیت کامجموعی ورثہ ہے۔ اسےمذہب اورقومیت سےبالاترہوکردیکھنےکی ضرورت ہے۔ جب تک مسلمان دنیاپرغالب رہےاس کی باگ ان کےہاتھ میں رہی اورجب سےمسلمان مغلوب ہوئےاس عمل کومغرب نےجاری رکھاہے۔ ہاں البتہ مغرب کی سائنسی ترقی چونکہ مسلمانوں کےبرعکس سرمایہ داریت کی مرہون منت ہوکررہ گئی ہےاس لیےاس پربات کرنےکی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سےاس طرف کسی کی توجہ نہیں۔
4_ اسلام اورمغرب کےمعیارات میں گوبین فرق ہےلیکن وہ معیارات جن پرقوموں کی ترقی کاانحصارہواسلام کامجموعی رویہ اسےقبول کرنےکاہے اورکسی جدیدچیزکومحض اس لیےترک نہیں کیاجاسکتاکہ یہ مغربی معیار کےسانچےمیں ڈھلی ہے۔
5_ نامعلوم یہ بات کس بناپرکہی گئی کہ اسلام فردکواحکامات کامخاطب بناتاہے ناکہ ادارےکو۔حالانکہ اسلام میں فرداورادارہ دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ تاہم اسلام کےاجتماعی احکامات میں ادارےکواکثر فردپراہمیت دی گئی ہے۔چونکہ دورحاضراداروں کادورہےتومحض اس بناپراس کورد کر دیناکہ اس کامرجع مغرب ہے،قطعی درست نہیں۔ اس حوالےسےلامحالہ اسلامی احکامات کےمجموعی مزاج کودیکھناہوگا۔
6_ جدیدیت اورمابعدجدیدیت کےحوالےسےموافق ومخالف جوکچھ تحریری ذخیرہ آج موجودہےوہ بجائےخودکئی جہات سےتنقیح کامتقاضی ہے۔
Ali Imran:
اگرچہ ہمارا دل، ہمارا مزاج اور خواہش یہی ہے کہ ہم مغربی نظم اور اس سے جڑے کئ سارے سارے فوائد کا مطلقاً انکار نہ کریں، بلکہ ان سے مفید چیزیں چن لیں اور نقصان دہ کو چھوڑ دیں، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس نظم کے ساتھ اس کا فلسفہ بھی ساتھ چلا آیا تھا اور مابعد طبیعی اثرات بھی..عصری علوم کے سلسلے میں تجربہ اس کا شاہد ہے.
Zahid Mughal :
سمیع اللہ سعدی بھائی نے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کی فکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تعریفی کلمات سے بھرپور پوسٹ لگائی ہے اور ساتھ ہی ان کے افکار کے لئے "انصاری سکول آف تھاٹ" کی اصطلاح بھی استعمال فرما دی ہے
صرف یہ وضاحت کرنا مقصود ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ اس امر کی شعوری کوشش کی کہ ہمیں الگ گروہ (فرقہ) نہ سمجھ لیا جائے۔ انہوں نے طلباء پر اس بات پر شدو مد کے ساتھ زور دیا کہ اپنے مضامین میں ان خیالات کو ڈاکٹر صاحب کا نام کوٹ کرکے پیش نہ کیا کریں، نہ ہی ان خیالات کو بیان کرنے کے لئے کوئی الگ شناخت قائم کرنے کی کوشش کریں۔ جب کبھی کسی نے ایسا کیا ڈاکٹر صاحب نے اس کی حوصلہ شکنی کی (اس کا تجربہ خود بندے کو بھی ہوا)۔ تقریبا ہر ذھین انسان کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے ماقبل لوگوں کے مقابلے میں کچھ نئے افکار پیش کرجاتا ہے، نیتیجتا وہ افکار ایک مجموعی فکر بننے کے بجائے ایک گروہ کے نام سے متعارف ہوکر مخصوص مخاطبین تک محدود ہوجاتے ہیں (مثلا جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی وغیرہ)۔ اسی بنا پر ڈاکٹر صاحب نے اس رویے کی حوصلہ شکنی کی اور یہی کہا کہ آپ کو چاہئے کہ کسی نہ کسی دینی جماعت کے رکن بنیں اور یہاں مغرب کے بارے میں جو کچھ سیکھتے ہیں ان خیالات کو اپنی اپنی دینی جماعتوں میں متعارف کروائیں تاکہ یہ فکر مختلف دینی جماعتوں کی فکر بن سکے اور ایک مجموعی لائحہ عمل مرتب کیا جاسکے، ھمیں ایک علیحدہ "سکول آف تھاٹ" نہیں بننا۔ اس سٹڈی سرکل (جو ڈاکٹر صاحب نے قائم کیا) کی حیثیت تمام راسخ العقیدہ دینی جماعتوں کے تھنک ٹینک کی ہے جس کا مقصد ان جماعتوں کو "فرعون کے دربار" (مغرب) کی خبر پہچنانا ہے اور بس۔