- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
اس تحریر پر زاہد صدیق مغل صاحب کا تبصرہ :مغرب زدہ
تحریر :حافظ محمد زبیر (@ابوالحسن علوی )
مسلم معاشروں میں دو قسم کے طبقات مغرب زدہ ہیں؛ ایک وہ جو مغرب کو پڑھ کر اس سے متاثر ہو گئے اور دوسرے وہ جو مغرب کو پڑھ کر رد عمل کی نفسیات [psychology of reaction] کا شکار ہو گئے۔ یہ دوسرا طبقہ اگرچہ مغرب کا شدید ناقد ہے لیکن مغرب نے ان پر پہلے طبقے سے زیادہ گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ اثر نیوٹن کے تیسرے قانون کے عین مطابق ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے جو قوت میں برابر لیکن سمت میں مخالف ہوتا ہے۔
مغرب کے فکری اثر سے اگر کوئی طبقہ کسی قدر محفوظ ہے تو وہ، وہ طبقہ ہے جسے مغرب کو پڑھنے کی نعمت میسر نہیں ہے یا آسان الفاظ میں جنہیں اتنی انگریزی نہیں آتی کہ وہ مغرب کو پڑھ سکے اور اس پڑھنے کے نتیجے میں اس سے متاثر ہونے کے اسباب اور رستے ہی پیدا کر سکے۔
پس سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں اگر کوئی معتدل رائے سامنے آ سکتی ہے تو اس کی امید روایتی علماء کے طبقے سے کی جا سکتی ہے۔ اور ان سب کا اس پر تقریبا اتفاق ہے کہ ٹیکنالوجی ویلیو نیوٹرل ہے، بھلے انہوں نے ان الفاظ کو استعمال نہ کیا ہو یا وہ ویلیو نیوٹرل کی اصطلاح کو نہ جانتے ہوں لیکن ان کے فتاوی کا خلاصہ یہی ہے، جمع کر کے دیکھ لو۔
ٹیکنالوجی کے بارے میں جو رائے "انصاری" مکتب فکر نے پھیلا اور عام کر دی ہے، وہ نہ تو سو فی صد درست ہے اور نہ ہی سو فی صد غلط ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے نوجوان اسکالرز کی ایک ایسی جماعت ضرور پیدا کر دی ہے جو اسمارٹ فون جیب میں رکھ کر اس کی شناعت ومضرت پر ایسی عمدہ گفتگو کر سکتے ہیں کہ کسی دار العلوم کے آخری درجہ کے طلباء تو کجا دار الافتاء کے مفتی بھی مسحور ہو جائیں۔
یہ اس ماڈرن سوسائٹی میں رہتے ہوئے ٹیکنالوجی کے استعمال نہ کرنے کے بارے ایک ایسے شاذ موقف پر ضد کر رہے ہیں کہ جس میں امت تو کجا ان کی اولاد کو بھی پناہ نہیں ملے گا۔ یہ دین ایسے موقف کا حامل کیسے ہو سکتا ہے کہ جس پر اربوں کی امت کی بجائے چار افراد کو لانا مشکل ہو جائے۔ فقہاء اور مفتی بھلے مغرب کو ککھ نہ جانتے ہوں، اور یہ ان کی خوبی ہے اور تمہاری خامی ہے، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ کل کلاں کو تمہاری نسلیں بھی انہی کے بیانیے کی روشنی میں زندگی گزار رہی ہوں گی۔
جدید ٹیکنالوجی کے ضرر اور نقصانات سے انکار نہیں ہے لیکن اس کے بارے جو موقف آپ لوگ پیش کر رہے ہیں، وہ امت کو ایک فتنے سے نکال کر دوسرے فتنے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ اور اس رہبانیت کے لیے صوفیانہ ڈسکورس سے کمک لینا مزید ایک حماقت ہے کہ وہ سب کا سب ضعیف اور موضوع روایات پر کھڑا ہے۔ امت اگر مجموعی حیثیت میں کسی ڈسکورس پر کھڑی ہو سکتی ہے تو وہ فقیہانہ اور قانونی ہے نہ کہ صوفیانہ اور اخلاقی۔ صوفیانہ اور اخلاقی ڈسکورس کوئی علمی پوزیشن لینے کے لیے بنیاد بن ہی نہیں سکتا، البتہ اس سے کسی علمی پوزیشن میں اعتدلال لانے کے لیے ضرور مدد لی جانی چاہیے۔
یہ صوفیانہ ڈسکورس ہی کے فضائل وبرکات ہیں کہ آج اکثر کو صحیح بخاری کی اس مستند ترین روایت کا علم نہیں ہے کہ بڑے گھر اور کھلے مکان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نعمت اور فضل قرار دیا لیکن یہ ضعیف روایت سب کو حفظ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے "چوبارہ" بنانے کو اتنا ناپسند فرمایا کہ انہوں نے اسے گرا دیا تھا۔ ایک اور اعتبار سے بھی عرض کر دوں کہ یہ امت اپنی اجتماعی حیثیت میں گناہ گار ہے، لہذا اسے چلانے کے لیے گناہ گار مفتی زیادہ کارآمد ہیں، بنسبت متقی صوفیوں کے۔ مزید تفصیل اگر اللہ نے چاہا تو کسی مستقل تحریر میں عرض کر دوں گا۔
چند گزارشات مختصرا عرض ہیں:
- انصاری سکول آف تھاٹ نامی کسی الگ چیز کا وجود نہیں
- کسی معاملے کے بارے میں رائے درست ہونے کا معیار یہ رکھنا کہ جس نے متعلقہ چیز کا مطالعہ نہیں کیا اس کی بات درست ہے، یہ کچھ دلچسپ و عجیب ہے۔ علماء کی تو ایک اکثریت کا یہ بھی حال ہے کہ ان کے نزدیک سائنس اور سوشل سائنس بھی ماشاء اللہ سے ویلیو نیوٹرل ہی ہے۔ اب اگر بالفرض کوئی شخص آپ کے "قرآن کے نظریہ تاریخ" کا لیکچر سن کر یہی کہے کہ یہ ایسی باتیں اس لئے کررہا کیونکہ اس نے مغربی نظریات کو پڑھ رکھا ہے" تو؟ چنانچہ متعلقہ علم سے ناواقفیت نہ تو کوئی "خوبی" ہے اور نہ ہی "غیر متاثر" ہونے کی دلیل، سائینس و ٹیکنالوجی کو لاعلمیت کی وجہ سے ویلیو نیوٹرل سمجھنا بھی متاثر شدہ رائے ہی ہے جو کچھ مغربی مفکرین ہی کے راستے ہمارے یہاں آئی ہے اور لوگ اس سنی سنائی سے متاثر شدہ ہیں
- اس رائے پر کئے جانے والا یہ اعتراض کہ "یہ راے قابل عمل نہیں" بنیادی طور پر نیا نہیں بلکہ خاصا پرانا ہے اور اس پر کافی کچھ پہلے بھی کہا جاچکا ہے۔ بجائے وہ سب دھرانے کے لئے میں اسی تناظر میں جواب دینا پسند کروں گا۔ مثلا کوئی شخص پردے کے مسائل پر آپ کی کتاب پڑھ کر یہ دلیل دے کہ دیکھئے ایسی بات لکھی ہے جس پر بایں معنی عمل ممکن نہیں کہ خود مصنف اور پاکستان کا تقریبا ہر دوسرا شخص ایسی ہی کسی جامعہ میں پڑھتا پڑھاتا ہے تو ایسی لاحاصل فکر کا کیا فائدہ؟ اس قبیل کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ کسی رائے کے اصولا درست ہونے کے لئے یہ اصول محل نظر ہے کہ آیا وہ قابل عمل ہے یا نہیں، اگرچہ قابل عمل ہونے کو ہم غیر ضروری نہیں سمجھتے۔ کسی معاملے میں ایک رائے سو فیصد درست ہوسکتی ہے اگرچہ اس پر عمل ایک فیصد بھی ممکن نہ ہو۔ ہم نے انصاری صاحب یہ سیکھا ہے کہ تجزیہ کرتے ہوئے یہ نہ دیکھو کہ کیا ممکن ہے بلکہ یہ دیکھو کہ مقصود اصول کی رو سے کیا درست ہے۔ پھر یہ دیکھو کہ اس پر کس قدر عمل ممکن ہے، عین ممکن ہے کہ آخر میں نتیجہ یہ نکلے کہ "آج اس پر ایک فیصد بھی عمل ممکن نہیں" مگر اس طرز فکر کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمہیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ آج کو کس سمت بدلنا چاھئے۔
- رہی بات صوفیانہ طرز فکر پھیلانے کی تو یہ ایک نظریاتی و حکمت عملی کی چیز ہے، اس سے ضرور اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
- آخری اور اہم بات۔ ہمیں اس بات پر بالکل اصرار نہیں کہ ہماری ہی رائے درست ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی کے جنت و جہنم میں جانے کا انحصار اس معاملے میں ہماری بات پر ایمان لانا ہے۔ عین ممکن ہے ھماری رائے بالکل غلط ہو۔