• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور عورت

amateen777

رکن
شمولیت
اپریل 02، 2015
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
59
انس رضي الله عنه سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ ایک آدمی تھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اسے بوسہ دیا اور اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ آپ نے فرمایا: تم نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا؟
(سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني 2883 )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں دو کمزوروں ایک یتیم اور ایک عورت کا حق مارنے کو حرام قرار دیتا ہوں.
(سنن ابن ماجه 3678)

ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے ،اس میں سے کچھ لے لو ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کُھلی بُرائی اور بے حیائی کریں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو ،گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُرا جانو ،اور اللہ تعالٰی اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔
(سورة النساء 19)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے میرے باپ نے اپنا کچھ مال ہبہ کیا تو میری ماں عمرہ بنت رواحہ نے کہا میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ نہ بنالے میرے والد مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے ہبہ پر گواہ بنائیں۔ تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اپنے سب بیٹوں کے ساتھ ایسا کیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو ۔ میرے والد لوٹے اور ہبہ واپس کرلیا ۔
(صحيح مسلم)

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم لوگ عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ اللہ کی امانت کے ساتھ انہیں حاصل کیا ہے اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو حلال سمجھا ہے اور تمہارے لئے ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ایسے کسی آدمی کو نہ آئے دیں کہ جن کو تم ناپسند کرتے ہو اگر وہ اس طرح کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو مگر ایسی مار کہ ان کو چوٹ نہ لگے اور ان عورتوں کا تم پر بھی حق ہے کہ تم انہیں حسب استطاعت کھانا پینا اور لباس دو۔
(صحيح مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی بندیوں کو نہ مارو ، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: (آپ کے اس فرمان کے بعد) عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہو گئی ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے اور تادیب کی رخصت دے دی، پھر عورتیں اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر ازواج مطہرات کے پاس پہنچنے لگیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سی عورتیں اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر محمد کے گھر والوں کے پاس پہنچ رہی ہیں، یہ (مار پیٹ کرنے والے) لوگ تم میں بہترین لوگ نہیں ہیں ۔
(سنن ابي داود 2146)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا کہ تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہمبستری بھی کرتے ہیں۔
(صحيح البخاري 4942)

حجة الوداع میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور (لوگوں کو) نصیحت کی اور انہیں سمجھایا۔ پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس (ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا ہے) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علاحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو، سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھا سلوک کرو“۔

(سنن الترمذي 1163)

نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے والد انہيں لے كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور كہنے لگے:

" ميں نے اپنے اس بيٹے كو ايك غلام ہبہ كيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا تو نے اپنے سب بيٹوں كو اسى طرح ( غلام ) ہبہ كيا ہے ؟

تو انہوں نے عرض كيا: نہيں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

تو اس سے غلام واپس لے لو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2446 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1623 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" والد پر اپنى اولاد بيٹے اور بيٹيوں ميں وراثت كے مطابق عدل كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان ميں سے كسى اور كو مخصوص كر كچھ دے اور دوسروں كو نہ دے، ليكن اگر محروم اولاد كى رضامندى اور خوشى سے ايسا كرے تو جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ جب وہ ہوشيار ہوں تو پھر جائز ہے، وگرنہ نہيں، اور ان كى رضامندى والد كے خوف اور ڈر سے نہ ہو بلكہ وہ اس ميں اپنے دل سے رضامند ہوں، نہ كہ والد كے خوف سے، ہر حالت ميں ان كے درميان افضليت نہ دينا بہتر اور اچھا ہے اور ان كے دلوں كے ليے بھى زيادہ پاكيزہ ہوگا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

اللہ تعالى سے ڈرو اور اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف سے كام لو "

متفق عليہ. انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 452 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" بلاشك و شبہ اولاد ميں سے كچھ بچے دوسرے سے بہتر اور اچھے ہوتے ہيں، يہ تو سب كو معلوم ہے، ليكن اس بنا پر والد كے ليے كسى ايك كو افضليت دينى جائز نہيں، بلكہ اسے عدل و انصاف كرنا چاہيے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى سے ڈرو اور اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف كيا كرو "

اس ليے اس بنا پر كسى ايك كو افضليت دينى جائز نہيں كہ يہ اس سے افضل اور بہتر ہے، اور يہ اس سے زيادہ حسن سلوك كرتا ہے، بلكہ والد كو چاہيے كہ وہ ان سب كے درميان عدل و انصاف كرے.

اور سب كو نصيحت كرنى چاہيے تا كہ وہ حسن سلوك كرنے لگيں اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى پر قائم ہو جائيں؛ ليكن وہ اولاد كو عطيہ دينے ميں كسى ايك بيٹے كو دوسرے پر افضليت مت دے، اور نہ ہى كسى ايك كے ليے مال كى وصيت كرے اور باقى كو چھوڑ دے؛ بلكہ وہ سب وراثت اور عطيہ ميں برابر ہيں جس طرح شريعت ميں وراثت اور عطيہ كے متعلق وارد ہے.

وہ ان ميں عدل و انصاف اسى طرح كرے جس طرح شريعت ميں آيا ہے، اس ليے لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ملےگا، لہذا اگر وہ اپنى اولاد ميں سے بيٹے كو ايك ہزار ديتا ہے تو بيٹى كو پانچ سو دے، اور اگر وہ ہوشيار اور عاقل و بالغ ہوں اور وہ ايسا كرنے كى اجازت دے ديں اور كہيں كہ ہمارے بھائى كو اتنا ہى دے دو، اور واضح طور پر اس كى اجازت ديں اور كہيں كہ ہم اجازت ديتے ہيں كہ آپ اسے گاڑى دے ديں، يا اتنا مال دے ديں ... اور والد كو علم ہو جائے كہ ان كى يہ اجازت حقيقى ہے، اور اس ميں لگى لپٹى نہيں، اور نہ ہى انہوں نے والد كے خوف سے اجازت دى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

مقصد يہ ہے كہ اسے عدل و انصاف كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، ليكن اگر اولاد ہوشيار اور عاقل و بالغ ہو چاہے وہ لڑكے ہوں يا لڑكياں اور وہ كسى ايك كو كسى مخصوص اسباب كى بنا پر كچھ دينے كى اجازت دے ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، يہ انہيں حق حاصل ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 235 ).

اورفضیلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی اولاد کے مابین تفضيل کومطلقا منع قرار دیتے ہوئے کہا ہے :

اولاد میں سے ایک کودوسرے پر فضیلت دینی منع اوران کے مابین عدل وانصاف کرنا واجب ہے چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ، انہیں ان کی وراثت کے مطابق ملنا چاہیے ، لیکن اگر وہ عاقل بالغ ہوتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں تو پھر ٹھیک ہے ۔

دیکھیں : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 3 / 115 - 116 ) ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو }

النساء ( 4 ) ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے } البقرۃ ( 233 )

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورکشادگي والا اپنی کشادگي میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے } الطلاق ( 7 )

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوسفیان کی بیوی ھندبنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی :

اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان بہت حریص اور بخیل آدمی ہے مجھے وہ اتنا کچھ نہيں دیتا جوکہ مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو الا یہ کہ میں اس کا مال اس کے علم کے بغیر حاصل کرلوں ، توکیا ایسا کرنا میرے لیے کوئي گناہ تونہیں ؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

تواس کے مال سے اتنا اچھے انداز سے لے لیا کرجوتمہیں اورتمہاری اولاد کوکافی ہو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5049 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1714 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو } الطلاق ( 6 ) ۔

{ اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں } سورة البقرۃ ( 228 ) ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3153 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 ) ۔

عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے فرمایا :

اللہ تعالی کی قسم میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے دیکھا اورحبشی لوگ اپنے نیزوں سے مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھیلا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر سے مجھے چھپایا کرتے تھے تا کہ میں ان کے کھیل کودیکھ سکوں ، پھر وہ میری وجہ سے وہاں ہی کھڑے رہتے حتی کہ میں خود ہی وہاں سے چلی جاتی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 443 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 892 )

ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کرنماز پڑھتے اورقرات بھی بیٹھ کرکرتے تھے جب تیس یا چالیس آیات کی قرات باقی رہتی توکھڑے ہوکر پڑھتے پھر رکوع کرنے کے بعد سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے اورنماز سے فارغ ہوکر مجھے دیکھتے اگرمیں سوئی ہوئی نہ ہوتی تو مجھ سے باتيں کرتے ، اوراگرمیں سوچکی ہوتی توآپ بھی لیٹ جاتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1068 ) ۔

{ ان میں سے جب کسی کولڑکی ہونے کی خبر دی جاۓ تواس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اوردل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے ، ا س بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے سوچتا ہے کہ کیا اس ذلت کوساتھ لۓ ہوۓ ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے ، آہ وہ کیا ہی برے فیصلے کرتےہیں ؟ } سورة النحل ( 58 ) ۔

اسلام نے عورت کوماں ، بیٹی اوربہن کے روپ میں عزت دی :

ماں کے روپ میں اسے عزت دی اس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاکچھ اس طرح فرمان ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آ کرکہنے لگا :

اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زيادہ کون مستحق ہے ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمايا ، تیری ماں ۔

اس نے کہا اس کے بعد پھر کون ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : تیری ماں

اس نے کہا اس کے بعد پھر کون ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : تیری ماں

اس نے کہا کہ اس کے بعد پھر کون ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تیرا باپ ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5626 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2548 )

بیٹی کے روپ میں اسلام نے اسے کچھ اس طرح عزت دی :

ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرت ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس کی بھی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ، یا پھر دوبیٹیاں یا دوبہنیں ہوں اوروہ ان کی اچھی تربیت کی اوران کے معاملات میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہا وہ جنت میں جاۓ گا ۔ صحیح ابن حبان ( 2 / 190 ) ۔

بیوی کے روپ میں اسلام نے عورت کو کچھ اس طرح عزت سے نوازا :

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم میں سب سے بہتر اوراچھا وہ شخص ہے جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے ، اورمیں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب میں سے بہتر برتاؤ کرتا ہوں ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3895 )امام ترمذی نےاسےحسن کہا ہے ۔

{ اورآپ کے رب نے صاف صاف یہ حکم دے رکھا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرنا اورماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ، اگرتمہارے موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں توان کے آگے اف تک نہ کہنا ، اورنہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سےبات چیت کرنا } سورة الاسراء ( 23 ) ۔

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو كپڑا گيلا پائے ليكن اسے احتلام ياد نہ ہو، آيا وہ غسل كرے ؟

تو آپ نے فرمايا وہ غسل كرے.

اور ايك ايسا شخص جو خواب ديكھے كہ اسے احتلام ہوا ہے ليكن كپڑے گيلے نہيں پاتا تو كيا غسل كرے ؟

تو آپ نے فرمايا: اس پر غسل نہيں ہے"

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: كيا اگر عورت ايسا ديكھے تو اس پر بھى غسل ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں كيونكہ عورتيں مردوں جيسى ہى ہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 113 ) مسند احمد حديث نمبر ( 25663 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 98 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

{ اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ اس نے تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى، يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سارى نشانياں ہيں } سورة الروم ( 21 ).

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ہجرت کے معاملہ میں اللہ تعالی کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئےنہیں سنا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی :

( تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی کہ بیشک میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہر گز ضائع نہیں کرتا تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیۓ گۓ اور جنہیں میری راہ میں ایذا اور تکلیف دی گئي اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کر دۓ گۓ میں ضرور اور لازمی ان کی برائیاں ان سے معاف کر دوں گا اور یقینا انہیں ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں یہ اللہ تعالی کی طرف سے ثواب اور اجر ہے اور اللہ تعالی کے پاس ہی بہترین ثواب ہے ) آل عمران 195

سنن ترمذی حدیث نمبر 3023

ام عمارہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھتی ہوں وہ سب کچھ مردوں کے لۓ ہی ہے اور مجھے عورتوں کے متعلق کچھ ذکر نہیں ملتا تو یہ آیت نازل ہوئی :

( بیشک مسمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ) الآیۃ

سنن ترمذی حدیث نمبر 3211 صحیح ترمذی حدیث نمبر 2565

اور مسند احمد میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حدیث مروی ہے :

( ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے کہ ہمارا ذکر قرآن کریم میں اس طرح نہیں جس طرح کہ مردوں کا ہے تو وہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے کسی چیز نے بھی کسی دن خوفزدہ نہیں کیا مگر ان کی منبر پر آواز نے آپ یہ فرما رہے تھے کہ اے لوگو ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں اپنے سر کو سنوار رہی تھی تو میں نے اپنے بالوں کو لپیٹا اور دروازے کے قریب آئی اور کان دہلیز کے ساتھ لگا دیۓ تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئےسنا بیشک اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

( بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومنہ عورتیں اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں سچے مرد اور سچی عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کے لۓ اللہ تعالی نے وسیع مغفرت اور بہت زیادہ ثواب تیار کر رکھا ہے ) الاحزاب 35

صحابیات میں سے بعض نے یہ خواہش کی کہ وہ مرد ہوں تاکہ اللہ تعالی کے راستہ میں جہاد کریں تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔

"اور اس کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالی نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضيلت دی ہے مردوں کا اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو یقینا اللہ تعالی ہر چیز کا جاننے والا ہے" النساء/32

تو اللہ تعالی نے عورتوں کو ایسے تمنا کرنے سے منع کردیا جو کہ مرد کے ساتھ خاص ہیں تو اللہ تعالی نے مردوں کے لئے دنیا میں عمل کا حصہ اور آخرت میں جزا وبدلہ کا حصہ مقرر کردیا اور اسی طرح عورتوں کےلئے بھی مقرر کیا۔

میں اللہ تعالی جو کہ ہبہ کرنے والا ہے سے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو اس تمنا کے بدلے اپنا فضل دے۔

اور بھلائی میں سے جو چیز اللہ نے اپنے بندوں کے لئے تقسیم کی ہے اسے اس کا بخوبی علم ہے کہ انہیں کیا اچھا رہے گا۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد

{ اور اگر كسى عورت كو اپنے خاوند كى بددماغى اور بے پرواہى كا خوف ہو تو دونوں آپس ميں جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں، اور صلح بہت بہتر چيز ہے، طمع و لالچ ہر ہر نفس ميں شامل كر دى گئى ہے، اگر تم اچھا سلوك كرو اور پرہيزگارى كرو تو تم جو كچھ كر رہے ہو اس پر اللہ تعالى پورى طرح خبردار ہے } سورة النساء ( 128 ).

{اللہ تعالى تو تمہارے ساتھ آسانى اور سہولت چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں چاہتا} سورة البقرۃ 185

اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:

{اللہ تعالى نے دين ميں تمہارے ليے كوئى تنگى اورحرج نہيں ركھا}

اور صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلاشبہ دين آسان ہے، اور جو كوئى بھى دين ميں طاقت سے زيادہ مكلف كيا وہ اس پر مشقت بن جائے گا، لہذا توسط اور صحيح اعمال كرنے ميں قرب اختيار كرو، اور خوشخبري ديا كرو" صحيح بخارى

اور جب معاذ بن جبل اور ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہمار كو يمن روانہ كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دونوں سے فرمايا:

" آسانى پيدا كرنا اور مشكل ميں نہ ڈالنا، اور خوشخبرياں دينا اور نفرت نہ پھيلانا"

اور جب لوگوں نے مسجد ميں پيشاب كرنےوالے اعرابى شخص كو ڈانٹا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں سے فرمايا:

" اسے بلاؤ تم تو آسانى پيدا كرنے كے ليے بھيجے گئے ہو نہ كہ مشكلات ميں ڈالنے كے ليے" ان دونوں كو بھى بخارى نے روايت كيا ہے.
مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 / 280 ).

نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جہنمیوں كى دو قسمیں ہيں جنہيں ميں نے[ابھی تک] نہيں ديكھا، ايك وہ قوم جن كے ہاتھوں ميں گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارينگے، اور [دوسری قسم]وہ لباس پہننے والى ننگى عورتيں جو خود مائل ہونے والى اور دوسروں كو مائل كرنے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى مائل كوہانوں كى طرح ہونگے، وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى جنت كى خوشبو ہى پائیں گى، حالانكہ جنت كى خوشبو بہت ہی دور کی مسافت سے پائى جاتى ہے " مسلم : ( 2128 )

ابن عمر رضى اللہ عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:( جس نے بھى تكبر كے ساتھ كپڑا لٹکایا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں) تو ام سلمہ رضى اللہ عنہا نے عرض کیا: "تو پھر عورتيں اپنى لٹكتى ہوئى چادروں كا كيا كريں ؟" تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:( وہ ايك بالشت تك اسے ٹخنوں سے نيچے لٹكا كر ركھيں)وہ كہنے لگیں:" پھر تو ان كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے "رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:( تو پھر وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اور اس سے زيادہ نہیں)
ترمذى: (1731)، نسائى: (5336)، ابو داود: (4117) اورابن ماجہ : (3580)

البانى رحمہ اللہ نے "صحيح سنن ترمذى" ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے۔

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں ميں ہيجڑوں پر لعنت فرمائى، اور عورتوں ميں سے مرد بننے كى كوشش كرنے والى عورتوں پر لعنت فرمائى"۔
(رواه البخاري في الادب المفرد)

﴿ اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ﴾ سورة الاحزاب ( 59 ).

مستقل فتوى كميٹى جس كے چئرمين عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تھے سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا عورت كا چہرہ ستر ميں شامل ہوتا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" جى ہاں علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق عورت كا چہرہ عورۃ يعنى پردہ اور ستر ميں شامل ہوتا ہے "

ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 24 / 75 ).

{مومن مردوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنى نگاہيں نيچى ركھيں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، يہ ان كے ليے زيادہ پاكيزگى كا باعث ہے، بلا شبہ اللہ تعالى جو كچھ وہ كر رہے ہيں اس كى خبر ركھنے والا ہے، اور مومن عورتوں سے بھى كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى ظاہرى زيبائش كے علاوہ كچھ نہ ظاہر كريں، اور اپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے لڑكوں كے، يا اپنے خاوندوں كے لڑكوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ ان كى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانوں تم سب كے سب اللہ كى جناب ميں توبہ كرو تا كہ تم نجات پا جاؤ}
سورة النور ( 30 - 31 ).

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو عورت بھى خوشبو لگا كر كسى قوم كے پاس سے گزرے اور وہ اس كى خوشبو كو سونگھيں تو وہ عورت زانيہ ہے "

زينب الثقفيۃ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں كوئى عورت مسجد جائے تو وہ خوشبو كے قريب بھى نہ ہو "

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو عورت بھى خوشبو كى دھونى لے وہ ہمارے ساتھ عشاء كى نماز ميں مت شامل ہو "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان:

" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
صحيح البخاري

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ام درداء رحمہا اللہ نماز ميں مرد كى طرح ہى بيٹھا كرتى تھيں اور يہ فقيہ عورت تھيں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے " فتح البارى " ميں بيان كيا ہے كہ:

ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ كى دو بيوياں تھيں، ان دونوں كو ام درداء كہا جاتا تھا، بڑى تو صحابيہ ہيں، اور چھوٹى تابعيہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اختيار يہ كيا ہے كہ يہاں امام بخارى كى كلام ميں چھوٹى مراد ہيں.

{ جولوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائيں پھرچارگواہ نہ پیش کرسکیں توانہيں اسی کوڑے لگاؤ اورکبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہی فاسق لوگ ہیں } سورة النور ( 4 ) ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہ کے متعقل پوچھا گیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی نفس کوقتل کرنا ، جھوٹی گواہی دینا )

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2510 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 88 ) ۔

{ مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس ليے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں، پس نيك و صالح فرمانبردار عورتيں خاوند كى عدم موجودگى ميں اللہ كى حفاظت سے نگہداشت ركھنے والياں ہيں، اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا تمہيں خوف ہو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہيں ہلكى مار كى سزا دو پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو ان پر كوئى راہ تلاش نہ كرو، بے شك اللہ تعالى بڑى بلندى والا اور بڑائى والا ہے } سورة النساء ( 34 ).

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اگر ميں كسى اللہ كے علاوہ كسى اور كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے عورت جب تك اپنے خاوند كا حق ادا نہيں كرتى اس وقت تك وہ اپنے پروردگار كا حق ادا نہيں كرسكتى، اور اگر خاوند اسے بلائے اور عورت اونٹ كے پالان پر بھى ہو تو وہ ضرور آئے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.

https://islamqa.info/en/9383

https://islamqa.info/ur/96194
 
Top