• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور ہیومن رائٹس

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اسلام اور ہیومن رائٹس

اسلامی نکتہ نگاہ سے ہیومن رائٹس کی حیثیت جاننے کے لئے چند باتوں کی تنقیح ضروری ہے:
ہیومن رائٹس اور حقوق العباد کا فرق:
اسلامی تعلیمات و تصوراتِ زندگی کو مغربی تناظر میں پہچاننا اور تلاش کرنا مسلم مفکرین کی بڑی غلطی ہے۔ ان غلطیوں میں سے ایک بنیادی اور اہم ترین غلطی حقوق العباد کو ہیومن رائٹس کے تناظر میں سمجھنا ہے۔ عام طور پر ہیومن رائٹس کا ترجمہ غلط طور پر "انسانی حقوق" کر کے نہ صرف اُنہیں حقوق العباد کے ہم معنی تصور کرلیا جاتا ہے بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ہیومن رائٹس سب سے پہلے اسلام نے دنیا کو عطا کیے نیز خطبہ حجة الوداع میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنہی حقوق کی تعلیمات دی تھیں ۔ العیاذ باللہ!

ان دونوں کا فرق ایک آسان مثال سے سمجھا جا سکتا ہے (لفظ "ہیومن " کے معنی کی تفصیلی بحث آگے آرہی ہے)۔ فرض کریں ایک دستوری جمہوری ریاست کے دو مرد آپس میں میاں بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُنہیں ایسا کرنے کا "حق" ہے یا نہیں ۔ اگر اس سوال کا جواب کسی مذہب (اسلام،عیسائیت وغیرہ) کے عالم سے پوچھا جائے تو وہ اس کا جواب ارادئہ خداوندی میں ظاہر ہونے والے خیر (ارادئہ شرعیہ) یعنی اللہ کی کتاب کی روشنی میں دے گا ۔ مثلاً ایک مسلمان عالم یہ کہے گا کہ چونکہ قرآن یاسنت میں اس کی ممانعت ہے لہٰذا کسی بھی فرد کو ایسا کرنے کا "حق" حاصل نہیں ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو "ہیومن رائٹس " کو اعلیٰ ترین قانون مانتا ہو، اس فعل کو اس دلیل کی بنا پر جائز قرار دے گا کہ چونکہ ہر شخص کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی خوشی کا سامان اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہے مہیا کرلے، لہٰذا اگر دو مرد آپس میں شادی کرکے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جس کی بنیاد پر مغربی دنیا میں دو مردوں کی شادی، زنابالرضا اور اَغلام بازی وغیر ہ کو قانونی جواز عطا کر دیا گیا ہے۔ ایک دستوری جمہوری ریاست میں افراد کے پاس ہمیشہ یہ حق محفوظ ہوتا ہے کہ وہ ارادئہ خداوندی کو پس پشت ڈال کر ہیومن رائٹس کی آڑ میں عملِ لواطت کا جواز حاصل کرلیں ۔ 3

اس مثال سے واضح ہو جانا چاہئے کہ "حقوق العباد " کا جواز اور اس کی ترتیب تو ارادہ خداوندی سے طے ہوتی ہے یعنی ایک انسان (عبد) کو کسی عمل کا حق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کتاب و سنت سے ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں ہیومن رائٹس کا جواز انسان کی خود مختاریت کے دعوے سے نکلتا ہے۔ چنانچہ ہر دو حقوق میں اہم فرق سرچشمہ اور مصدر کا ہے۔اسلامی نقطہ نگاہ سے "حق زندگی " فرد کا کوئی ایسا حق نہیں جس کا جواز ماورائے اسلام کسی فطری قانون سے نکلتا ہو بلکہ اس کا ماخذ کتاب و سنت کی نصوص کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چونکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے فرد اپنی زندگی کا مالک نہیں ، بلکہ یہ اس کے ربّ کی عنایت ہے، اسی لئے فرد اپنی زندگی کو جیسے وہ چاہے، ترتیب دینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ چنانچہ نہ تو ہم یہ مانتے ہیں کہ انسان قائم بالذات ہے (کہ وہ اصلاً عبد ہے) اور نہ ہی اس کے کسی ایسے ماورائے اسلام حق کو مانتے ہیں جس کا جواز ارادئہ خداوندی سے باہر ہو اور جس کے مطابق اسے اظہارِ ذات اور اپنی خواہشات کی ترجیحات طے کرنے اور اُنہیں حاصل کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہو، بلکہ اس کا حق بس اتنا ہی ہے جو اس کے خالق نے اسے اپنے نبی کے ذریعے بتادیا اس کے علاوہ وہ جو بھی فعل سر انجام دے گا، نافرمانی اورظلم کے زمرے میں شمار ہوگا اور جسے ختم کردینا ہی "عدل" کا تقاضا ہے۔ انسان کا کوئی ایسا ذاتی حق ہے ہی نہیں کہ جس کا جواز از خود اس کی اپنی ذات ہو چے جائیکہ وہ حق ناقابل تنسیخ بھی ہو۔ ہیومن رائٹس کی بالا دستی ماننے کا مطلب ہی انسان کے "حق" کو "خیر" پر فوقیت دینا اور اس بات کا اقرا ر کرنا ہے کہ انسان اپنا حاکم خود ہے نیز "خیر و شر" کامعیار خواہشاتِ انسانی ہیں نہ کہ ارادئہ خداوندی۔

یاد رکھنا چاہئے کہ حقوق و فرائض کی تمام تر تفصیلات کسی مخصوص مقصد کے حصول کا ذریعہ ہواکرتی ہیں اور مقصد یا تصورِ خیر بدل جانے سے حقوق کی تفصیلات بھی بدل جایا کرتی ہیں ۔ شارع کا اپنے بندوں کو حقوق عطا کرنے کا مقصد "مقاصد الشریعہ " کے حصول کو ممکن بناکر آخرکار اپنے بندوں کے لئے مراسم بندگی بجا لاتے رہنے کو ممکن بنا نا ہے جبکہ ہیومن رائٹس کا فریم ورک فرد کو ان حقوق کا مستحق گردانتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنی خود ارادیت کی زیادہ سے زیادہ تکمیل کرسکے۔ چونکہ ہیومن رائٹس کا فریم ورک مقاصد الشریعہ کے حصول اور فروغِ عبدیت کی بالادستی کو اہم ترین انفردی و اجتماعی مقاصد کے طور پر قبول نہیں کرتا لہٰذا وہ شریعت کی بیان کردہ حقوق کی تفسیر و تحدید کو بھی ماننے سے انکار کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ فریم ورک حقوق کی وہ تفسیر بیان کرتا ہے جن کے ذریعے مساوی آزادی کے اُصول پر ایسی معاشرتی تشکیل کو ممکن بنانا ہے جہاں ہر فرداپنی خواہشات کا زیادہ سے زیادہ مکلف ہوتا چلا جائے۔ ایسی ریاست جو ہیومن رائٹس قانون کی پابند ہو، ہرگز مقاصد الشریعہ کی حفاظت و غلبے کا باعث نہیں بن سکتی۔ اس بنیادی مقدمے کو ذہن نشین کرلینے کے بعد اگلی بحث سمجھنا آسان ہوجائے گی ۔

ہیومن رائٹس اور جمہوری ریاست کی غیر جانبداریت کا دعویٰ
بادی النظر مسلم مفکرین اس دھوکے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ہیومن رائٹس کسی آفاقی، عقلی اور غیر جانبدار تصورِ خیر کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس دھوکے کی وجہ یہ تاثر ہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک میں ہر فرد کے لئے جو وہ چاہنا چاہے، چاہنا ممکن ہوتا ہے۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک ہر گز بھی خیر کا کوئی غیر اَقداری (neutral) تصور فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ فریم ورک بھی خیر کے ایک مخصوص تصور کو محض بطورِ مفروضہ قبول کرتا ہے اور جو بھی ریاست اس فریم ورک کو بالاتر قانون کی حیثیت سے قبول کرتی ہے، یہ فریم ورک ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خیر کی اس مخصوص تشریح کو فرد و معاشرے پر غالب کرے۔ سیکولر طبقہ مذہبی تصورِ خیر کو جانبدار قرار دے کر اسے اجتماعی زندگی سے خارج کردینا چاہتا ہے4، یہ طبقہ لوگوں کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ چونکہ مذہب کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست لازماً جانبدار ہوتی ہے یعنی وہ ریاست خیر کی ایک مخصوص مذہبی تعبیر کے علاوہ دیگر تمام تعبیرات کو باطل قرار دے کر مغلوب کردیتی ہے، لہٰذا مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھ کر ایسے قانونی نظام پر ریاست کی تشکیل کی جانی چاہئے جو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہو کر تمام تصوراتِ خیر کو پنپنے کے مواقع فراہم کرے، اور ایسا قانونی نظام ہیومن رائٹس فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

مگر خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مغرب اور سیکولر طبقے کا یہ دعویٰ کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار اور اسی لئے Tolerant ہوتی ہے، ایک جھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں ۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کے مطابق اصل تصورِ خیر آزادی یعنی "خیر فرد کا حق ہونا ہے"، دوسرے لفظوں میں اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے۔ اس تصورِ خیر کے مطابق خیر فرد کی محض اس "صلاحیت " کا نام ہے کہ جو اسے اس کی "ہر چاہت" حاصل کرسکنے کا مستحق بنا دے، ماورائے اس سے کہ وہ چاہت کیا ہے۔5 معلوم ہوا یہ کہنا کہ "تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں " غیر جانبداری کا رویہ نہیں بلکہ بذاتِ خود خیر کا ایک مستقل مابعد الطبیعیاتی تصور ہے کہ "اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے"، اور ہیومن رائٹس پر مبنی جمہوری دستوری ریاست لازماً اسی تصور خیر کے تحفظ اور فروغ کی پابند ہوتی ہے۔ 6

مساوی خیر کے اس تصور پر ایمان لانے کے بعد اسلام کے "الحق " ہونے کا دعویٰ ایک مضحکہ خیز دعوی بن کر رہ جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس پر ایمان لانے کا تقاضا یہ مان لینا ہے کہ اسلام ہی واحد حق نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب اور نظریہ ہائے زندگی بھی اتنے ہی حق پر مبنی ہیں جتنا اسلام، لہٰذا مسلمانوں کو اسلام کی دو سرے مذاہب اور نظام ہائے زندگی پر برتری کے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہئے اور خصوصاً اقامت ِدین کی کوششیں ترک کردینی چاہئیں کیونکہ اسی مذہبی برتری کی سوچ کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے ۔ 7
ہیومن رائٹس پر معاشرتی تشکیل تب ہی ممکن ہے جب افراد رواداری کے مغربی فلسفے پر ایمان لائیں ۔ i

یہیں سے اس فریب کی حقیقت بھی کھل جانی چاہئے کہ لبرل جمہوری ریاست کوئی tolerant ریاست ہوتی ہے کیونکہ اپنے دائرئہ عمل میں یہ ریاست صرف اُنہی تصوراتِ خیر کو برداشت کرتی ہے جو اس کے اپنے تصورِ خیر (یعنی تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت ) سے متصادم نہ ہوں ، اور ایسے تمام تصوراتِ خیرجو ہیومن رائٹس سے متصادم ہوں یا جو کسی ایک چاہت کو بقیہ تمام چاہتوں سے بالاتر سمجھ کر اس کی برتری کے قائل ہوں ، ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی کردیتی ہے، جس کی واضح مثال طالبان کی ریاست ِاسلامیہ کا بذریعہ قوت خاتمہ ہے کہ یہ ریاست مخصوص مذہبی تصورِ خیر کی برتری کا دعویٰ کرتی تھی اور اسے دیگر تمام تصوراتِ خیر پر غالب کردینے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں بسنے والے لوگ اپنی روایت کے مطابق "ونی کرنے " یا مذہبی بنیادوں پر "ستی کرنے" کو خیر سمجھ کر اپنانا چاہتے ہوں تو ہیومن رائٹس قانون اُنہیں ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ اعمال بنیادی انسانی حقوق کے فلسفے سے متصادم ہیں ۔ اسی طرح فرض کریں کہ ایک مسلمان لڑکی کسی کافر سے شادی کرنا چاہے تو ظاہر ہے اسلامی معاشرہ وریاست ہرگز اس کی اجازت نہیں دے گی، مگر چونکہ ہیومن رائٹس قانون اس فعل کو فرد کا حق قرار دیتا ہے، لہٰذا لبرل ریاست میں افراد کو اس فعل کی قانونی اجازت اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی۔ اگر مسلم اجتماعیت اس لڑکی پر اپنا تصورِ خیر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو لبرل ریاست ان کے خلاف کاروائی کرکے ان کی سر کوبی کرنے کی پابندہو گی۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک کے تصورِ خیر کے مطابق "خیر" کی تعریف تو بدل سکتی ہے مگر خیر کی تعریف متعین کرنے کا "انسانی حق" بہر حال ناقابل تبدیل ہے۔

چونکہ ہیومن رائٹس " فرد" کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ کسی گروہ کے، لہٰذا لبرل جمہوری معاشروں میں سوائے فرد کے تمام اجتماعیتیں (مثلاً خاندان وغیرہ) لازماً تحلیل ہو جاتی ہیں اور جو واحد شے بچ رہتی ہے، وہ ہے اکیلا "فرد " یا صرف ایسی اجتماعیتیں جو افراد کی اغراض (self-interest) پر مبنی تعلقات سے وجود میں آتی ہیں ۔ درحقیقت لبرل معاشروں میں ریاست جس نظامِ زندگی کو جبراً مسلط کرتی ہے وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہے جس کے نتیجے میں دوسرے تمام نظام ہائے زندگی پر عمل کرنے کا دائرہ کار کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ 8چنانچہ ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری جمہوری ریاست کا یہ دعویٰ کہ اس نظامِ زندگی میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ "جو" چاہنا چاہے، چاہ سکے ایک جھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ فرد کو مساوی آزادی (یعنی سرمایہ دارانہ نظام زندگی ) ردّ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا (اس نکتے کی علمی بنیاد جمہوریت کے حصیمیں بیان کی جائے گی)۔ میں بحیثیت ِفرد اگر گوشت کھانا چاہتا ہوں تو چاہوں ، ہمہ وقت کھیلنا چاہتا ہوں تو چاہوں ، مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہ سکتا جس سے اُصولِ آزادی یعنی دوسروں کا اپنی چاہت چاہنے اور اسے حاصل کرنے کا حق سلب ہوجائے۔ مثلاً میں یہ نہیں چاہ سکتا کہ کسی شخص کو شرعی منکر (مثلاً زناکرنے) سے روک دوں کیونکہ جونہی میں اپنی اس چاہت پر عمل کرتا ہوں تو اُصولِ آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور جمہوری ریاست مجھے ایسا کرنے سے بذریعہ قوت روک دے گی۔ 9

چنانچہ فرد اپنے کسی مخصوص تصورِ خیر مثلاً اظہارِ مذہبیت پر "بطورِ ایک حق" عمل تو کرسکتا ہے مگراسے "الحق" سمجھ کر دیگر تمام تصوراتِ خیر پر غالب کرنے کا ارادہ نہیں کرسکتا کہ ایسا کرنا اُصولِ آزادی کے خلاف ہے اور اگر اُصولِ آزادی ہی ردّ کردیا گیا تو پھر میرا یہ حق کہ میں جو چاہنا چاہوں ، چاہ سکتا ہوں خود بخود فسخ ہوجائے گا۔ لہٰذالبرل جمہوری نظام میں ہر فرد ہیومن بننے پر مجبور ہوتا ہے، وہ آزادی کے سوا اور کچھ نہیں چاہ سکتا۔ فرد کی ہر وہ خواہش قانوناً اور اخلاقاً ناجائز اور قابل تنسیخ ہے جو اُصولِ اظہارِ آزادی کے خلاف ہویعنی جس کے نتیجے میں دوسروں کی آزادی چاہنے کی خواہش میں تحدید ہوتی ہو۔

پس واضح ہوا کہ درحقیقت خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی اتنی ہی راسخ العقیدہ (dogmatic) اور intolerant ہوتی ہے جتنی کوئی مذہبی ریاست کیونکہ دونوں ہی اپنے تصوراتِ خیر سے متصادم کسی نظرئیے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتیں ۔ چنانچہ مشہور لبرل مفکر رالز 10(Rawls) کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں (یعنی فرد کے تعیین خیر وشر کے حق) کا انکار کریں ، ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی وَبا کو ختم کرنا ضروری ہوتاہے۔ 11پس خوب یاد رہے کہ تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ مساوی آزادی بطور اصل خیر کا اِقرار ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (matured) جمہوری ریاستوں میں ارادئہ انسانی یعنی "انسانی حق" کی بالادستی تمام تصوراتِ خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاً مذہبیت) کے حصول کو "بطورِ ذاتی حق " کے اختیار تو کرسکتے ہیں مگر اس خیر کو دیگر تصوراتِ خیر اور زندگی گزارنے کے دیگر طریقوں پر غالب نہیں کرسکتے، یہی ہیومن رائٹس کی حقیقت ہے۔
http://magazine.mohaddis.com/shumara/46-nov2009/1148-jadeed-aetzal-k-fikri-ibhamat-ka-jaeza-3
 
Top