محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
21ویں صدی عیسوی کے شروع میں امیر الاسلام ہاشمی صاحب کی ایک نظم نوائے وقت میں پڑھی تھی۔ اتنی پسند آئی کہ جہاز پر موجود تمام لوگوں نے باقاعدہ اسے گنگنانا شروع کر دیا۔ اور پھر کئی ہفتوں تک مختلف ٹولیوں کی شکل میں یہ نظم پڑھی جاتی رہی۔
خیر، اب نہ تو جہاز ہے اور نہ وردی۔
محترم جناب عبدالقیوم صاحب محدث لائبریری سے کافی دنوں بعد آج میرے پاس تشریف لائے۔ اُن سے کئی باتیں ہوئیں۔ بہت سی اُن کے مزاج کے خلاف تھیں۔ اور بہت سی اُن کے حق میں بہتر تھیں۔
انہی بہتر باتوں میں سے اچانک یاد آنے والی مندرجہ ذیل نظم تھی۔ حافظے پر زور دے کر دوبارہ سے لکھ رہا ہوں۔ اگر کوئی بند آگے پیچھے ہو جائے یا کوئی لفظ حافظے سے نکل گیا ہو تو پیشگی معذرت۔
خیر، اب نہ تو جہاز ہے اور نہ وردی۔
محترم جناب عبدالقیوم صاحب محدث لائبریری سے کافی دنوں بعد آج میرے پاس تشریف لائے۔ اُن سے کئی باتیں ہوئیں۔ بہت سی اُن کے مزاج کے خلاف تھیں۔ اور بہت سی اُن کے حق میں بہتر تھیں۔
انہی بہتر باتوں میں سے اچانک یاد آنے والی مندرجہ ذیل نظم تھی۔ حافظے پر زور دے کر دوبارہ سے لکھ رہا ہوں۔ اگر کوئی بند آگے پیچھے ہو جائے یا کوئی لفظ حافظے سے نکل گیا ہو تو پیشگی معذرت۔
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشۂ گندم کہ جلاؤں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں؟
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہراک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں تھا آج وہ کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملّا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مر مر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہراک شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و رُوباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندۂ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا ہم چھُٹ گئے اس بارِ گراں سے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانئ جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پرجو خودی کا
مر، مر کے جئے ہے کبھی جی ، جی کے مرے ہے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو توذرا محلوں کے پردوں کواٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طاؤس پہ آکر
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا توبڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کُھول کے دیکھا نہیں قرآن
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈوھنڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اُگتے ہیں تہِ سایۂ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ اب دانت ہیں سب کے
اسلام تیرا دیس کہاں ہےکہاں جاؤں؟
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشۂ گندم کہ جلاؤں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں؟
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہراک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں تھا آج وہ کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملّا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مر مر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہراک شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و رُوباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندۂ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا ہم چھُٹ گئے اس بارِ گراں سے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانئ جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پرجو خودی کا
مر، مر کے جئے ہے کبھی جی ، جی کے مرے ہے
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو توذرا محلوں کے پردوں کواٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طاؤس پہ آکر
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا توبڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کُھول کے دیکھا نہیں قرآن
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈوھنڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اسلام ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اُگتے ہیں تہِ سایۂ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ اب دانت ہیں سب کے
اسلام تیرا دیس کہاں ہےکہاں جاؤں؟