• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام جہاد اور مغرب

مشعل

رکن
شمولیت
جنوری 07، 2017
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
72
تصادم پسند ذہن کے غور وفکر کے لیے چند سوالات
عمار خان ناصر
غلبہ اسلام جہاد اسلام اور مغرب



دور جدید میں غلبہ مغرب کے تاریخی وتہذیبی عوامل اور اس کی فکری وعملی طاقت کے منابع کو پیش نظر رکھتے ہوئے رد عمل کی جو بھی حکمت عملی وضع کی جائے، اس کا بنیادی نکتہ ہمارے نزدیک یہ ہونا چاہیے کہ معروضی حالات میں طاقت کے میدان میں مغرب کے ساتھ تصادم سے گریز کیا جائے اور اسے اپنے خلاف زور بازو آزمانے کا موقع نہ دیا جائے۔ مغربی تہذیب اس وقت اپنے دورِ عروج میں ہے اور ان تمام مادی خصوصیات ولوازم سے متصف ہے جو تاریخ کے عمومی اور قابل مشاہدہ قوانین کی روشنی میں اسے اپنے عروج کو برقرار رکھنے کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کسی قوم سے اس کے دورِ عروج میں ٹکرا کر اسے شکست نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر جبکہ شکست کا تصور یہ ہو کہ اس کے غلبہ وتسلط کو مغلوبیت میں بدل کر مغلوب وشکست خوردہ گروہ، اس کے مقابلے میں بالادست ہو جائے۔ تاریخ کا جبر، طاقت کا عدم توازن اور امت مسلمہ کی داخلی صورت حال، یہ تمام عوامل اس وقت تصادم سے گریز ہی کی طرف ہماری راہ نمائی کرتے ہیں۔ بنیادی طو رپر امت مسلمہ اس وقت دورِ اقدام میں نہیں، بلکہ دورِ دفاع میں ہے۔ اس وقت اصل ترجیح دنیا پر دین کا غلبہ قائم کرنا نہیں، بلکہ اسلامی فکر اور طرز معاشرت کی ناگزیر خصوصیات کا تحفظ اور دفاع ہے۔ اس نکتے سے صرف نظر کرتے ہوئے دورِ محکومی میں دورِ حاکمیت کی ترجیحات کو آئیڈیل بنا کر پیش کرنا خیالات اور جذبات میں ایک وقتی قسم کا ابال تو پیدا کر سکتا ہے، صورت حال کی حقیقی وعملی نوعیت میں تبدیلی کی طرف کسی بھی قسم کی پیش رفت کی راہ ہرگز ہموار نہیں کر سکتا۔
مسلمانوں میں اس وقت تصادم پسند رجحان فکر کے حاملین کے لیے اس پوری صورت حال کو صحیح تناظر میں سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے درج ذیل سوالات پر غور کرنا مناسب ہوگا:
۱۔ دنیا میں تہذیبی وسیاسی غلبے سے متعلق سنت الٰہی کیا ہے؟ کیا یہ معاملہ سرتا سر انسانی تدبیر سے متعلق ہے یا اس میں تکوینی فیصلے کارفرما ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں تکوینی مشیت الٰہی اور انسانی تدبیر میں سے اصل اور اساس کی حیثیت کس کو حاصل ہے؟
۲۔ سنت الٰہی کی رو سے کسی قوم کو دنیا میں غلبہ واقتدار حق وباطل کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے یا اس کی بنیاد کسی دوسرے اصول پر ہے؟ پوری انسانی تاریخ میں جن جن قوموں اور تہذیبوں کو دنیا میں عالمی اقتدار حاصل رہا ہے، کیا وہ سب کی سب حق کی پیروکار تھیں؟ نیز ان قوموں کو یہ سیادت واقتدار کسی تکوینی سنت الٰہی کے تحت ملا تھا یا وہ مشیت الٰہی کے علی الرغم اس پر قابض ہو گئی تھیں؟
۳۔ کسی قوم کو سنت الٰہی کے تحت غلبہ واقتدار دیا جائے اور پھر وہ رو بہ زوال ہو جائے تو قانون الٰہی کے تحت اس کی بنیادی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کے اسباب اصلاً داخلی ہوتے ہیں یا خارجی؟ کیا کوئی مخالف گروہ محض اپنی سازشوں کے ذریعے سے کسی سربلند قوم کو زوال سے ہم کنار کر سکتا ہے؟ (اس ضمن میں ذالک بان اللہ لم یک مغیرا نعمة انعمہا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسہم کے اصول پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔)
۴۔ اگر کسی قوم کی، منصب سیادت سے معزولی کا فیصلہ اخلاقی اصولوں کے تحت تکوینی سطح پر ہوتا ہے تو کیا اس کو محض انسانی تدبیر سے بدلا جا سکتا ہے؟
۵۔ اگر کوئی قوم صدیوں کے عمل کے نتیجے میں زوال کا شکار ہوئی ہے تو کیا اس صورت حال کو سالوں کی جدوجہد سے بدلا جا سکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انسانی تاریخ کی سطح پر رونما ہونے والے کسی ہمہ گیر اور جوہری تغیر کو short term strategy کے ذریعے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
۶۔ اگر حق کی حامل کوئی قوم سنت الٰہی کے مطابق غلبہ وسیادت کے لیے مطلوبہ اوصاف سے محرومی کے بعد زوال سے ہم کنار کر دی جائے تو کیا محض ’جہاد‘ شروع کر دینے سے اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں ’جہاد‘ غلبہ وسیادت کی ایک مکمل اسکیم کا جزو اور حصہ ہے یا محض یہ ایک نکاتی ایجنڈا ہی مطلوبہ نتیجے تک پہنچا دینے کا ضامن ہے؟
۷۔ کیا کسی قوم کو اس کے تہذیبی وسیاسی غلبے کے دورِ عروج میں طاقت کے زور پر شکست دی جا سکتی ہے؟ اس ضمن میں انسانی تاریخ کے مسلسل واقعات ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟
۸۔ مسلح تصادم کو بطور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نفع ونقصان کے تناسب اور طاقت کے توازن کے سوال کی اہمیت کتنی ہے؟ اس حوالے سے قرآن وسنت اور فقہ اسلامی ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟
۹۔ روحانی سطح پر امت میں ایمان، یقین، اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کے اوصاف اجتماعی سطح پر پیدا کیے بغیر کیا محض عسکری جدوجہد سے مغرب کے غلبہ کو امت مسلمہ کے غلبے سے تبدیل کر دینا ممکن ہے؟
۱۰۔ امت مسلمہ میں داخلی سطح پر مذہبی، سیاسی اور نسلی تفریقات کی موجودگی میں اور ٹھوس سیاسی وعمرانی بنیادوں پر ان کا کوئی حل نکالے بغیر کیا بطور امت، مسلمانوں میں وہ وحدت پیدا ہو سکتی ہے جو بطور ایک تہذیب کے، مغرب کی سیادت کو چیلنج کرنے کے لیے درکار ہے؟
۱۱۔ کیا دنیا پر مغرب کا استیلا محض عسکری اور سیاسی واقتصادی ہے یا اس کے پیچھے فکر وفلسفہ کی قوت بھی کارفرما ہے؟ حیات وکائنات اور انسانی معاشرت سے متعلق مغرب نے مذہب کی نفی پر مبنی جو افکار ونظریات پیش کیے اور متنوع انسانی علوم وفنون کی مدد سے انھیں ایک طاقتور متبادل فلسفہ حیات کے طور پر منوا لیا ہے، ان کا سحر توڑے بغیر کیا محض عسکری میدان میں نبرد آزمائی سے مغرب کے استیلا کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟
۱۲۔ انسانی تاریخ کی روشنی میں، کیا حق کے، باطل پر غالب آنے کی یہی ایک صورت ممکن ہے کہ حق کا حامل گروہ جو مغلوب ہو گیا ہو، اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے یا، اس سے مختلف صورتیں بھی ممکن ہیں؟ مثلاً یہ کہ باطل سے وابستہ کوئی غالب گروہ طاقت کے میدان میں اہل حق سے مغلوب ہوئے بغیر، دعوتِ حق سے مغلوب ہو کر اس کی پیروی اختیار کر لے؟ (جیسے مسیحیت کی تاریخ میں رومة الکبریٰ کے مسیحی مذہب کو اختیار کر لینے سے اور اسلامی تاریخ میں تاتاریوں کے حلقہ بگوش اسلام ہو جانے کی صورت میں ہوا)۔
۱۳۔ دنیا میں اسلام کو دوبارہ غلبہ حاصل ہونے کے ضمن میں ظہور مہدی اور نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق جن پیشین گوئیوں کی بنیاد پر ایک تصور مستقبل قائم کیا جاتا ہے، کیا وہ علمی وشرعی طور پر کسی حکمت عملی کا ماخذ بن سکتی ہیں؟ یعنی کیا اس چیز کو حکمت عملی کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کرنے کی سعی کی جائے جس میں مذکورہ شخصیات کا ظہور ہونا ہے؟ ان شخصیات کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے دجال کے ظہور کی بات بھی روایات میں بیان ہوئی ہے جس سے تمام انبیاءپناہ مانگتے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ظہور دجال کے لیے حالات کو ہموار کرنے کی شعوری کوششوں کی دین وشریعت کے نقطہ نظر سے کیا حیثیت ہوگی؟
۱۴۔ مذکورہ واقعات سے متعلق روایات کیا اتنی واضح، مربوط اور مفصل ومنضبط ہیں کہ ان سے کسی مخصوص تاریخی دور کے ظہور اور واقعات کی ترتیب کا ایک واضح نقشہ اخذ کیا جا سکے ؟ کیا تمام متعلقہ روایات علم حدیث کی رو سے اس درجے کی ہیں اور ان میں بیان ہونے والے تمام تر اجزا اور ان کی زمانی وواقعاتی ترتیب اتنی قطعی اور واضح ہے کہ ان پر باقاعدہ ایک حکمت عملی کی بنیاد رکھی جا سکے؟
۱۵۔ کسی بھی صورت حال میں دینی جدوجہد کی ذمہ داری کی نوعیت اور اہداف طے شدہ ہیں یا اضافی؟ یعنی کیا اہل ایمان ہر طرح کی صورت حال میں پابند ہیں کہ ایک ہی طرح کے اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد کو اپنی ذمہ داری تصور کریں یا یہ کہ اس کا تعلق حالات وظروف سے ہے؟ اس ضمن میں انبیائے سابقین میں سے، مثال کے طور پر، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام نے جو طریقہ اختیار فرمایا، وہ اسی طرح کے حالات میں امت محمدیہ کے لیے بھی قابل استفادہ ہے یانہیں؟ نیز کسی بھی صورت حال میں کسی ہدف کے حصول کے لیے جدوجہد کے لیے حکمت عملی کا مسئلہ منصوص، متعین او ربے لچک ہے یا اجتہادی؟
۱۶۔ کسی بھی صورت حال میں بحیثیت مجموعی پوری امت کے لیے یا کسی مخصوص خطے میں اس علاقے کے مسلمانوں کے لیے حکمت عملی متعین کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟ کیا یہ اہل ایمان کا اجتماعی حق ہے یا اس میں کسی مخصوص گروہ کو باقی امت کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اختیار حاصل ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا کسی گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے تئیں کسی ایسی حکمت عملی کا تعین کر کے اس پر عمل شروع کر دے جس کے نتائج عمومی طور پر مسلمانوں کو بھگتنا پڑیں، حالانکہ اقدام کرنے والے گروہ کو عمومی طور پر مسلمانوں کا اعتماد یا ان کی طرف سے امت کے اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا گیا ہو؟
یہاں محض احتیاطاً یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سابقہ سطور میں تصادم سے گریز کی جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے، اس کا شرعی وفقہی طور پر جہاد کی مشروعیت یا عدم مشروعیت کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام جائز اہداف ومقاصد کے لیے جہاد کرنا، اصولی طور پر بھی شریعت کا ایک ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والا حکم ہے اور عملی طور پر بھی اس کی ضرورت واہمیت ہمیشہ قائم رہے گی۔ یہاں جس بنیاد پر تصادم سے گریز کی بات کہی جا رہی ہے، وہ عملی حالات کی ناسازگاری اور عدم موافقت کا پہلو ہے جس کا لحاظ رکھنا بذات خود دین وشریعت کی رو سے ضروری ہے۔


تعارف : مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
غزوہ موتہ (8ھ) کے موقعہ پر جب مسلمان کی تعداد تین ہزار تھی ، جبکہ مد مقابل رومی لشکر ایک لاکھ تھا ، تو حضرت عبد اللہ بن رواحۃ رضی اللہ عنہ نے اس وقت تقریر فرمائی :
وَاَللهِ مَا كُنّا نُقَاتِلُ النّاسَ بِكَثْرَةِ عَدَدٍ، وَلَا بِكَثْرَةِ سِلَاحٍ، وَلَا بِكَثْرَةِ خُيُولٍ، إلّا بِهَذَا الدّينِ الّذِي أَكْرَمْنَا اللهُ بِهِ. انْطَلِقُوا!وَاَللهِ لقد رأيتنا يوم بدر ما معنا إلّا فرسان، ويوم أحد فرس وَاحِدٌ، وَإِنّمَا هِيَ إحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ، إمّا ظُهُورٌ عَلَيْهِمْ فَذَلِكَ مَا وَعَدَنَا اللهُ وَوَعَدَنَا نَبِيّنَا، وَلَيْسَ لِوَعْدِهِ خُلْفٌ، وَإِمّا الشّهَادَةُ فَنَلْحَقُ بِالْإِخْوَانِ نُرَافِقُهُمْ فِي الْجِنَانِ! مغازي الواقدي (2/ 760) ،إمتاع الأسماع للمقریزی (1/ 339)
اللہ کی قسم ہماری قتال کی بنیاد نہ کبھی کثرت تعداد رہی ، نہ اسلحہ اور گھوڑوں کی فراونی ، ہماری طاقت یہی دین رہا جس کی نعمت سے اللہ تعالی نے ہمیں نوازا ، آگے بڑھو ! بدر کے دن ہمارے پاس صرف دوگھوڑے تھے ، احد میں صرف ایک تھا ، ہمارے لیے دو میں سے ایک خوشخبری ہے ، یا دشمن پر غلبہ ، جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ کیا ہے ، یا پھر شہادت کی موت پاکر ہم اللہ کی جنتوں میں اپنے بھائیوں کے رفیق جا بنیں گے
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی شاہ مقوقس کے دربار میں تقریر :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عمرو بن العاص مصر فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے ، قلعہ کا محاصرہ کیا ، جب کئی مہینے اسی طرح گزر گئے ، شاہ مقوقس نے تنگ آگر مسلمانوں کو دھمکی اور لالچ دونوں طرح ٹالنا چاہا ، کہا ، تمہارے پیچھے دریائے نیل ہے ، آگے رومی اور قبطی لشکر جرار ، اور تم چند ہزار بدو عرب ، کیوں خودکشی بر مصر ہو ، میرے پاس ابنے بندے بھیج دو ، ہم مصالحت کرلیتے ہیں ، آپ کا بھی فائدہ ، ہم بھی زحمت سے بچ جائیں گے ، حضرت عمرو نے عبادۃ الصامت رضی اللہ عنہما کی سربراہی میں کچھ لوگ بھیجے ، اگلی کاروائی ملاحظہ کیجیے :
فأرسل المقوقس إلى عمرو... ثم رد عمرو إلى المقوقس رسله ...وأن لا يجيبهم إلى شىء دعوه إليه إلا إلى إحدى هذه الخصال الثلاث.
فتقدم إليه عبادة فقال: قد سمعت مقالتك، وإن فيمن خلفت من أصحابى ألف رجل كلهم أشد سوادا منى وأفظع منظرا، ولو رأيتهم لكنت أهيب لهم منك لى، وأنا قد وليت وأدبر شبابى، وإنى مع ذلك، بحمد الله، ما أهاب مائة رجل من عدوى ولو استقبلونى جميعا، وكذلك أصحابى، وذلك أنا إنما رغبتنا وهمتنا الجهاد فى الله واتباع رضوانه، وليس غزونا عدونا ممن حارب الله لرغبة فى دنيا، ولا طلبا للاستكثار منها، إلا أن الله، عز وجل، قد أحل لنا ذلك، وجعل ما غنمنا منه حلالا، وما يبالى أحدنا أكان له قنطار من الذهب أم كان لا يملك إلا درهما؛ لأن غاية أحدنا من الدنيا أكلة يأكلها يسد بها جوعته لليله ونهاره، وشملة يلتحفها، فإن كان أحدنا لا يملك إلا ذلك كفاه، وإن كان له قنطار من ذهب أنفقه فى طاعة الله تعالى واقتصر على هذا الذى يتبلغ به ما كان فى الدنيا؛ لأن نعيم الدنيا ليس بنعيم ورخاءها ليس برخاء، إنما النعيم والرخاء فى الآخرة، وبذلك أمرنا ربنا، وأمرنا به نبينا، وعهد إلينا أن لا تكون همة أحدنا من الدنيا إلا ما يمسك جوعته، ويستر عورته، وتكون همته وشغله فى رضى ربه وجهاده عدوه.
فقال عبادة بن الصامت: يا هذا لا تغرن نفسك ولا أصحابك، أما ما تخوفنا به من جمع الروم وعددهم وكثرتهم، وأنا لا نقوى عليهم، فلعمرى ما هذا بالذى يخوفنا، ولا بالذى يكسرنا عما نحن فيه، إن كان ما قلتم حقا فذلك والله أرغب ما يكون فى قتالكم، وأشد لحرصنا عليكم؛ لأن ذلك أعذر لنا عند ربنا إذا قدمنا عليه، وإن قتلنا من آخرنا كان أمكن لنا فى رضوانه وجنته، وما من شىء أقر لأعيننا ولا أحب إلينا من ذلك، وإنا منكم حينئذ على إحدى الحسنيين: إما أن تعظم لنا بذلك غنيمة الدنيا إن ظفرنا بكم، أو غنيمة الآخرة إن ظفرتم بنا، وإنها لأحب الخصلتين إلينا بعد الاجتهاد منا، وإن الله عز وجل قال لنا فى كتابه: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرة: 249] ، وما منا من رجل إلا وهو يدعو ربه صباحا ومساء أن يرزقه الله الشهادة وألا يرده إلى بلاده ولا إلى أرضه ولا إلى أهله وولده، وليس لأحد منا همّ فيما خلفه، وقد استودع كل واحد منا ربه فى أهله وولده، وإنما همنا ما أمامنا، وأما قولك: إنا فى ضيق وشدة من معاشنا وحالنا، فنحن فى أوسع السعة، لو كانت الدنيا كلها لنا ما أردنا منها لأنفسنا أكثر مما نحن عليه، فانظر الذى تريد فبينه لنا، فليس بيننا وبينك خصلة نقبلها منك ولا نجيبك إليها إلا خصلة من ثلاث، فاختر أيها شئت ولا تطمع نفسك بالباطل، بذلك أمرنى الأمير، وبه أمره أمير المؤمنين، وهو عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبل إلينا: إما أجبتم إلى الإسلام الذى هو الدين الذى لا يقبل الله غيره، وهو دين أنبيائه ورسله وملائكته، أمرنا أن نقاتل من خالفه ورغب عنه حتى يدخل فيه، فإن فعل كان له ما لنا وعليه ما علينا، وكان أخانا فى دين الله، فإن قبلت ذلك أنت وأصحابك فقد سعدتم فى الدنيا والآخرة، ورجعنا عن قتالكم، ولم نستحل أذاكم ولا التعرض لكم، وإن أبيتم إلا الجزية فأدوا إلينا الجزية عن يد وأنتم صاغرون، نعاملكم على شىء نرضى به نحن وأنتم فى كل عام أبدا ما بقينا وبقيتم، ونقاتل عنكم من ناوأكم وعرض لكم فى شىء من أرضكم ودمائكم وأموالكم، ونقوم بذلك عنكم إذ كنتم فى ذمتنا، وكان لكم به عهد علينا، وإن أبيتم فليس بيننا وبينكم إلا المحاكمة بالسيف حتى نموت من آخرنا أو نصيب ما نريد منكم. هذا ديننا الذى ندين الله تعالى به، ولا يجوز لنا فيما بيننا وبينكم غيره، فانظروا لأنفسكم.
فرفع عبادة يديه فقال: لا ورب هذه السماء، ورب هذه الأرض، وربنا، ورب كل شىء، ما لكم عندنا خصلة غيرها، فاختاروا لأنفسكم.
الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والثلاثة الخلفاء (2/ 330۔335)
حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کی چکنی چپڑی سننے کے بعد کہا ، تمہاری بات میں نے سن لی ، ہمارے جیسے چند لوگوں کو دیکھ کر تمہاری ہیبت و بزدلی کا یہ حال ہے ، حالانکہ ہمارے لشکر میں ہزار کے قریب ایسے لوگ ہیں ، جو ہم سے بھی زیادہ خوفناک ہیں ، میں گو جوانی کی عمر گزار چکا ، لیکن اس کے باوجو اس سن کہولت میں بھی اللہ کے فضل سے دشمن کے سو آدمیوں کے مد مقابل نکلنے کا جگر رکھتا ہوں ، ہماری رغبت و ہمت جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کی خوشنودی ہے ، ہم دشمنوں سے دنیاوی لالچ یا اس کی عیاشیاں حاصل کرنے کے لیے نہیں لڑتے ، گو اللہ تعالی نے اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مال و زر کو ہمارے لیے حلال اور مال غنیمت قرار دیا ہے ، لیکن ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ہمارے پاس سونے کا پہاڑ ہو یا صرف چاندی کا ایک درہم ، ، کیونکہ دنیاوی مال سے ہمارے لیے ایک لقمہ کافی ہے ، جو بھوک مٹا سکے ، ایک چادر کافی ہے جو تن چھپا سکے ، اگر اس سے مزید کچھ حاصل ہوتا ہے تو اللہ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں ، کیونکہ حقیقی نعمتیں اور کشادگی تو آخرت کی ہے ، اس دنیا میں کیا رکھا ہے ،
یہ باتیں سن کر مقوقس حیرت و استعجاب میں کبھی اپنی رعایا کی طرف ، کبھی عبادہ کی طرف دیکھتا ہے ، اور پھروہی پرانی دھمکی اور لالچ ، حضرت عبادت جوابا پھر گویا ہوتے ہیں :
اوئے ! تم اور تمہارے ساتھی کسی دھوکے میں نہ رہیں ، رومیوں کی کثرت ، ان کی جنگی صلاحیت سے خوف دلانا اگر درست ہے تو یہ کسی اور کو ڈرانا ، ہم پر یہ وار اثر نہیں کرتے ، اگر واقعتا رومی اسی طرح ہیں ، تو ہم اپنے مد مقابل ایسے لوگ ہی چاہتے ہیں ، یا تو کشتوں کے پشتے لگادیں ، یا پھر اللہ کی جنتوں کے مہمان بن جائیں گے ، جیت گئے تو دنیاوی غنیمتیں ہیں ، ہار گئے تو أخروی نعمتیں ہماری منتظر ہیں ، اللہ عزوجل فرماتے ہیں ، کتنی ہی چھوٹی ٹولیاں بڑے لشکروں کو فنا کرکے رکھ دیتی ہیں ۔
اور ہم میں سے ہر ایک کا تو حال یہ ہے کہ صبح و شام شہادت کی دعائیں مانگتے ہیں ، اللہ کےر ستے میں نکلے ہیں تو گھربار سے بے فکر ہو کر نکلے ہیں ، اہل و عیال کو الواداعی سلام کرکے اللہ کے حوالے کر آئے ہیں ، اب ہمیں کسی چیز کی فکر ہے تو یہاں کی ۔
اور سن ! ہمیں معاشی تنگی ، اور بد حالی کے طعنے دینے کی ضرورت نہیں ، ہمارے پاس ساری دنیا بھی آجائے تو ہم اس میں سے وہی کچھ لیں گے ، جو اب ہمیں میسر ہے ، لہذا ہماری فکر چھوڑ اور اپنی بات کر ، دھوکے سے باہر نکلو ، تمہارے لیے تین میں سے ایک آپشن ہے :
1۔ ایمان لے آؤ ، ہمارے بھائی بن جاؤ ، جو ہمارا وہ تمہارا ، تمہارا دفاع ہماری ذمہ داری ، اور دنیاوی و اخروی کامیابی تمہارا مقدر ۔
2۔ جزیہ دو ، اور صلح کر لو ، اپنے دین پر قائم رہو ، لیکن معاہدہ کی بنا بر تمہاری حفاظت ہم پر حق ہے ۔
3۔ یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جاؤ ، ہمارے درمیان فیصلہ تلوار کرے گی ، یا ہم مارے جائیں گے ، یا تمہیں مار ڈالیں گے ۔
یہی ہمارا دین ہے ، یہ اللہ کا حکم اس کے رسول کو ، رسول کا امیر المؤمنین کو ، امیر المومنین کا امیرلشکر کو ، اور اسی کے ہم پابند ہیں ۔ اس کے سوا کوئی چوتھا راستہ نہیں ۔ جو پسند ہے اختیار کرلو ۔
مقوقس نے پھر کہا ، اس کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی ؟
اب کی بار حضرت عبادہ نے ہاتھ بلند کرکے فرمایا ، زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز، اور ہمارے رب کی قسم ، ہمارے پاس ان سے ہٹ کر کوئی آپشن نہیں ۔اسی میں سے ایک اختیار کرنا پڑے گا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سردی کی وجہ سے’ نمونیا ‘ کے مریض کو ’ یرقان ‘ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر ۔ کئی لوگ زوال کی شکار امت مسلمہ کا علاج اسی انداز سے کرنا چاہتے ہیں ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بھائی جان میں اسکا آہستہ آہستہ جواب لکھتا ہوں مگر مصروفیت کی وجہ سے جلدی لکھنے کی وجہ سے غلطیاں ہوں گی آپ ایسا کریں کہ اسکو ورڈ میں کنورٹ کر ایک ترتیب دے کو اور درستگی کر کے مجھے بھیجیں اور باقی بھائی بھی اسکی درستگی کر دیں اور کوئی شرعی غلطی ہو تو بتا دیں تاکہ ایک ترتیب سے جواب تیار کیا جا سکے جزاکم اللہ خیرا

تصادم پسند ذہن کے غور وفکر کے لیے چند سوالات
عمار صاحب نے خود پہلے عسکری جہاد کے فی الوقت چھوڑنے پہ ۱۶ پوائینٹ دیئے لیکن آخر میں انکو محسوس ہوا کہ کہیں میرے اوپر جہاد کے منکر کا ہی الزام نہ آ جائے تو آخر پہ یہ لکھنے پہ مجبور ہو گئے کہ
یہاں محض احتیاطاً یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سابقہ سطور میں تصادم سے گریز کی جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے، اس کا شرعی وفقہی طور پر جہاد کی مشروعیت یا عدم مشروعیت کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام جائز اہداف ومقاصد کے لیے جہاد کرنا، اصولی طور پر بھی شریعت کا ایک ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والا حکم ہے اور عملی طور پر بھی اس کی ضرورت واہمیت ہمیشہ قائم رہے گی۔ یہاں جس بنیاد پر تصادم سے گریز کی بات کہی جا رہی ہے، وہ عملی حالات کی ناسازگاری اور عدم موافقت کا پہلو ہے جس کا لحاظ رکھنا بذات خود دین وشریعت کی رو سے ضروری ہے۔
تعارف : مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
اب یہاں اپنے لئے جو گمان پسند کیا وہ اپنے بھائی کے لئے پسند نہ کیا یعنی اپنے لئے تو یہ واضح کر دیا کہ یہاں احتمال تو دو نکل سکتے ہیں کہ جہاد سے الرجی کی وجہ سے اسکا انکار کیا جا رہا ہے یا پھر صرف شرعی مصلحت کو بیان کیا جا رہا ہے
تو یہی اچھا گمان تو اوپر تصادم پسند ذہن رکھنے والوں کے بارے میں بھی رکھا جا سکتا تھا کہ وہ بھی تصادم شریعت کے مطابق ہی کرتے ہوں گے اور وہ بھی مصلحت اور مفسدہ کو شریعت کی روشنی میں دیکھتے ہوں گے (چاہے عمار خان والی روشنی میں نہ ہی دیکھتے ہوں)

دور جدید میں غلبہ مغرب کے تاریخی وتہذیبی عوامل اور اس کی فکری وعملی طاقت کے منابع کو پیش نظر رکھتے ہوئے رد عمل کی جو بھی حکمت عملی وضع کی جائے، اس کا بنیادی نکتہ ہمارے نزدیک یہ ہونا چاہیے کہ معروضی حالات میں طاقت کے میدان میں مغرب کے ساتھ تصادم سے گریز کیا جائے اور اسے اپنے خلاف زور بازو آزمانے کا موقع نہ دیا جائے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں اہل کتاب کی ایک بہت اہم مثال دی ہے کہ ولا تلبسوا الحق بالباطل اور نبی مکرم ﷺ نے بھی بتایا ہے کہ تم ضرور انہیں کی پیروری کرو گے پس آج اکثر گمراہی اسی تلبیس کے ذریعے ہی پھیلائی جاتی ہے مثلا قرآن سے ولا تفرقوا والی آیت لے لیں گے اور اسکی لاٹھی سے اہل حق کے فرقے کو بھی رگڑ کر رکھ دیں گے بلکہ اس لاٹھی کا مقصد ہی صرف اہل حق کے فرقے کو رگڑنا ہے ورنہ دوسرے لوگ اپنے اپنے فرقے بناتے رہیں گے مگر انکو کوئی کچھ نہیں کہے گا بالکل ایسے ہی جیسے لبرل کو اس وقت سانپ سونگھ جاتا ہے جب کوئی عیسائی کسی مسلمان کو جلا دیتا ہے
اسیک حدیث میں صحابہ نے کاہن کی تصدیق کا پوچھا کہ وہ کوئی بات سچ بھی بتا دیتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ وہ ایک سچی بات میں سو جھوٹ ملا دیتا ہے
یہاں بھی عمار صاحب نے یہی کیا ہے کہ انہوں نے لاٹھی درست حکمت عملی کی پکڑ لی کہ جہاد میں مصلحت اور درست حکمت عملی کو دیکھنا ضروری ہے مگر خواہش یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ پس اس مصلحت اور درست حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ تصادم کو ممنوع کر لیا جائے خیر تصادم کو ممنوع کرنے کی بات درست بھی ہو سکتی تھی مگر جب تصادم نہ کرنے کا مطلب یہ سمجھ لیا جائے کہ اگر دوسرا زبردستی تصادم کرے تو بھی اپنا بچاو نہیں کرنا اور اپنے بچاو کے لئے کوئی حفاظتی خندق (علامتی نام ہے) نہ کھودی جائے جیسا کہ جنگ حندق پہ ایسا ہی طاقتوں کا توازن تھا اور اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کا تصادم اختیار کر کے غلطی کی تھی یا بدر میں تین سو تیرہ لوگوں نے ہزار سے تصادم اختیار کر کے غلطی کی تھی
اس پہ میرا عمار صاحب سے الزامی سوال ہے کہ
۔کیا راشد منہاس نے مطیع الرحمن سے تصادم کر کے غلطی کی تھی کیا آپ اسکو غلطی مانیں گے کیونکہ اس وقت جہاز میں طاقت کا تناسب راشد منہاس کے حق میں قطعا نہیں تھا وہ تو سیدھی سیدھی خودکشی تھی
۔کیا آج امریکہ کی فوج پاکستان پہ حملہ کر دے تو پاکستان کی فوج کو ہتھیار ڈال دینے چاہیں یا کہ ڈٹ جانا چاہئے
۔اگر آپ کا جواب ہے کہ ڈٹ جانا چاہئے تو پھر وہ توازن والا دھوکا کہاں چلا گیا اور اگر کہیں کہ ہتھیار ڈال دینے چاہیں تو ذرا اگلی دفعہ اپنے ماہنامہ میں یہ نصیحت کر کے دیکھ لو پاک فوج کو آپ کو لگ پتا جائے گا

مغربی تہذیب اس وقت اپنے دورِ عروج میں ہے اور ان تمام مادی خصوصیات ولوازم سے متصف ہے جو تاریخ کے عمومی اور قابل مشاہدہ قوانین کی روشنی میں اسے اپنے عروج کو برقرار رکھنے کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کسی قوم سے اس کے دورِ عروج میں ٹکرا کر اسے شکست نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر جبکہ شکست کا تصور یہ ہو کہ اس کے غلبہ وتسلط کو مغلوبیت میں بدل کر مغلوب وشکست خوردہ گروہ، اس کے مقابلے میں بالادست ہو جائے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون یہاں میں کیا کہوں پتا نہیں کونسی عینک سے یہ تاریخ پڑھتے ہیں وہ گورے تو خود اسکا اعتراف کرتے ہیں کہ صحابہ نے دور عروج میں ہی روم و فارس کو تباہ کیا تھا مگر اپنوں کو یقین نہیں وہ ثاقب لکھنوی نے سچ کہا ہے کہ
باغبان نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

قرآن نے اسکی کئی مثالیں بیان کی ہیں اور خود تاریخ بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو تسلی دی کہ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ
اب اس بارے میں مزید لکھنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا

تاریخ کا جبر، طاقت کا عدم توازن اور امت مسلمہ کی داخلی صورت حال، یہ تمام عوامل اس وقت تصادم سے گریز ہی کی طرف ہماری راہ نمائی کرتے ہیں۔ بنیادی طو رپر امت مسلمہ اس وقت دورِ اقدام میں نہیں، بلکہ دورِ دفاع میں ہے۔
یہاں بھی وہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ یہ گڈ مڈ کیا جا رہا ہے کہ تصادم جب بھی ہو گا وہ اقدامی جہاد بن جائے گا
بھائی جان تصادم صرف دور اقدام میں ہی نہیں ہوتا بلکہ دور دفاع میں بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ اوپر تفصیل بتائی ہے پس آپ حالات وہ پیش کر رہے ہیں کہ جن میں اقدامی تصادم ممنوع ہو سکتا ہے اور پھر ان حالات سے تصادم کو ممنوع قرار دے رہے ہیں مگر جب ممنوع کا حکم لگا رہے ہیں تو وہاں تصادم کے ساتھ کوئی قید نہیں لگا رہے کہ کون سا تصادم ممنوع ہے بلکہ مطلقا تصادم کو ہی ممنوع قرار دے رہے ہیں
یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی قرآن کی ایک آیت لے کہ لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری اب وہ یہاں سے ایک حکم کو لے کہ نماز نہیں پڑھنی مگر کب نہیں پڑھنی اس قید کو ذکر نہ کرے اور مطلقا ہی نماز نہ پڑھنے کا حکم لگا دے تو پھر اسکو کیا کہیں گے
پس جو تصادم ممنوع ہوتا ہے وہ کوئی اور طرح کا تصادم ہے اور جو عمار صاحب ممنوع کر رہے ہیں وہ مطلق تصادم ہے تو بھائی پھر میرے وہی پہلے والے سوال کہاں جائیں گے کہ راشد منہاس نے جو تصادم کیا تھا اور جنگ خندق میں جو تصادم ہوا تھا اسکا کیا جواب ہو گا اگر مطلق تصادم ہی ممنوع ہے

اس وقت اصل ترجیح دنیا پر دین کا غلبہ قائم کرنا نہیں، بلکہ اسلامی فکر اور طرز معاشرت کی ناگزیر خصوصیات کا تحفظ اور دفاع ہے۔
بھائی جان یہی تو ہم کہ رہے ہیں کہ اگر ایک مسلمان کو اصل اسلام کے مطابق مکمل آزادی سے زندگی گزارنے کی اجازت دے دی جائے تو جہاد کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی مگر مسئلہ ہی یہی ہوتا ہے کہ دوسرے اس آزادی کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اس طرح انکے غلط نظام کی خٓمیاں واضح ہوتی ہیں اور وہ زوال کا شکار ہوتا جاتا ہے پس رسول اللہ ﷺ نے شروع میں یہی طریقہ تو استعمال کیا تھا اور اللہ کا حکم بھی تھا کہ کفوا ایدیکم کہ ہاتھ روک کر رکھو مگر یہ بھی انکو منظور نہ ہوا اور پھر وہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو ابو طالب کو کہنا پڑا کہ یہ میرے ایک ہاتھ پہ سورج اور دوسرے پہ چاند رکھ دیں تو میں اپنی دعوت سے باز نہیں آوں گا اور خﷺد قرآن کو بھی کہنا پڑا کہ قل یا ایھا الکافرون ۔۔۔۔۔۔۔

اس نکتے سے صرف نظر کرتے ہوئے دورِ محکومی میں دورِ حاکمیت کی ترجیحات کو آئیڈیل بنا کر پیش کرنا خیالات اور جذبات میں ایک وقتی قسم کا ابال تو پیدا کر سکتا ہے، صورت حال کی حقیقی وعملی نوعیت میں تبدیلی کی طرف کسی بھی قسم کی پیش رفت کی راہ ہرگز ہموار نہیں کر سکتا۔
بھائی جان یہی چیز آپ کو تو معاذ اللہ وقتی ابال نظر آ رہا ہے مگر قرآن اسکو حرض المومنین علی القتال کہتا ہے رسول اللہ ﷺ کی احادیث اس پہ گواہ ہیں مثلا جب مسلمان خندق کھود رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے پیٹ پہ تین پتھر باندھے ہوئے تھے تو اس انتہائی محکومی کے دور میں بھی انکو کیا نعوذ باللہ کدال مارنے پہ جو دور حامیت کی فتوحات اور خزانے نظر آئے تھے کیا وہ وقتی ابال ہی تھے

یہاں محض احتیاطاً یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سابقہ سطور میں تصادم سے گریز کی جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے، اس کا شرعی وفقہی طور پر جہاد کی مشروعیت یا عدم مشروعیت کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام جائز اہداف ومقاصد کے لیے جہاد کرنا، اصولی طور پر بھی شریعت کا ایک ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والا حکم ہے اور عملی طور پر بھی اس کی ضرورت واہمیت ہمیشہ قائم رہے گی۔ یہاں جس بنیاد پر تصادم سے گریز کی بات کہی جا رہی ہے، وہ عملی حالات کی ناسازگاری اور عدم موافقت کا پہلو ہے جس کا لحاظ رکھنا بذات خود دین وشریعت کی رو سے ضروری ہے۔
پھر وہی تلبیس ابلیس والی بات ہے اس بات کا انکار کون کر رہا ہے ظاہر ہے کہ جب جہاد کیا جائے گا تو وہ جہاد تب ہی کہلا سکتا ہے جب شریعت کی قیود کے اندر ہو مگر کسی قید کا ذکر کر کے جہاد بمعنی دفاعی تصادم کا ہی انکار کر دینا جہالت نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 
Top