حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
اسلام سے پہلے عربوں میں توحید کی حالت اور توہم پرستی
ظہور اسلام سے قبل ہر طرف جہالت وضلالت کی حکمرانی تھی، سرکشی و بغاوت کاسکہ رواں تھا، معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا، خانہ کعبہ بتوں سے آباد تھا۔ دین ابراہیمی کا چہرہ مسخ ہو چکا تھا۔ شرک کی سیاہ چادر نے ذہن انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، شیطانیت رقص کناں تھی، دجل، فریب، جھوٹ اور منافقت پر مبنی انفرادی طرز عمل اور اجتماعی رویوں نے شرف انسانی کی بحالی کی ہر خواہش کو سینے میں دفن کر رکھا تھا، قدم قدم پر انا کی دیواریں اٹھائی جا رہی تھیں، غرور و تکبر اور نسلی تفاخر سے سماجی حیثیت کا تعین ہوتا تھا۔ دختر حواء کے برہنہ سر پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ سسک رہی تھی، بلک رہی تھی لیکن کوئی اس کا پر سان حال نہ تھا، لڑ کیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تاکہ چھوٹی شان کی آگ میں جلنے والوں کاوقار مجروح نہ ہو جائے، عدل، انصاف اور مساوات کے الفاظ اپنا مفہوم کھو چکے تھے، فصیل دیدہ و دل پر چراغ جلتے تھے، مگر ان میں روشنی نہ تھی، جزیرہ نما عرب ہی نہیں پوری دنیا گمراہی اور کفر و شرک کے قعر مذلت میں گری ہوئی تھی، قیصر و کسری کی حکومتیں جبر کی علامت بن کر نسل آدم پر مسلط تھیں، اس حواس باختہ اور بے ہنگم معاشرے میں جمہوری شعور، انسانی حقوق اور کسی ضابطہ اخلاق کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا جاہلی اور قبائلی رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑا ہو معاشرہ اپنے افراد کے گرد جہالت اور گمراہی کے حصار کو تنگ سے تنگ کرتا جا رہاتھا، انسان اس معاشرتی جبر کے ہاتھوں اندر سے ریزہ ریزہ ہو چکا تھا، لیکن حالات سے سمجھو تہ کرنے کے سوا اسے کوئی تدبیر نہیں سوجھ رہی تھی۔
طلوع اسلام سے قبل عرب مختلف مذاہب اور خود ساختہ اقدار کو سینے سے لگائے ہو ئے تھے۔ کہیں بت پرستی ہو رہی تھی اور کہیں آتش پرستی سے سکون قلب کا سامان مہیا کیا جا رہا تھا۔ کہیں سورج کی پرستش ہو رہی تھی اور کہیں انسان جسے اشرف المخلوقات بنایا گیا تھا ستاروں کے آگے سر بسجود تھا، خانہ کعبہ اصنام پرستیس کا مرکز تھا، جہاں تین سو ساٹھ بت رکھے گئے تھے ہر قبیلے کا الگ بت تھا۔ ہبل، لات، منات، عزی، نائلہ یعوق اور نسر زیادہ مشہور بت تھے جن کے آگے سجدہ کیا جاتا اور دعائیں مانگی جاتی تھیں انہیں اپنا ملجا ومأوی سمجھا جاتا تھا، پتھر کے ان بے جان ٹکڑوں کو أپنا حاجت روا ٹھہرایا جاتا بت پرستی نے توہم پرستی کو جنم دیا فطرت کی ہر ایک چیز، پتھر، درخت، چاند، سورج ، پہاڑ، دریا وغیرہ کو فورا اپنا معبود بنا لیتے تھے اس طرح خدائے حقیقی کی عظمت و جلالت کو فراموش کر دینے کے ساتھ ساتھ اپنی قدرو قیمت کو بھی بھول چکے تھے۔ انسانی وقار خود انسان نے أپنے پاؤں تلے رود دیا تھا۔
ان میں سے بعض تو خدا کی ذات کے ہی انکاری تھے ان کے نزدیک زمانہ اور فطرت ہی کی ہر چیز میں کار فرمائی تھی قرآن نے ان کے متعلق یوں بیان کیا ہے:
﴿وَقَالُوْا إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ﴾ (سورۃ الجاثیۃ: 24)
’’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہم کو مارتا ہے تو زمانہ مارتا ہے۔‘‘[URDU][/URDU]
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿ قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَرًا رَّسُولاً ﴾( سورۃ الإسراء: 94)
’’ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟‘‘[URDU][/URDU]
وہ گمان کرتے تھے كہ منصب نبوت و رسالت کے حامل کے لئے فرشتہ ہونا ضروری ہے جو ہر قسم کی انسانی حاجات و ضروریات سے منزہ و مبرا ہو۔
عرب میں بت پرستی کابانی عمرو بن لحیی تھا عمر و سے پہلے جرہم کعبہ کے متولی تھے عمرو نے بنی جرہم کےساتھ جنگ کی اور انہیں مکہ سے جلا وطن کر دیا خود حرم کا متولی بن بیٹھا،ایک دفعہ کسی سنگین مرض میں مبتلا ہوا تو کسی نے اسے بتایا کہ ملک شام بلقاء کے مقام پر ایک گرم پانی کا چشمہ ہے اگر تم وہاں جا کر اس پانی سے غسل کرو تو شفا یاب ہو جاؤ گے یہ بلقاء پہنچا اس چشمے کے پانی سے غسل کیا تو صحت یاب ہو گیا وہاں کے باشندوں کو اس نے دیکھا کہ وہ بتوں کے پرستش کرتے ہیں۔
اس نے کہا مجھے بھی ان بتوں میں سے چند بت دو، انہوں نے حسب خواہش اسے چند بت دے دئیے ، وہ انہیں لے کر مکہ آیا اور خانہ کعبہ کے ارد گرد انہیں نصب کر دیا، کعبہ چونکہ عرب کا مرکز تھا اس لیے تمام قبائل میں بت پرستی کا رواج ہو گیا۔
عمرو بن لحیی نے مال مویشی کی مصلحت و شفقت کی خاطر چند بدعات اور شرکیہ رسومات ایجاد کیں۔ جو محض کذب و افترا ء کا پلندہ تھیں۔ قوم نے اندھے دھند اس کی تقلید کی اور ملت ابراہیمی جو تو حید و وحدانیت ، رد شرک، تردید بت پرستی، کا مجموعہ تھی اسے یکسر بدل ڈالا۔ شعائر حج اور دینی امور میں تغیر وتبدل کر ڈالا اور بغير کسی دلیل و حجت کے بہت علم و و ادانش كے، سابقہ اقوام کی مشرکانہ راہ و رسم کو پسند کیا۔‘‘
جہالت نے ان میں بت پرستی رائج کر دی تھی اور بت پرستی نے انسانی دل و دماغ پر قابض ہو کر ان کو توہم پرست بنا دیا تھا۔ فطرت کی ہر چیز پتھر، درخت، چاند، سورج، پہاڑ، دریا وغیرہ کو اپنا معبود سمجھنے لگ گئے تھے اور اس طرح وہ خدا کی عظمت و جلال کو فراموش کر دینے کے ساتھ ساتھ خود اپنی قدرو قیمت کو بھی بھول چکے تھے۔ اس لیے انسانی حقوق کے لئے نہ کوئی ضابطہ تھا اور نہ ایسے حقوق کو صحیح مرکز پر لانے کے لئے کوئی قانون تھا۔ قتل انسان، رہزنی، حبس بے جا، تصرف نا جائز، مداخلت بیجا،عورتوں کو جبر یا پھسلاوٹ سے بھگا لے جانا، بیٹیوں کو زندہ پیوند خاک کر دینا اسی شجر کے تمر تھے کہ بت پرستی نے ان کی نگاہ میں سب سے زیادہ حقیر ہستی انسان ہی کو بنا دیا تھا۔اس وسيع ملک کے رہنے والے جس طرح اخلاقی ، سیاسی اور اجتماعی عادات و اطوار میں ایک ہی نہج پر گامزن تھے اسی طرح مذہب میں بھی ان کا عمل اورعقیدہ ایک دوسرے سے مشابہ تھا۔ ضعیف انسانوں کا کیف رسم اپنی کمزوری کی وجہ سے ہستی ہی کی جانب مائل ہو تا ہے ، باوجود اپنی ذات میں بلندی کی طرف بڑھنے کی اہلیت کے جس کے سہارے وہ ذات واجب الوجود خداوند ذوالجلال کے ساتھ اپنا تعلق پیدا کر سکتا ہے انسان الٹا پستی میں گر پڑتا ہے۔ اسے ضعیف انسانوں کی مثال میں سور ج یا چاند یا آگ کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
جو ایک معینہ بلندی کی حد تک پہنچ کر اور اوپر کی طرف بڑھنے کی ہمت چھوڑ چکی ہیں اس قسم کے انسان اگر اس سے سبق لیتے تو ذر ا سے اقدام کے بعد وحدۃ الوجود کے اس راز سے آگاہ ہو سکتے جس کے صدقہ میں تمام عالم کون ومکان برپا ہے وجود کلی و ابدی جس کی وحدت و نور ار ض و سماء کے ذرہ ذرہ میں زندگی کاوسیلہ ہے۔ ضعیف طبائع سے تو چھوڑ دیا اور اس کی جگہ بے جان بتوں کو اس قدرت برتر کی بدوی بخشش دی اس یہ طرفہ کہ آج جبکہ علم و تمدن کی سر پرستی جاری ہے بت پرستی کے نشان ابھی تک پوری طرح نمایاں ہیں انسان ان (بتوں ) کی خدائی داد دینے میں آج بھی اپنی سعادت سمجھ رہا ہے۔
مشركانہ جاہلیت میں آدمی کا تعلق اپنے معبودوں کے ساتھ اس کے سوا نہیں ہوتا کہ یہ أپنے خیال میں ان کو صاحب اختیار اور نافع و ضار سمجھ لیتا ہے او رمختلف مراسم عبودیت کے ذریعہ سے اپنے دنیوی مقاصد میں ان کی مہربانی و اعانت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام نے أپنی قوم سے فرمایا:
﴿ فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴾
’’لہٰذا تم اللہ سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آو ، یقینا میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔‘‘[URDU][/URDU]یہ مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان میں پائی جاتی ہے اور ان اہم اسباب میں سے ایک ہے جنہوں نے ہر زمانہ میں انسان كو شرك میں مبتلا کیا ہے۔ یہ لوگ اپنے راجوں مہار اجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں خود بہت سے دور أپنے محلوں میں دارعیش دیا کرتے ہیں جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسانی نہیں ہو سکتی جن کے حضور میں کوئی درخواست پہنچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست کے آستانہ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان پندار خودائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔
اس غلط گمان کی وجہ سے لوگ ایسا سمجھتے ہیں او رہوشیار لوگوں نے ان کو بسا سمجھانے کی کوشش بہی کی ہے کہ خدا وندعالم کا آستانہ اقدس تمام انسانوں کی دست ر س سے بہت ہی دور ہے۔ اس کے دربار تک بھلا کسی عام کی پہنچ کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہو سکتا جب تک پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈا جائے۔
اور ان مذہبی منصب داروں کی خدمات حاصل نہ کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اورعرضیاں پہنچانے کے ڈھنگ جانتے ہیں یہی باقی رہا کہ یہ امر کہ وہاں سے اس کو کسی قسم کی اخلاقی ہدایت یا زندگی کا ضابطہ قانون ملے تو اس کا کوئی امکان ہی نہیں کیونکہ وہاں کرائی واقعی میں خدا ہو تو ہدایت اور قانون بھیجے نہیں جب ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے تو شرک انسان لا محالہ خود ہی ایک اخلاقی نظریہ بناتا ہے اور خود ہی اس نظر یہ کا بنیاد پر ایک شریعت تصنیف کر لیتا ہے۔ اس طرح وہی جاہلیت محض برسرپیکار آجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ خالص جاہلیت کے تمدن اور مشرکانہ تمدن میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ایک جگہ جاہلیت کے ساتھ مندروں بچاریوں اور عبادات کاسلسلہ ہوتا ہے اور دوسری جگہ نہیں ہوتا۔ اخلاق و اعمال جیسے یہاں ہوتے ہیں ویسے ہی وہاں بھی ہوتے ہیں۔