ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 104
’’آسمان ماتم کر ۔ زمیں چھاتی پیٹ۔ درختو! پہاڑو! ستارو!ٹکرا کر چور چورہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے۔آج ہی دنیا کاآخری دن ہے۔ زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی ۔ سہراب ! سہراب! سہراب!‘‘
کیا لازوال لائنیں ہیں جو اردو کے شیکسپئر آغا حشر کاشمیری نے ’’رستم وسہراب‘‘ نامی ڈرامے کے لئے ایک پامال باپ کی اذیت میں ڈوب کر لکھیں۔ رستم و سہراب کس بلا کاالمیہ ہے۔ یہ المیہ یہاں پہنچ کر اذیت کاکیا دردناک کلائمکس د کھاتاہے کہ جب رستم سا ناقابلِ شکست ایرانی دلاور انجانے میں اپنے ہی لختِ جگرسہراب کو اپنی سفاک تیغ سے دو لخت کر دیتاہے ۔ حقیقت جب کھلتی ہے توسامنے کٹے پڑے اپنے ہی وجود کے لاشے(بیٹے) کو دیکھ کر رستم اذیت کی پہنائیوں میں ڈوب جاتا اورآسمان سر پر اٹھاکے پکارتا ہے۔’’ آسمان ماتم کر، زمین چھاتی پیٹ، درختو! پہاڑو! ستارو!۔۔‘‘ اوربالآخر’’زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہے۔‘‘ یہی ہوتاہے۔ نادانی ہمیشہ جگر کا پھل اپنی ہی تیغ سے قلم کروا دیا کرتی ہے اور نادانی کچھ اور بھی گل کھلاتی ہے، مثلاً دربار رسالت میں حاضر ہوکے اک خاتون نے بتایا، یہ جوفلاں میاں بیوی ہیں ۔ ان دونوں کو تو خود میں نے اپنی چھاتی کا دودھ پلایاہے ۔میاں بیوی یہ کیسے ہوگئے ؟ جب کہ انھیں تو رضاعی بہن بھائی ہونا چاہئے تھا! سرکار نے دونوں میں جدائی کروا دی ۔جی ہاں !انجانے میں آدمی ایسے ہی بڑے اور برے فیصلے کرتاہے۔جب یوں ہے تو پھرکیا تعجب کہ کوئی ہماری ہی صفوں سے پکار اٹھے :’’ کیا اسلام ضابطۂ حیات بھی ہوتاہے ؟ اورپھر خود ہی فیصلہ بھی صادر فرما دے ، ہر گزنہیں !
انکار میں یہ بھی کہا گیاکہ آج تک اسلام کو ضابطۂحیات کہنے سے کمزور بات نہیں کہی گئی۔ ہائے نادانی اور دیکھئے آگے کیا لکھاجاتا ہے؟ فرمایا، ’’اسلام نے کچھ بنیادی اصول طے کر دئیے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں آپ ہر دور میں اس دور کی ضروریات اور چیلنجز کے مطابق ضابطے بھی تشکیل دے سکتے ہیں اور نظام بھی استوار کر سکتے ہیں۔‘‘ اچھا تو صاحب !یہ جو بنیادی اصول اسلام نے طے کر دئیے ہیں، جن سے کہ آپ نے فرمایا، ضابطے تشکیل پاتے ہیں تو گویا یہی دلیل ہوگئی، اسلام کے ضابطۂ حیات نہ ہونے کی ؟ توگویا ضابطہ یہ ہواکہ جس چیز سے ضابطہ تشکیل پائے، اسے ضابطہ کہنا کمزور ترین بات ہوتی ہے۔آپ سمجھے بھی ہیں کہ آپ نے کیا فرما یا؟ مطلب یہ کہ جوماں بارہ انسان جن سکتی ہو، وہ ماں توکہلا سکتی ہے، انسان نہیں! اور چونکہ اسلام ہر دور میں کئی ضابطے دے سکتاہے، اس لئے یہ ضابطہ کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری دلیل ،آپ کے نزدیک ضابطہ صرف وہ ہوتاہے جس میں اصول دینے کے بجائے ہر چیز کی تفصیل دی جائے؟ صاحب پھر وہ کون سا ضابطہ ہے کہ جس میں ہر چیز لکھی ہی جاتی ہے اور کچھ بھی انسانی عقل و شعور پر نہیں چھوڑا جاتا؟ فرض کریں کسی ضابطے میں لکھا ہو کہ چوری جرم ہے تو کیا اب یہ بھی لازم ہو گاکہ مملکت کے تمام شہریوں کے نام لکھ کے بھی بتایا جائے کہ ان ان شہریوں کا چوری کرنا جرم ہے اور ان ان شہریوں کی چوری کرنا جرم ہے ؟ او رکیا اگر بغیر نام والے شخص کی چوری کر لی گئی یا غیر مذکور شخص نے چوری کر لی تو کیا یہ ضابطے سے باہر کی بات ہو گی اور یوںیہ ضابطہ ضابطہ کہلانے کا حق ہی کھو دے گا؟ اس بناپر کہ اس میں یہ تفصیل بھلا درج کیوں نہ ہوئی کہ چوری فلاں کی بھی ہو سکتی تھی؟ اور چوری فلاں بھی کر سکتا تھا؟ پھر اگر اسلام نئے دور کے مطابق خود کو بذریعہ اجتہاد اپ ڈیٹ کرنے کی بنا پر ضابطہ نہیں کہلا سکتا تو یہ بھی فرمادیجئے کہ آج ہمارے ہاں وہ کون سا ضابطہ ہے جو قبل از مسیح کا لاگو ہے؟ فرمایا ضابطہ جامد ہوتاہے۔ برادرِ گرامی !انسانی دانش کی موجودہ سطح کیا ،اسی چیزکی علامت ہے کہ ضابطے rewiseنہیں کئے جاتے یا نہیں کئے جا سکتے؟ خیر تو گویا زمینی ضابطوں کی خامیوں سے آپ ایسا بدک اٹھے کہ گھبرا کے آسمانی ضابطے کی نفی ہی فرماڈالی؟ بھلاکسے معلوم نہیں کہ چیزیں اپنی نسبتوں سے واضح ہوتی ہیں، مثلاًمحبت کو لیجئے ۔ یہ اپنی بنت میں محبت ہی ہے مگرجوں جوں نسبتیں بدلتی ہے، یہ اپنے معانی و مفاہیم بھی بدلتی جاتی ہے۔مثلاً بیوی سے جو محبت ہے ،وہ ماں سے نہیں ہو سکتی ۔ بھائی سے جو محبت ہے، وہی محبت بیوی سے روا رکھنا پر لے درجے کی حماقت ہوگی۔ پھربیوی سے روا رکھی گئی محبت بہن پر جاری فرمادینا زندیقیت قرار پائے گی ۔اب کرنا کیا چاہئے ؟ محبت کی نفی یا محبت کے مقامات کا ادراک اور احترام ؟ صاحب! جو ضابطہ خدا کی طرف منسوب ہو جائے بھلا اس کی شان کو انسانی ضابطوں سے پرکھ کر رد کر دینا دانش ہی کہلائے گی؟ اگر انسانی ضابطوں میں ہزار خامیاں نظر آجائیں تو گویا اب خدا کو کوئی ضابطہ ہی بنانے سے محتاط رہنا چاہئے ۔ یا خدا بنا بھی ڈالے توکم ازکم ہمیں ہی اسے ضابطے کے بجائے کوئی اور نام دے لینا چاہئے؟ آپ کے بقول یہ جودین میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے ۔تو کیا یہی ایک نشانی کا فی نہیں کہ اسلام ہمیں حیات کا کوئی ضابطہ بھی دیتاہے اور وہ اس ضابطے میں لچک رکھتا ہے تاکہ کہیں ہم بعد کے کسی دور کا بہانہ بنا کے اللہ کے دئیے ہوئے ضابطے سے نکلنے کی کوشش ہی نہ فرمانے لگ جائیں ۔ اگرکوئی ضابطہ ہی نہیں تو پھرضابطے میں وسعت لانے کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھولنے کی بھی کوئی ضرورت تھی ؟ جب کوئی ضابطہ ہی نہیں تو ا س کی اپ گریڈیشن یا نظرِ ثانی کا جواز ہی کیا ہے؟ فکری رو جب بہہ نکلے تو پھر کیا تعجب کہ وہ دانش کو طفلانہ ناچ ہی نچوا ڈالتی ہے۔ کہا گیا کہ اگر خدانخواستہ دین کو ضابطۂ حیات مان ہی لیا گیاتوپھرتو بڑی مشکل سر پر آن پڑے گی مثلاً،موٹروے کی حدِ رفتار، پاسپورٹ اور ویزہ ،جغرافیہ اور سرحدیں، پارلیمنٹ اور سرخ اشارے پر گاڑی روکنا وغیرہ وغیرہ یہ اسلام سے کیسے ثابت کئے جاسکیں گے؟ اللہ اکبر ! تو کیا صاحب ! آپ علما سے پوچھ چکے تھے اور کیا علما آپ کے سوال سے عاجز آچکے تھے جو کالم میں آپ کو پورے اسلامیان کی طرف سے اعتراف شکست کرنے کا بیڑا اٹھاناپڑا؟ تفصیل کالم میں کیونکر سمائے ، مگرکیا اسلام نے عرف کو ملحوظ نہیں رکھا اور کیا قرآن نے بھلائی میں اولی الامر کی اتباع کا حکم نہیں دیا؟ تو کیا یہ سارے امور اولی الامر کی اطاعت سے باہر تھے جو ہمیں ان کو اسلام سے باہر دیکھناپڑا۔
صاحب یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کی ہر فرم اپنی چھوٹی سے چھوٹی پراڈکٹ کے ساتھ بھی ضابطۂ استعمال کی گائیڈ بک دے مگرخدا اتنی بڑی کائنات اور ایسا نادرالوجود انسان بناکے کہے ،جاؤ موجیں کرو، ہاں فرصت ملے توکوئی ضابطہ شابطہ بھی بنا لینا۔گویا انسان کے خالق نے انسان کے لئے ضابطہ ضروری ہی نہیں سمجھا ؟اور پھر بھی وہ خداہے؟ تدبر تو فرمائیے کہ اگر ضابطہ ہی نہیں تو پھر امتحان کیسا ؟ پھر حساب کیسا ؟ پھر جنت اور دوزخ کیسی؟ پھر قرآن کیا دم درود اور وظیفوں کے لئے ہے ؟ پھر مدینے میں محمدِ مصطفی ؐکیا اپنی مرضی کرتے رہے؟ کیا اس دین کی کوئی تشریعی حیثیت ہی نہیں ؟یہ جو پہلے انسان کو زمیں پر بھیجتے وقت کہا گیا تھا۔ میری طرف سے گائیڈنس آتی رہے گی۔تو گویایہ گائیڈنس یا تو آئی ہی نہیں یاپھر یہ اک رائگاں سا مشورہ ہی تھا کہ تمھارے کسی ضابطے میں فٹ ہوجائے توٹھیک ورنہ خیر ضابطے بنانا تو تمھاری اپنی ذمے داری ہے، خدا کی نہیں ؟گویا یہ دین گھر میں تو چل سکتاہے ، بازار اور پارلیمنٹ میں نہیں؟اور پھرآپ شکوہ فرماتے ہیں کہ جوابی مضمون میں دراصل آپ کی نہیں ، سیکولرازم کی تائید کی گئی؟ویسے ایک بات تو بتائیے کہ اگر دین ضابطۂحیات ہی نہیں تو آپ کا لبرل ازم اور سیکولرازم سے جھگڑا کیاہے؟ ویسے کیا آپ نے لغت سے دین کا معنٰی بھی دیکھاہے کیا؟ زندگی گزارنے کا طریقہ! تو بھلا ضابطہ کیا ہوتاہے ؟ زندگی نہ گزارنے کا طریقہ ؟ کسی نے کہا، ضابطۂحیات کا لفظ توفلاں مولانا نے فلاں وقت بولا تھا، اس سے پہلے تو یہ بولاہی نہیں گیا۔لہذادین ضابطۂ حیات کیسے ہو گیا؟ واہ سبحان اللہ! توگویا جب تک گلا ب کا نام نہ رکھاگیا تھا وہ گلاب نہ تھا اور انسان پیدا ہونے کے بعدنام نہ رکھے جانے تک انسان نہیں ہوتا۔ جب تک نیوٹن نے کشش ثقل دریافت نہ کی تھی تو کششِ ثقل ہوتی بھی نہیں تھی؟ اس پر بھلا کوئی اس کے سو اکیا کہے؟’’آسمان ماتم کر ۔ زمیں چھاتی پیٹ۔ درختو! پہاڑو! ستارو!ٹکرا کر چور چورہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے۔آج ہی دنیا کاآخری دن ہے۔ زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی۔‘‘
صاحب !نہ جاننے کا علاج تو پوچھ لینا ہے نا ، کالم لکھ دینا تو نہیں نا؟
کیا لازوال لائنیں ہیں جو اردو کے شیکسپئر آغا حشر کاشمیری نے ’’رستم وسہراب‘‘ نامی ڈرامے کے لئے ایک پامال باپ کی اذیت میں ڈوب کر لکھیں۔ رستم و سہراب کس بلا کاالمیہ ہے۔ یہ المیہ یہاں پہنچ کر اذیت کاکیا دردناک کلائمکس د کھاتاہے کہ جب رستم سا ناقابلِ شکست ایرانی دلاور انجانے میں اپنے ہی لختِ جگرسہراب کو اپنی سفاک تیغ سے دو لخت کر دیتاہے ۔ حقیقت جب کھلتی ہے توسامنے کٹے پڑے اپنے ہی وجود کے لاشے(بیٹے) کو دیکھ کر رستم اذیت کی پہنائیوں میں ڈوب جاتا اورآسمان سر پر اٹھاکے پکارتا ہے۔’’ آسمان ماتم کر، زمین چھاتی پیٹ، درختو! پہاڑو! ستارو!۔۔‘‘ اوربالآخر’’زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہے۔‘‘ یہی ہوتاہے۔ نادانی ہمیشہ جگر کا پھل اپنی ہی تیغ سے قلم کروا دیا کرتی ہے اور نادانی کچھ اور بھی گل کھلاتی ہے، مثلاً دربار رسالت میں حاضر ہوکے اک خاتون نے بتایا، یہ جوفلاں میاں بیوی ہیں ۔ ان دونوں کو تو خود میں نے اپنی چھاتی کا دودھ پلایاہے ۔میاں بیوی یہ کیسے ہوگئے ؟ جب کہ انھیں تو رضاعی بہن بھائی ہونا چاہئے تھا! سرکار نے دونوں میں جدائی کروا دی ۔جی ہاں !انجانے میں آدمی ایسے ہی بڑے اور برے فیصلے کرتاہے۔جب یوں ہے تو پھرکیا تعجب کہ کوئی ہماری ہی صفوں سے پکار اٹھے :’’ کیا اسلام ضابطۂ حیات بھی ہوتاہے ؟ اورپھر خود ہی فیصلہ بھی صادر فرما دے ، ہر گزنہیں !
انکار میں یہ بھی کہا گیاکہ آج تک اسلام کو ضابطۂحیات کہنے سے کمزور بات نہیں کہی گئی۔ ہائے نادانی اور دیکھئے آگے کیا لکھاجاتا ہے؟ فرمایا، ’’اسلام نے کچھ بنیادی اصول طے کر دئیے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں آپ ہر دور میں اس دور کی ضروریات اور چیلنجز کے مطابق ضابطے بھی تشکیل دے سکتے ہیں اور نظام بھی استوار کر سکتے ہیں۔‘‘ اچھا تو صاحب !یہ جو بنیادی اصول اسلام نے طے کر دئیے ہیں، جن سے کہ آپ نے فرمایا، ضابطے تشکیل پاتے ہیں تو گویا یہی دلیل ہوگئی، اسلام کے ضابطۂ حیات نہ ہونے کی ؟ توگویا ضابطہ یہ ہواکہ جس چیز سے ضابطہ تشکیل پائے، اسے ضابطہ کہنا کمزور ترین بات ہوتی ہے۔آپ سمجھے بھی ہیں کہ آپ نے کیا فرما یا؟ مطلب یہ کہ جوماں بارہ انسان جن سکتی ہو، وہ ماں توکہلا سکتی ہے، انسان نہیں! اور چونکہ اسلام ہر دور میں کئی ضابطے دے سکتاہے، اس لئے یہ ضابطہ کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری دلیل ،آپ کے نزدیک ضابطہ صرف وہ ہوتاہے جس میں اصول دینے کے بجائے ہر چیز کی تفصیل دی جائے؟ صاحب پھر وہ کون سا ضابطہ ہے کہ جس میں ہر چیز لکھی ہی جاتی ہے اور کچھ بھی انسانی عقل و شعور پر نہیں چھوڑا جاتا؟ فرض کریں کسی ضابطے میں لکھا ہو کہ چوری جرم ہے تو کیا اب یہ بھی لازم ہو گاکہ مملکت کے تمام شہریوں کے نام لکھ کے بھی بتایا جائے کہ ان ان شہریوں کا چوری کرنا جرم ہے اور ان ان شہریوں کی چوری کرنا جرم ہے ؟ او رکیا اگر بغیر نام والے شخص کی چوری کر لی گئی یا غیر مذکور شخص نے چوری کر لی تو کیا یہ ضابطے سے باہر کی بات ہو گی اور یوںیہ ضابطہ ضابطہ کہلانے کا حق ہی کھو دے گا؟ اس بناپر کہ اس میں یہ تفصیل بھلا درج کیوں نہ ہوئی کہ چوری فلاں کی بھی ہو سکتی تھی؟ اور چوری فلاں بھی کر سکتا تھا؟ پھر اگر اسلام نئے دور کے مطابق خود کو بذریعہ اجتہاد اپ ڈیٹ کرنے کی بنا پر ضابطہ نہیں کہلا سکتا تو یہ بھی فرمادیجئے کہ آج ہمارے ہاں وہ کون سا ضابطہ ہے جو قبل از مسیح کا لاگو ہے؟ فرمایا ضابطہ جامد ہوتاہے۔ برادرِ گرامی !انسانی دانش کی موجودہ سطح کیا ،اسی چیزکی علامت ہے کہ ضابطے rewiseنہیں کئے جاتے یا نہیں کئے جا سکتے؟ خیر تو گویا زمینی ضابطوں کی خامیوں سے آپ ایسا بدک اٹھے کہ گھبرا کے آسمانی ضابطے کی نفی ہی فرماڈالی؟ بھلاکسے معلوم نہیں کہ چیزیں اپنی نسبتوں سے واضح ہوتی ہیں، مثلاًمحبت کو لیجئے ۔ یہ اپنی بنت میں محبت ہی ہے مگرجوں جوں نسبتیں بدلتی ہے، یہ اپنے معانی و مفاہیم بھی بدلتی جاتی ہے۔مثلاً بیوی سے جو محبت ہے ،وہ ماں سے نہیں ہو سکتی ۔ بھائی سے جو محبت ہے، وہی محبت بیوی سے روا رکھنا پر لے درجے کی حماقت ہوگی۔ پھربیوی سے روا رکھی گئی محبت بہن پر جاری فرمادینا زندیقیت قرار پائے گی ۔اب کرنا کیا چاہئے ؟ محبت کی نفی یا محبت کے مقامات کا ادراک اور احترام ؟ صاحب! جو ضابطہ خدا کی طرف منسوب ہو جائے بھلا اس کی شان کو انسانی ضابطوں سے پرکھ کر رد کر دینا دانش ہی کہلائے گی؟ اگر انسانی ضابطوں میں ہزار خامیاں نظر آجائیں تو گویا اب خدا کو کوئی ضابطہ ہی بنانے سے محتاط رہنا چاہئے ۔ یا خدا بنا بھی ڈالے توکم ازکم ہمیں ہی اسے ضابطے کے بجائے کوئی اور نام دے لینا چاہئے؟ آپ کے بقول یہ جودین میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے ۔تو کیا یہی ایک نشانی کا فی نہیں کہ اسلام ہمیں حیات کا کوئی ضابطہ بھی دیتاہے اور وہ اس ضابطے میں لچک رکھتا ہے تاکہ کہیں ہم بعد کے کسی دور کا بہانہ بنا کے اللہ کے دئیے ہوئے ضابطے سے نکلنے کی کوشش ہی نہ فرمانے لگ جائیں ۔ اگرکوئی ضابطہ ہی نہیں تو پھرضابطے میں وسعت لانے کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھولنے کی بھی کوئی ضرورت تھی ؟ جب کوئی ضابطہ ہی نہیں تو ا س کی اپ گریڈیشن یا نظرِ ثانی کا جواز ہی کیا ہے؟ فکری رو جب بہہ نکلے تو پھر کیا تعجب کہ وہ دانش کو طفلانہ ناچ ہی نچوا ڈالتی ہے۔ کہا گیا کہ اگر خدانخواستہ دین کو ضابطۂ حیات مان ہی لیا گیاتوپھرتو بڑی مشکل سر پر آن پڑے گی مثلاً،موٹروے کی حدِ رفتار، پاسپورٹ اور ویزہ ،جغرافیہ اور سرحدیں، پارلیمنٹ اور سرخ اشارے پر گاڑی روکنا وغیرہ وغیرہ یہ اسلام سے کیسے ثابت کئے جاسکیں گے؟ اللہ اکبر ! تو کیا صاحب ! آپ علما سے پوچھ چکے تھے اور کیا علما آپ کے سوال سے عاجز آچکے تھے جو کالم میں آپ کو پورے اسلامیان کی طرف سے اعتراف شکست کرنے کا بیڑا اٹھاناپڑا؟ تفصیل کالم میں کیونکر سمائے ، مگرکیا اسلام نے عرف کو ملحوظ نہیں رکھا اور کیا قرآن نے بھلائی میں اولی الامر کی اتباع کا حکم نہیں دیا؟ تو کیا یہ سارے امور اولی الامر کی اطاعت سے باہر تھے جو ہمیں ان کو اسلام سے باہر دیکھناپڑا۔
صاحب یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کی ہر فرم اپنی چھوٹی سے چھوٹی پراڈکٹ کے ساتھ بھی ضابطۂ استعمال کی گائیڈ بک دے مگرخدا اتنی بڑی کائنات اور ایسا نادرالوجود انسان بناکے کہے ،جاؤ موجیں کرو، ہاں فرصت ملے توکوئی ضابطہ شابطہ بھی بنا لینا۔گویا انسان کے خالق نے انسان کے لئے ضابطہ ضروری ہی نہیں سمجھا ؟اور پھر بھی وہ خداہے؟ تدبر تو فرمائیے کہ اگر ضابطہ ہی نہیں تو پھر امتحان کیسا ؟ پھر حساب کیسا ؟ پھر جنت اور دوزخ کیسی؟ پھر قرآن کیا دم درود اور وظیفوں کے لئے ہے ؟ پھر مدینے میں محمدِ مصطفی ؐکیا اپنی مرضی کرتے رہے؟ کیا اس دین کی کوئی تشریعی حیثیت ہی نہیں ؟یہ جو پہلے انسان کو زمیں پر بھیجتے وقت کہا گیا تھا۔ میری طرف سے گائیڈنس آتی رہے گی۔تو گویایہ گائیڈنس یا تو آئی ہی نہیں یاپھر یہ اک رائگاں سا مشورہ ہی تھا کہ تمھارے کسی ضابطے میں فٹ ہوجائے توٹھیک ورنہ خیر ضابطے بنانا تو تمھاری اپنی ذمے داری ہے، خدا کی نہیں ؟گویا یہ دین گھر میں تو چل سکتاہے ، بازار اور پارلیمنٹ میں نہیں؟اور پھرآپ شکوہ فرماتے ہیں کہ جوابی مضمون میں دراصل آپ کی نہیں ، سیکولرازم کی تائید کی گئی؟ویسے ایک بات تو بتائیے کہ اگر دین ضابطۂحیات ہی نہیں تو آپ کا لبرل ازم اور سیکولرازم سے جھگڑا کیاہے؟ ویسے کیا آپ نے لغت سے دین کا معنٰی بھی دیکھاہے کیا؟ زندگی گزارنے کا طریقہ! تو بھلا ضابطہ کیا ہوتاہے ؟ زندگی نہ گزارنے کا طریقہ ؟ کسی نے کہا، ضابطۂحیات کا لفظ توفلاں مولانا نے فلاں وقت بولا تھا، اس سے پہلے تو یہ بولاہی نہیں گیا۔لہذادین ضابطۂ حیات کیسے ہو گیا؟ واہ سبحان اللہ! توگویا جب تک گلا ب کا نام نہ رکھاگیا تھا وہ گلاب نہ تھا اور انسان پیدا ہونے کے بعدنام نہ رکھے جانے تک انسان نہیں ہوتا۔ جب تک نیوٹن نے کشش ثقل دریافت نہ کی تھی تو کششِ ثقل ہوتی بھی نہیں تھی؟ اس پر بھلا کوئی اس کے سو اکیا کہے؟’’آسمان ماتم کر ۔ زمیں چھاتی پیٹ۔ درختو! پہاڑو! ستارو!ٹکرا کر چور چورہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے۔آج ہی دنیا کاآخری دن ہے۔ زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی۔‘‘
صاحب !نہ جاننے کا علاج تو پوچھ لینا ہے نا ، کالم لکھ دینا تو نہیں نا؟