وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
شیخ أبي الفداء عبد الله القاضي نے اس کی تحقیق میں فرمایا ہے : "
هذا خبر باطل" ملاحظہ فرمائیں : الكامل في التاريخ ابن الأثير، ج : ٣، ص : ٣٥٣، تحقيق أبي الفداء عبد الله القاضي، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان.
اس کے برخلاف یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں :
٣٦٧ - قال: أخبرنا عارم بن الفضل. قال: حدثني مهدي بن ميمون. قال: حدثنا محمد بن أبي يعقوب الضبي. أن معاوية بن أبي سفيان كان يلقى الحسين فيقول: مرحبا وأهلا بابن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-. ويأمر له بثلاث مائة ألف.
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرتے تو فرماتے: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کو خوش آمدید اور مرحبا!" اور ان کے لیے تین لاکھ (درہم یا دینار) دینے کا حکم دیتے۔
[الطبقات الكبرى لابن سعد، ج : ١، ص : ٣٩٧]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے" کہہ کر خوش آمدید کہتے تھے۔ یہ الفاظ ان کے اہل بیت کے لیے دل میں موجود احترام اور محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لیے تین لاکھ (درہم یا دینار) دینے کا حکم ان کی سخاوت اور اہل بیت کی خدمت کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہ صرف زبانی احترام کرتے تھے بلکہ عملی طور پر بھی اہل بیت کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے۔ وہ اہل بیت کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ان کی عزت افزائی کرتے تھے۔
واللہ تعالى اعلم