• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام مخالف فلم -- شر کے پہلو سے خیر

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
اس واقعہ کے نتیجے میں خود اہل مغرب کی توجہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حالات معلوم کرنے کی طرف ہو گئی ہے۔ وہ سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے ہیں جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ان میں سے بہت سارے سلیم الفطرت لوگوں کے ایمان لانے کی شکل میں ظاہر ہوگا۔​
مغرب کی منافقت و دہری پالیسیوں کی فہرست طویل ہے ، تاہم ان میں سے ہی یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں گیس چیمبرز میں 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام کو مبالغہ و افسانہ کہے تو یہ بات یورپی ممالک میں جرم ہے۔ اسرائیل میں باقاعدہ یہ قانون ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخص "ہولوکاسٹ" کو چیلنج کرے تو اسرائیل کو حق ہے کہ اسے اغوا کر کے لے آئے اور اسے سزا دے۔
یورپ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین جرم ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ یورپ میں ایک عام آدمی کی توہین کرنا بھی جرم ہے لیکن آزادئ اظہارِ رائے اور آزادئ صحافت کے نام سے اسلام کو تختۂ مشق بنانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ آج یورپی ممالک میں بلند آواز سے میوزک سننا منع ہے کہ اس سے پڑوسیوں کی سمع خراشی ہوتی ہے۔ سڑک پر ہارن بجانا خلافِ قانون ہے اور گاڑی میں زور سے گانا نہیں سنا جا سکتا مگر دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات پر نشتر چلانے کی آزادی ہے۔
آزادئ اظہار ، آزادئ صحافت ، آزادئ فکر وغیرہ کی آڑ میں مغرب و امریکہ کی دوغلی پالیسیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی بھی نہیں ، آزادی تو صرف اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جس اس کی حدود کا واضح تعین ہو۔ ایک کی آزادی دوسروں کے لیے دست درازی اور غلامی کا طوق نہ بن جائے۔

یہود و نصاریٰ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخیاں کرتے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں کفارِ مغرب نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں پھر گستاخی کی ہے جس سے مسلمانوں کی نہ صرف دلآزاری ہوئی ہے بلکہ وہ غم و غصہ سے آگ بگولا ہو گئے ہیں اور وہ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ بجا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بعض امور بظاہر شر سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان میں بھی مسلمانوں کے لیے خیر کے کئی پہلو چھپائے ہوئے ہوتا ہے۔
سورۃ النور کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس معروف واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زوجۂ طاہرہ و مطہرہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) پر منافقین کے تہمت لگانے کا تذکرہ ہے اور اسی واقعہ کے ضمن میں آیت:11 میں ارشاد الٰہی ہے :
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے ، تم ہی میں سے ایک جماعت ہے ، اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے ، ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لیے اتنا وبال ہے اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا اس کو بڑا عذاب ہوگا۔

اہل مغرب کے گستاخان کی اس موجودہ حرکتِ شنیعہ سے بھی مسلمانوں کے دل بہت دکھے ہیں، انہیں بہت رنج پہنچا ہے لیکن اس کے نتیجے میں بھی کئی اعتبار سے خیر کے بہت سارے پہلو اور بھلائی کے بکثرت مناظر سامنے آئیں گے۔
لوگوں کو اس بات کا پتا چل گیا ہے کہ ان نصاریٰ کے دل و دماغ میں مسلمانوں ، ان کے دین اور ان کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف کس قدر بغض و کینہ اور حسد کا زہر بھرا ہوا ہے؟ حالیہ واقعہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر مسلمانوں کے ایمان میں مزید رسوخ و پختگی آئے گی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جنہیں زندگی بھر قوائے کفر نے اذیت رسانی کا نشانہ بنائے رکھا ، وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی باز نہیں آ رہے۔
اس واقعہ کے نتیجے میں خود اہل مغرب کی توجہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حالات معلوم کرنے کی طرف ہو گئی ہے۔ وہ سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے ہیں جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ان میں سے بہت سارے سلیم الفطرت لوگوں کے ایمان لانے کی شکل میں ظاہر ہوگا۔
توہینِ رسالت و استہزاءِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک ایسا فعل ہے کہ جب کبھی بھی دشمنانِ اسلام نے اس کا ارتکاب کیا انہیں اس کے نتیجہ میں کسی نہ کسی طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ) نے اپنی کتاب "الصارم المسلول" میں لکھا ہے:
"اللہ ہر اس شخص سے انتقام لے لیتا ہے جو بھی اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذاتِ گرامی کو ہدفِ طعن و تشنیع بنائے۔ اگر مسلمان ایسے شخص پر شرعی حد قائم نہ کر سکیں تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب اور جھوٹے کے جھوٹ کو طشت از بام کر دیتا ہے۔ ہمیں متعدد ثقہ قسم کے فقہاء اور اہل علم و معرفت لوگوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے بارہا اس بات کا مشاہدہ و تجربہ کیا ہے کہ شام کے ساحلی علاقوں پر واقع شہروں اور قلعوں کے محاصروں میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جیسے ہی کفار کی طرف سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخیاں کی گئیں تو مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ اب ہماری فتح کا وقت قریب آ گیا ہے چنانچہ ہمارے زمانے میں جب مسلمانوں نے بنی اصفر (رومیوں) کا محاصرہ کیا اور ایک قلعے یا شہر کے محاصرے پر ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا مگر وہ فتح نہیں ہو رہا تھا حتیٰ کہ ہم مایوسی کی حدود کے قریب پہنچ گئے کہ اندر سے محاصرہ شدہ لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو سب و شتم کیا ۔۔ تو ہمیں بہت آسانی سے اور جلد فتح نصیب ہو گئی۔ صرف ایک یا دو ہی دن میں محاصرہ کامیاب ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے مواقع پر ہمیں پتا چلتا کہ اندر سے کسی نے شانِ عالی میں گستاخی کرنا شروع کر دیا ہے تو ہم ان کے خلاف دلوں کے غم و غصہ سے بھر جانے کے ساتھ ہی اسے اپنی فتح کی بشارت بھی سمجھتے تھے"۔

شان عالی میں گستاخی کرنے اور ناموس رسالت پر کیچڑ اچھالنے والوں کو قرآن کریم ، سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ، اجماع صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) ، اجماع امت اور قیاسِ صحیح کی رو سے کافر قرار دیا گیا ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اذیت پہنچانے والوں کی سزا "قتل" طے پائی ہے۔ شان عالی میں گستاخی کرنے والوں میں سے کتنے لوگ ہیں جنہیں ایک ایک کر کے قتل کروا دیا گیا۔
یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ جسے اہل ایمان اس کی اہانت و گستاخی کی سزا نہ دے سکیں تو اس سے خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا انتقام لیتا ہے اور وہ ہی کافی ہو جاتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ) نے "الصارم المسلول" میں لکھا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شاتم و گستاخ اور دریدہ دہن کی سزا "قتل" ہے اور اس پر تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کا اجماع و اتفاق ہے۔ اور پھر آپ نے متعدد واقعات سے اس اجماع کو ثابت بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ کسی مسئلہ میں اس سے زیادہ بلیغ اجماع کا دعویٰ ممکن ہی نہیں۔ اس مسئلہ میں صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) اور تابعین (رحمہم اللہ عنہم) کے اس اجماع کے خلاف کسی ایک بھی صحابی یا تابعی کا کوئی اختلاف قطعاً ثابت نہیں۔

///
مضمون : اسلام مخالف فلم ، لاتحسبوہ شراً لکم
مضمون نگار : محمد منیر قمر (الخبر ، سعودی عرب)
بشکریہ : روشنی سپلیمنٹ ، روزنامہ اردو نیوز (سعودی عرب) ، 21/ستمبر/2012ء​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا باذوق بھائی۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ اور اس میں کوئی خیر کا پہلو جلد نظر آنا شروع ہو جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ دل غم و غصہ سے بھرا ہوا ہے اور سمجھ نہیں آ رہا کہ کریں تو کیا کریں؟
کچھ لوگ وہ ہیں جو احتجاج کے نام پر اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور مسلمان ہی مسلمانوں کو زخمی کرنے اور ان کی جانیں لینے میں مصروف ہیں۔
کوئی غصہ سے خود کشی کر رہا ہے۔
کچھ لوگ گھروں ہی میں بیٹھے ہیں، بے فکر، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
تو دوسری طرف وہ ہیں جو بے گناہوں کی جان تک لے رہے ہیں۔

ایسے میں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کیا کریں؟ انفرادی طور پر ایسا کیا کام کیا جا سکتا ہے جو فوری نتائج کا حامل نہ بھی ہو، تو کسی حد تک اطمینان قلب کا باعث بن سکے کہ ہم نے کچھ عملی طور پر کیا ہے۔
کیا بس آن لائن پیٹیشن سائن کریں؟
گھر بیٹھے رہیں اور فیس بک پر تبصرے اور تصاویر شیئر کر کے جذبات کا اظہار کریں؟

یہ وہ مقام ہے جہاں تمام مسلم اپنے سارے مسلکی ، گروہی اختلافات بھلا کر ایک ہو رہے ہیں۔ اس اتحاد کا رخ کیسے درست سمت موڑا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سیاسی پارٹیاں اس اتحاد سے اپنے فوائد کے حصول کی کوشش میں مگن ہیں اور مذہبی لیڈر اس سے اپنا حلقہ بڑھانے کی فکر میں مبتلا ہیں۔

اگر یہاں کچھ ایسے آئیڈیاز شیئر کئے جا سکیں جو ہم انفرادی یا اجتماعی سطح پر انجام دے سکتے ہوں، تو بھی ہے کہ کوئی سمت تو نظر آئے گی۔
مثلاً احتجاج کا ایک مؤثر طریقہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ امریکن پراڈکٹس کا استعمال فوری بند کر دیا جائے ۔اور نہ صرف یہ کہ استعمال بند کریں ۔ بلکہ ہر بڑے شاپنگ اسٹور پر جا کر کمپلین رجسٹر میں اور وہاں کے اسٹاف اور انتظامیہ کے ممبرز سے مل کر انہیں بتائیں کہ ہم فلاں فلاں پراڈکٹس کا استعمال آج سے بند کر رہے ہیں کیونکہ اس کا منافع ایک ایسے ملک کو جانا ہے، جنہوں نے ابھی تک توہین رسالت کے خلاف کوئی مؤثر قانون نہیں بنایا ہے۔ وغیرہ۔۔۔

اسی طرح ہماری کمپنی کچھ امریکن پراڈکٹس ، مشینیں وغیرہ امپورٹ کرتی ہے۔ میں ذاتی سطح پر ان کو ای میل لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ ہم آپ کے ملک میں ہونے والی اس گستاخی پر سخت غم زدہ، افسردہ اور غصے میں ہیں۔ ہم اپنا احتجاج آپ تک پہنچا رہے ہیں اور آپ اپنا احتجاج اپنی گورنمنٹ تک پہنچائیں ورنہ ہم آپ کی پراڈکٹس کی پروموشن کے لئے کام نہیں کریں گے۔ یہی بات میں اپنے باس سے بھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وہ مانے یا نہ مانے، میں نے ذاتی سطح پر ان کی مشینوں کی پروموشن نہیں کرنی ہے۔ جب تک اس امریکن کمپنی کی جانب سے باقاعدہ احتجاج کی رجسٹریشن نہ ہو جائے۔

یہاں علمائے کرام اور حالات حاضرہ سے گہری نظر رکھنے والے، سنجیدہ مزاج لوگوں کی کمی نہیں۔ اگر سب سوچ کر ایسے آئیڈیاز کی کلکشن پر کام شروع کر سکیں جس سے احتجاج کو مؤثر سطح پر رجسٹر کروایا جا سکتا ہو، تو شاید ہم اس شرمندگی اور بے غیرتی کے احساس کو کچھ دور کر سکیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مثلاً احتجاج کا ایک مؤثر طریقہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ امریکن پراڈکٹس کا استعمال فوری بند کر دیا جائے ۔اور نہ صرف یہ کہ استعمال بند کریں ۔ بلکہ ہر بڑے شاپنگ اسٹور پر جا کر کمپلین رجسٹر میں اور وہاں کے اسٹاف اور انتظامیہ کے ممبرز سے مل کر انہیں بتائیں کہ ہم فلاں فلاں پراڈکٹس کا استعمال آج سے بند کر رہے ہیں کیونکہ اس کا منافع ایک ایسے ملک کو جانا ہے، جنہوں نے ابھی تک توہین رسالت کے خلاف کوئی مؤثر قانون نہیں بنایا ہے۔ وغیرہ۔۔۔
سب سے صائب اور بہتر مشورہ ہے لیکن ہے بھی سب سے مشکل۔
لوگ وقتی احتجاج کرنے کو تو تیار ہوجاتے ہیں۔ لیکن مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ یہ سب سے موثر طریقہ ہے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کا۔ مغربی لوگ مادہ پرست ہیں انکو گالیاں دو ان سے نفرت کا اظہار کرو ان سے درخواستیں کرو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر انہیں جانی یا مالی نقصان پہنچاؤ تو فورا ان کی عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر ہر مرتبہ گستاخ ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں اور تجاویز سامنے آتی ہیں حتی کہ لوگوں کی آسانی کے لئے کچھ دردمند لوگوں نے گستاخ ممالک کی مصنوعات کی لسٹ بنا کر بھی شائع کی ہے۔ لیکن جس بھر پور انداز میں اس طرف توجہ اور عمل کی ضرورت ہے وہ مفقود ہے۔ یہ گستاخ لوگ ہم ہی سے سرمایہ کما کر ہمارے ہی خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اس ضمن میں اوریا مقبول جان کا درج ذیل کالم لائق مطالعہ اور ہماری آنکھیں کھول دینے کےلیے کافی ہے:
دنیا میں کسی بھی یونیورسٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن کے کورس کی بنیادی کتاب اٹھا لیں، آپ کو تجارت کا پہلااصول جو کاروبار کی دنیا میں آنے والے ہر شخص کو پڑھایا جاتا ہے، وہ یہی ملے گا کہ ’خریدار بادشاہ ہوتا ہے’’Consumer is the King‘‘ ۔ یہی وہ بنیادی اصول ہے جس پر موجودہ سرمایا دارانہ نظام اور تجارت کی عمارت کھڑی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے دکاندار سے لے کر بڑی سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی تک سب کے سب خریدار کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ ایک عام سے کپڑا بیچنے والے دکاندار کے پاس بھی اگر کوئی خاتون چلی جائے، پون گھنٹہ وہ طرح طرح کے تھان کھلوا کر دیکھتی رہے اور بعد میں کہہ دے کہ مجھےان میں سے کچھ بھی پسند نہیں آیا تو دکاندار ماتھے پر بل نہیں ڈالے گا۔ ممکن ہو تو اس کی پسند کی تفصیلات پوچھ لے گا اور وعدہ کرے گا کہ آئندہ آمد پر ممکن ہواتو وہ ایسا ہی کپڑا لانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ کاروبار کا یہ وہ بنیادی اصول ہے کہ جس کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی سے بڑی تجارتی کمپنیاں پہلے کسی ملک، شہر یا علاقے میں عوام کی خواہشات اور ترجیحات کا سروے کرتی ہیں اور پھر اس کے مطابق اپنی مصنوعات کو ڈھال کر مارکیٹ میں لاتی ہیں۔ اگر انھیں کسی ملک، علاقے یا شہر میں کوئی ایسی چیز بیچنا ہو جس سے لوگ بالکل نا آشنا ہوں، انھیں کسی طور پر بھی ان کی عادت نہ ہو تو پھر ان کمپنیوں کا یرغمال میڈیا طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے لوگوں میں اس کا تجسس پیدا کرتا ہے۔ لوگ اسے حیرانی سے دیکھتے ہیں اور جب وہ چیز مارکیٹ میں آ جاتی ہے تو اسے استعمال کی خواہش انھیں خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔ عموماً ایسی چیزیں پہلے فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ایک طرز زندگی کے طور پر متعارف کرائی جاتی ہیں، جیسے ٹشو پیپر، موبائل، فون شیمپو، آراستہ ڈرائنگ روم، مشروبات اور ملبوسات وغیرہ۔ پھر ان ڈراموں اور فلموں کوکثیر رقم والے اشتہارات دے کر ٹیلی ویژن سکرین پر مقبول عام کا درجہ دلوایا جاتا ہے۔
پھر ان ڈراموں اور فلموں کو کثیر رقم والے اشتہارات دے کر ٹیلی ویژن سکرین پر مقبول عام کا درجہ دلوایا جاتا ہے ، ان اشتہاروں میں عورت کے بے دریغ استعمال سے لے کر ، لوگوں کی محبوب شخصیات تک سب کو یہ چیزیں استعمال کر تے دکھایا جاتا ہے ۔ یوں خریدار جو بادشاہ ہوتا ہے ، اس کے اندر ایک حس طلب جاگ اٹھی ہے ۔ وہ ایسی چیزوں کا انتظار کرنے لگتا ہے ۔ انہیں خریدتا ہے اور پھر اس کا عادی ہو جاتا ہے ۔ کبھی کسی نے سو چا تھا کہ دس سال قبل موبا ئل فون کے بغیر زندگی مشکل ہو جائے گی ۔ تیس سال بعد ٹشو پیپر کے بغیر گزارا ممکن نہ ہو گا یا پھر بیس پچیس سال پہلے کھانے کے ساتھ مشروبات نہ ہوں تو کھانا اچھا نہیں لگے گا ۔ چاءے اور سگریٹ کا آغاز تو اس زمانے کے محدود میڈیا کا حیران کن کارنامہ تھا ۔ لوگ اس کڑوے ، گرم اور بد ذائقہ مشروب سے آشنا ہی نہ تھے اور آج یہ ہر محفل میں فوری پیشکش کے طور پر حاضر کی جاتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ جب ان چیزوں کے عادی ہو جاتے ہیں تو خریدار جو بادشادہ ہوتا ہے ، اس کے ناز نخرے اٹھانے کے لیے ان میں طرح طرح کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔ ان اشیاء کو خو شنما ، خوش رنگ اور خوش ذائقہ بنایا جاتا ہے ۔ یہ سارا کھیل اس لیے کھیلا جاتا ہے کہ خریدار بادشاہ کی جیب سے سرمایہ نکال کر اپنی جیب میں ڈالا جائے ۔
یہ کاروباری دنیا اور سرمایہ دارانہ نظام ، جہاں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے ، وہاں اس کا سب سے بڑا سہارا اور اس کی ترقی کی اسا س خریدار یعنی Consumer پرہے۔ ان کی بڑی تعداد کو اپنے قبضے میں کرنے کی دوڑ ہے ، جس میں اس وقت دنیا کا ہر بڑا سرمایہ دار پڑا ہوا ہے ۔ ان بڑے سرمایہ داروں کا جمگھٹا ملٹی نیشنل کمپینوں کی صورت دنیا کے وسائل پر قابض ہے۔
دنیا کی پوری تجارت پر چالیس ہزار ملٹی نیشنل کمپینوں کا قبضہ ہے۔ ان میں دو سو ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی ہیں جن کی مشترکہ فروخت آٹھ کھرب ڈالر ہے جو کہ دنیا کے پورے جی ڈی پی کا انتیس فیصد ہے ۔ ان میں سے اکثریت کےہیڈ کوارٹر امریکہ اور یورپ میں ہیں۔ یہ وہ کمپیناں ہیں جو امریکی اور یورپی سیاست کو اپنے سرمائے سے کنٹرول کرتی ہیں ۔ ان کمپینوں کی طرف سے پارٹیوں کو فنڈز دئیے جاتے ہیں جو الیکشن مہمات اور میڈیا پر خرچ ہوتے ہیں تو پھر کہیں اوباما جیتتا ہے تو کہیں بش ، کہیں سر کوزی جیتتا ہے تو کہیں گورڈن۔ اگر اوباما کی پارٹی کے پاس الیکشن میں خرچ کرنے لیے چھ ارب ڈالر نہ ہوتے تو وہ وائٹ ہاؤس کا خواب بھی نہ دیکھ سکتا ۔ یہی کمپنیاں اپنے مفادات کے لیے حکومتی پالیسیاں مرتب کراتی ہیں۔ ملکوں کو جنگوں میں جھونکتی ہیں اور اپنے ہی ہم وطنوں کو لاشوں کے تحفے دلواتی ہیں۔ ان کو جمہوریت اس لیے اچھی لگتی ہے کہ اس کے نام نہاد طریق کار سے ایک کٹھ پتلی شخص عوام کا نمائندہ بن کر اقتدار پر بیٹھا ہے لیکن وہ کام ان کے مفاد کے لیے کرتا ہے کہ اس پر ان کا سرمایہ لگا ہوا ہے ۔ لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عوام کا فیصلہ ہے ۔ اس کے منتخب نمائندوں نے ایسا کیا ہے ۔ یہ کمپنیاں اپنا ذرا سا بھی نقصان برداشت نہیں کر سکتیں۔ اگر ایسا ہونے لگے تو وہ فوراً اپنے زر خرید جمہوری قائدین کو قتل و غارت سمیت ہر قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہیں ۔ طالبان نے جب یونی کول کمپنی کو ٹھیکہ دینے سے انکار کیا تو افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔
یہ سب اس لیے تحریر کیا کہ جو لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم میں بھی طاقت ہوتی تو کو ئی رسول اکر ﷺ کی شان میں ایسی گستاخانہ فلم بنانے کی جسارت نہ کرتا۔ یہ وہ لوگ کہہ رہے ہیں جو دنیا کے ساٹھ کے قریب ممالک میں رہتے ہیں اور ڈیڑھ ارب سے زیادہ جن کی آبادی ہے ۔ یہ ڈیڑھ ارب "خریدار بادشاہ " یعنی کنزیومرکنگز ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ ٹو تھ پیسٹ سے لے کر خوشبو، مشروبات سے لے کر دلیہ اور صابن سے لے کر موبائل فون تک سب کچھ خریدتے ہیں ۔ ان میں قوت خرید رکھنے والے امیر ترین ممالک میں بھی شامل ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کی فی کس قوت خرید چھتیس ہزار ڈالر ہے ، جبکہ امریکہ کی فی کس قوت خرید تیتس ہزار ڈالر ہے ۔ یہ روزانہ اربوں روپے کے بر گر ، پیز ا ، مشروبات ، کافی ، چائے ، خوشبو، دیگر اشیاء خریدتے ہیں اور ان دو سو بڑی ملٹی نیشنل کمپینوں کے پیٹ کا ایندھن بھرتے ہیں ۔ کیسا مذاق ہے کہ ہمارے جیسے ملک اپنے لیے دلیہ ، مکھن ، مشروبات ، برگر ، چکن ، ٹوتھ پیسٹ یا شیمپو بھی نہیں بنا سکتے ۔ اس لیے کہ میڈیا کی چکا چوند کی وجہ سے خریدار کی آنکھوں کو چندھیاد یا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں بننے والی کسی ایس چیز کو خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ میں یہاں تیل کی دولت اور ان پر قابض ، بڑی بڑی عالمی کمپینوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا ، ورنہ کسی ایک ملک کا اعلان کہ ہم تیل ڈالر میں نہیں بیچیں گے پورے امریکہ کی چیخیں نکلوا سکتا ہے ۔ لیکن ایسےمشورے غیرت مند حکمرانوں کو دئیے جاتے ہیں۔ میں تو صرف غیرت مند مسلمانوں سے مخاطب ہوں ، جن کے دلوں میں آج بھی سید الا نبیا ء ﷺ کے عشق کی چنگاری زندہ ہے ۔ یہ ڈیڑھ ارب "خریدار بادشاہ " ہیں۔ ان کا ایک فیصلہ وقت کا رخ بدل سکتا ہے ۔ ان کا با ئیکاٹ دنیا کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ سوال صرف اتنا ہے کہ جو دکاندار آپ کے باپ کو گالی دے ، کیا آپ اس کی دکان سے سود اخریدیں گے ۔ آپ کا ایمان ہی مکمل نہیں ہو سکتا اگر آپ سر کار دو عالم ﷺکو اپنے ماں ، باپ ، بہن بھائیوں ، بیٹے بیٹیوں اور رشتے داروں سے زیادہ عزیز نہ جانیں۔ مشورے محبت کرنے والوں کو دئیےجاتے ہیں اور ایسے فیصلے بھی محبت کرنے والے کیا کر تے ہیں ۔
بشکریہ ایکسپریس​
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
اس ضمن میں اوریا مقبول جان کا درج ذیل کالم لائق مطالعہ اور ہماری آنکھیں کھول دینے کےلیے کافی ہے:
میں یہاں تیل کی دولت اور ان پر قابض ، بڑی بڑی عالمی کمپینوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا ، ورنہ کسی ایک ملک کا اعلان کہ ہم تیل ڈالر میں نہیں بیچیں گے پورے امریکہ کی چیخیں نکلوا سکتا ہے ۔
تاریخ میں ایک ایسی یادگار شخصیت گزری ہے ۔۔۔ جس نے اسرائیلی دہشت گردی کی مخالفت میں امریکہ سے ببانگ دہل کہا تھا کہ ہم اپنے سارے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دیں گے اور اپنے آباء و اجداد کے طرز زندگی کی طرف لوٹ جانے میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی :
We and our ancestors survived on dates and milk and we will return to them again.
یہ سن کر وزیر خارجہ امریکہ ہنری کسنجر کی بولتی بند ہوئی تو کھسیانی مسکراہٹ سے موصوف نے فرمایا تھا : میرے جہاز میں تیل ختم ہو چکا ہے اگر ہز مجسٹی اجازت دیں تو ہم بین الاقوامی قیمت پر تیل خریدنے تیار ہیں!"
ہز مجسٹی کا جواب ملا : "اور میں ایک ناتواں ضعیف آدمی ہوں ، مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کی میری دیرینہ خواہش کو میری وفات سے قبل عملی جامہ پہنانے میں کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟"

اے کاش !! کہ ایک اور شاہ فیصل آج پیدا ہو !!!!!
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
یورپی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ضمن میں مختلف انداز میں کوششیں ہوتی رہی ہیں اس مہم کو مزید سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس حوالے سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یورپی مصنوعات کے مقابلہ میں بہت ساری پاکستانی مصنوعات کا معیار نہایت ناقص ہوتا ہے۔ مثلاً جب کوکا کولا اور پیپسی وغیرہ جیسے مشروبات کے بائیکاٹ کے سلسلہ میں مہم تیز ہوئی تو پاکستان میں مدنی کولا، اسلام کولا اور شینڈی وغیرہ جیسے مشروبات متعارف کرائے گئے۔ لیکن ان مشروبات کا معیار یورپی مصنوعات کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھا۔ اس لیے یہ مشروبات بہت جلد نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ لہٰذا یورپی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کو اسی صورت میں کامیاب بنایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معیاری مصنوعات متعارف کرائیں اور صرف پیسہ کمانے ہی کو اپنا مطمح نظر نہ بنائیں۔
 
شمولیت
دسمبر 11، 2014
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
55
ہمیں توصیف الرحمن راشدی جیسے علما اور حافظ سعید جیسے رہنماؤں کی اشد ضرورت ہے ،
تاکہ اسلامی نشاط ثانیہ ظہور پذیر ہو سکے بحکم رب تعالی ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میں نے تو سنا ہے کہ ”ہولوکاسٹ“میں”ایڈولف ہٹلر “کا کوئی ”ہاتھ“نہ تھا بلکہ ”جان بوجھ“کر”بدنام “ کرنے کے لیے اس کی طرف”منسوب“کیا گیا ہے۔کیونکہ ”ایڈولف ہٹلر“ہی کا ”قول“ ہے کہ:-
If you tell a big enough lie and tell it frequently enough, it will be believed.
 
Top